لندن: بی بی سی، سی این این کے دفاتر کے باہر کشمیر کے حق میں احتجاج

0
310

لندن: برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے ہیڈ کوارٹر کے باہر کئی مظاہرین نے  کشمیر کے حق میں احتجاج کیا اور کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) کے دفتر کے باہر بھی اس ہی طرح کے ایک مظاہرہ منعقد کیا گیا جس میں کشمیر میں بحران کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

میڈیا اداروں کے دفتر کے باہر جمع مظاہرین نے پوسٹرز اٹھا رکھے تھے اور ‘بی بی سی جاگ جاؤ’، ‘سی این این جاگ جاؤ’ اور ‘ہمیں آزادی چاہیے’ کے نعرے لگائے۔

متعدد مظاہرین کا کہنا تھا کہ بی بی سی کو چلانے کے لیے ان کے ٹیکس کے پیسے استعمال کیے جاتے ہیں تاہم مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی پامالی کو نمایاں نہیں کیا جارہا۔

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے محبوب چوہدری کا کہنا تھا کہ ‘ہم ٹیکس دہندگا ہیں،  کشمیر میں ہمارے پیاروں کے ساتھ کیا ہورہا ہے، یہ جاننا ہمارا حق ہے، بی بی سی اس معاملے کو نظر انداز کر رہا ہے اور یہی کام سی این این بھی کر رہا ہے’۔

مظاہرے میں شامل ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی پامالی پر خبریں نہ دے کر میڈیا بھارتی اقدامات کا احتساب کرنے کی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا ہے۔

الفورڈ کے رہائشی جاوید راشد کا کہنا تھا کہ ‘یہ کشمیر کی صورتحال پر خبریں نہیں دے رہے، ان کی ذمہ داری ہے مظالم کو نمایاں کرنا’۔

ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ ‘ہماری آواز اتنی ہونی چاہیے کہ ان دفتروں میں بیٹھے افراد تک پہنچ سکے’۔

بی بی سی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘بی بی سی نے  کشمیر کی صورتحال پر رپورٹنگ کی ہے، دیگر نشریاتی اداروں کی طرح ہم بھی سخت پابندیوں کے باوجود کام کر رہے ہیں اور ہم غیر جانبدارانہ طور پر اور خبریں دیتے رہیں گے’۔

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد  علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

 آئین کی دفعہ 35 ‘اے’ کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی  کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

ادھر برطانوی خبررساں ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بھارتی حکومت نے 6 ستمبر کو اعداد و شمار جاری کیے تھے جن کے مطابق 3 ہزار800 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا تاہم اس میں 2 ہزار 600 افراد رہا کردیے گئے۔

خیال رہے کہ کشمیر کے 2 سابق وزرائے اعلیٰ سمیت 200 سیاستدان گرفتار ہیں، جس میں 100 سے زائد سیاستدانوں کا تعلق بھارت مخالف جماعتوں سے ہے۔

اس حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ یہ کریک ڈاؤن مقبوضہ وادی کی حالیہ تاریخ کی ’واضح اور بے مثال‘ کارروائی ہے اور ان گرفتاریوں سے بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلا ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here