Thursday, May 15, 2025
spot_img
HomeArticleگڈ بائی

گڈ بائی

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

(رومانہ رومی(پاکستان  

وبا کیا پھیلی کہ شہر کے شہر ویران اور خاموش ہونے لگے ۔۔۔لوگ موت کے خوف سے کانپ رہے تھے۔۔۔انسان تو انسان جانوروں نے بھی خود کو کونوں کھدروں میں چھپا لیا۔۔۔چرند پرند اپنے پرودگار کی حمد و ثنا میں مشغول ہو گئے۔۔۔سب کے سب محفوظ پناہ گاہوں میں اپنی ضروریاتِ زندگی کا سامان لیے جا چھپے تھے۔۔۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔۔۔جس کا جدھر منہ اُٹھا وہ وہاں پناہ کی تلاش میں بھاگ کھڑا ہوا۔۔۔میڈیا وہ واحد ذریعہ تھا جس سے لوگ اپنے اپنے شہروں کے بارے میں معلومات حاصل کر پارہے تھے۔۔۔کئی ہزار لوگ لقمہ اجل بن چکے تھے اور کئی ہزار متاثر تھے۔۔۔ہر نظر آنے والا شخص دوسرے نظر آنے والے شخص سے دُور بھاگ رہا تھا۔
انسان سسک رہے تھے اورانسانیت دم توڑ رہی تھی ۔۔
۔۔
۸۰ سالہ ڈیانا جون اپنے شوہر کی موت کے بعد حکومت کی طرف سے رہنے کے لیے دیئے گئے چھوٹے سے گھر میں تنہا رہ رہی تھی۔۔۔
یہ یورپ تھا جہاں بچے اور بوڑھے ریاست کی ذمہ داری تھے۔۔۔ڈیانا کے دو بچے تھے جو بڑے ہونے اور شادی کرنے کے بعد بڑے شہروں میں جا بسے تھے ۔۔۔ایک بیٹی اور ایک بیٹا۔۔۔اُس کی بیٹی تو شاید ہی سال میں ایک آدھا بار ہی ماں کو فون کر کے اُس کا حال چال پوچھنے کی زحمت کرتی تھی البتہ اُس کا بیٹا ہر ماہ باقاعدگی سے ماں کو فون بھی کرتا اور دو چار ماہ کے بعد ایک دو دنوں کے لیے ماں سے ملنے بھی چلا آتا تھا گو کہ اُس کی بیوی اِس بات پر اُس سے خفا ہوتی مگر وہ اپنی ماں کی الفت سے خود کو دُور نا رکھ پاتا تھا۔۔۔ڈیانا خوش تھی کہ اُس کا بیٹا کبھی کبھار اُس سے ملنے چلا آتا ہے ۔۔۔وہ جب بھی آتا ڈیانا کی خوشی دیدنی ہوتی۔۔۔وہ اپنے بوڑھے اور کمزور وجود کے ساتھ ایک دن پہلے ہی سے اُس کے لیے تیاریوں میں مصروف ہو جاتی۔۔۔گھر کی صفائی۔۔۔اُس کے لیے خاص بسکٹ بنانے سے لے کر اُس کی پسندیدہ گوشت کی ڈش بھی ضرور بناتی جو وہاں اُسے کبھی نصیب نا ہوتی تھی اور ویسے بھی شہروں میں ملنے والے کھانے کے ذائقے کا مقابلہ کبھی بھی ماں کے ہاتھوں کے کھانے سے کیا ہی نہیں جا سکتا تھا ۔۔۔ڈیانا جانتی تھی کہ اب اُس کے ہاتھوں میں وہ ذائقہ باقی نہیں رہا مگر جب وہ اپنے بیٹے کو اُسی ذوق و شوق سے کھاتے ہوئے دیکھتی تو اُسے اپنے معصوم اور بھولے بھالے بیٹے پر بے تحاشا پیار آتا کہ وہ اپنی ماں کا دِل رکھنے کے لیے کیسے خوشی خوشی اُس کھانے کو انجوائے کرتا تھا۔۔۔باپ کی موت کے بعد وہ ڈیانا کو ہیمشہ اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا مگر ڈیانا کو بڑے شہروں سے خوف آتا تھا اس کی پوری زندگی گاؤں میں گزری تھی اور پھر اُس کی بہو کو ساس کا وجود ہر گز گوارا نا تھا اس لیے ڈیانا نے بھی اپنی عزت اور وقار کو قائم رکھتے ہوئے تنہا رہنے کا ہی فیصلہ کیاتھا ۔۔۔ویسے بھی یہاں اُسے کوئی تکلیف نا تھی ہر ماہ حکومت کی جانب سے اُس کی ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء اُس کے گھر پہنچا دی جاتی تھی یہاں تک کے بیمار ہو نے کی صورت میں صرف ایک فون کال پر ڈاکٹر بھی گھر پر آپہنچتا تھا۔
