9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں
مجاہد الاسلام
افسانہ’ہم دونوں‘ ڈاکٹر کیول دھیر کا تصنیف کردہ ہے ۔یہ افسانہ ان کے افسانوی مجموعہ’ بدچلن ‘میںشامل ہے۔ڈاکٹر دھیر نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناول نگاری، سفر نامہ، ریڈیو اسکرپٹ، ٹیلی پلے ، صحت، نفسیات و جنسیات جیسے میدان میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں اس طرح سے وہ درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں ان کی اکثر کتابیں اردو کے ساتھ ہندی، پنجابی اور انگریزی میںبھی شائع ہوچکی ہیں ۔
زندگی کسی مقصد کے تحت گزرتی ہے اور بلا مقصد بھی گزر سکتی ہے۔ بہرحال جو چیز شروع ہوتی ہے اسے ختم بھی ہونا ہے، ویسے ہی جیسے کہ جلتاسگریٹ ہے ۔آپ کش لیں یا نہ لیں اس کو بھسم ہوجا نا ہے۔شعر و ادب انسان کے ہاتھ میں ایک بہت بڑی طاقت ہے، واضح رہے کہ یہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی ہے ۔ ایسی ہی کچھ بات ہے جس کی بنا پر ہی شاعر و ادیب کو تلمیذ الرحمان کہا گیاہے ۔پھر آدمی چاہے اس کو اچھے مقصد کے لئے استعمال کرے یابرے مقاصد کے لئے بہر حال اس کا استعمال ہو جانا ہے۔ شیخ ابراہیم ذوقؔ نے اپنی غزل کے اس شعر میں اس حقیقت کو بڑے ہی واضح انداز میں پیش کیا ہے :
اے شمع تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گزار یا اسے رو کر گزار دے
وقت دریا کے بہائو کی مانند ہے جس کی کوئی سیما ہے نہ تھاہ ۔ بہت ممکن ہے کہ اگر وقت رہتے آپ نے اس کو صحیح کاموں کیلئے استعمال نہ کیا تو وہ بعد میں غلط کاموں کے لئے استعمال ہوجائے ۔
مولا علیؓ کا قول ہے : الوقت صیف لک و علیک(وقت تلوار کے مانند ہے،تمہارے حق میں ہو گا یا تمہارے خلاف)
اس کے باوجود بھی دیکھا یہی گیا ہے اکثر وہی چیزیں زندہ و تابندہ رہتی ہیں جو کسی خاص مقصد کے لئے استعمال میں لائی گئی ہوں۔ مولانا الطاف حسین حالی نے شعرو ادب کی اہمیت اور تاثیر کے بارے میں ’مقدمہ شعر وشاعری ‘میںلکھا ہے کہ جہاں بری سوسائٹی شاعر و ادیب کوبگاڑدیتی ہے۔ وہیں اچھاشاعر و ادیب بھی سوسائٹی پر اثرانداز ہوتاہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں مشہور عربی شاعر اعشیٰ کے ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ جویوں ہے :
’’ایک بار ایک عورت اس کے پاس آئی اور یہ کہا کہ میری لڑکیاں بہت ہیں اور کہیں ان کو بر نہیں ملتا ۔اگر تو چاہے تو لوگوں کو شعر کے ذریعے سے ہمارے خاندان کی طرف متوجہ کرسکتا ہے ۔ اعشیٰ نے اس کی لڑکیوں کے حسن و جمال اور خصائل پسندیدہ کی تعریف میں ایک قصیدہ لکھا ،جس کی بدولت ان لڑکیوں کی صورت اور سیرت کا چرچا تمام ملک میں پھیل گیا اور چاروں طرف سے ان کے پیغام آنے لگے ،یہاں تک کے امراء نے بھاری بھاری مہر مقرر کرکے ان سے شادیاں کرلیں(مقدمہ شعر و شاعری:مولانا الطاف حسین حالی۔ایجوکیشنل بک ہائوس،علی گڑھ۔سن 2007۔ص 88)
مشہور اردولیڈی فکشن نگارپدم شری جیلانی بانو اپنے مضمون ’’ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ۔۔۔۔‘‘ میںسردار علی جعفری کے حوالے سے رقمطراز ہیں :
