’’ گلہائے سودا‘‘پر ایک نظر

0
399

موسی رضا

 

 

نام کتاب : گلہائے سودا

ترتیب، تدوین وتعلیق : ڈاکٹر سرفراز احمد خان

ہر زبان و ادب کی تازگی کے لئے ضروری ہے کہ اس میں اچھے محقق اور بہترین مدون پیدا ہوں۔ محقق پوشیدہ امکانات اور نئی تلاش سے ادب کی سرمایہ کاری کرتا ہے تو مدون بکھرے اور منتشر ادب پاروں کو استناد کے ساتھ یکجا کر کے اسے الجھنوں اور تسامہات سے پاک رکھتا ہے۔ بظاہر بڑا آسان محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی متن کو تلاش کر کے فقط یکجا کر دیا جائے اور اسے تدوین متن کہاجانے لگے، حالانکہ ایسی تدوین قابل وثوق نہیں سمجھی جاتی۔مدون کے لئے ضروری ہے کہ وہ جس متن کو ترتیب دے رہا ہے اس کے موجودہ تمام دواوین یا نسخ کو تلاش کرے اور پھر ان کے تقابلی مطالعہ کے ساتھ ساتھ خارجی شواہد (مصنف اور اس کے زمانے کے حالات) سے یہ یقین حاصل کر لے کہ موجودہ متن جس شخص سے منسوب کیا گیا تھا وہ اس کا اصل مصنف ہے بھی یا نہیں۔ ان تمام منزلوں کو سر کرنے کے بعد جب کوئی متن تدوین کیا جاتا ہے تو اسے ادب کی دنیا میں استناد کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
’گلہائے سودا‘ تدوین متن کا ایک ایسا ہی نمونہ ہے جسے ڈاکٹر سرفرا ز احمد خاں نے چار قلمی نسخوں ، کلیات سوداؔ مطبوعہ نول کشور پرس اور کئی مطبوعہ کتابوں کے مطالعہ کے بعد ترتیب دیا ہے جس کا ذکر انہوں نے کتاب کے دیباچہ میں بھی کیا ہے۔ اس کتاب میں غزلیات، قصائد، سوداؔ کے تاریخی قطعات اور رباعیات کے علاوہ رسالۂ عبرت الغافلین کے متون کی تصحیح کا التزام کیا گیا ہے اور ان پر تعلیقات پیش کی گئی ہیں جوکتاب کو اس نہج کی دیگر کتابوں سے جدا کرتا ہے۔اس کتاب میںمنظوم و منثور فارسی تخلیقات کے علاوہ ’اماکن‘ اور ’اشخاص ‘ کے ضمن میں ابجد کے اعتبار سے ان تمام افرادا ور جگہوں کی فہرست تیار کی گئی ہے جن کا ذکر کتاب میں آیا ہے جس کی مدد سے قاری کو کتاب میں کسی شخص یا جگہ کا تلاش کرنا بیحد آسان ہوجاتا ہے ۔ ڈاکٹر سرفراز احمدخان کی جدت طبع نے اس کتاب میں 96 فارسی ادیب کا مختصر مگر معلوماتی ذکر بھی کیا ہے جس میں سعدی ، خسرو، مولانا رومی، امینائی نجفی، رضی اصفہانی، کلیم کاشانی، فردوسی،محسن تاثیر، ملا کوثری، شیخ سعد اللہ گلشن وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ کتاب کا یہ حصہ ان طلبہ کے لئے خاصہ اہم ہے جو یو جی سی نیٹ کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ تقریباََ 100فارسی ادبا کے بارے میں اہم معلومات حاصل کرنے کے لئے 50سے زائد کتابوں کی ورق گردانی کرنی پڑتی جب کہ اس ایک کتاب میں وہ سب کچھ موجود ہے۔ ڈاکٹر سرفراز احمد خان کی تحقیقی اور تدوینی بصیرت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کتاب کے حوالہ جات اور کتابیات پر نظر پڑتی ہے انہوں نے فارسی ، اردو کتب و رسالوں کے علاوہ انگریزی کتابوں کا بھی مطالعہ کیاہے۔ اتنے گہرے مطالعہ کا ایک سبب انکے نزدیک محقق و ناقد کی ذمہ داری کا واضح تصور بھی ہے وہ دیباچہ میں لکھتے ہیں
’’سودا کا مطالہ ہم نے دلی لگائو اور ذاتی دلچسپی کی کشش سے شروع کیا تھا لیکن جیسے جیسے پڑھتا گیا معلومات میں اضافہ ہوتا گیا۔ اٹھارویں صدی عیسویں جس میں سوداؔ کی شخصیت پروان چڑھی، ہندوستان کی تاریخ کا تاریک ترین دور تھا۔ ظاہر ہے کہ کوئی علمی شخصیت اپنے دور سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتی یہی حال سوداؔکا ہے۔ ان کی بھی شخصیت اور علمی زندگی اپنے دور سے کافی متاثر ہوئی۔ لہٰذا محقق اور نقاد کا فرض ہے کہ اس کی تہہ تک جائے اور ان تمام علمی کوششوں کو اجاگر کرے۔‘‘( صفحہ10۔)
اس اقتباس سے نہ صرف محقق و ناقد کی ذمہ داری کا علم ہوتا ہے بلکہ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کلام سودا میں ہندوستان کی تاریخ کا کتنا دخل عمل ہے۔اس کتاب میں مولف نے ایک پر مغز مقدمہ کے ساتھ محمد انوار حسین سہسوانی کی تمہید اور جناب اصلح الدین کا دیباچہ بھی شامل کیا ہے۔
کتاب میں جن کلیات سے جو کلام لیا گیا ہے اور دوسرے کلیات میں وہ کلام یا شعر شامل نہیں ہے اس کی نشان دہی بھی کی گئی ہے جس کے لئے ’نشانات اختصاری‘ کو وضع کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کتاب میں یہ تمام تر سہولیات قاری کی آسانیوں کو مد نظر رکھ کر فراہم کی گئی ہیں جو اس کتاب کی مقبولیت کی ضامن ہے۔ کتاب کی تزئین کاری قابل دیدہے ۔ شروع کے اوراق میں سودا ؔکے قلمی نسخہ کا عکس بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ حروف ’سودا‘ کے ذریعہ ذہن کو علم اور ورق ابیض کی مدد سے چشم کو روشن کرتی 326صفحات پرمشتمل یہ کتاب عرشیہ پبلی کیشنز دہلی سے چھپی ہے اس کے علاوہ لکھنؤ میں یہ کتاب دانش محل امین آباد میں دستیاب ہے۔
ڈاکٹر سرفراز احمد خان مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس کے شعبۂ فارسی میںدرس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی دو کتابیں پہلے بھی شائع ہو چکی ہیں ساتھ ہی تحقیقی مضامین وقتاََ فوقتاََ موقر رسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ڈاکٹر سرفراز احمدمستحق مبارک باد اوراپنی اس کوشش کے لئے لائق صد ستائش ہیں۔ان کی یہ کتاب فارسی ادب میں اپنی ایک اہم منزل کی حامل ہے۔

اردوریسرچ اسکالر مانو کیمپس لکھنؤ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here