تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: محمد اویس سنبھلی
مقصود الٰہی شیخ کے بارے میں، میں صرف اتنا جانتا تھا کہ وہ بریڈفورڈ [برطانیہ]میں مقیم اردو کی ایک نامی گرامی شخصیت اور ’’مخزن‘‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے میرے ماموں جان محترم حفیظ نعمانی صاحب کی کتاب ’’روداد قفس‘‘ کے بارے میں ایک خط لکھا تھا ، جو کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں شامل بھی کیاگیا۔ اس کے علاوہ، میں ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتا تھا۔ 14؍ستمبر2014ء کو اچانک موصوف نے نہ جانے کہاں سے میرا نمبر حاصل کر میرے موبائل پر رابطہ کیا۔ وہ اپنی کتاب’’شیشہ ٹوٹ جائے گا‘‘ [ناولٹ] ہندوستان میں شائع کرانا چاہتے تھے۔ اس سلسلہ کی پہلی گفتگو بہت دلچسپ رہی اور اسی گفتگو کے نتیجہ میں ناولٹ کا تیسرا ایڈیشن لکھنؤ سے شائع کیا گیا۔ ’’شیشہ ٹوٹ جائے گا‘‘ نام جب میں نے پہلی بارموصوف کی زبان سے سنا تو یہ نام دل کو چبھتا ہوا محسوس ہوا۔ میںنے کمپیوٹر سے اس کی سافٹ کاپی کا پرنٹ نکال کر ورق اُلٹے پلٹے،سب کچھ نیا لگا۔ ابتدائیہ ’’ نیا پیش خیمہ‘‘ پڑھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر مشہور اہل قلم اور ’’بلند ادبی شخصیات و ناقدین ‘‘ کی ’’زندہ‘‘ تحریروں کے حوالہ سے اس ناولٹ میں کشش محسوس ہوئی۔غرض کہ پورا ناولٹ اسی رات ایک ہی نشست میں پڑھ ڈالا۔ دل کو موہ لینے والا انداز نگارش تھا۔ زبان کی سادگی، اردو میں انگریزی زبان کے مروجہ روز مرہ الفاظ کا بھر پور استعمال، مشرقی خاندانوں میں در آنے والی مغربی تہذیب اور اختلاط مردوزن سے بہتر نتائج کی بے سود اُمیدیں—-نتیجہ یہ نکلا کہ شیشہ ٹوٹ کر بکھرگیا اور اس کی کرچیں دل میں چبھ گئیں—آہ!—-بقول ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر ’’بہر حال یہ ناولٹ ایک تہذیبی المیہ ہے، لیکن لائق خواندگی—-‘‘۔
انور آفاقی کی شخصیت اور تخلیق کا آئینہ :”آئینہ در آئینہ“
مقصود الٰہی شیخ پاکستانی ہیں اور پاکستانی تہذیب و تمدن کے دلدادہ۔ وہ عرصۂ دراز سے ’’دیارغیر‘‘ میں مقیم تھے اور اردو زبان و ادب کے بحرناپیدا کنار کے ایک ماہر شناور اور اس کے فروغ کے لیے ہمہ وقت، ہمہ تن کوشاں۔انگلستان میں رہ کر اپنی مادری زبان اردو کی بڑی دلجمعی سے خدمت کررہے تھے۔ادب میں ان کی آمد ایک افسانہ نگار کے طور پر درج ہے۔اس کے بعد انہوں نے میدان صحافت میں قدم رکھا۔ ان دونوں میدانوں میں وہ کامیاب رہے ہیں۔