’’ہمارے ابا کے پاس ہندوستان اور پاکستان کے سب ہی ادیب وشاعر آتے تھے ۔رسالے بھی آتے تھے ۔۔۔۔۔سردار جعفری کا رسالہ’ گفتگو ‘بھی آتا تھا اس رسالے میں مشہور ترقی پسند ادیب لکھتے تھے ۔میںنے بھی ایک افسانہ ’گفتگو ‘ کو بھیج دیا ۔جعفری صاحب کو افسانہ پسند آیا ’گفتگو ‘ میں شامل کر لیا ۔شادی کے کئی برس بعدمیں اپنے شوہر انور کے ساتھ ممبئی گئی ۔۔۔۔۔انور کو جعفری صاحب سے ملنا تھا۔ ہم دونوں ان کے گھر گئے ۔میں نے پہلی بار جعفری صاحب کو دیکھا تھا ۔سلطانہ بھابی اور جعفری صاحب ہمیں دیکھ کر خوش ہو گئے انور سے حیدر آباد کے ادیبوں اور وہاں کی ادبی فضا پر باتیں کرتے رہے ،پھر میرا ’گفتگو ‘ والا افسانہ یاد کرکے کہا۔’’بانو تم نے اس افسانے میں لکھا ہے کہ ایک فن کار حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر کسی اور کو اپنا فن حوالے کر دیتا ہے، بیچ دیتا ہے اپنا فن‘‘میں نے کہا ہاں یہ تو ہو رہا ہے اب ۔ جعفری صاحب نے مجھے سمجھایا’’مگر تمہیں یہ بات نہیں ماننا چاہیے ۔تم تو یہ لکھو کہ ایک ادیب فن کار ہمیشہ حق اور سچائی کی راہ دکھاتے ہیں ۔وہ کوئی مخالفت اور مجبوری نہیں مانتے ۔ ‘‘( سردار جعفری کل اور آج :مرتب :ڈاکٹر ارشاد احمد/ڈاکٹر بی بی رضا خاتون ۔مرکز برائے اردو زبان ،ادب و ثقافت ،مولانا آزاد نیشنل ارود یونیورسٹی ۔حیدر آباد ۔سن جولائی 2015ص 17)
ویسے تو کیول دھیر کی ہر تخلیق کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتاہے مگریہ چیز ان کی افسانہ نگاری سے خاص طور سے مترشح ہوتی ہے۔ محبت و اخوت ان کی تخلیقات کا خاص موضوع ہے اس میں وہ کسی طرح کی حد بندی کے قائل نہیں ہیں، چاہے وہ مذہبی ہو ،سیاسی ہو یا سماجی وہ عالمی امن و امان و بھائی چارے کے متمنی ہیں، اور یہی وہ چیزہے جو ایک بڑے رائٹر کو چھوٹے رائٹرسے ممیزو ممتاز کرتی ہے۔غالبؔ نے اپنے ایک خط میں مرزا ہرگوپال تفتہ کو لکھا ہے:
’’بندہ پرور میں تو بنی آدم کو ،مسلمان ہو یا ہندو یا نصرانی عزیز رکھتا ہوں اور اپنا بھائی گنتا ہوں ۔دوسرا مانے یا نہ مانے ۔باقی رہی وہ عزیز داری جس کو اہل دنیا قرابت کہتے ہیں ۔اس کو قوم اور ذات اور مذہب اور طریق شرط ہے اور اس کے مراتب و مدارج ہیں(غالب نامہ:شیخ محمد اکرام۔غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی۔سن 2005ص320)
اور یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر غالبؔ نے نہ صرف1857کے غدر میں مرنے والے ہندوستانیوں کا ماتم کیا بلکہ بے گناہ انگریزوں کے مر نے پربھی اظہار افسوس کیا :
’’ یہ کوئی نہ سمجھے کہ میں اپنی بے رونقی اور تباہی کے غم میں مرتا ہوں۔جو دکھ مجھ کو ہے اس کا بیاں تو معلوم ،مگر اس بیان کی طرف اشارہ کرتا ہوں ۔انگریز کی قوم میں سے جو ان روسیاہ کالوں کے ہاتھوں سے قتل ہوئے ،اس میں کوئی میرا امید گاہ تھا اور کوئی میرا شفیق اور کوئی میرا دوست اور کوئی میرا یار اور کوئی میرا شاگرد ،ہندوستانیوں میں کچھ عزیز کچھ دوست ،کچھ شاگرد کچھ معشوق سو وہ سب کے سب خاک میں مل گئے ۔ایک عزیز کا ماتم کتنا سخت ہوتا ہے جو اتنے عزیزوں کا ماتم دار ہو ،اس کو زیشت کیوں کر نہ دشوار ہو ۔ہائے !ہائے اتنے یار مرے کہ جو اب میں مرونگا تو کوئی تو کوئی میرا رونے والا بھی نہ ہوگا (خطوط غالب : مرتبہ خلیق انجم(جلد اول )غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی۔سن 2011 ص 281
کیول دھیر اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انسان خطا و نسیان کا پُتلا ہے۔ وہ راہ راست سے بھٹک سکتا ہے ۔اس سے بھول چوک بھی ہو سکتی ہے۔ اس کو بس اس کے اس بھولے ہوئے سبق کو وقتاً فوقتاًیاد کرانے کی ضرورت ہے۔
اب ہم یہاں پر سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ ڈاکٹر کیول دھیر خود اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں کیا کہتے ہیںاس سلسلے میں ہم سب سے پہلے رئوف ظفر کو دیے گئے ان کے انٹرویو کا ایک مختصر سا اقتباس پیش کریں گے ۔وہ کہتے ہیں:
’’میں نے اپنی بیشتر کہانیوں میں فرقہ پرستی اور فسادات کو موضوع بنایا ہے ۔میری کہانیوں کے کردار عام انسان ہیں جو زندگی کے ترجمان ہیں ۔میں ہمیشہ علامت نگاری سے گریز کرتا ہوں کسی ادبی نظریے کا قائل نہیں بلکہ انسان دوستی پر میرا یقین ہے ۔میرے فن کی بنیاد مقصدیت پر ہے ۔اس لئے آپ کو میری کہانیوں میں انسانیت کی خوشبو اور نفسیات کا جادو ملے گا ،میرے نزدیک تحریر ہمیشہ وہی دلوں میں اترتی ہے جس میں مشتر کہ مٹی کی مہک ،پھولوں کی خوشبو اور کلیوں کی چٹک ہو۔ میں بنیادی طور پر رومانوی افسانہ نگار ہوں ۔لیکن تیز رفتاری سے بدلتے ہوئے ماحول میں معاشی،اقتصادی،تہذیبی سماجی اور سیاسی زندگی کے مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے ۔کوشش کرتا ہوں کہ میری کہانیاں عصری حالات سے ہم آہنگ ہوں‘‘۔(رئوف ظفر کو دیا گیا انٹرویو مطبوعہ روزنامہ جنگ لاہور بتاریخ 2 جون 2006 ۔بحوالہ:( ،ڈاکٹر کیول دھیر ادبی سفر کے پچاس برس: مرتب۔ مخمور سعیدی ،پروفیسر محمد زماں آزردہ،شین کاف نظام،دہلی 2007 ۔ص417 )
یہ تو تھا اپنی افسانہ نگاری کے بارے میں خودڈاکٹر کیول دھیر کا خیال ۔ اس سلسلے میں کوئی بھی بات اس وقت تک مستند (Authentic)نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ نہ دیکھا جائے کہ ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں ناقدین فن کیا رائے رکھتے ہیں۔اس ذیل میں داکٹر عبدالکریم خالد( پاکستان )رقمطراز ہیں:
’’ڈاکٹر کیول دھیر کی کہانی ایک متحرک اور سرگرم عمل کہانی ہے۔وہ کسی ایک جگہ پر سمٹی سمٹائی یا شرمائی لجائی نہیں ملے گی ۔وہ ہر جگہ ہر مقام پر موجود ہے اور ہر نوع کے احساس اور جذبے میں اترنے کا ہنر جانتی ہے۔اس کے لئے کسی منظقے یا علاقے کی قید نہیں وہ کسی رومان پرور فضا میںخوشبو اور رنگ بکھیر کر حسن ہزار شیوہ کا اہتمام کرتی ہے ۔محبت اور پیار کی سندرتا کو ماتھے پر سجائے دھیرج سے دل کی نبضوں پر اپنا گرم ہاتھ رکھتی ہے اور ایک پل میں ان قصوں کو جگا دیتی ہے جن میں مدھ بھرے گیتوں کی آواز بھی ہے اور دل کی دھڑکنوں کاساز بھی ۔پھر وہ بھیدوں بھرے ماحول میں زندگی کا ایک راز بن جاتی ہے جو سینوں کے اندر بھی ہے اور باہر بھی‘‘۔( ڈاکٹر کیول دھیر ادبی سفر کے پچاس برس: مرتب۔ مخمور سعیدی ،پروفیسر محمد زماں آزردہ،شین کاف نظام، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔ سن2007 ص87 )
اسی سے کچھ ملتا جلتا خیال کیول دھیر کی افسانہ نگاری کے بارے میں مشہور محقق پروفیسر گیان چند جین کا بھی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ ان کے افسانوں میں مجھے سب سے زیادہ جو بات پسند آئی ہے وہ یہ کہ ان میں کہانی پن موجود ہے، وہ انسانوں کی نفسیات کی گہرائی میں در آتے ہیں اور اپنے مثبت نقطہ نظر سے وسیع انسانی برادری کی وحدت کو ابھارتے ہیں اس طرح ان کے افسانے نفسیاتی مطالعہ اور سماجی مرقع نگاری دونوں کے اعتبار سے دل نواز ہیں‘‘( ،ڈاکٹر کیول دھیر ادبی سفر کے پچاس برس: مرتب۔ مخمور سعیدی ،پروفیسر محمد زماں آزردہ،شین کاف نظام، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔ سن2007 ص216 )
زیر نظر کہانی ’ ہم دونوں‘ اصل میں دوغیر منقسم بھارتیہ کی ہے ۔جس میں سے ایک ہندو اور ایک مسلمان ہے۔ ہندو جس کا نام کمل ہے اپنے بچپنے میں ڈاکٹربننا چاہتا ہے جبکہ مسلمان جس کا نام احمد ہے باپ کی مرضی کے برخلاف فوجی بننا چا ہتاہے ۔برخلاف اس لئے کہ احمد کا باپ جنگ عظیم کاخون خرابہ، قتل و غارت دیکھ چکاہے۔بہرحال ملک تقسیم ہو جاتا ہے احمد اپنے والد کے ساتھ نو نرمان دیش پاکستان چلا آتا ہے اور منٹگری میں رہا ئش پذیر ہوتا ہے اور اپنے بچپنے کے ارداے کے مطابق فوجی بن جاتا ہے۔ ادھر اس کا ہندوستانی دوست بھی اپنی خواہش کے مطابق ڈاکٹر بن کر یہاں کے ایک ملٹری ہسپتال کا چارج سنبھال لیتاہے ۔ کچھ ہی عرصہ بعد وہ پاکستانی جس کا نام احمد ہے، دونوں ملکوں کی جنگ کے سلسلے میں زخمی حالت میں گرفتار کرکے اسی ملٹری ہسپتال میںلایا جاتا ہے ۔ ہسپتال میں کمل کی نظر اپنے بچپن کے دوست احمد کے چہرے پر پڑتی ہے ، وہ تھوڑے ہی پش و پیش کے بعداس کوپہنچان لیتا ہے احمد بھی علاج کے بعد جب ہوش میں آتا ہے تو کمل کو پہنچان لیتا ہے ،پھر فوراً ہی یہ لوگ ایک دوسرے کو گلے سے لگا لیتے ہیں۔ دونوں روہانسے ہو جاتے ہیں ، دونوں ہی کی بچپن کی یادیں تا زہ ہوجاتی ہیں۔احمد کو اس بات کا جلد ہی احساس ہوجاتا ہے کہ وہ طاقت ور لوگوں کے آگے بے بس ہے اور یہ کہ وہ ان کا ہتھیار ہے۔ یہ تو رہی اس کہانی کی مختصر کہانی اس کے علاوہ بھی اس کہانی میں بہت کچھ ہے ،جو مکمل کہانی پڑھنے ہی سے تعلق رکھتا ہے۔
اس افسانے میں ا صل میںکیول دھیر نے عالمی امن و بھائی چارے کی اہمیت اور اور جنگ سے پیدا ہونے والی درد ناک صورت حال کو موضوع بنایا ہے ۔یہاں پراس ذیل میں سب سے پہلے متذکرہ افسانہ سے ایک مختصر سا اقتباس دیکھا جا سکتا ہے جو کہانی نویس نے احمد کے باپ کی زبان سے ادا کرایا ہے:
’’اس شہر پر شدید گولہ باری ہوئی جہاں وہ مقیم تھے ۔دیکھتے ہی دیکھتے بسا ہوا وہ خوبصورت شہرکھنڈر بن گیا ۔۔۔آگ اور دھوئیں کے بادل منڈلانے لگے میری ان آنکھوں نے بے شمار انسانوں کا لہو بہتے دیکھا ،عورتوں بچوں اور ان گنت زندگیوں کو ترپ تڑپ کر دم توڑتے دیکھا ۔جہاں بھی بم گرے ۔بے شمار زندگیاں لمحوں بھر میں تلف ہوگئیں۔۔۔۔تالابوں کا پانی خشک ہو گیا ۔۔۔۔نہرو ں کے بہتے پانی لہو سے لال ہوگئے۔۔۔۔ہر طرف چیخ پکار کی درد ناک آوازوں کا شور تھا ( بد چلن:ڈاکٹر کیول دھیر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔ سن2007 ص 104)
افسانے کا یہ پیراگراف بھی دیکھا جاسکتا ہے:
’’اس لئے جنگ سے مجھے شدید نفرت ہے ۔۔۔۔۔اس لئے جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔۔۔۔جنگ مسائل کو جنم دیتی ہے اس سے نفرت کی آگ دہکتی ہے ۔اس سے انسانیت قتل ہوتی ہے ۔۔۔۔میں نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا جنگ باز بنے۔۔۔چند لمحوں کے لئے وہ خاموش ہو گئے ۔ان کی آنکھوں میں آنسوتھے ’’تم ابھی بچے ہو شاید تم میری بات کو ابھی ٹھیک سے نہ سمجھ سکوگے ۔۔۔۔لیکن احمد !کیا تمہیں اپنی امی یاد نہیں آتیں ۔۔۔۔۔کیا معصوم فرید کا چہرہ تمہاری آنکھوں کا متلا شی نہیں ہوتا ۔ننھی معصوم فریدہ۔۔۔۔۔ ‘‘۔( بد چلن:ڈاکٹر کیول دھیر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔ سن2007 ص 247)
اس حقیقت سے کون نہیں واقف ہے کہ دوسری جنگ عظیم کی زد میں کم و بیش ایک ارب کے قریب لوگ آ گئے تھے۔ اسی جنگ میں ہی امریکہ نے جاپان کے شہرہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرادیا تھا،جس کے مہلک اثرات سے آج بھی وہ علاقے ابر نہیں پائے ہیں ۔ان شہروں میں پیدا ہونے والے بچے آج بھی کسی نہ کسی مہلک مرض کو لے کر ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ مظاہرہ آپ آگے بھی دیکھنا چاہتے ہیں تو فلسطین اور اسرائیل کے درمیان لڑی جانے والی جنگ پر ایک نظر ڈال سکتے ہیں یا پھر 1980 کے عشرے میں ایران اور عراق کے درمیان ہونے والی جنگ میں ایک دوسرے کا کچھ کم نقصان نہیں ہوا؟ حقیقت میں جنگیںحکمراںطبقہ اپنی انا کی تسکین کے لئے مسلط کرتے ہیں اور جن میںجانیں عام لوگوں کی جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جنگ کے نقصانات اور اس کی دہشت ناکی پر مختلف زبانوں کے لٹریچر میں بہت کچھ لکھا گیا ہے خود اردو زبان کا لٹریچر بھی اس سے خالی نہیںہے ۔ یہاںپر بطور خاص میںساحر لدھیانوی کی نظم ’اے شریف انسانو!‘۔۔۔۔ کے کچھ بندپیش کر رہا ہوں یہ نظم انہوں نے جنگ کے ہی پس منظر میں لکھی ہے، یہ نظم یہاں پر اس لئے بھی پیش کی جارہی ہے کہ خود ڈاکٹر کیول دھیر بھی ساحرلدھیانوی کے کچھ کم عاشق و شیدائی نہیںہیں؟نظم یہ ہے:
