ہمارے ڈاکٹر ابرار اعظمی صاحب

0
123

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

حکیم وسیم احمد اعظمی

صاحب[ولادت:5؍فروری1936ء —وفات: 7؍اپریل 2020ء]ء بھی رخت سفر باندھ چلے۔ان سے آخری باربات شاید18؍ مارچ کو ہوئی تھی۔ انہوں نے ہی یاد کیا تھا۔ وہی بے حد اپنائیت والا ،دل میں اندرون تک سما جانے والا لہجہ : وسیم! سن رہے ہونا؟وہ اپنے خُردوں کے لیے کس قدر فکر مند رہا کرتے تھے۔جب بھی فون کرتے ، آدھے گھنٹہ سے کم بات نہ ہوتی۔گھر کے ایک ایک فردکی خیرت معلوم کرتے،حالاں کہ میری اہلیہ اور بڑے بیٹے ہی اُن سے نیاز حاصل کر سکے تھے،باقی سے غائبانہ تعارف تھا، لیکن شفقت سب پر تھی،البتہ بڑے بیٹے کے حال احوال سے زیادہ دلچسپی تھی،کہ دونوں علیگ ٹھہرے۔گفتگو کے آخر میں سب کو سلام پہنچانے کی تاکید کرتے ،اہلیہ سے خاص طور پر۔
میراگاؤں روضہ صیفن پٹی ہے اور اُن کا خالص پور، میںاُن کا پڑوسی ، دونوں گاؤں کا سیوان ایک، کھیت ایک دوسرے سے ملے ہوئے،لیکن ہماری ملاقات محض تین سال پُرانی تھی۔ 1980ء میں ایک اُن کے ڈگری کالج ،مالٹاری گیا تھا،اہلیہ کا بی اے کا سنٹر انہی کے کالج میں تھا۔ اُن کے نام کی تختی اردو میںدیکھ کر مسرت اور حیرت کی ملی جلی کیفیت سے دوچار ہو تھااورمنظر بطون دماغ میں ایسا محفوظ رہا کہ جب بھی کسی مجلہ میں اُن کی کوئی تحریر دیکھتا،ڈاکٹر صاحب کی اردو میں نام والی تختی نظروں کے سامنے گھوم جاتی۔وقت کے پہیئے پربھلا کس کا بس ہے،پہیا بس گھومتا رہتا ہے۔ہمیںکارہائے دنیا نے ایسا جکڑاکہ اعظم گڑھ گویا یاد ِ ماضی بن کے رہ گیا،اور پھرجیسے پلک جھپکتے ہی1980ء ، 2016ء میں بدل گیا ۔کبھی کارہائے دنیا نمی گزارند کا شکوہ تھا اور کہاں اب ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے کا رونا تھا۔ سال میں دو چار چکّراب اعظم گڑھ کے بھی لگنے لگے تھے ۔ملازمت سے سبک دوشی کے بعد اردو ادب سے بھی رسم و راہ بڑھنے گی تھی۔شبلیؒ کو پڑھنے کی وجہ سے ڈاکٹر الیاس الاعظمی سے رابطہ ہوا،ان کی نظر التفات نے ڈھیروں کتابوں سے نوازا، ڈاکٹر ابرار اعظمی صاحب کی ایک ’غبار شیشۂ ساعت‘ بھی عطاہوئی اوراردو میں نام کی وہی تختی پھر بطون دماغ سے جھانک گئی۔ ڈاکٹر الیاس الاعظمی سے ان کا رابطہ نمبر لیا،سنا تھا کہ وہ گورکھپور کے میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج میںمشہور نقاد شمس الرحمن فاروقی کے ہم درس رہے ہیں ۔ فوراًگوگل پر شمس الرحمن فاروقی صاحب کو سرچ کیا۔ان کی ایک تحریر ’ میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج گورکھ پور پور کی کچھ یادیں‘حاصل ہوگئی ۔اس میں ڈاکٹر ابرار اعظمی کے بارے میں تحریر تھا:
’’ ابرار حسین خاں خود کو بہت لیے دیئے رہنے والے۔نہایت ذہین اور شعر ِ فہم،لیکن جلد پریشان ہوجانے والے۔میرے قریب ترین دوست تھے۔وہ گورکھ پو سے علی گڑھ گئے ،پھر انہوں نے تعلیمات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔شاعری میں ابرار اعظمیکے نام سے نام کمایا۔اب وظیفہ یاب ہوکر اپنے گاؤں خالص پور، ضلع اعظم گڑھ میںرہتے ہیں۔ان کے ساتھ ہمارا گھر کا سا آناجانا ہے،اب بھی ہے‘‘۔
اور اظہارتعلق کے بعد اُن کی تاریخ ولادت دیکھ کر اپنے ڈاکٹر ابرار اعظمی صاحب کی عمرکا تخمینہ لگایا اور —پھر متردد ہوا کہ کس وقت بات کروں؟ وہ عمر کے بیاسیویںپڑاؤ میں ہیں،ان کے معمولات کا تو پتہ نہیں؟ پھر ایک دن ہمت جٹا کر ساڑھے گیارہ بجے دن میں فون کرہی لیا۔السلام علیکم !،اُدھر سے متجسس آواز میں ’ وعلیکم السلام ‘ کہا گیا ۔اور پھر میں نے پڑوسی گاؤں کے حوالہ سے بات آگے بڑھائی۔میرے اہل خاندان سے وہ واقف تھے۔بمشکل چند منٹ بات ہوسکی۔ حکم ہوا! جب بھی گاؤں آئیں ،ضرور ملیں،لیکن پہلے فون کرلیں۔ اور نہ جانے کب’آپ‘ ’کا تکلف ’تم‘ کی حلاوتوں میں ڈوب گیا ۔اب جب کہ خود ہم بھی عمر کے اس مرحلے میں ہیں، جہاں ’تم‘ کہنے والے اب شاذ ہیں،شمار کریں تو ایک ہاتھ کی انگلیاں بھی نہ بھر پائیں۔وقت نے ہمیں بھی ’ آپ‘ بنا دیا ہے اور اِس ’تم‘ نے گویا سماعت میں حلاوت ہی گھول دی تھی۔اس رابطہ کے چار چھ مہینے بعد جب ایک تقریب میں اعظم گڑھ جانا ہوا تو اپنے بڑے بیٹے کو بھی ساتھ لیتا گیا ۔انہوں نے بڑی محبت کا معاملہ فرمایا، دنیا جہاں کی باتیں کیں اور خوب کیں۔بعد میں تو خوب باتیں ہوتیں اور دونوں کی گراں گوشی بڑا لطف دیتی ۔ذیابیطش کی وجہ سے میں ابھی تازہ تازہ گراں گوش ہوا تھا اوروہ اس میں بھی میرے سینئر تھے۔ ان کی باتیں شمس الرحمن فاروقی ،مولانا طاہر مدنی اور ڈاکٹر الیاس الاعظمی کے ذکر کے بعد ہی مکمل ہوتی تھیں۔کم و زیادہ ترتیب بھی یہی رہتی تھی۔میں نے ان کی خدمت میں اپنی تین کتابیں،زکریا رازی: احوال و آثار،مطالعۂ مخطوطات: طب یونانی کے خصوصی حوالے سے اور احادیث نبوی میں پھلوں کا تذکرہ [دونسخے] پیش کیں،کتابیں اُلٹ پلٹ کردیکھیں اور فرمایا! اس کے دو نسخے کیوں؟ میں نے عرض کیا،دو کہاں؟ یہ تو دو الگ الگ کتابیں ہیں’ احادیث نبوی میں سبزیوں کا تذکرہ‘ اور’ احادیث نبوی میں پھلوں کا تذکرہ ‘۔ گویا ہوئے،یہاں توپھل ہی پھل ہیں،سبزیاں غائب ہیں جی!۔کچھ دنوں بعد حکم ہواکہ’ سبزیوں کا تذکرہ‘ والی کتاب بھیج دینا اور ہاں! اپنی بیت الحکمت کی طبّی خدمات بھی ،دیکھوں اُس میں کیا لکھا ہے تم نے۔پھر زرہ محبت میری تینوں کتابوں پر اپنی بیش قدرآراء سپرد قلم کیں اور ساتھ کے مکتوب میں تحریرتھا :