1962ء میں برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں سیٹل ہونے کے بعد انہوں نے صحافت کو اوڑھنا بچھونا بنایا اور ہفت روزہ ’’راوی‘‘ شروع کیا۔ 1973ء سے 1999ء تک یہ ہفت روزہ ’’راوی‘‘ اردو زبان سے تعلق رکھنے والی ایشیائی کمیونٹی کا ترجمان بنا رہا۔ ادب کی چاشنی اس جریدے کی روح تھی۔ کبھی آرام سے نہ بیٹھنے والے مقصود الٰہی شیخ نے بریڈ فورڈ میں بہت سے منصوبے شروع کیے۔ مثلاً اردو زبان بولنے والوں کے لیے ثقافتی مراکزاور ایشیائی تاجروں کے لیے ایک مشترکہ کلب کا قیام۔ان کی افسانہ نویسی اوردلوں کو جوڑنے والی سرگرمیوں کو سامنے رکھ کر 1970ء میں ہی انہیں جسٹس آف پیس کی منصب سے بھی نوازا گیا۔ ہندوستان اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے اردو سے محبت کرنے اور ادب تخلیق کرنے والوں سے ان کا رشتہ گہرا ہوتاگیا۔2008ء میں حکومت پاکستان نے بھی انہیں’ تمغہ امتیاز‘ سے نوازا۔ مقصود الٰہی شیخ نے ادب کو بھی بہت کچھ دیا۔ افسانوں کی 9 اور ناولوں کی دو تخلیقات کے ساتھ ’’مخزن‘‘ کی صورت میں ضخیم ادبی رسالے کے متعد شمارے شائع کیے اور پھر 2013ء میں بریڈ فورڈ یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔
مقصود الٰہی شیخ کے مزاج میں جدت ہے۔ وہ ادب میں بھی جدت دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کو نئے پن سے دلچسپی ہے ، وہ نئے نئے تجربات کرتے رہتے ہیں۔ ان کے مضامین ، ان کے افسانے اور ان کی دیگر تحریریں اس کی زندہ مثال ہیں۔ بقول پروفیسر فتح محمد ملک:
’’گذشتہ ربع صدی سے وہ جہان اردو کے آفاق کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے آرہے ہیں‘‘۔
ان کے ناولٹ’’ شیشہ ٹوٹ جائے گا‘‘ اور’’ دل اک بند کلی‘‘ پر تو فتح محمد ملک، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، منشاء یاد، ف سین اعجاز [کلکتہ]جیسے قلم کاروں نے پسندیدگی کی مہر لگا دی ہے۔ان کی ایجاد ’’پوپ کہانی‘‘ پر بحثیں کی جا رہی ہیں۔
پوپ کہانیاں ان کے ذہن کی اپج ہیں۔ شاید ان کی دور بیں نظر نے یہ دیکھ لیا ہے کہ اس تیزرفتار دنیا میں قدیم ادب یعنی داستانیں، ناولیں اور طویل افسانے آج کے انسان کی ضرورت خواندگی کا ساتھ نہیں دے سکتیں، کیوں کہ اب نہ ہمارے پاس وقت ہے اور نہ سکون و اطمینان۔ ضرورت اس کی ہے کہ ہم تھکے ہارے پیاسے پرندے کی طرح پانی کے قریب رک کر اپنی چونچ ترکریں اور پھر اپنی اُڑان بھریں—–چند روز قبل اسی ضرورت کے تحت مختصر افسانے ، افسانچے اور منی افسانے عالم وجود میں آچکے ہیں لیکن برق رفتار دنیا نے اسے بھی پیچھے چھوڑ دیا—-اب ’’پوپ کہانی‘‘ کا دور آگیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ مقصود الٰہی شیخ کے سر ، پوپ کہانی کے موجد ہونے کا سہرا بندھنے والا ہے۔اگرچہ ان کہانیوں کا سلسلہ چل نکلا ہے تاہم رفتار بہت سست ہے اور ابھی اسے قبولیت عام کی سند نہیں مل سکی ہے۔ ظاہراً اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ موجودہ قاری افسانے اور مختصر افسانے کے ہیولا اور اس کی ہئیت کو ابھی نظر انداز نہیں کرسکا ہے۔بقول راغب الدین جلالی:
