ریاض رحیم کے فکر و فن کا رنگ

0
187

[email protected] 

موسی رضا۔  9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


محبوب خان اصغرؔ

ریاض رحیم کے اعزاز میں شہر حیدرآباد میں ایک محفل منعقد کی گئی تھی۔ ناظم احقر ہی تھا۔ ان کی شخصیت اور شاعری کا تاثر میرے ذہن و دل پر ہوا، پھر سوشیل میڈیا پر ان کی غزلیں پڑھنے کو ملتی رہیں۔ فون پر گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ شخصیت سے پردے ہٹتے گئے۔ بالآخر ان کی جو شبیہ واضح ہوکر سامنے آئی وہ ایک بھرپور شاعر، ایک اچھے انسان کی شبیہ ہے۔ شاعر خوش خصال ریاض رحیم کے ہاں ہر خیال اپنے مخصوص پیرہن میں آتا ہے اور یہ پیرہن وہ اپنے الفاظ سے بناتے ہیں۔ انداز بیاں بیشک ان ہی کا ہے لیکن ان کی شاعری کی خوبی ان کے الفاظ کی ساخت میں پنہاں ہے۔ موزوں اور مناسب الفاظ کے استعمال نے انہیں صاحب طرز شاعر بنا دیا ہے۔ سخنوری کی دنیا میں انہوں نے جدت پیدا کی ہے۔ جس طرح پتھر کو کاٹ کر پوشیدہ نقش کو اجاگر کیا جاتا ہے اسی طرح شعر کے موضوعات اور خیال آفرینی سے آگہی کا ہنر کسی کو بہترین شاعر بناتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کمال عرض ہنر کے لئے الفاظ کی معنویت کا شعور حاصل ہوتو اس کی سخنوری میں اتنی جاذبیت اور کشش پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ قاری کے لئے ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ریاض رحیم پر الفاظ کی قوت منکشف ہوچکی ہے۔ جس کے بعد ہی وہ اپنی شاعری کو چاشنی اور رنگ دینے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ فوراً دل میں اتر جانے والی شاعری سب کے یہاں نہیں ملتی۔ سخت اور ناقابل فہم الفاظ سے شعر کو انہوں نے چیستاں نہیں بنایا۔ خیال آفرینی، شعریت، حسن، تخلیقیت اور کمال عرض ہنر کا گہرا ادراک انہیں حاصل ہے۔ سیدھے سیدھے مگر مفاہیم کا ایک جہاں رکھنے والے دو شعر ملاحظہ فرمائیں:
میں اتنا ٹوٹ کر اس سے ملا ہوں
میرا دشمن بھی میرا ہوگیا ہے
جسے صدیاں لگی ہیں پنپتے پنپتے
وہ سب کچھ پارہ پارہ ہوگیا ہے
ریاض نے پہلے شعر میں اپنے اعلیٰ کردار کو نمایاں کیا ہے اور دوسرے شعر میں محزونیت در آئی ہے۔ دشمن کو خوش اخلاقی سے اپنا بنانا یہ وہ جوہر ہے جس سے شاعر کی شخصیت متصف ہے۔ رہی بات محزونیت یا محرومیت کی، یہی وہ احساس ہے جو فن کو رفعتیں بخشتا ہے۔ ریا ض کے ہاں ایسے کئی شعر موجود ہیں جنہیں غم آگیں افکار سے انہوں نے مسجع و مصفی کیا ہے۔
فصل اگی ہے تلواروں کی اس میں اپنا دوش کہاں
ہم سے پہلے کے لوگوں کو پیار محبت بونا تھا
اس شعر کی قرأت سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر کلاسیکی سرمایے کے ساتھ اپنی ایک پوری تہذیب کو اپنی آنکھوں میں مقید کرچکا ہے۔ صدیوں کا پارہ پارہ ہونا، تلواروں کی فصل اگنا، یہ ایسی لفظیات ہیں جن سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ریاض کا ماضی سے اٹوٹ رشتہ ہے۔ اپنے اسلاف کے کارناموں کو ا نہوں نے بھلایا نہیں ہے۔ ان کی آواز میں فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ قدروں کا احساس ملتا ہے جسے وہ ایک مخصوص اور دل نشین انداز میں کاغذ پر منتقل کردیتے ہیں۔ بقول غالب شاعری معنی افرینی ہے قافیہ پیمائی نہیں۔ اس تناظر میں ریاض کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے محض قافیہ پیمائی کو شعری اظہار نہیں سمجھا، نہ ہی اپنی شاعری کو مشاقی کا اشتہار بنایا۔ اکثر یہ اس وقت ہوتا ہے جب شاعر کو شہرت کی اشتہاء ہوتی ہے۔ ریاض نے تو ادب سے سروکار کیا ہے۔ شعر گوئی انہیں قدرت نے ودیعت کی ہے۔ کلیجے کو لہولہان کرتا ہوا ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
وحشی درندے چیخ رہے ہیں گلیوں میں
سہمے ہوئے ہیں سارے کبوتر کام کرو
کبوتر قافیہ اور کام کرو کی ردیف یہ بڑی خوبصورت غزل ہے۔ مذکورہ شعر حاصل غزل ہے۔ گجرات کی نسل کشی، جنون، قتل عام اس شعر کا پس منظر ہے، جو راست ہمارے شعور کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ ’’وحشی درندے‘‘ یعنی آوارہ مزاجوں کے قدم روکنے میں قانون کی بے بسی کا اظہار کیا گیا ہے۔ حکومت وقت کی پشت پناہی جسے حاصل ہوتی ہے وہ گلی کوچوں میں درندگی کا ننگا ناچ کرتے ہیں۔ ’’سہمے ہوئے کبوتر‘‘ کبوتر امن اور روشنی کی علامت ہے۔ اور اس وقت امن کو خطرہ لاحق ہے۔ اور ظلمات کا راج ہے۔ غیر سماجی عناصر غوغا مچائے ہوئے ہیں۔ شاعر کے تخلیقی ذہن نے ایک ایسی فضا پیدا کی ہے جس میں معاشرے کا اصل چہرہ دیکھا جاسکتاہے۔
مسجد مندر کے جھگڑے تو ہوتے مٹتے رہتے ہیں
دفن ہیں جس میں دل کے رشتے اس ملبے کی بات کرو
ہمارے عہد میں کیوں جہل کا ہے رتبہ بلند
شکست کھائی ہوئی آگہی سوال اٹھا
وقت کیسا یہ آگیا ہے اب
وہ بھی مشکوک ہیں جو اچھے ہیں
لوگ دیوانگی اوڑھے ہوئے آجاتے ہیں
اب تو صحرا بھی میسر نہیں دیوانے کو
آج سنگلاخ زمینوں میں شعر کہنے کو افتخار سمجھا جارہا ہے، لیکن ریاض رحیم کے قافیے، ردیفیں، تلمیحات، تشبیہات، استعارے اور علامتوں میں ندرت اور جدت ہونے کے باوجود مانوس بھی ہیں اور شگفتہ بھی، جس کی وجہ سے ان کی شاعری اپنے عہد کی صحت مندانہ روایات کی حامل بھی ہے اور منفرد بھی۔ نیز ان کی لفظیات شعری آہنگ اور تراکیب تجربہ اور مشاہدہ ایک بالغ نظر اور باشعور ذہن کا رد عمل ہے۔ تنوع پسند، پُرگو، پرمغز ریاض کی تخلیقی قوت کو ذرا اور ٹٹولیں تو یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ایک مستند اور دیانتدار شاعر ہیں جو اپنے اندر ابھرنے والی فکر کو اسلوب اور تکنیک کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ جس میں شعر کا حسن، اثر اور توانائی ہوتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو کسی شاعر کو عظمت فن کی طرف لے جاتی ہے اور اس کی شعری کائنات کو آب و تاب دینے اور شعری بصیرت کو فزوں تر کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ الغرض ریاض رحیم ایک ایسے سخنور ہیں جن کا کلام اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ دعا ہے کہ وہ اپنے اس شعری سفر میں فکر و فن کے نئے چراغ فروزاں کرتے رہیں۔
نظم ہو یا کہ عزل جب کبھی تازہ لکھیں
نیا اسلوب تراشیں نیا لہجہ لکھیں
(نوید)
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here