’’گوری چل ندیا کے پار‘‘

0
420

[email protected] 

موسی رضا۔9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

ابراہیم نثار اعظمی

صبح صبح سورج کے طلوع ہوتے ہی ہر انسان اپنی روزی روٹی کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف ہو جاتا ہے ۔ہر کسی کو اپنے پریوار کاندان کی فکر ستاتی ہے ۔جس کے لئے وہ رات دن ایک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ۔یہاں تک کی کبھی کبھی اسے اپنی زندگی بھی داو پر لگانی پڑتی ہے ۔گھر اور گھر سے باہر نکلنے پر مجور ہوتا ہے ۔ایک پر سکون زندگی کے واسطے ہزار دکھ درد ،اور تکلیف برداشت کرتا ہے ۔لوگوں کے طعنے سنتا ہے ،جھڑکیاں سنتا ہے۔صبح سے لیکر شام تک کی تمام کٹھنائیاں سہتا ہے۔ تین وقت کھانے کے بجاے ایک وقت کے کھانے پر صبر کرتاہے ۔ اور کبھی لوگوں کی ان کہی باتیں اس کی بھوک پیاس کو مٹا دیتے ہیں ۔لیکن پھر بھی وہ اپنے کام کو سر انجام دینے سے انحراف نہیں کرتا ۔اور نہ ہی اسے ایسے نازک حالات میں کسی کی فکر ہوتی ہے ۔ سواے اپنے خانوادے کے ۔
بسا اوقات اسے اپنی دن بھر کی کمائی سے تشفی نہیں ہوتی مگر کسی سے اس کا ذکر نہیں کرتا ۔اسے بھی اپنی عزت کا خیال ہوتا ہے ۔آدمی امیر ہو یا غریب ،بوڑھا ہو یا جوان ،عالم ہو یا جاہل،آزاد ہو یا اسیر محض ہع کس وناکس کو اپنی عزت سے والہانہ پیار ہوتا ہے ۔جس کے لئے وہ ہر لمحہ کو بہت سونچ سمجھ کر اپنا قدم بڑھاتا ہے ۔معمولات زندگی میں کب کن مشکلات سے گزرتا ہے صرف وہی انسان تبدیلی لا سکتا ہے ۔جس کے اندر ایک مقصد ہو ،کچھ حاصل کرنے کا جذبہ ہو ۔اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہونچانے دن رات محنت مشقت کو برداشت کرتا ہو ۔
ایسا ہی کچھ کشور کی زندگی تھی ۔جو اپنی زندگی سے جنگ لڑ رہا تھا ۔صبح پو پھٹتے ہی کھیتوں کی طرف دو روٹی ایک پیاز اور الو کا بنا بھرتا لے کر گامزن ہو جاتا ۔آج اسے کھیتوں کی سینچائی بھی کرنی تھی ۔راستے بھر سوچتے ہوئے چلا جا رہا تھا کہ یہ مئی کا مہینہ بھی اس سال کھیتوں کو نہیں بخشے گا ۔عجیب طرح کی گرمی دن بھر ہوا کا جھونکا گوں گوں کی اواز کرتا ہوا ، ہر کسی کو اپنے ٹھپیڑے میں لئے رہتا ۔ان گرم ہواوں سے کھیتوں کی بری حالت ہو چکی تھی ۔ٖفصل بھی اب پکنے کے بجاے سوکھنا شروع ہو گئی ۔کنویں کا پونی جو بھی رہا سہا بچا تھا ۔وہ اس شدید گرمی کے موسم میں کھیتوں کے لئے ناکافی تھا ۔آسمان کی طرف گہری نگاہ کرکے کشور کے دل سے یہ آواز نکلی ’’ہے بگوان کیا ہوگا اس دنیاں کا ‘‘ یہ ساری باتیں سوچتے ہوئے کشور بہت تیزی سے اپنی منزل مقصود کی طرف بڑھ رہا تھا۔کہ اچانک اسے دور راستے پر کسی کے آنے کا ہیولہ نظر آیا ۔جس کو اپنے سر کے بندھے ہوئے بد بو دار اور پسینے سے معطر کپڑے سے اپنی میچیں ہوئیں آنکھوں کو بار بار صاف کرتے ہوئے گھورنے کی کوشش کرنے لگا ۔