’’۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ تین اصناف[مختصر افسانہ، افسانچہ اور منی افسانہ]رواجی پابند افسانے سے زیادہ مقبولیت حاصل کرہی ہیں۔ خواص ہی نہیں عام قارئین میں بھی انہیں شرف قبولیت مل رہا ہے لیکن پوپ کہانی ابھی اس مرتبے سے محروم ہے۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ سنجیدہ حلقے میں پوپ کہانی متنازعہ فیہ بنی ہوئی ہے حالانکہ مقصود الٰہی شیخ جیسے بلند پایہ عالم و ادیب اور ان کے فاضل ہم نوا علمی اور عملی طور پر اس کی وکالت کررہے ہیں۔ عملی اس طور کہ انھوں نے اپنی پوپ کہانیوں کے مجموعے بھی نمونے کے طور پر شائع کرائے لیکن ان کی پیروی کا کوئی خاص اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔۔۔۔‘‘
(’’پوپ کہانی-3‘‘از مقصوالٰہی شیخ، صفحہ6، 2014ء)
دورحاضر کی ایک قلم کارہ محترمہ میمونہ روحی نے مقصود الٰہی شیخ کی شخصیت ، افسانہ نگاری اور صحافت پر اپنے ایم فل کے تحقیقی مقالے میں ان کی تحریروں پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے اور بہت سے اہل علم اور اہل قلم کی پوپ کہانی سے متعلق آراء کو یکجا بھی کیا ہے—–اس کی روشنی میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوپ کہانیوں کے لیے ابھی کوئی باقاعدہ اصول و ضوابط مرتب نہیں ہوئے ہیں۔ خود مقصود الٰہی شیخ کا خیال ہے:
’’یہ شاعری نہیں کہ عروض و بحور اور اوزان و قوافی و ردیف کا پیمانہ مقرر کرنے کا سوچا جاتا۔پر مجھے گفتگو عوام سے ہے اس لیے میں بے تکلف ، یا بلا تکلف ، پیمانہ کا خیال رکھے بغیر آمدپر پوپ کہانی لکھ لیتا ہوں کہ مجھے تو عوام سے گفتگو کرنی ہے‘‘۔
[مقصودالٰہی شیخ-ادب ساز و ادب نواز، مصنفہ میمونہ روحی،صفحہ147]
فی الحال یہ کہانیاں نہ آزاد نظم کے زمرے میں آتی ہیں اور نہ نثری نظم میں شامل ہیں۔ ان میں کہیں تسلسل ہے تو کہیں غیر مربوط الفاظ اور جملے ہیں۔ کہیں مکالمہ کی شکل ہے تو کہیں سیدھا سادہ انداز—–مکالمہ تو خاصی حد تک سمجھ میں آجاتا ہے۔اس ا چھوتی صنفِ سخن کا تیسرا مجموعہ ’’پوپ کہانی-3 ‘‘2014ء میں شائع ہوا۔ شیخ صاحب کی محبت کہ انہوں نے اس مجموعے کی ترتیب و تزئین کی ذمہ داری راقم کے سپرد کی تھی۔اس مجموعے میں کل 33؍پوپ کہانیاں شامل ہیں۔کتاب کا انتساب لطیف الفت مرحوم کے نام ہے۔بیک کور کے لیے سید سلمان احمد[شاہجہانپور] نے کتاب کا مختصر تعارف قلم بند کیا ہے۔ ان کہانیوں کے متعلق وہ لکھتے ہیں:
’’پوپ کہانی نے ننھی سے عمر کے باوجود اپنی راہ کے سارے کانٹے گلوں میں تبدیل کرلیے ہیں، تعمیر کی لبن اول کا سہرا ڈاکٹر مقصود الٰہی شیخ کے سر ہوا، جس سے پھوٹی خوشبو ہماری روح کی غذا بھی ہے اور دوا بھی، یہی کچھ خوبیاں پوپ کہانی میں ملیں تو وہ پوپ کہانی، ورنہ تھوپ کہانی۔ زیر نظر مجموعہ انھیں کہانیوں کی پوتھی ہے جسے پڑھ کر آپ اپنے کربوں کا علاج اس میں پالیں، خدا کرے ایسا ہی ہو۔
’’پوپ کہانیاں -3‘‘ میں شامل ایک پوپ کہانی ’’نابابا نا‘‘ ، دیکھئے: سمندر کنارے ایک اجنبی لڑکے کی ملاقات ایک لڑکی سے ہوتی ہے—-لڑکا اس سے شادی کرنے کو کہتا ہے—-لڑکی تھوڑی ردوقدح کے بعد تیار ہوجاتی ہے لیکن مزید گفتگو کے بعد اسے جب یہ پتہ چلتا ہے کہ شادی کے بعد اسے جائنٹ فیملی میں رہنا ہوگا تو وہ صاف انکار کردیتی ہے اور کہتی ہے، ’’نابابانا‘‘۔