خالص پور
اعظم گڑھ۔276138
11؍ اکتوبر2018ء
برادر عزیز! وسیم صاحب
السلام علیکم
نہ جانے آپ کی شخصیت میں کیا کشش تھی کہ باوجود شدید علالت کے ،لیٹے، بیٹھے، یہ مضمون لکھ ڈالا۔بہر حال جیسا کچھ ہے، بھیج رہا ہوں۔ غالباً آپ اسے ٹائپ کرائیں گے اور کسی جگہ اشاعت کے لیے بھیجیں گے۔ ہاں ٹائپ شدہ ایک کاپی اور ایک نسخہ بیت الحکمت کا، بذریعہ ڈاک بھیج دیں،دیکھنے کا اشتیاق ہے۔مضمون چھپ جائے تو وہ بھی بھیج دیجئے گا۔ممنون ہوں گا۔
والسلام
خاکسار
ابرار اعظمی
خط میں ’آپ‘ وہ بھی تکرار کے ساتھ،اور ’خاکسار‘ —میں نے اعتراض درج کرایا تو فرمایا: اچھا بھائی !سن لیا۔دس پندرہ دن میں ہی ’ بیت الحکمت ‘ پڑھ لیا اور فرمایا! تم نے تو اپنا ذاتی نسخہ بھیج دیا ہے۔میں نے عرض کیا: یہی ایک بچا تھا،فرمایا!جب اِدھر آنا تو مجھ سے ضرورلے لینا ۔تمہارے اس کا تمہارے پاس رہنا ضروری ہے اور جب میں ایک تقریب میں اعظم گڑھ گیا اوران کی خدمت میں حاضر ہواتو فوراً وہ نسخہ میرے حوالہ کردیا اور زرہ لطف و کرم اپنی کچھ کتابیں بھی عنایت کیں۔ میری تینوں کتابوں پر ان کی وہ تحریر ’’سہ ماہی تخلیق و تحقیق ‘ مئو ناتھ بھنجن میں شائع ہوئی۔اس سے قبل کمپوز شدہ مضمون بھی ان کی خدمت میں بھیج دیا تھاتاکہ وہ کچھ حذف واضافہ کرنا چاہیں تو کرلیں ۔اِدھراپنی دو کتابیں ’خوش نویسان طب‘ اور ’ وفیات اطبّاء ہند و پاک[جلد اول ،حصۂ اول] اور ایک پرانے تقاضے والی کتاب ’ احادیث نبوی میں سبزیوں کا تذکرہ‘ اپنے ایک عزیز کے ہاتھوں بھجوائی تو بہت خوش ہوئے تھے اور اپنے چند رسالے میرے لیے بھجوائے تھے ۔ محض اُن کی اپنی اصاغر نوازی تھی کہ وہ میری تحریریں پسند کرتے تھے۔ایک بار فرمانے لگے: تم بہت اچھی نثر لکھتے ہو،وہ بھی طبّی موضوعات پر،شکر ہے کہ تم مولوی نہیں ہو جی، اسی وجہ سے اچھا لکھتے ہو!ورنہ آج کے مولوی تو پتہ نہیں کون سی زبان لکھتے ہیں۔اب بھلا میں انہیں کیسے بتاتاکہ میں اُم المدارس دار العلوم دیوبند کا پڑھا ہواہوں،البتہ کڑھا ہونے کا سلیقہ نہیں آیا،یا پھرطبیعت ادھر آئی۔مجھے اندیشہ تھا کہ’وفیات اطبّاء ہند و پاک ‘ کی زبان سے وہ مایوس ہوں گے۔اس کتاب کا انہوں نے ذکر نہیں کیا، شاید وہ اسے سرسری طور پر بھی نہیں دیکھ سکے تھے۔