100 سال کیسے زندہ رہا جائے ؟

0
124

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 


مرادعلی شاہدؔ دوحہ قطر

سوسال زندہ رہنے کے لئے ضروری نہیں کہ سو سال جیا بھی جائے،فلاح انسانیت ،شعورِ بنی آدم اور نسل نو کے لئے کچھ ایسا مینارہ نور چھوڑ جائیں کہ جس سے انسانیت پیش آمدہ سو سال آپ کی تخلیق سے فیض یاب ہوتے رہیں۔اگر ایسا کچھ کر جاتے ہیں تو قدرت آپ کے نام ،افعال اور فکر کی وجہ سے صدیوں آپ کو زندہ رکھنے کے لئے بطور ضامن کافی ہوگی۔بے شمار میدانِ زندگی ایسے ہیں جن کی وجہ سے آپ عوام کے دلوں کی دھڑکن بنے رہتے ہیں جن میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہوتے ہیں جو فلاحی کاموں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔لیکن کچھ ایسی بھی تخلیقات ہوتی ہیں جو معاشروں کی اقدار،رواجات،اور اخلاقیات کو سدھارنے کا باعث بنتی ہیں جیسے کہ ادبی تخلیقات،ادب کو چونکہ معاشرہ کا نباض سمجھا جاتا ہے اس لئے میری نظر میں ادبی تخلیقات کی وجہ سے بھی انسان لوگوں کے دلوں اور تاریخ کے صفحات پر صدیوں سانس لیتا رہتا ہے۔اس آرٹیکل میں قارئین کی نذر صرف کتابی دنیا کی تاریخ ،ان کے تخلیق کار اور فکرو فلسفہ کو ہی بیان کیا جا سکتا ہے،کیونکہ موضوع بسیط ہونے کی وجہ سے سب کی سب تخلیقات،فکر،فلسفہ اور فلاحی کاموں کا تذکرہ ممکن نہیں ہے۔
صدیوں قبل تصنیف کردہ کوتلیہ چانکیہ کی ارتھ شاستر ایسی کتاب ہے جسے science of politics کہا جاتا ہے اور اپنی اعلی فکر کی نسبت سے کوتلیہ کو ہندوستان کا ارسطو خیال کیا جاتا ہے۔اس لئے کہ کوتلیہ اگرچہ ٹیکسلا یونیورسٹی میں ایک پروفیسر تھا مگر چندر گپت موریہ کا وزیر خاص بننے کے بعد اس نے حکومت،انتظام اور فلاح کے جو منصوبے اپنی کتاب میں پیش کئے ہندوستان کی تاریخ میں اس کی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی۔انتظام سلطنت کے لئے اس نے نہ صرف بادشاہ کے کردار واختیارات کو متعین کیا بلکہ اس سلطنت میں بسنے والے تما م عمالین کے حقوق وفرائض کو بھی وضع کیا جو ملک کی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔اگر بادشاہ کو بادشاہت کرنے کے طریقہ کار بیان کئے ہیں تو مزدور کی اجرت،سہولیات کا بھی تذکرہ کیا ہے،یہاں تک کہ کوتلیہ کے مطابق اگر مزدور مقررہ وقت سے زیادہ کام کرتا ہے تو اسے اضافی رقم عطا کی جائے،اگر اس کاکام دیگر مزدورں کی نسبت بہتر،صاف ستھرا اور زیادہ ہے تو اسے انعام کی صورت میں بونس دیا جائے جو کہ اضافی رقم کی صورت میں ہو۔اگر اس نے پڑوسی ریاستوں سے تعلقات کی نوعیت کا تذکرہ کیا ہے تو دوست اور دشمن ریاستوں کی بھی پہچان بیان کی ہے۔الغرض امور ریاست کے لئے اس تصنیف کوسیاسی معراج حاصل ہے۔
میکاولی نے اگرچہ بہت سی کتابیں لکھیں تاہم جو شہرہ آفاق The Prince کو حاصل ہوا وہ کسی اور کو نہ ہو سکا۔اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جارج پنجم اپنے تکئے تلے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو ہمہ وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔اس میں بھی میکاولی نے ایک بادشاہ کے اختیارات،حکومت کرنے کا طریقہ کار،اور دائو پیچ بیان کئے ہیں جس پر عمل پیرا ہو کر بادشاہ لوگوں پر حکومت کر سکتا ہے۔یعنی حکومت کی سیادت کو کیسے طویل کیا جا سکتا ہے اور اس کے لئے بادشاہ کو کن خوبیوں کا مالک ہونا چاہئے۔مثلا اگر میکاولی کے صرف ایک فقرہ کا ہی مشاہدہ کیا جائے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس کی فکرکیا تھی،یعنی
’’بادشاہ کو شیر کی طرح طاقت ور اور لومڑی کی طرح چالاک ہونا چاہئے،اسے پتہ ہو کہ چیتے کو طاقت سے اور عوام کو چالاکی سے کیسے کنٹرول کرنا ہے‘‘