اسی طرح ایک دوسری پوپ کہانی ’’نظارہ ‘‘ ہے—جسے مقصود الٰہی شیخ نے—-شاعرہ ماہ طلعت زاہدی کے سفرنامہ انگلستان ’’تاب نظارہ‘‘ کے پس منظر میں تحریر کیا ہے۔ لکھتے ہیں: دلچسپ اور پر کیف فضا میں ساحل سمندر پر جہاں ہر عمر کے لوگ جمع ہیں اور عشق و مستی میں ڈوبے ہیں—-ایک لڑکا اُونٹ سے گرپڑتا ہے لیکن بے حسی کے اس عالم میں کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ کوئی اس کی طرف توجہ دیتا اور پھر وہ —–!!!۔کہانی کار یہ دل دوز منظر دیکھ کر چیخ اُٹھتا ہے—- ’’تیری دہائی ہے-تیری خدائی ہے‘‘۔
مقصود الٰہی شیخ نے سماج کے ہر طبقہ کا بغور مطالعہ کیا۔ افراد کو جانچا اور پرکھا ہے پھر دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ دیکھئے ’’حاصل کلام‘‘ نامی پوپ کہانی میں موجودہ دور کے باپ ، ماں اپنے بیٹے ، بیٹیوں ، لڑکے لڑکیوں کے ویوہاراور برتائو پر چبھتا ہوا زہریلا طنز، وہ لکھتے ہیں:
اس دنیا میں
فرشتے نہیں بستے
روتے ہنستے
سبھی جائیں گے، جیون ہار
کوئی نہیں کسی کا یار—–!!!
’’ناشکیبائی‘‘ بھی ایک دلچسپ اور سبق آموز کہانی ہے۔ مکالماتی اور نظم کے انداز میں لکھی ہوئی کہانیاں مختصر ہیں مگر بیانیہ انداز والی کہانیاں قدرے طویل ہیں۔جو ان سب میں قدرِ مشترک ہے وہ آسان فہم زبان ہے۔ ان کی کہانیوں میں اردو الفاظ کی نئی نئی شکلیں اور ترکیبیں بھی نظر آتی ہیں لیکن اس طرح جیسے دودھ میں گھلی شکر۔یہ الفاظ اچھے لگے—- خون نچوڑ صورت حال— مرجھاہٹ— اور آفتابیاں وغیرہ وغیرہ۔
ہر چند کہ اردو میں پوپ کہانیوں کا سلسلہ جاری ہوگیا ہے لیکن اسے ابھی تک وہ سند ِ اعتبار نہیں مل سکی ہے جو عہدِ جدید میں رواج پانے والی افسانے کی دیگر ہیئتوں کو ملی ہے۔ مثلاً مختصر افسانہ ، افسانچہ اور منی افسانہ۔لہٰذ وقت کا دھارا اور تخلیق نگاروں کی سوچ کی لہریں پوپ کہانی کی صنف کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی۔ بہر حال یہ مقصود الٰہی شیخ کا شاہکار ہیں۔یوں بھی
ثبات اِیک تغیّر کو ہے زمانے میں
اور مرزا غالب نے تو ادب پرور ہستیوں کو
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
کہہ کر ادب کے لیے نئی راہیں کھول دی ہیں۔
مقصود الٰہی شیخ کا وطن گجرات[پاکستان]تھا۔یکم اپریل 1934ء کو ان کی ولادت ہوئی۔دہلی میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پبلک ہائی اسکول گجرات سے میٹرک پاس کیا۔بی اے کی تعلیم ایس ایم کالج کراچی [1959۔1955ء]پنجاب یو نیور سٹی سے حاصل کی۔مئی 1962 ء میں انگلستان آگئے اور پھر 1965ء میں بریڈفورڈ چلے گئے اور 1970 ء میں ’جسٹس آف پیس‘ بنا ئے گیے۔ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے پاکستانی ہیںجنہیں اس اعزاز سے نوازا گیا۔بریڈ فورڈ میں سکونت اختیار کر لینے کے بعد مقصود صاحب نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا اور 1972۔