(۲)
ڈیانا بہت خوش تھی کہ اِس ماہ اُس کا بیٹا دو دن اُس کے ساتھ رہنے کے لیے آنے والا تھا۔وہ جب بھی آتا تو ڈیانا کو لے کر اکثر سیر کو نکل جاتا یا پھر وہ دونوں قریبی جھیل پر پورا دن مچھلی کے شکار میں گزارتے اور خوب باتیں کرتے، قہقہے لگاتے اور کھانا پکاتے۔اُس کے واپس جانے کے بعد ڈیانا کے لیے یہ حسین لمحے آنے والے دن اُس کے بغیر گزارنے کا سامان پیدا کر دیتے اور وہ اُس کے سحر میں کھو کر کئی سارے اور دن آرام سے گزار دیتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔
ڈیانا کو جب وبا کی آمد اور اُس سے ہونے والی ہلاکتوں کا پتا چلا تو وہ کانپ کر رہ گئی اِبھی مہینہ پورا ہونے میں کچھ دن باقی تھے۔۔۔گھر میں راشن ختم ہونے کو تھا۔۔۔اُسے آج صبح سے کچھ کمزوری بھی زیادہ محسوس ہورہی تھی ۔۔۔ٹی وی پر جب اُس نے یہ سب سنا اور دیکھا تو اُس نے سوشل ویلفیئر آفس فون کیا اور اپنا رجسٹرڈ نمبر بتا کر اپنی موجودہ صورتِ حال سے اُن کو آگاہ کیا۔۔۔جس پراُسے ہدایت دی گئی کہ اگرچہ اُس کے کارڈ میں پیسے جمع کروا دیئے گئے ہیں مگر اِس بار اُس کو خود باہر جا کر اپنے لیے سامانِ ضرورت لا نا ہو گا کیوں کہ وہاں کا سارا اسٹاف خراب ترین صورتِ حال کے پیشِ نظر شہروں میں بلوا لیا گیا ہے۔۔۔اُس نے گھر میں راشن کی صورتِ حال کا جائزہ لیا تو اِ ب مزید دو دن سے زیادہ کا سامان نا بچا تھا ۔۔۔اُس نے گھر سے باہر کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو چاروں طرف ہو کا عالم تھا اُس کے پڑوسی نے اُس کی بے بس نظروں کی جانب دیکھا تو ضرور مگر موت کے ڈر نے اُسے ، اُس سے دُور رہنے میں ہی اپنی بھلائی نظر آئی ۔۔۔حکومت نے ویسے بھی اِس وبا میں خاص طور پر بوڑھوں ، بیماروں اور لاغر افراد سے دوری اختیار رکھنے کی ہدایت کی تھی۔۔۔۔
ڈیانا نے سوچا کہ وہ اپنے بیٹے سے رابطہ کرے اور اُس کو اپنی صورتِ حال کے بارے میں بتا کر اُس سے درخواست کرے کہ وہ اُس کے لیے ضروریات کا سامان لیتا ہوا آئے۔۔۔یہ سوچ کر اُس کے دِل میں اطمینان کی ایک طاقت ور لہر ڈور گئی اور وہ اپنی پریشانی پر دِل ہی دِل میں مسکرا دی ۔۔۔وہ سوچ رہی تھی کہ بوڑھاپا اِب اُس کے اعصاب پر بہت جلد سوار ہو کر اُس کے سوچنے سمجھنے کی طاقت کو ختم کر رہا ہے اور وہ معمولی سی بات پر بھی گھبرا اُٹھتی ہے جب کہ یہ مسئلہ تو کوئی اتنی بڑی بات ہی نہیں تھی۔۔۔یہ سوچتے ہوئے اُس نے اپنے بیٹے کا نمبر ڈائل کیا ۔۔۔اُس کے بیٹے کے فون ریسور کرنے پر اُس نے ایک لمبی سانس لی۔۔۔اُس کا بیٹا خیریت سے تھا۔۔۔۔
’ماں کیا ہوا! تم اِس وقت کیوں فون کر رہی ہو؟‘۔۔۔بیٹے کا سانس پھول رہا تھا اور وہ شاید بہت جلدی میں تھا۔۔۔
’بیٹا! دراصل مَیں نے آج ہی خبروں میں اِس وبا کے بارے میں سنا ہے اور اِس کے بعد سے ہونے والی اموات کا سن کر دِل کانپ گیاہے ۔۔۔تمھاری خیریت جاننا چاہتی تھی‘۔۔۔وہ بات کو سنبھاتے ہوئے بولی کہ کہیں اُس کا بیٹا اُس کی فکر میں پریشان نا ہو جائے۔۔۔
’ماں ! ہم سب ٹھیک ہیں ، تم ہماری فکر مت کرو ۔۔بس اپنا خیال رکھنا اور گھر سے باہر ہر گز نا نکلنا۔۔حالا ت کے ٹھیک ہوتے ہی
(۳)