البتہ’ احادیث نبوی میں سبزیوں کا تذکرہ ‘ پڑھ ڈالی تھی،کیوں کہ اس موضوع سے ان کو دلچسپی تھی۔ ’وفیات اطبّاء ہند و پاک ‘ کے لیے حکیم محمد ایوب بلریا گنجیؒ کے حوالہ سے کچھ باتیں اُنہوں نے تاکید کرکے شامل کرنے ے لیے کہی تھیں،میرے تردد کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ میرے حوالے سے لکھ دینا، دیکھو لکھنا ضرور !لیکن میں ایسا نہیںکرسکا۔وہ حکیم محمد ایوب بلریا گنجیؒ کے قدر دانوں میں تھے اور ان کے مفادات کے تحفظ کو اوّلیت اور اُن کی دینی،فلاحی اور سماجی خدمات کے بے حد معترف اور مداح تھے ۔’وفیات اطبّاء ہند و پاک ‘ بھیجتے وقت مجھے ندامت کا احساس تھا کہ میں وہ سب کچھ نہیں لکھ سکا تھا۔خیر سے انہوں نے پڑھا ہی نہیں،کہ وہ اب بے حد نحیف ہوگئے تھے،قویٰ میں بھی اعتدال نہیں رہا تھا۔گزشتہ چار مہینے کا زیادہ عرصہ علالت اور کم طاقتی میںگزرا تھا ۔اس سال سردیاں بھی شدت کی تھیں اورسلسلہ بھی دراز رہا تھا،جس کی وجہ سے انہیں دشواریاں بھی کچھ زیادہ ر ہی تھیں۔جب بھی فون پر بات ہوتی، صحت کا ذکر ہوتا ،تو اللہ کاشکر ادا کرتے اور فرماتے ! ٹھیک ہوں جی۔ اس عمر میں یہ سب تو لگا ہی رہتا ہے۔ اِدھرعزیزی شہاب ابرار نے انہیں نیا سل فون لادیا تھا،جس کو باعمل بنانے میں وہ اپنے پوتے کی مدد لیتے تھے۔ اس سے ایک بار ویڈیو کال بھی کی تھی،بہت خوش تھے، سامنے بیٹھا دیکھ کر،کہا:وسیم !یہ تو بہت اچھی چیز ہے،لیکن میں اِسے ہینڈل نہیں کرپاتا،مدد لینی پڑتی ہے۔میں نے عرض کیا: سیکھ جائیں گے۔فرمایا: ’چھوڑو جی‘ ۔
اِدھرملک کے حالات اور مولانا طاہر مدنی صاحب کی حراست سے بے حد ملول تھے اور جب بھی بات ہوتی ،ان کا ذکر بڑی شدت سے کرتے ۔ اپنے مضامین کا مجموعہ کمپوز کرانے کے لیے کا اُن کو دیا تھا ۔مسودہ کمپوز بھی ہوچکا تھا۔آخری گفتگو میں اس کا فائنل پروف دیکھ لیے جانے کی بھی اطلاع دی تھی۔اس کا نام بھی بتایا تھا اور یہ بھی فرمایا تھاکہ اس کا انتساب ڈاکٹر الیاس اعظمی کے نام کیا ہے ۔چند جملوں کا وہ انتساب پڑھ کر سنایا بھی تھا۔وہ اپنے علمی سفر کی داستان بھی تقریباً مکمل کرچکے تھے۔اس داستان کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں اپنے اساتذہ کے حوالہ سے باتیں کی گئی ہیں ۔بس کسی ایک استاد کا ذکر باقی رہ گیا تھا او رقلم دم لینے کے لیے ذر ارُکاتھا کہ پھر ہمیشہ کے لیے رُک گیا،بالکل خاموش ہوگیااور پھر روشنی اپنی تکان مٹانے کہیںدور چلی گئی۔انا للہ وانا الیہ راجعون!
ڈاکٹر ابرار اعظمی بڑی اچھی شاعری کرتے تھے،جدید لب ولہجہ کے نمائندہ شاعروں میں شمار تھے،شب خوں اور دوسرے رسائل میں چھپتے تھے۔اردو کی نئی کالونیوں میں خوب پڑھے جاتے تھے۔غالباًان کا آخری کلام گزشتہ سال کے اواخر میں معارف اعظم گڑھ میں شائع ہوا تھا۔وہ نثر بھی خوب صورت لکھتے تھے۔الفاظ کی حرمت کا پاس کوئی ان سے سیکھے۔ ان کی آخری نثر اپنے ہمدم دیرینہ، حبیب لبیب شمس الرحمن فاروقی پر تھی ،جوغالب انسٹی ٹیوٹ،نئی دہلی کی طرف سے شائع کتاب ’ شمس الرحمن فاروقی : ادیب و دانشور‘میں شامل تھی۔ میں اُن دنوں ایک ذاتی کام سے دہلی گیا تھا۔حکم ہوا کہ اس کتاب کا ایک نسخہ میرے لیے لے لینا،پھر دوسرے دن بعد فون آیا کہ اس ادارہ نے’ آتھر کاپی‘ بھیج دی ہے،اب نہ لینا۔وہ تین شعری مجموعوں کے خالق و مالک تھے،جوہر ِ آئینہ،پرستش وعقیدت اور غبار ِ شیشۂ ساعت۔مجھے جوکئی کتابیں عنایت کی تھیں ان میں خلاصہ شمائل ترمذی اور نثر پارے بھی شامل تھے ۔ڈاکٹر محمدالیاس الاعظمی کی تحریر سے پتہ چلا کہ ان کے افسانوں کامجموعہ ’ ایک رات اور دوسرے افسانے‘بھی شائع ہوا تھا اوراپنے دوست شمس الرحمن فاروقی کی بعض نادر تحریریں مرتب کرکے ’ باز یافت‘ کے نام سے شائع کرائی تھیں۔
ہمارے ڈاکٹرابراراعظمی اپنے خالص پور کے چار اشخاص ڈاکٹر افغان اللہ خاں مرحوم،مولانا قمر الزماں اعظمی،ڈاکٹر محمد ارشد اعظمی اور ڈاکٹر ارشد جمال صارمؔ ؔکا تذکرہ بڑی اپنائیت سے کیا کرتے تھے۔،ڈاکٹرصارم کے شعری مجموعہ ’سخن زاد‘سے بہت خوش تھے۔میں نے عرض کیا ! ڈاکٹر صارم ؔکے یہاں دماغ کا معاملہ زیادہ ہے،فرمایا!تم شاعر نہیں ہو،کیا جانو؟ میں نے عرض کیا حکیم تو ہوں،پہلے حکمت اورشاعری لازم وملزوم تھی۔فرمایااب کی صورت ِ حال بتاؤ ذرا؟ ا ردو تو آتی ہی نہیں ان بیچاروں کو دیکھو ، ’ ٹھیک سے‘ کی بات نہیں کررہاہوں۔ میںنے عرض کیا، کچھ تو اردو آتی ہے ہمیں۔فرمایا !پھر بھی شعر کی نبض تم نہیں پڑھ سکو گے، میں نے عرض کیا،شاعر کی رگ تو پکڑ ہی سکتا ہوں۔مجھے خوشی ہوئی کہ حکیم الطاف احمد اعظمی نے آج سے تیس سال پہلے جس شاعر کو مجھ میں تلاش کرلینے کا دعویٰ کیا تھا،ا لحمد للہ آج بھی خارج میں اس کا وجود نہیں ہے ۔
ہمارے ڈاکٹر ابرار اعظمی صاحب کی بیشتر نگارشات کی اشاعت ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی صاحب کے زیر اہتمام ہوئی ہے۔کیا ہی اچھا ہوکہ ان کے مضامین کا تازہ مجموعہ اور ان کے تعلیمی سفر کی داستان بھی ان کے ہی زیر اہتمام چھپے۔ مرحوم کے یہ علمی آثار قوم کی ا مانت ہیں،ان کاآئندہ نسلوں تک منتقل ہونا بے حد ضروری ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ اس سمت میں ضرور غور کیا جائے گا اور ڈاکٹرابرار اعظمی کے لیے یہ ہماراسب سے بڑا خراج ِ عقیدت ہوگا۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here