’’خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدانِ کشت وخوں ہی نہیں
حاصلِ زندگی خِرد بھی ہے
حاصلِ زندگی جنوں ہی نہیں
بڑا خلا رہے گا اگر اس افسانے میں پائے جانے والے ان حقائق(Fact) کاتجزیہ اور تخطیہ نہ کیا جائے ،جو دوران مطالعہ ہمارے دلوں کو چھوتے ہیں ۔
اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ ایک اچھا خاصا متحد ملک بھارت سیاسی تفرقہ بازیوں کی وجہ سے منقسم ہو کر رہ گیاجس کی وجہ سے دوست ،دوست اور بھائی بھائی ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ہزاروں کی جانیں تلف ہوئیں ، جس پر دونوں ملکوں کے دانش ور وں کاطبقہ آج بھی کف افسوس مل رہا ہے۔خود آزاد بھارت کے پہلے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کو بھی اس تقسیم پر سخت افسوس تھا۔ انہوں نے 29دسمبر1947 کو مہرولی میں ایک لائبریری کا افتتاح کرتے ہوئے ایک بڑے مجمع کے سامنے تقریر کرتے ہوئے کہا:
’’ اس قریہ میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی ۔وہ سب چھوڑ کر چلے گئے اور یہی حال خاص شہر دہلی کا ہورہا ہے ۔یہ صورت نہایت افسوس ناک ہے اس سے دنیا کے سارے ملکوں میں ہندوستاں بدنام ہورہا ہے۔وہ کہتے ہیں ہندوستان اپنے گھر کو بھی سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔آپ کوشش کیجئے کہ ایسی فضا پیدا ہوجائے جس میں ہر مسلمان اپنے کو محفوظ خیال کرنے لگے‘‘(صدق جدید ،لکھنئو9جنوری 1948ء)
کیول دھیر نے اس طر ف متذکرہ افسانے میں بڑی چابک دستی سے اشارہ کیا ہے:
’’پھر اچانک انسان اور انسان کے درمیان کی لکیریں ابھر کر خلیج بن گئیں ۔آزادی اور بٹوارے کی آڑ میں انسانوں کو بانٹ دیا گیا ۔۔۔۔۔بھائی کو بھائی سے جدا کردیا گیا ۔۔۔۔۔اور ملک تقسیم ہو گیا۔ اب ہم سرحد کے اس طرف تھے اور احمد کا گھرانہ سرحد کے دوسری طرف !بٹوارے نے خاندان کو بانٹ دیے ،زمین بانٹ دی لیکن دلوں کے رشتے ٹوٹے نہیں ۔‘‘( ( بد چلن:ڈاکٹر کیول دھیر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔ سن2007 ص 247)
پھر یہی نہیں ان ناعاقبت اندیش سیاست دانوں کی نا اہلی کی وجہ سے کچھ ہی دنوں بعد دونوں دیشوں کے درمیان جنگ کا بگل بج گیا ۔ہم میںسے ہر کوئی جانتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے جنگ کی حولناکی سے ہر کوئی واقف ہے ۔بلکہ اس سے مسائل ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یہی نہیں کہ جس ملک پر حملہ ہوتا ہے وہی تباہ و برباد ہوتا ہے ۔ بلکہ بزعم خود ،خود کو فاتح سمجھنے والا ملک بھی معاشی اعتبار سے تاراج ہوکر رہ جاتا ہے اور یہی نہیں جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے یہ جنگیںآنے والی نسلوں کے لئے بھی مسائل پیدا کردیتی ہیں۔
دوران جنگ ایک جگہ جو خاص طور سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے، وہ ہے ملک کا ہسپتال اس میں بھی خاص طور سے فوجی ہسپتال جہاں پر فوجی زخمی ہو کر آتے ہیں ۔ایسے ہی ایک ہسپتال کا نقشہ کیول دھیر نے اپنے نوک قلم سے کھینچاہے جہاں پر ہو کا عالم ہے:
’چاروں طرف ہو کا عالم تھا ۔گہرا سنّاٹا اور موت کی سی ویرانی!مدھم مردہ سی روشنی ایمرجنسی وارڈ میں چاروں طرف یوں پھیل گئی تھی جیسے موت کے سائے دھیرے دھیرے اپنا آنچل پھیلا رہے ہوں۔سنّاٹے کو توڑتی ہوئی وہی جانی پہچانی سی آوازیں بار بار ابھرتیں اور ہر بارذہن پر ہتھوڑے کی چوٹ پہنچا کر دب جاتیں ۔دل پر نشتر جیسی چبھن کا احساس ہوتا اور جسم کانپ کانپ جاتا ۔نگاہیں اٹھتیں ،گول دائروں کی مانند گر د و پیش کا جائزہ لے کر لوٹ آتیں۔دل کا درد ٹیس بن کر سسک اٹھتا ۔آوازیں کبھی ابھرتیں کبھی دب سی جاتیں لیکن خاموش کبھی نہیں ہوتیں ۔ان کے علاوہ چند اور آوازیں بھی کانوں میں پڑتیں ،ڈاکٹر کی آواز ۔۔۔۔نرس کی آواز ۔۔۔۔۔اوزاروں اور شیشیوں کے ٹکرانے کی آواز ۔۔۔۔۔لیکن ہر آواز میں سلگتا ہوا درد چھپا ہوتا ۔ہر آواز میں نشتر کی سی چبھن کا احساس پنہاں ہوتا ۔۔۔۔۔!( بد چلن:ڈاکٹر کیول دھیر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔ سن2007 ۔ص 243)
اب ہماری توجہ افسانے کے اس خاص حصے کی طرف ہوتی ہے ہم جہاں یہ دیکھا یہ گیا کہ اگر آدمی ایک مرتبہ کسی سے خلوص دل سے مل لے پھر اس سے چاہے کتنی ہی مدت ، کے بعد ہی کیوں نہ ملاقات ہو آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے میں دیر نہیں لگتی ہے یہی کچھ احمد اور اس ہسپتال کے مڈیکل افسر ڈاکٹر کمل جو دونوں بچپن کے دوست تھے کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جس کی طرف افسانہ نگار نے ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے:
’’بات کل کی ہے جب میں اپنے وارڈ میں داخل ہوا تو میری نظریں ایک نئے لیکن بے حد مانوس سے چہرے پر رک گئیں۔اس چہرے نے میرے قدموں کو جکڑ لیا میں نے دل کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بعض چہرے یوں ہی جانے پہچانے لگتے ہیں لیکن من مانا نہیں ۔میرے اور اس کے درمیان محض چند گز کا فاصلہ تھا ۔میں دیکھ رہا تھا کہ مریض کی حالت تشویشناک ہے ۔نیم بے ہوشی کی حالت میں درد کی شدت سے وہ کراہ رہا تھا ۔اس زخمی پر ابھر آئی کرب کی لکیریں میرے دل کو جیسے چیر رہی تھیں۔میں زیادہ دیر تک وہاں کھڑا نہیںرہ سکا اور مریض کی جانب بڑھ آیا لیکن میرا ذہن الجھ گیا تھا ۔وہ نیا چہرہ میرے ذہن کے دریچوں میں سما جانے کی کوشش کر ہا تھا ( بد چلن:ڈاکٹر کیول دھیر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔ سن2007 ص 244)
بے شمارتحریری معاہدوں کے باوجود بھی فی زمانہ یہ دیکھا گیا ہے کہ دو ملکوں کی جنگوں کے درمیان جو فوجی گرفتار ہوکر یا زخمی ہوکر ایک دوسرے کے ملک پہنچتے ہیں ،اس کے ساتھ بڑا ہی وحشیانہ رویہ روا رکھاجاتا ہے۔ ان کو یا تو فوراً ہی تہ تیغ کردیا جاتا ہے یا پھرکسی اندھیری کال کوٹھری میں عمر بھر کے لئے تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔
اس ملٹری ہسپتال میں جس کا ذکر اوپر آچکا ہے بلا استثنا اپنے اور دشمن کے فوجی لائے جارہے ہیں۔ دشمن کے فوجیوں کو فرسٹ ایڈ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ بعد میں ان پر تفصیلی توجہ صرف کی جائے گی۔اور پہلے اپنے فوجیوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔ ہسپتال کے اس میڈیکل افسر کمل کو اپنے جونیئر ڈاکٹر کا یہ رویہ پسند نہیں آتا ہے۔وہ ان کو سمجھاتا ہے کہ ڈاکٹری کوئی پیشہ نہیں بلکہ بلا تفریق غیر انسانیت کی سیوا ہے۔ جو بھی گرفتار ہوکر آتے ہیں وہ بے بس ہوتے ہیں ،ہماری سیوا کے محتاج ہیں۔ افسانہ نگار کے قلم سے نکلے یہ جملے دیکھیں:
’’یہ ہسپتال ہے ڈاکٹر !یہاں کوئی کسی کا دشمن نہیں ہے ۔زخمی ہونے والے سبھی جوان انسان ہیں ۔۔۔۔۔بیشک ان کا تعلق کسی بھی ملک سے ہو ! یہاں سبھی کے ساتھ برابر کا سلوک ہونا چاہیے۔ ‘‘ڈاکٹر گورپال کے جواب نے میرے جذبوں کو دکھ پہنچایا تھا اور میرا لہجہ مزید تلخ ہو گیا تھا ۔۔۔۔لیکن فوراً ہی میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر گورپال پر میری بات نا گوار گزری ہے۔۔۔۔اپنے لہجے کی تلخی کو کم کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ ۔۔۔۔’’ آپ ابھی نئے ہیں ۔۔۔۔ڈاکٹری کوئی پیشہ نہیں ۔انسانی خدمت کے جذبے کا ایک مقدس نام ہے ۔۔۔۔انسانیت کے لئے ایک اہم فرض ہے ۔ہمیں اپنے دلوں میں کبھی بھی ایسے کسی جذبے کو جگہ نہیں دینی چاہیے جو انسان اور انسان کے درمیان تفریق پیدا کرے ۔۔۔۔۔یہ جوان جو محاذ جنگ پر زخمی ہوئے ہیں اس وقت بے بسی کی حالت میں ہیں اور ان کی حیثیت ہمارے لئے بہادر انسانوں جیسی ہے ۔امید ہے کہ آپ برا نہ مانیں گے ۔۔۔۔!‘‘اور میں نے ڈاکٹر گوپال کے کندھے پرپیار سے تھپکی دیتے ہوئے فوراً بائیس نمبر مریض کو اٹینڈ کرنے کی ہدایت کی۔ ( بد چلن:ڈاکٹر کیول دھیر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔ سن2007 ص 245)
دوران علاج احمد کمل کو پہچان لیتا ہے،وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتا اوربے تہاشا بڑبڑانے لگتا ہے:
’’تمہاری باتیں،تمہارا محبت بھرا لمس ،تمہاری آواز۔۔۔۔میرے ذہن میں پرانی یادیں امڈ آئی ہیں ۔۔۔۔میری آنکھیں تمہیں دیکھ نہیںرہی ہیں لیکن میرے احساس کی نظروں نے تمہیں پہچان لیا ہے۔۔۔۔تم کمل ہو۔۔۔۔میرے دوست ۔۔۔۔میرے بھائی ۔۔۔۔!یاد ہے ،میں نے ایک بار کہا تھا کہ تم ڈاکٹر بن جائو گے تو میں زخمی ہوکر تم سے ہی علاج کروائوں گا ۔اپنے تیز نشتروں سے مجھے تکلیف مت پہنچانا۔ دیکھو کمل تمہارا احمد تمہارے پاس زخمی ہوکر علاج کرانے چلا آیا ہے۔۔۔۔۔!‘‘ ( بد چلن:ڈاکٹر کیول دھیر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی۔ سن2007 ۔ص 251)
کہانی کے آخر میںافسانہ نگار نے احمد کی زبان سے اس طرف بھی اشارہ کرایا کہ جنگیں اصل میں خود غرض اور انا پرست حکمرانوں کو ان کی انا کی تسکین کا ساماں بہم پہنچاتی ہیں۔فوجی ہی کیا کوئی عام آدمی بھی نہیں چاہتا ہے کہ جنگ ہو اور وہ اپنے ہاتھ پائوں کٹائے اور اس کا بسا بسایا گھر بار اجڑے مگر۔ وہ اپنے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے سامنے مجبور ہوتے ہیں۔افسانہ نگار کی قلم سے اداکرائے گئے یہ جملے دیکھیں:
’’میری آنکھوں نے دیکھا ،احمد کی آنکھوں سے آنسوئوں کے دو موٹے قطرے پھسلے اور رخساروں پر آڑی ترچھی لکیروں کے نشان چھوڑ کر نیچے لڑھک گئے ۔وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں جیسے بڑبڑایا۔۔۔۔۔خودکشی کا کتنا غلط طریقہ میں نے چنا ۔چند روز قبل جنگ کے دیو نے میرے ابا کی زندگی چھین لی۔میں دل برداشتہ ہوکر خود بھی اس دیو کے جبڑوں میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔کسی سے بدلہ لینے کے لئے نہیں بلکہ اپنی اکیلی زندگی کو ختم کرنے کے لئے ۔!‘‘
اس کہانی پر اس سے قبل بھی ناقدین فن نے بہت کچھ لکھا ہے۔ میں یہاں پر مانک ٹالاکے مضمون’’ تخلیقی ادب کا نباض ‘‘سے ایک مختصر سا اقتباس پیش کرکے آگے بڑھتا ہوں ۔اقتباس یہ ہے:
’’ہم دونوں‘‘ان دو ملکوں کی جنگ کی کہانی ہے جو کچھ عرصہ پہلے ایک تھے ۔سرحدوں پرعلیحدگی کی لکیر کھینچ دی گئی ،لیکن دونوں میںعلیحدگی اور نفرت کی کوئی لکیر نہیں تھی ۔ہندو مسلمان بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے اور ایک کے پسینے پر اپنا خون تک بہانے کو تیار ہو جاتے تھے لیکن سیاسی دائوں پیچ نے ان کے دلوں میں کینہ و بغض بھر دیا اور دلوں میں بھی خون کی لکیر کھینچنے لگ گئے ۔تاہم اس کہانی نے ملٹری کے ایک ایسے ڈاکٹر کا مثالی کردار پیش کیا ہے جو ڈاکٹر کیول دھیر کا اپنا کردار بھی ہو سکتا ہے ۔دشمن ملک کے ایک جاں بہ لب زخمی سپاہی کو موت کے منہ سے بچانے کے لئے وہ’درد کی سولی‘پر لٹک کر اپنے پیشے کی آبرو بچا لیتا ہے ‘‘۔( ،ڈاکٹر کیول دھیر ادبی سفر کے پچاس برس: مرتب۔ مخمور سعیدی ،پروفیسر محمد زماں آزردہ،شین کاف نظام، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی سن 2007 ص 109)
