چھ محرم کربلا انسان سازی کی درسگاہ
یہ مجلسیں نہ ہوتیں تو شاید ہم اُن تمام اہم باتوں سے غافل ہوتے جو ہمیں یہاں سیکھنے اور سمجھنے کو ملتی ہیں جب جب کربلا کا ذکر ہوتا ہے تو انسانی رشتوں کی اہمیت بھی بیان ہوتی ہے جب انسانی رشتوں کا ذکر ہوتا ہے تو ہم مجبور ہیں کہ اہل بیت ؑ کے در پر جائیں کیونکہ رشتوں کی پاسداری کی جو مثال اس در پر ملتی ہے اور کہیں نہیں ملتی۔ کوئی درسگاہ ایسی نہیں جہاں ہمیں ہر طرح کا علم اور سیکھ مل سکے سوائے در اہل بیت ؑکے کیونکہ یہاںاللہ کی کتاب قرآن کی نصیحت بھی ہے اور اللہ کے نبی محمدؐ کا کردار بھی۔ ان ہی مجالس میں جب رسولؐ اور قرآن کا ذکر ہوتا ہے تو ان کو بھیجنے والے اُس وحدہٗ لا شریک کا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے، پھر توحید کا بھی پتہ چلتا ہے، وحدانیت پر بھی یقین بڑھتا ہے اور نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور وہ تمام شرعی احکام جو ہم پر فرض کئے گئے ہیں اُن کو اپنی زندگی میں پابندیِ وقت کے ساتھ بجا لانے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب ان تمام شرعی عمل کا ذکر ہوتا ہے تو اس کے صلہ کا بھی ذکر ضروری ہے کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ وہ کوئی عمل بغیر جزا کے نہیں کرتا، جب جزا کا ذکر ہوگا تو سزا کا ذکر بھی لازمی ہےلہٰذا قیامت کا بھی ذکر ہوگا، عدل اور انصاف کا بھی ذکر ہوگا، ایک دوسرے کے حقوق کیا ہیں اس کا بھی ذکر ہوگا، جب انسانی رشتوں کا ذکر ہوگا تو ہمیں یہ ضرور بتایا جائے گا کہ ایک اولاد کی پرورش کیسے کی جائے، ایک اولاد اپنے والدین کے ساتھ کیسے پیش آئے، بھائی بھائی کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں، بہن کا جائیداد میں حصہ کیا ہے اور اسے دینا ہم پر فرض ہے، شوہرکی بیوی کے تئیںاور بیوی کی شوہر کے تئیں کیا ذمہ داریاں ہیں، ایک استاد اپنے شاگرد کی تربیت کیسے کرے اور ایک شاگرد اپنے استاد کی عظمت کو کیسے برقرار رکھے۔ ان ہی مجالس میں جب اس کا ذکر ہوتا ہے کہ پڑوسیوں کے ہم پر حقوق کیا ہیں کہیں ایسا تو نہیں ہم روغن غذائیں نوش فرما رہے ہیں اور چاروں طرف 40-40 گھر میں ہمارا کوئی پڑوسی فاقہ کررہا ہے۔
اگر ادبی لوگ مجالس خطاب کرتے ہیں تو ان ہی مجالس سے ہمیں ادب بھی ملتا ہے یہیں سے ہم غالب کو جانتے ہیں، ہم نے اقبال، میر انیس اور دبیر کو یہیں سے جانا، یہیں سے ہم نے افتخار عارف، عرفان صدیقی، کرشن بہاری نور، ماتھر لکھنوی کو جانا اور یہیں سے ہم طارق قمر، سنجے مشرا شوق، سنیتا جھینگرن، ہمانشو باجپئی، منیش شکلا جیسے لوگوں سے آشنا ہوئے۔
ان ہی مجالس میں جب باعمل ذاکرین کربلا کا ذکر کرتے ہیں تو کربلا ہمیں ایک علامت دکھائی دیتی ہے ظلم اور جبر کے خلاف اپنا احتجاج رقم کرنے کی، اپنے معاشرے میں تبدیلی لانے کی، صداقت اور انصاف کی حفاظت کی۔
اگر ذاکرین بغیر کسی طعن وطنز کے اپنی مجالس کوذکرکربلا اور ذکراہل بیت سے منور کرتے ہیں تو سننے والوں کے دماغ بھی روشن ہوجاتے ہیں ورنہ خطبا جن کے ذکر سے اپنی مجالس کو زینت دیتے ہیں وہ اُن جیسے ہی بن جاتے ہیں جن کا وہ ذکر کرتے ہیں۔ کربلا کے میدان میں اتنی عظیم قربانیاں خطابت کے جوہر دکھلانے کیلئے نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد کے لئے دی گئی ہیں اس مقصد کو یوں ضائع نہ ہونے دیں اُسے باقی رکھیں۔ ایسے بنیں کہ مولا بھی کہیں یہ ہمارا شیعہ ہے۔
٭٭٭