میں تم سے ملنے آؤ گا ‘۔۔۔اُس کے بیٹے نے جلدی جلدی بات ختم کرتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ اُس کی بات سُن کر گھبرا اُٹھی اور اِس سے پہلے کے اُس کا بیٹا فون کاٹتا وہ فوراََ بولی۔۔۔
’’مگر تم تو دو دن بعد میرے پاس آرہے تھے؟ یاد ہے نا تم کو؟۔۔۔ دراصل اِس وبا کی وجہ سے ویلفیئر والوں نے مجھے گھر میں راشن پہنچانے سے منع کر دیا ہے اور میری طبعیت بھی ناساز ہے۔۔۔اور مَیں نے اسی لیے فون کیا تھا کہ تم آتے ہوئے میرے لیے اگلے ماہ کا سامان لیتے آؤ تو مجھے گھر سے باہر نہیں جانا پڑے گا کیوں کہ اِس وقت سردی کی شدت اور میری حالت دونوں ہی مجھے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی رہی‘۔۔۔
اُس نے ایک ہی سانس میں اپنی بات مکمل کر دے کہ کہیں فون بند ہی نا ہو جائے۔۔۔اُس کے بیٹے نے ماں سے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔۔
’ماں ! اِس وقت حالات بہت خراب صورتِ حال اختیار کر چکے ہیں اور مَیں بھی اپنے گھر کے لیے راشن لینے والوں کی قطار میں کھڑا ہوا ہوں ۔۔رہی بات تمھارے پاس آنے کی تو اِبھی یہ مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے کہ حکومت نے سارے ملک کو لاک ڈاؤن کر دیا ہے ۔۔۔اِب آپ کو اپنے لیے خود ہی کچھ کرنا ہوگا ۔زندہ رہے تو پھر آپ سے ملاقات ہو گی ۔۔گڈ بائی‘۔۔
فون خاموش ہو چکا تھا اور ڈیانا ریسور کو خالی نظروں سے گھور رہی تھی ۔۔۔اُس کے کمزرو ہوتے اعصاب اِب اُسے ہر اُمید سے مایوس کر چکے تھے۔۔۔وہ سمجھ چکی تھی کہ اِس مشکل وقت میں اُسے اپنا بوجھ خود ڈھونا پڑے گا ۔۔۔اُس نے ہمت کی اور سردی سے خود کو بچانے کی مکمل تیاری کرتے ہوئے اسٹک کا سہارا لیتی گھر سے نکل کھڑی ہوئی۔۔۔اسٹور ایک فرلانگ کی دُوری پر تھا جو اِس سردی میں اُسے اتنا دُور محسوس ہورہا تھا جیسے اُسے ہمالیہ کی چوٹی سر کرنی ہو۔۔۔یہاں سواری ملنا بھی مشکل تھی ہاں اسٹور کے پاس سے واپسی کے لیے کچھ مل سکتا تھا وہ آہستہ آہستہ ،چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی فاصلے کو کم کرنے کی کوشش میں چلے جا رہی تھی۔۔۔اسٹور پر پہنچ کر اُس نے اپنی باقی بچی ہمت کو یکجا کیا اور سامانِ ضرورت کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔۔۔اگرچہ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا اُس کے باجود لوگوں کا ہجوم تھا جس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے درمیان ایک خاص فاصلہ رکھنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ اِس وبا سے بچنے کے بارے میں بھی بتایا جا رہا تھا ۔۔۔اُس کے اسٹور میں داخلے سے پہلے ایک ماسک پہنے کے لیے دیا گیا تھا جس کو پہن کر لوگ اسٹور میں داخل ہو رہے تھے ۔۔۔مسلسل چلنے کی وجہ سے اُس کی ٹانگیں سن ہو رہی تھیں ۔۔۔گلا پیاس کی شدت سے سوکھ رہا تھا۔۔۔اچانک اُسے کھانسی آئی۔۔۔کھانسی کیا آئی مانو جیسے کوئی قیامت ہی آگئی ہو۔۔۔اسٹور میں افراتفری پھیل گئی۔۔۔ سب لوگ اُس سے دُور بھاگنے لگے ۔۔۔اسٹور کے ورکرز بھاگ کر آئے اور اُس پر جراثم کش دوائی کا اسپرے کر ڈالا اور اُسے جلد از جلد سامان لے کر اسٹور سے جانے کا کہنے لگے ۔۔۔اُس نے بل کروانے تک اسٹور میں مکمل خاموشی تھی سب اپنی اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔۔۔اُس نے سامان کو اپنے کندھوں پر پہنے ہوئے بیگ میں رکھا اور اسٹور سے باہر آکر