یہ تو تھا اس افسانہ ہم دونوں کا مختصر سا تجزیہ ۔
آخر میںیہ بھی ضروری محسوس ہوتا کہ زبان و بیان کے لحاظ سے بھی اس افسانے پر ایک نظر ڈال لی جائے۔
ادب میںالفاظ کی اہمیت زیادہ ہے یا معانی کی اس سلسلے میں ناقدین فن مختلف الرائے ہیں۔
’مقدمہ شعر و شاعری ‘کے مصنف مولانا الطاف حسین حالی معانی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، وہیں مولاناشبلی کی توجہ لفظ کی طرف زیادہ ہے۔ ان کے نزدیک مواد سے زیادہ اہم اسلوب ہے ۔اور یہی کچھ کہنا ہے افسانے کے سلسلے میں افسانوی ادب کے عظیم خالق رام لا ل کا بھی :
’’کوئی بھی کامیاب افسانہ اس لئے کامیاب نہیں سمجھا جاتا کہ اس میں کوئی بہت ہی دلچسپ واقعہ یا انوکھا فلسفیانہ نقطہ نظر موجود ہو یا اسے بے حد مرصع زبان میں بیان کیا گیا ہو اگرچہ کامیاب افسانہ نگار کے لئے یہ جملہ لوازمات بھی ضروری ہو سکتے ہیں، لیکن کامیابی کے لئے صرف یہی لوازمات کافی نہیں ہوتے ۔میرے نزدیک ایک کامیاب افسانے کے لئے اچھے طرز بیان کا التزام بھی یقینا ہونا چاہیے ۔موضوع طرز بیان اور زبان کے جملہ محاسن کا امتزاج ہی افسانے کی فنی تکمیل کا ضامن ہوتا ہے ‘‘(ڈاکٹر کیول دھیر ادبی سفر کے پچاس برس: مرتب۔ مخمور سعیدی ،پروفیسر محمد زماں آزردہ،شین کاف نظام، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی سن 2007 ص 228)
جہاں تک ڈاکٹر کیول دھیر کا سوال ہے تو وہ اپنے افسانوں میںاہم موضوعات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ و ارفع اسلوب کا بھی اہتمام کرتے ہیں،جس میں جوش ، روانی موجزن ہوتی ہے ،یہ نا ممکن ہے کہ آدمی کیول دھیر کا افسانہ شروع کرے اور ختم ہونے سے پہلے چھوڑدے۔ کیول دھیر کی کہانیاں بہت کچھ مشہور یونانی نقاد لون جائی نس جس نے ادب میں’ عظمت‘ کا تصور پیش کیا تھا اس کے خیال سے لگّا کھاتی ہیں ۔ اس نے کہا تھا۔بقول نور الحسن نقوی:
’ ’عظیم خیال کو عمدہ الفاظ میں پیش کرنے ہی سے اعلیٰ درجے کا ادب وجود میںآتا ہے جو نہ کسی خاص زمانے کے لئے ہوتا ہے اور نہ کچھ خاص لوگوں کے لئے۔وہ ہر دور اور ہر شخص کے لئے ایک کشش رکھتا ہے ۔دوسرے لفظوں میں یہی وہ ادب ہے جو آفاقی ہوتا ہے (فن تنقید اور اردو تنقید نگاری :نور الحسن نقوی ۔ایجو کیشنل بک ہائوس علی گڑھ ۔سن اشاعت2013 ص78)
میں اپنی ان باتوں کوپروفیسر قیصر نجفی کے اس اقتباس پر ختم کر رہا ہوں وہ اپنے مضمون ’کیول دھیر فن اور شخصیت‘ میں رقمطراز ہیں :
’’ کیول دھیر کے اسلوب بیان کی تحسین نہ کرنا بھی ناانصافی ہوگی ۔ہمیں یہ اعتراف کرنے میں تامل نہیں ہے کہ اسلوبیاتی سطح پر بھی دھیر صاحب انفرادیت بکنار ہیں۔ان کی لفظیات ،جملے ،مکالمے انہی سے منسوب کئے جا سکتے ہیں ۔سراپا نگاری میں تو وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ان کے انداز نگارش کا سب سے اہم پہلو یہ کہ وہ موضوع ،موقع محل اور ماحول کے مطابق لفظ و بیان کا انتخاب کرتے ہیں۔ان کے مکالموں کی تاثیریت کا بھی یہی راز ہے ۔وہ جب کسی موضوع پر خیال آرائی کرنے لگتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے ،جیسے الفاظ کے سمندر کا بند ٹوٹ گیا ہے ،جذبات نگاری میں تو ان کا کوئی ثانی نہیں ‘‘( ،ڈاکٹر کیول دھیر ادبی سفر کے پچاس برس: مرتب۔ مخمور سعیدی ،پروفیسر محمد زماں آزردہ،شین کاف نظام، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس ،دہلی سن 2007ص 104)