1971ء تک بریڈ فورڈ میں روزنامہ’’جنگ‘‘لندن میں اپنی خدمات انجام دیں۔بریڈ فورڈ سے شائع ہو نے والے ایک مشہور ہفت روزہ ’’المشتہر‘‘کا 1975ئمیں نظم و نسق سنبھال لیا اور پھر شیخ صاحب نے اس کا نام بدل کر ’’راوی‘‘رکھ دیا اور وہ اس رسالے کو1999 ء تک باقاعدگی سے شائع کرتے رہے۔اس رسالے کے ذریعہ انہوں نے برطانیہ میں نہ صرف اردو کی ترویج و اشاعت کی بلکہ وہاں مقیم برصغیر ہندوپاک والوںکی بے مثال سماجی و ثقافتی خدمات انجام دیں۔
مقصود الٰہی شیخ کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ان کے ناولٹ اور افسانوی مجموعے حسبِ ذیل ہیں:
ناولٹ:’’دل اک بند کلی،’’ شیشہ ٹوٹ جائے گا‘‘
افسانوی مجموعے: پتھر کا جگر، برف کے آنسو، جھوٹ بولتی آنکھیں، من درپن، پلوں کے نیچے بہتا پانی، چاند چہرے سمندر آنکھیں۔
اس کے علاوہ ان کی پوپ کہانیوں کے 5؍ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔بحیثیت مجموعی مقصود الٰہی شیخ نے نہ صرف افسانہ نگاری، ناول نگاری اور پوپ کہانی کو اپنی نگارشات سے مالامال کیا بلکہ ادبی صحافت کے جوہر بھی خوب دکھائے ہیں۔دیار غیر میں ،اجنبی بستیوں میں اور اردو کی نئی کالونیوں میں اپنی مادری زبان سے محبت اور اس کی ترویج و اشاعت کی کوششیں ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتیں،جن کے حوصلے بلند اور عزائم آہنی ہوتے ہیں،صرف وہی یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔
میرے ساتھ مقصود الٰہی شیخ کا رویہ مشفقانہ ہی رہا۔ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ انورندیم پر میرا مضمون دیگر اخبارات کے ساتھ روزنامہ ممبئی اردو نیوز ،ممبئی میں بھی شائع ہوا ۔ یہ مضمون بہت پسند کیا گیا ۔ شیخ صاحب نے اس مضمون کو پڑھ کر ایک مراسلہ لکھا:
جناب ندیم صدیقی صاحب(ممبئی اردو نیوز) کا شکریہ
انور ندیم مرحوم پر اویس سنبھلی کا جیتا جاگتا بلکہ بولتا اور مہکتا مضمون شائع کیا۔ پڑھ کر جی خوش ہوا۔ ان دنوں کمپیوٹر کے پردے پر عبارت پڑھنے میں بوجوہ دقت محسوس ہوتی ہے چنانچہ سونگھنے کی حد سے پرے نہیں جاتا مگر دومرتبہ کے مطالعے سے سارا مضمون پڑھا، سمجھا اور شاد ہوا۔ اویس سنبھلی صاحب نے جس پیراگراف میں یہ کہا ہے کہ انور ندیم پیشہ ور ہونے کی تہمت ساتھ لے کر نہیں گئے اور یہ کہ مرحوم قیمت وصول کرنے کے فن سے بھی ناواقف تھے۔مرحوم کے شفاف کردار اور بے داغ دامان تحریر کی دیانت چند الفاظ میں بیان کردی ہے۔مضمون کا قاری جان جاتا ہے انور ندیم کی طبیعت میں سچائی، سادگی اور شفافیت نمایاں اور واضح ہے۔ اسی طرح ان کی تحریر کو سمجھنے کی کلید بھی بتادی۔ ایک اقتباس تو ایسا چنا ہے کہ جوان و بوڑھا یکساں گدگدی محسوس کرے۔ وہی اقتباس جس میں کسی فینسی شو میں پتلی لانبی نوخیز حسینہ ننگی پیٹھ ہلکے ہلکے گھما گھما کر اپنے رخ روشن کو جھلکا کر مجلس لوٹ لیتی ہے!!