دھوپ بھی کافی تیز ی کی تھی ۔کشور کو بار بار کوشش کرنے باوجود اس کا چہرہ نظر نہ آنے میں بہت تکلیف ہوئی ۔اور دل میں اس بات کا خدشہ اور بڑھنے لگا کہ کہیں گوری تو نہیں ۔اگر گوری ہوگی تو میرا ستیا ناش ہو گا آج ۔پاوں میں چپل نہ ہونے کی وجہ سے گرم زمین پر چلنے میں تکلیف ہو رہی تھی ۔زمین کی گرمی اسے ایک ایک قدم پر کشور اعضاء کو ہلا کر رکھ دیتی ۔دھول بھی اتنی گرم تھی کی زمین پرپاوں پڑتے ہی اس کی انگلیوں کے درمیان سے اوپر آجاتی اس لئے پاوں اور جلنے لگتا ۔کبھی پاوں کو سنبھالتے ہوئے زمین پر رکھتا تو کبھی سامنے سے آتے ہوئے اوجھل جسم کو پہچاننے کی کوشش کرتا ۔آکر کا بہت انتظار کے بعد سامنے سے آتا ہوا چہرہ اس کے سامنے یک بہ یک آکر رک گیا ۔کشور نے گوری کا چہرہ دیکھتے ہی اس کے پورے جسم میں ارتعاش پیدا ہونے لگا ۔کشور دیر ہونے کی وجہ سے اپنا چہرہ جھکاے ہوئے کھڑا تھا ۔مگر آتے ہی گوری بول پڑی ،،،
’’’کیا ہو اکشور اتنی دیر کاہے کو ہوگئی رے ‘‘کہاںتھے اب تک تم کو کھیتوں میں کام کرنا ہے کہ نہیں ‘‘
’’ نہیں مالکن ایسا اسبھ مت بولو ،بس آج جرا دیر ہو گئی جی ،ہم کے معاف کر دیو،،،
’’او کا ہے کی میری طبیعت جرا تھیک نا ہی تھی اس لئے آنے میں ابیر ہو گئی‘‘
’’ اچھا ٹھیک ہے جاو جلدی سے کھیتوں میں پانی چالو کردو ۔اور ہان جرا دیکھو تو کون کون کھیتوں میں کام کرنے آیا ہے ۔گھر آکر مجھے بتاو ۔‘‘
کشور جلدی سے کھیتو ں کو گیا ۔پانہ دیا سارے مزدوروں کی خبر گیری کی۔شام تک کام کرنے کے بعد واپس گوری کی حویلی کی طرف رونہ ہوا ۔کشور کھیتو کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ اسے گوری کے گھر کا بھی کام کرنا پڑتا تھا ۔ جس کھیت میں آج کشور کام کرنے جاتا ہے وہ سارے کھیت کبھی کشور کے ہوا کرتے تھے ۔لیکن قسمت نے اس کے ساتھا ایسا کھیل کھیلا کہ مرتے دم تک وہ اسے بھول نہیں سکتا ۔اماو س کی رات تھی کہ کسی ااسیب کا اس کے گھر پر حملہ ہوا ،جس سے اس کے بابو جی اور ماں کو لکوا مار گیا تھا ۔ اس وقت کشور کے پاس علاج کے لئے پیسے نہیں تھے ۔پاس ہی گاوں میں گوری کا باپ سر پنچ تھا ۔اس کے پاس دولت کی بہت ری پیل تھی ۔ایسے نازک حالات میں لکچھمن نے کہا چلو سر پنچ کے پاس چلتے ہیں وہ ہماری ضرور مدد کریں گے ۔لیکن گاوں والوں کو معلوم تھا ا س کا باپ بہر سع پھیرا ہے ۔کشور کو بھی معلوم تھا ایک وقت بابو جی کو بہت مارا تھا صرف کھیت لینے کے واسطے اس لئے کشور کی وہاں جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔جب بابو جی نے دینے سے انکار کیا تو اس میرے باوبو جی پیر مار کر توڑ دیا تھا ۔
کبھی کبھی انسان وقت اور حالات کے ایسے گھیرے میں آتا ہے کہ اسے کچھ دیکھائی نہیں دیتا اور مجبوری انسان کو اپنا سب کچھ قربان کرنے پر مجبور کرتی ہے ایس اہی کچھ کشور کے ساتھا ہوا ۔ لکچھمن کے کہنے پر وہ گوری کے باپ کشور کے پاس گیا ۔کشور کے سامنے اس کے پریوار کی بیماری تھی ۔تو دوسری طرف ہاتھ میں نہ پیسہ نہ کوڑی اس نا مساود حالت وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا ۔ گاوں والوں نے کہا سر پنچ جی ہیں نہ سب کچھ تھیک ہو جاے گا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اب سر پہچ جی کافی خوش نظر ارہے تھے کہ سالوں جس چیز کی تلاش تھی آج وہ اسے ملتا ہوا نظر آیا۔