والٹیئر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے بارہ لاکھ صفحات لکھے،جس سے ان کی ذہانت آشکار ہوتی ہے،لیکن اس کی وجہ شہرت اس کی وہ طویل نظم ہے جو اس نے باستیل جیل میں ایام قید میں لکھی،اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فریڈرک دی گریٹ اتنا دشمن کی تلوار سے نہیں ڈرتا تھا جتنا کہ والتیئر کے قلم سے۔شائد اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قلم کی طاقت،تلوار کی کاٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ایک اور یورپین مصنف پائلو کوہلو نے The Alchemist لکھ کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا،اپنے زمانے کہ بیسٹ سیلنگ بک سمجھی جاتی ہے آج بھی ادبی ذوق کے متحمل افراد اسے اپنی لائبریری کی زینت بنانے کو فخر سمجھتے ہیں۔اس کتاب میں یہ بتایا گیا کہ خزانہ تلاش کرنے کے لئے آپ کو دنیا گھومنے کی ضرورت نہیں بلکہ اگر تھوڑی سی کوشش اور تحقیق کر لیں تو یہ آپ کے قدموں تلے ہی آپ کو مل جائے گا۔
اگر اردو ادب کی بات کی جائے تو بہت سے نام اور کام ایسے ہیں کہ جن کی وجہ سے تخلیق کاروں کو شہرت دوام حاصل ہے اور مزید سو سال تک قارئین انہیں اپنے دلوں میں بسا کر رکھیں گے،جیسے کہ اگر دیوان غالب کی بات کی جائے تو محض ایک سو آٹھ صفحات پر مشتمل ایسی کتاب ہے جس کے بارے میں عبدالرحمن بجنوری نے کہا تھا کہ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ایک مقدس وید اور دوسری دیوانِ غالب‘‘۔دیوانِ غالب پر تو اتنا لکھا گیا ہے کہ میرے جیسے کم علم کو اس پر قلم اٹھاتے ہوئے سو بار سوچنا پڑتا ہے تاہم ابھی میں دیوان کی تشریح وتصریح کی بات نہیں کر رہا بلکہ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ غالب کی یہ ایسی تخلیق ہے جس کی بنا پر اردو ادب اسے صدیوں زندہ رکھے گا اور آنے والے سخنوروں کے لئے باعث فخر سمجھا جائے گا۔فکاہیہ اردو ادب میں جو مقام ومرتبہ پطرس بخاری کی مضامین پطرس کو حاصل ہے وہ کسی اور مزاح نگار کا مقدر نہ بن سکا،میرے نزدیک پطرس بخاری فکاہیہ ادب کا باوا آدم ہے اس لئے میری رائے میں اگر مزاح نگاری میں سے مضامینِ پطرس کو نکال دیا جائے تو فکاہیہ ادب نصف رہ جائے گا۔اگرچہ ان کی یہ کتاب چند مضامین پر مشتمل ہے لیکن الفاظ کی شعبدہ بازی،ذو معنین اور برمحل استعمال صرف پطرس بخاری جیسے قلمکار کا ہی خاصہ ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ پنجابی ادب میں’’ہیر وارث شاہ‘‘ کو جو شہرت دوام حاصل ہے جس کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وارث پنجاب کا شکسپئر ہے،اگرچہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ وارث کی ایک الگ پہچان اس کے ذاتی مشاہدہ،تجربات اور قصہ گوئی کی وجہ سے انہیں شکسپئر سے ممتاز کرتی ہے،لیکن یہاں وارث شاہ کا تذکرہ موازناتی بنیادوں پر نہیں کیا جا رہا بلکہ مقصد قارئین کو یہ بتانا ہے کہ وارث کی ہیر ایسا شاہکار ہے جو صدیوں تک قارئین کے دلوں میں زندہ رہے گا۔
اس لئے آپ بھی کوئی ایسا کام کرجائیں جس سے دنیا صدیوں تک آپ کو زندہ رکھے۔کیونکہ سو سال زندہ رہنے کے لئے ضروری نہیں کہ سو سال تک زندہ رہا بھی جائے بلکہ آپ کی مثبت فکر اور فلاحی سوچ آپ کو صدیاں زندہ رکھنے کا باعث ہوگی۔کیونکہ اللہ نے سب انسانوں کو بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے بس اسے اپنے آپ کو اور اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچاننا ہے اور ان توانائیوں کو کسی بھی تخلیق کی صورت میں عوام الناس کے سامنے پیش کرنا ہے۔لہذا کل سے نہیں آج سے ہی اپنے آپ کو پہچانیں اور اپنی صلاحیتوں سے دوسروں کو مستفید فرمائیں،انشا اللہ آپ بھی سو سال تک زندہ رہیں گے۔
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here