دوسری جگہ اویس نے کیا خوب لکھا ہے کہ ہم نوواردگان ادب کے لیے وہ قطب مینار تھے۔ انور ندیم کے سامنے جانے سے یہ خوف رہتا تھا کہ مبادا پگڑی نہ گر جائے۔
محمد اویس سنبھلی کا انور ندیم پر یہ مضمون کئی گہرائیاں لیے ہوئے ہے۔ خاکہ گری کے فن کو صیقل کررہا ہے کہ اس پر نیا مضمون لکھا جاسکتا ہے۔
مقصود الٰہی شیخ۔ بریڈفورڈ[یو.کے]
مقصود الٰہی شیخ سے میرا تعارف 9؍برس قبل ناولٹ ’’شیشہ ٹوجائے گا‘‘نے کرایاتھا۔گذشتہ 21؍ستمبر2023ء کی شام شیخ صاحب کا انتقال ہوگیا۔ اناللہ وانالیہ راجعون۔ ان کی عمر89؍برس تھی۔
آج ان کو یاد کررہا ہوں تو گذشتہ چند برسوں میں ان سے ہونے والی مختلف باتیں یاد آرہی ہیں۔ہرچند کے ہم لوگوں کا تعلق صرف ٹیلیفون اور ای میل تک محدودرہے لیکن ان سے تعلق کی عمر اب 9؍برس ہوچکی تھی اور اس پورے عرصے کی یادیں اور باتیں میری زندگی کابہت اہم اثاثہ ہیں۔جن بزرگوں نے میرے ساتھ انتہائی شفقت و محبت والا برتائو اوررویہ رکھا ، ان میں ایک نام مقصود الٰہی شیخ کا بھی شامل ہے۔ان سے میرے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔ ان کے انتقال سے میں نے اپنا ایک مخلص اور مہربان بزرگ کھودیا۔شفاعت علی صدیقی،انور ندیم، ملک زادہ منظور احمد، حفیظ نعمانی اور مشرف عالم ذوقی کے بعد مقصود الٰہی شیخ کا رخصت ہوجانا زندگی اور ادب کی اعلیٰ قدروں کا رخصت ہوجانا ہے۔میں نے ان بزرگوں سے بہت کچھ سیکھا اور بڑا حوصلہ پایا۔یہ تمام شخصیات میرے لئے ایک شجرِ سایہ دار تھیں۔ مقصود الٰہی شیخ کی رحلت اردو دنیا کا بڑا نقصان ہے۔ان کی تحریریں ، راوی اور مخزن کے اداریے ایک ادیب، فنکاراور دانشور کے احساسات کی غمازی کرتے ہیں۔
مقصود الٰہی شیخ کی وفات نے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کو واضح کردیا کہ دنیا میں جو شخص بھی آیا ہے۔ ایک دن اسے جانا پڑے گا۔ باقی فقط رب کی ذات رہے گی۔ اللہ تعالیٰ شیخ صاحب کے درجات بلند فرمائے۔آمین۔مقصودالٰہی شیخ اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن اپنی تصنیفات اور تخلیقات کے ذریعہ وہ اپنی ذہانت، فطانت اور کارکردگی کا احساس ہمیشہ دلاتے رہیں گے۔
9794593055
٭٭٭