’’سر پنچ جی ہمارے بابو جی کو بچا لو ‘‘
’’کیا ہوا کشور تمہارے بوبو جی کو ‘‘
’’ہمرے بابو جی بہت بیمار ہیں لکوا مار دیا ہے ان کو ۔میرے پاس پیسے ناہی ہیں الج کے واسطے ۔اتنا کہتے ہوئے کشور کی آواز رندھ گئی اور آہیں بھرنے لگا ‘‘
’’ہم ہیں نہ تمہاری مدد ضرور کریں گے،تم پریسان مت ہو ‘ تسلی دیتے ہوئے سر پنچ جی کہا‘‘
’’بس تم کو ایک کام کرنا ہو گا ‘‘
’’کیا سر پنچ جی ‘‘کیا کیاکیا بتاو نہ ‘‘
’’ ای جمین جون تورے پاس ہے نہ ہمرے مان کیدو اس کے بدلے ہم تو کت پورے پانچ ہجار روپیہ دبئے ‘‘
’’ٹھیک ہے با بو جی ہم دینے کو تیار ہیں ‘‘
’’ بس ایگو چگوٹا کام کرنا اور پرے گا ‘‘
’’اور کا ہے ‘‘
اس نے جلدی سے گھر کے اندر سے زمین کا کاغذ اور سیاحی کی ڈبیہ منگایا ۔
’’چلو اب اس کاغذ پر انگوٹھا لگاو ‘‘
’’ٹیبل؛ پر رکھی سیاحہ میں اپنا انگوٹھا لگاتے ہوئے کشور کے پاوں سے زمیں ہلتی ہوئی محسوس ہوئی لیکن چارو ناچار اسے بابو جی کا بیماری نطر آئی ۔آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ ہاتھ اہپاوں تھر تھر کانپنے لگے ۔ پیشانی کا پسینہ گر کر کاغز پر پھیلنا روع ہوگیا ۔ کشور نے اپنے پپر کھوں کی ساری جائیداد صرف پانچ ہزار میں بیچ دیا ۔انگوٹھا لگانے کے بعد پیسہ لیا اور وہاں سے رخصت ہوا ۔سیدھا گھر کی طرف بھاگا ۔گھر پہونچ کر جلدی سے ماں بابوجی کو اسپتال لے جانے کی تیاری کی ۔ھاوں کیں کوئی سواری نہ ملنے پر ٹھیلے پر ماں اور بابو جی کو لیٹا دیا اور تیزی سے جانے روتے روتے اس کا برا حال ہوچکا تھا ۔
بے یارو مدد گارچلتا رہا ،دھوپ کافی تیز تھی۔ گرم ہوائیں بھی اپنے شباب پر تھیں ۔چلتے چلتے کشور کی آنکھیں ٹھیلے پر پڑی ۔دونوں بے حس و حرکت پڑے ہوئے تھے ۔کب ان کی روحیںپرواز کر گئیں کشور کو پتہ نہیں چلا ۔مگر کشور کو یقین نہیں ہو رہا تھا وہ دل برداشت ہو کر سب کو ہلا ہلا کر دیکھنے لگا ۔مگر کسی نے اس کی چینخ نہیں سنی سر جھکاے اپنے بابو کے سینے سے لیپٹ کر رونے لگا ۔دھیرے دھیرے اس کے ہاتھوں کی گرفت کمزور ہونے لگی ۔ ایسی کسمپرسی کی حا لت میں لچھمن کی مدد سے گھر سب کو گھر اب ان پیسوں سے تجہیز وتکفین کیا ۔باقی جو پیسے بچ گئے اس میں اپنا گزرا کرنے لگا ۔کھیت تو جا چکا تھا کوئی روزگار نہیں اس کے پاس ایسی ناسازگاری کی حالت میں گوری کے کھیت میں کام کرنے لگا ۔پھر زندگی راہ راست پر آگئی کشور ابھی جوان تھا۔ گرم خون تھا کوئی بھی کام بھی کام بہت زمداری اور منہمک ہو کر انجام دیتا تھا ۔
شاہین اکیڈمی لکھنو 9036744140

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here