100 سال پرانی انجمن وظیفہ سادات ایک یونیورسٹی بھی نہیں بنا سکتی؟
وقار رضوی
آج کی دنیا میں تمام عزتیں بس علم والوں یا علم حاصل کرنے کی پیروی کرنے والوں کیلئے ہی ہیں۔ یہ بلاتفریق طے ہے کہ علم حاصل کرنا دنیا میں تو عزت کا باعث ہے ہی، قرآن اور تمام حدیثوں کے ذیل میں آخرت میں بھی اس کا بے شمار اجر ہے۔ جب علم حاصل کرنا اسلام میں اتنا اہم ہے تو علم حاصل کرنے کے اسباب مہیا کرانا اسلامی نقطہ نظر سے کتنا اہم ہوگا۔
آج بہت سے افراد اپنے اپنے طریقے سے یقینا اس راہ میں کوشاں ہیں، مگر اپنے محدود علم کی بناء پر ہم ان سب سے واقف نہیں ہیں ہاں لکھنؤ میں رہنے کی وجہ سے وسیم اختر صاحب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کیسے انہوں نے جدوجہد کرکے ایک اپنی انٹیگرل یونیورسٹی بنالی اسی شہر والوں نے دیکھا کہ ایک خانوادے نے اپنے آپ سے عزم کیا اور ایک میڈیکل کالج اور ایرا یونیورسٹی بناکر پوری قوم کو عزت بخشی ورنہ پورے ہندوستان میں باب العلم کے ماننے والوں کے پاس کوئی اپنی یونیورسٹی نہ ہوتی۔ اس سے قبل سرسید نے اکیلے اپنے دم پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام کرکے ہمارے لئے راہ آسان کردی تھی کہ اگر کوئی اکیلا بھی عزم کرلے تو وہ پھر ناممکن کو ممکن کرسکتا ہے۔ جب ایک شخص علی گڑھ مسلم جیسی یونیورسٹی بنا سکتا ہے تو تقریباً 40 ہزار ممبروں والی 100 سال پرانی انجمن وظیفہ سادات و مومنین ایک یونیورسٹی کیوں نہیں بنا سکتی؟ بلکہ اس سے پوچھا جانا چاہئے کہ ابھی تک کیوں نہیں بنائی؟ انجمن وظیفہ سادات جو گذشتہ 100 برسوں سے بھی زیادہ وقفے سے یہ خدمت انجام دے رہی ہے، یہی ایک ایسا ادارہ بھی ہے جس سے تقریباً سبھی تعلیم یافتہ لوگ منسلک ہیں اور ان سب کا جذبہ ہماری قوم کے بچوں کو علم حاصل کرانے کے سوا کچھ نہیں۔
آج بہت سخت ضرورت ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ، عثمانیہ یونیورسٹی کی طرز پر ایک ہماری یونیورسٹی بھی ہو۔ اس کے بننے میں کوئی اڑچن بھی نہیں ہے، پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے، صرف چاہئے ایک ایسا ادارہ جو نان-کنٹرورشیل ہو، اس کی خدمت کے سبھی قائل ہو، اور اس نے گذشتہ برسوں میں اسی علاقے میں اپنی ایک مثال قائم کی ہو۔ ایسا ادارہ انجمن وظیفہ سادات کے سوا میرے محدود علم میںکوئی اور نہیں ہے، آج ہم یا ہم جیسے چاہیں بھی تو ممکن نہیں ہے، اس ادارے کی عمر 100 سال سے زیادہ ہے میری معلومات اگر صحیح ہے تو چالیس ہزار سے زیادہ اس کے ممبر ہیں اور اچھی بات یہ ہے کہ تقریباً سب کے سب صاحب حیثیت اور اعلیٰ عہدوں پر ہیں یا رہے ہیں۔ یہ ادارہ جو کررہا ہے اس میں بغیر کسی ترمیم کے ایک اور قصد کرلے کہ اسے اگلے پانچ سال میں ایک سینٹرل یونیورسٹی قیام کرنی ہے اور اس مد میں صرف پانچ سال تک اپنے سبھی ممبروں سے ایک ہزار روپئے مہینے کی درخواست کرے تو اس سے چار کروڑ روپئے مہینہ ملے گا، اس طرح تقریباً پانچ سال میں تو صرف اپنے ممبروں سے ہی ڈھائی سو کروڑ مل جائیں گے۔ یہ منیمم ہے میں خود ایسے افراد سے واقف ہوں کہ آپ کی اس پہل پر کئی کئی لاکھ بخوشی دینے کو تیار ہوں گے جس سے تقریباً شروعات میں ہی ایک ہزار کروڑ بآسانی مل سکتے ہیں، خمس اور زکوٰۃ الگ اس کا شمار اس میں نہیں ہے۔ ہماری قوم میں بہت سے ایسے افراد ہیں جو چاہتے ہیں لیکن کوئی سامنے ایسا نہیں ہوتا جس پر آنکھ بند کر اعتماد کیا جاسکے۔ وظیفہ سادات کے سنجیدہ ممبر جو وقت کے ساتھ چلنے پر یقین رکھتے ہیں وہ 100 سال قبل بنائے گئے وہ قانون جن کی بناتے وقت شدید ضرورت تھی، میں کچھ تبدیلی لائیں یا ان کے ساتھ ایک نئے پروجیکٹ کے طور پر سینٹرل یونیورسٹی کا پروجیکٹ عوام کے سامنے لے کر آئیں تو انشاء اللہ ضرور کامیابی ملے گی۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو تاریخ اُنہیں کبھی معاف نہ کرے گی کہ انکے پاس ایک موقع تھا لیکن انہوں نے اُس موقع کا صحیح استعمال نہیں کیا۔
٭٭٭
100 سال پرانی انجمن وظیفہ سادات ایک یونیورسٹی بھی نہیں بنا سکتی؟
Also read