ہندوستان سے دوستی کی شرط کشمیر کو بھول جائو

0
287

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

حفیظ نعمانی

کشمیر کا مسئلہ تین فریقوں کے درمیان کا نہیں دو فریقوں کا ہے۔ راجہ کے زمانہ میں کشمیر کے سب سے بڑے لیڈر شیخ محمد عبداللہ اور غلام عباس تھے۔ شیخ صاحب کی دوستی پنڈت نہرو سے تھی اور غلام عباس مسلم لیگ کے لوگوں کے قریب تھے۔ اس دوستی کے ہم بھی گواہ ہیں جب قومی آواز اخبار کی عمر ایک سال ہوئی تھی تو اس کی سالگرہ منائی گئی تھی اور دوسرے دن اخبار میں جو فوٹو چھپا تھا اس میں پنڈت نہرو درمیان میں تھے داہنی طرف شیخ عبداللہ اور بائیں طرف ایڈیٹر حیات اللہ انصاری تھے۔
ملک کی تقسیم کے بعد جب ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ جس کی سرحدیں جس ملک سے ملتی ہوں اور جس کی اکثریت جس ملک سے وابستہ ہونا چاہے وہ اپنا فیصلہ خود کرلے۔ شیخ عبداللہ اور غلام عباس راجہ سے جو لڑائی لڑرہے تھے وہ یہ تھی کہ کشمیر کو آزاد کردیا جائے۔ تقسیم کے بعد بھی کشمیریوں کی اکثریت نے آزادی کی بات کی غلام عباس صاحب پاکستان چلے گئے اور شیخ عبداللہ اور راجہ دہلی آگئے اور پنڈت نہرو سے کہا کہ پاکستان کشمیر میں گھسنے کی کوشش کررہا ہے اپنی فوج بھیج کر اُنہیں روک دیجئے۔ معاہدۂ دہلی ہمارے سامنے نہیں ہے لیکن شیخ صاحب کا کہنا یہی تھا کہ انہوں نے اپنے دوست پنڈت نہرو سے صرف یہ چاہا تھا کہ وہ پاکستان کو نہ آنے دیں۔ اور ہندوستان نے ہوائی فوج بھیج کر پاکستان کو وہاں روک دیا جہاں کشمیر میں وہ آج تک ہے۔
کشمیر میں شیخ صاحب نے اس طرح حکومت بنائی کہ وہ خود وزیراعظم تھے کرن سنگھ صاحب کو ریاست کا صدر بنایا۔ اپنا دستور بنایا اور اپنا پرچم بھی الگ کرلیا۔ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت نہرو نے نہ جانے کتنی بار اور کہاں کہاں یہ کہا کہ یہ عارضی انتظام ہے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے لوگ خود کریں گے جس کے لئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے گی۔ لیکن پنڈت جی اپنی بات پر قائم نہ رہ سکے۔ وہ پہلے بھی پٹیل، پنت، ٹنڈن وغیرہ کا دبائو قبول کرتے رہے تھے اور کشمیر کے بارے میں انہوں نے وہ کیا جس نے انہیں انصاف پسند دنیا کی نگاہ میں بہت چھوٹا کردیا۔ انہوں نے کشمیر کو ہندوستان کا صوبہ بنانا چاہا اور جب ان کے جگری دوست شیخ عبداللہ نے سخت مخالفت کی تو انہیں جیل میں ڈال کر بارہ برس بند رکھا۔
کشمیر کا کوئی حل ایک تو اس وقت نہ ہوسکا پھر 1962 ء میں جب چین نے ہندوستان کی کمر توڑ دی اور پنڈت جی خود بھی ٹوٹ گئے تو انہیں شیخ یاد آئے اور ان کو رہا کراکے دہلی بلایا اور ان سے کہا کہ وہ پاکستان جائیں اور ان کے ذریعہ کوئی ایسا پیغام بھیجا جو یقینا شیخ عبداللہ کے بھی دل کی مراد ہوگی ہوسکتا ہے اس میں کشمیر کا بھی کوئی حل ہو۔ لیکن ان کے جواب لانے سے پہلے پنڈت جی یا خود چلے گئے یا بھیج دیئے گئے غرض کہ کشمیر کے حل کا دوسرا موقع بھی ضائع ہوگیا۔ اور شیخ صاحب نے بھی ہر طرف اندھیرا دیکھ کر اندرا گاندھی سے صلح کرلی اور کشمیر کو ہندوستان کا صوبہ مان لیا۔
لیکن پاکستان نے یہ ضد نہیں چھوڑی کہ کشمیر مسلمان اکثریت کی ریاست ہے اس کا الحاق پاکستان سے ہونا چاہئے جبکہ کشمیری اس وقت بھی اور آج بھی صرف آزادی کی بات کرتے ہیں۔ کچھ نام کے لئے ایسے ہیں جو پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگاتے ہیں اور موقع بے موقع اس کا جھنڈا بھی لہراتے ہیں۔ لیکن عمل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا الیکشن ہوتا ہے تو الیکشن لڑتے بھی ہیں لڑاتے بھی ہیں وزیر بھی بنتے ہیں اور بائیکاٹ کا اعلان بھی کرتے ہیں۔
کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے تیسرا موقع وہ تھا جب 1965 ء میں ایوب خاں کا جنگ کا شوق پورا ہونے کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم لال بہادر شاستری وزیر خارجہ سورن سنگھ، صدر ایوب خاں اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو روس کی دعوت پر تاشقند میں جمع ہوئے۔ اور 05 جنوری 1966 ء کی شام کو وزیراعظم شاستری اور وزیر خارجہ بھٹو کے درمیان سردار سورن سنگھ کی موجودگی میں خوب گرماگرمی ہوئی جسے بمشکل اخبارات سے چھپایا گیا۔ مسٹر بھٹو نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے اصرار کیا کہ ناجنگ معاہدہ کرنے سے پہلے مسئلہ کشمیر طے ہونا چاہئے کیونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بنیادی تنازعہ مسئلہ کشمیر ہے۔ اور اسی وقت اندازہ ہوگیا کہ بھٹو صاحب کی وجہ سے مذاکرات بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہوجائیں گے۔ اس کے فوراً بعد روس کے وزیر خارجہ کی ڈپلومیسی کی بدولت بھٹو کو مذاکرات سے الگ کردیا گیا۔ بھٹو نے بعد میں اپنے صدر ایوب خاں کو گھیر لیا اور کہا آپ نے بھات کو اس پر مجبور نہیں کرنے دیا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے حق خود ارادیت دیا جائے گا۔ لیکن بھٹو کی ایک نہ چلنے دی اور 09 جنوری کو روسی وزیراعظم میگن نے معاہدئہ تاشقند پر دستخط کرائے۔ معاہدہ کا حاصل یہ تھا کہ دونوں ملکوں کی فوجیں بین الاقوامی سرحدوں پر واپس چلی جائیں، دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوجائین اور دونوں ملک تجارت کے فروغ، پروپیگنڈہ کا خاتمہ ذرائع مواصلات کی توسیع اور بے گھر افراد کی آبادکاری کے لئے دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔
اس کے بعد ہی ایوب خاں اور بھٹو کے درمیان تلخیاں بڑھ گئیں بھٹو نے ایوب خاں پر موقع بے موقع تنقید کرنا شروع کی اور تنگ آکر ایوب خاں نے انہیں علالت کی وجہ سے چھٹی دے دی جس کے جواب میں بھٹوں نے استعفیٰ دے دیا۔ لیکن جب کٹے پھٹے پاکستان کے وزیراعظم مسٹر بھٹو بنے تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا اور پاکستان کی فوج اور سول افسر سیکڑوں اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہندوستان کی قید میں تھے۔ مسٹر بھٹو نے عراق ایران ترکی سعودی عرب وغیرہ کا دورہ کرکے ہندوستان پر دبائو ڈلوایا کہ وہ پاکستانی قیدیوں کو رہا کردے۔ اور مسز اندرا گاندھی نے 02 جولائی 1972 ء کو شملہ میں بھٹو کو بلایا اور ان سے ایک سمجھوتہ ہوا لیکن وہ مسٹر بھٹو جنہوں نے تاشقند سمجھوتہ کے بعد 15 جنوری 1966 ء کو کہا تھا کہ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ ہم تاشقند میں مسئلہ کشمیر کا فوری حل تلاش نہیں کرسکے وہی مسٹر بھٹو 02 جولائی 1972 ء کو شملہ معاہدہ کے دوران اندرا گاندھی کے سامنے کشمیر کا نام بھی لئے بغیر واپس آگئے۔
اب یہ بات پاکستان کو دماغ سے نکال دینا چاہئے کہ ہندوستان کشمیر کا کوئی مسئلہ بھی مانے گا اگر پاکستان مذاکرات کی میز پر کشمیر کو رکھ کر بلائے گا تو ہندوستان آنے سے انکار کردے گا۔ اگر کوئی بات ہوسکتی ہے تو صرف اتنی کہ جو تمہارے پاس ہے وہ تم لے لو جو ہمارے پاس ہے وہ ہمارا ہے۔ پاکستانی عوام کا بھی فیصلہ یہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ حافظ سعید اور اظہر مسعود ان دونوں کا صرف ایک نکاتی منشور ہے کہ کشمیر میں رائے شماری کرالی جائے اور ایک بھی سیٹ نہ ملنے سے معلوم ہوگیا کہ پاکستان کے حکمراں کشمیر کی بات کرتے ہیں عوام نہیں۔ اب عمران خان نے بھی تعلقات بہتر بنانے کیلئے میز بچھانے کی بات کی ہے لیکن یہ بھی کہا ہے کہ اس میز پر کشمیر کا نقشہ بھی رکھا ہوگا یعنی تعلقات جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔
Mobile No. 9984247500
خخخ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here