(۴)
ایک ٹیکسی کی طرف بڑھی مگر شاید اسٹور کے شیشے سے کسی نے ٹیکسی والوں کو کوئی اشارہ کر دیا تھا جو سب کے سب اُسے دیکھ کرآگےنکل گئے۔۔انسانیت سسک رہی تھی اور شیطان اپنی کامیابی کا جشن منا رہا تھا۔۔۔۔
اِب اِس سامان کے بوجھ کے ساتھ اُس کا ایک ایک قدم من من بھر کا ہو چکا تھا وہ دھیرے دھیرے ایک ایک قدم اُٹھاتی اپنے خوبصورت دنوں کو یاد کرتی آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔اُسے اپنے بچپن کے دن یاد آرہے تھے جب وہ اپنے باپ کو پورے گھر میں اپنے پیچھے پیچھے دوڑاتی پھرتی تھی اور پھر آخر اُس کا باپ تھک کر بیٹھ جاتا تھا وہ اتراتی ہوئی آتی اور ہنستی ہوئی اپنے باپ کی گردن میں اپنی ننھی ننھی بانہیں ڈال کر جھولنے لگتی۔۔۔جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی اُس کی شرارتیں بڑھنے لگی تھی ۔۔۔وہ دوڑنے میں اتنی تیز تھی کہ کوئی اُس کی گرد کو بھی نا چھو پاتا تھا ۔۔۔اسکول اور کالج کے تمام دوڑوں کے مقابلوں میں اوّل انعام صرف اُس کے نام ہوتا تھا۔۔۔پھر جون سے اُس کی شادی صرف بیس سال کی عمر میںہی تو ہوئی تھی ۔۔۔اور شادی کے دس سال بعدجب اُس کے گھر میں پہلی بیٹی نے جنم لیا تو مانوں اُن کی زندگی میں بہار کے سب ہی رنگ سمٹ آئے تھے ۔۔۔اور اُس کے بعد بیٹے کی پیدائش پر اپنا خاندان مکمل دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نا سما تی تھی پورا پورا دن وہ دونوں بچوں کے پیچھے پیچھے دوڑتی رہتی اور اُن کی ایک ہنسی پر اپنی ساری تھکن بھول جاتی تھی۔۔۔وقت کی یہی تو ادا ہے کہ وہ کبھی ایک جیسا نہیں رہتا ۔۔۔کہاں وہ دوڑتے پاؤں تھے اُس کے اور اِب کہاں یہ من من بھر کے قدم۔۔۔اچانک ہوا نے اپنا رُخ بدلا اور ٹھنڈے پانی کے موٹے موٹے قطرے اُس کے چہرے سے ٹکرائے ۔۔۔اُس نے ڈر کر آسمان کی جانب دیکھا ۔۔۔کالے بادلوں کا پورا خاندان اُسے اپنی طرف بڑھتا دیکھائی دیا ۔۔۔اُس نے اپنی رفتارتیز کرنی چاہی۔۔۔مگر پیر رپٹ گیا اور وہ اوندھے منہ سڑک کے کنارے برف کے ڈھیر پر جا گری۔۔۔برف پر گرنے سے ماسک چہرے سے ہٹ گیا اور برف اُس کی ناک اور منہ میں جا گھسی جس کے سبب اُسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا ۔۔۔وہ بُری طرح ہانپ رہی تھی ۔۔۔دمے کے اٹیک نے اُس نے اُس کا سانس لینا مشکل کر دیا ۔۔۔اُس نے اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر انہیلر کو ٹٹولا مگر وہ گھر پر ہی رہ گیا تھا ۔۔۔اُس نے مدد کے لیے آواز نکالنے کی کوشش کی مگر بے سود۔۔۔چاروں طرف خاموشی کا راج تھا ۔۔۔بادل کی گرج نے اُس کی دم توڑتی آواز کو نوحہ میں بدل دیا۔۔۔اور ٹھنڈےپانی کی تیز بو چھاڑنے اُس کی زندہ رہنے کی آخری اُمید پر پانی پھیر دیا ۔۔۔اُس نے دِل ہی دِل میں اپنے ربّ کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی کہ اُسے اِس وبا میں مرنے والوں کی طرح بے گوروں کفن موت نا نصیب کی جائے۔۔مگر اُس دعا کی قبولیت سے پہلے ہی اُسے اپنا وجود آسمان کی طرف پرواز کرتا محسوس ہونے لگا ۔۔۔۔
ضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular