9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ضیاءالرحمن امجدی
ہندوستان کا شمار دنیاکے سب سے بڑے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ہندومسلم ،سکھ ،عیسائی سبھی مذاہب کے لوگ بڑی محبت سے رہتے چلے آرہے ہیں،کیونکہ ہندوستان کوانگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے تمام مذاہب کے لوگ مل کر لڑائی لڑئیں اور 15اگست 1947ءکو ہندوستان آزاد ہوا،پھر ہندوستان کو چلانے کے لیے 26نومبر 1949ء کوایساقانون بنایا گیا جس میں ہر مذاہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے اعتبار سے رہنے کاحق دیا گیا اور26جنوری1950ء کو قانون نافذکیا گیا ،اس قانون کے بعد ہندوستان میں جمہوری طرز کا آغاز ہوا ۔26جنوری کے دن ہندوستان میں “یوم جمہوریہ” کے نام سے جس طرح کالج اور یونیورسیٹیوں میں تقریب کا انعقاد کیاجاتا ہے اسی طرح مدارسِ اسلامیہ میں بھی پرچم کشائی کے لیےجشن کی تقریب کا اہتمام کیاجاتا ہے اور طلبہ وعوام کو ہمارے اسلاف نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اور وطن عزیز کی آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا جو نذرانہ پیش کیا، جنہوں نے اپنے وطنِ عزیز کو غلامی کی زنجیروں سے نجات دلانے کے لئے ہنستے ہنستے اپنی جانیں قربان کردیں اس سے باور کرایاجاتاہے ،اور یہ بھی بتایاجاتا ہے کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا رول بہت ہی اہم رہا ہے اور یہ تحریک اصل میں مسلمانوں نے شروع کی تھی ۔ اس کا اندازہ ہم اس طرح لگا سکتے ہیں کہ 1857ء کے ایک سال میں یہاں پر 24/ہزار مسلمانوں نے وطن عزیز کے لئے اپنی جانوں کو قربان کیا تھا ۔ یومِ جمہوریہ کی مناسبت سے جنگِ آزادی کی قربانیوں کو عام کیا جاتا ہےاور عوام کو مجاہدینِ جنگِ آزادی کی قربانیوں سے روشناس کرایا جاتاہے،نئی نسلوں کے ذہن میں تازہ کرایاجاتاہے،انہوں نے ہمارے لئے یہ قربانیاں اس لئے پیش کیں تاکہ ہم آزاد فضا میں سانس لے سکیں، جب ہمیں آزادی ملی تو جوقانون ملک کے لئے بنایا گیا اس میں ہرمذہب وملت کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی عطا کی گئی اور یہ ہندوستان قانون کا اتنا اچھا ہے کہ اس میں کسی مذہب سے ٹکراؤ نہیں ہے ۔اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا، اس لئے دستور کی42ویں ترمیم کی رو سے ہندوستان کو سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے جہاں ہر مذہب کا مساوی طور پر احترام لازمی قرار دے دیا گیا ہے،قانونِ ہند کا مطابق ہر ہندوستانی شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا کیوں نہ ہو قانون کی نگاہ میں برابر ہے اور ہر شہری کو آزادیٔ رائے، آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب کا حق حاصل ہے۔ دستورِ ہند میں اقلیتوں کو بھی ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہیں، اپنی تہذیب، تمدن اور زبان کو فروغ دے سکتی ہیں اور اپنے مذہب کی اشاعت کرسکتی ہیں،لیکن افسوس ہوتا ہےکہ برابری حقوق کے بعد بھی آج مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا ہے کبھی گھر واپسی کے نام پر ،کبھی لوجہاد کے نام پر ،کبھی گائے کے نام پر ہندستان کی راجدھانی کے قریب نوئیڈا میں بیف کی افواہ کے بنیادپر اخلاق کو بھیڑ کے ذریعہ ماردیا جاتا ہے ،راجستھان میں مسلم ہونے کی بنا پر افروزالاسلام کو زندہ جلادیاجاتاہے ،کبھی دھلی میں رمضان کے موقع پر ایک حافظ قرآن بچہ کوچاقو سے حملہ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیاجاتاہے ،کبھی ریاست جھارکھنڈکےایک گاؤں (مقاموں ) میں مندر کا جھوٹا مدعیٰ بناکر 25 بے قصور مسلمانوں پرلاٹھی چارج کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے،کبھی مسلمان کی اذان پر سوال اٹھایاجاتاہے تو کبھی حج کی سبسڈی ختم کی جاتی ہے،بھارت ماتا کیجے کا نعرہ لگانے پر زور دلایاجاتا ،کبھی کچھ شدت پسندتنظیموں کے ذریعہ اپنے مذہبی نعرہ لگوانے پر مسلمانوں پر ظلم کیاجاتا ہے،اس کے باوجود کسی شرپسندوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے ۔ الغرض ان حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتاہے کہ مسلم اقلیت کو آئین میں ملنے والے تمام حقوق سے محروم کر نے کی مکمل کوشش زور و شور سے جاری ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے۔
اس لیے ہر ہندوستانی مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دستور ہند کو جانیں اور دستور ہند سے متعلق جو کتابیں دستیاب ہیں ان کو پڑھنےکی کوشش کریں اور ایسے لوگوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دستور ہند کی روشنی میں ان کی ظالمانہ کوششوں کو ناکام بنائیں۔ انگریز یہاں سے چلے توگئے لیکن افسوس اس کے نظریے کو ماننے والے ابھی بھی موجود ہیں جو انگریزوں کے اثرات بد کو قبول کرکے ہندوستان کو مذہب، علاقے، برادری اور غریبی وامیری اور رنگ ونسل کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں لگی ہوئی ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر متعصبانہ رویہ کی تحریک چلائی جارہی ہے ، اس کے باوجود بھی ہندوستان کا ہر مسلمان یہاں کی اس دم توڑتی جمہوریت کا احترام کرتاہے ۔تمام مدارس اسلامیہ میں آج بھی 26جنوری اور 15 اگست کو پرچم لہرانے کی تقریب منعقد کی جاتی ہے اور علامہ اقبال کا لکھا ہوا ترانہ پڑھا جاتا ہے ۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاںہمار٭ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا ۔
(ریسرچ اسکالر علی گڑھ)