9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد قمر سلیم
نلیش پلیز کشمیر چلو نا۔‘ بِچِترا ا س کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔’تم بے وقوف ہو کیا۔‘ نلیش نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔
’کیوں؟کیوں؟ کیا ہوا؟اس میں بے وقوفی کی کیا بات ہے۔‘وہ چڑکر بولی۔
’کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ کشمیر کے حالات خراب ہیں۔‘ نلیش نے کہا۔
’ارے نلیش کہاں خراب ہیں۔کچھ نہیں ہوگا۔فوج ہے نہ وہاں پر۔‘بچترانے اس کی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی۔’نہیں بچترا کیا مزہ آئے گا فوج کے سائے میں۔ویسے بھی خوف کی وجہ سے بہت کم لوگ کشمیر جا رہے ہیں۔‘ نلیش ان حالات میں کشمیر جانے کے موڈ میں نہیں تھا۔’جبھی تو مزہ آئے گا نلیش۔جتنے کم لوگ ہوں گے اتنے ہی مزے سے ہم لوگ گھومیں گے۔‘ بچترا بضد تھی۔
وہ دونوں سری نگر ہوائی اڈے سے باہر نکلے۔نلیش دو بار کشمیر آچکا تھااس وقت کشمیر ایک ریاست تھی ۔باہر آتے ہی اس کی نظریں اسلم بھائی کو تلاش کرنے لگیں۔دونوں بار اسلم بھائی ہی اسے اپنی جیپ میں لیکر گئے تھے ۔وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ بچترا نے کہا، ’نلیش ٹیکسی کرو نا، کیا دیکھ رہے ہو۔‘
’ہاں،ہاں ! نہیں وہ کچھ نہیں۔‘ نلیش نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
وہ لوگ ٹیکسی سے ہوٹل کی طرف جارہے تھے۔ دونوں ہی خاموش تھے۔ڈرائیوربھی خاموش تھا۔نلیش دونوں بار جب اسلم بھائی کے ساتھ گیا تھا تو اسلم بھائی راستے بھر اس سے باتیں کرتے رہے اور کشمیر کے بارے میں بتائے جا رہے تھے۔نلیش کے کانوں میں اسلم بھائی کی آواز گونج رہی تھی۔’سر اماراکشمیر بہوت خبصورت ہے۔صاب دیکھو یہ اماری لال چوک ہے۔آپ کو ام سارا کشمیر گمائے گا۔‘
ایک جھٹکے کے ساتھ گاڑی ہوٹل کے سامنے رکی۔اس کی درخواست پر ہوٹل کے منیجر نے اسے ڈل لیک کی طرف رخ والاکمرہ دے دیا تھا۔ہوٹل سے ڈل لیک کافی دور تھی۔اس سے پہلے وہ ہاؤس بوٹ میں ٹھہرا تھا۔کیا منظر تھا۔ جیسے ہی اسلم بھائی نے اسے ڈل لیک کے کنارے پر چھوڑا تھا۔کئی شکارے آکر رکے۔آئیے صاب ، آیئے ۔وہ ایک شکارے میں بیٹھ کر سن فلاور ہاؤس بوٹ میں گیا۔ شکارے سے اترتے ہی ہاؤس بوٹ کے مالک اور ہاؤس بوٹ میں کام کرنے والوں نے بہت زبردست خیر مقدم کیا تھالیکن ہوٹل میںمنیجر نے رسمی الفاظ دہرائے اور بیرا ان کا سامان کمرے میں رکھ کر چلا گیا۔
سورج ڈوب رہا تھا۔نلیش نے ایک نظر ڈوبتے ہوئے سورج پر ڈالی ۔وہ غمگین تھا ۔زندگی کا جوش خروش اس میں نہیں تھا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ ہاوس بوٹ سے سورج کے ڈوبنے کے منظر کو دیکھ رہاتھا۔قدرت کے اتنے خوبصورت نظارے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔سورج وادیوں میں چھپتے ہوئے اس سے کل پھر آنے کا وعدہ کرتا ہوا حسین زندگی کا پیغام دے رہا تھا۔وہ بہت دیر تک ہاؤس بوٹ پر کھڑا ان وادیوں کے نظارے کرتا رہا۔وہ اپنی سوچ میں ہی گم تھا کہ بچترا نے آواز دی، ’نلیش چائے آگئی ہے۔‘
اس کی آنکھیں نم تھیں ،بہت بے دلی سے اس نے چائے پی۔بچترا کی آنکھیں نیند سے بند ہو رہی تھیں ، بستر پر لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی لیکن نلیش سے نیند کوسوں دور تھی ۔وہ تو بس اپنے پچھلے سفرمیں ہی کھویا ہوا تھا۔آج شاہراہیں، جھیلیں سب خاموش تھیں،سنّاٹے نے پوری وادی کو اپنے آغوش میں لے لیا تھا، وہ جدھر نظرد وڑا رہاتھا اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔زمین بھی سو گئی تھی اور آسمان بھی سو رہا تھا۔ قدرت نے بھی اپنے نظاروں پر تاریکی کی چادر ڈال دی تھی، چار چنار جھومنا بھول گئے تھے۔ ہاؤس بوٹس میںزندگی کی حرارت نہیں تھی، شکارے منجمد ہو گئے تھے ایک عجیب وحشت تھی جو نلیش کو خوفزدہ کر رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔تبھی ایک آواز اس کے کانوں سے آکر ٹکرائی:
نلیش اس جنت نما کشمیر میں تمہارا خیر مقدم ہے۔ ہاں نلیش میں کشمیر ہوں۔ وہی کشمیر جسے ہر خاص و عام کہتا ہے:
گر فردوس بر روئے زمین استہمین است و ہمین است و ہمین است
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو لیکن مجھے سب کچھ یادہے۔ جب تم میری وادیوں میں داخل ہوتے تھے تو تمہارے منھ سے بے ساختہ نکلتا تھا، ’یقین نہیں ہو رہا ہے، کیا میں خواب دیکھ رہا ہوں اور میں کہتا تھا ،نہیں! تم حقیقت میں جنّت نما کشمیر میں ہو۔ پھر تم میرے حسن کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے اور میں بانہیں پھیلائے تم سب کا خیر مقدم کرتا تھا ۔ تم ان حسین وادیوں میں نہ جانے کہاں کھو جاتے تھے مجھے تو جب معلوم ہوتا تھا جب تم مجھے الوداع کہتے تھے۔ میں نے تو ہر کسی کو اپنا یا ہے۔ کیا بادشاہ کیا فقیر، کیا اونچا کیا نیچا، کیا گورا کیا کالا ، کیا عجمی کیا عربی، کیا ہندو کیا مسلمان ، کیا یہود کیا نصارا۔ کیا تمہیں یاد نہیں ،یہاںسیلانیوں کا سیلاب امنڈتا تھا۔موسم چاہے کوئی بھی ہو، لمحہ چاہے کوئی بھی ہو ۔ تم نہ دن دیکھتے تھے نہ رات، نہ صبح نہ شام ، نہ ماہ و سال ۔ بس تم تو میرے دیوانے تھے۔ میرا چپّہ چپّہ تمہاری محبت کی کہانیاں بیان کرتا ہے اور پھر کون ہے جو میرے یہاں آکر قدرت سے بغل گیرنہیں ہوا۔ راجا رجواڑے، شہزادے شہزادیاں ، پرنس پرنسز،امیر غریب، اور ایک خاص لوگوں کا تو یہ گہوارہ ہی بن گیا تھا۔ ہاں ہاں میں فلمی ہستیوں کی ہی بات کر رہا ہوں ۔ ان کا تو میں دوسرا گھر تھا۔ کون سی ایسی جھیل ہے جس میں نغمہ سرائی نہ ہوئی ہو، کون سی ایسی وادی ہے جس میں محبت کے نغمے نہ گونجے ہوں۔تم نے میری وادیوں کو اپنی فلموںکے نام دے دیے میں خوشی سے قبول کرتا رہا۔مجھے اپنے اوپر فخر ہوتا تھا جب ہر رنگ، ہر ذات ، ہر مذہب،ہر خطے کے لوگوں کا میرے یہاں تانتا بندھ جاتا تھا ۔ میرے یہاں کے مردوں کے سینے فخرسے پھول جاتے تھے جب وہ تہذیبوں کا اتنا حسین سنگم دیکھتے تھے اور کیوں نہ فخر کرتے ، کیوں کہ ایسی محبتوں کے سر چشمے تو دنیا کے کسی بھی نقشے پر نظر نہیں آتے تھے۔ میرے یہاں کی عورتیں خوشی سے پھولی نہیں سماتی تھیں۔ یہ دو شیزائیں جو کشمیر کی کلی کہلاتی ہیں کبھی مرجھاتی نہیں تھیں اور میرے یہ نوجوان تم لوگوں کو خوش آمدید کہہ کر تمہاری خدمت میں لگ جاتے تھے۔‘‘نلیش کو یاد آیا کہ وہ جب بھی کسی دکان پر قدم رکھتا تھاسب سے پہلے دکان داراسے قہوہ پیش کرتے تھے اور اپنے گاہکوں کے آگے بچھ جاتے تھے۔
اس آواز نے اسے پھر جھنجوڑ دیا،’کیا تم بھول گئے چرارِ شریف کو جہاں تم اپنی منّت لیکر جاتے تھے اور کیا تمہیں حضرت بل کا مزار بھی یاد نہیں جہاں تم گھنٹوں بیٹھ کر ڈل جھیل کے نظارے بھی کیا کرتے تھے۔تمہیں گل مرگ تو ضرور یاد ہوگا جہاں تم گونڈولا میں کیبل کار سے اس حسین و جمیل وادی کا نظارہ کرتے تھے اور فخر کرتے تھے کہ تم دنیا کے سب سے اونچے مقام پر پہنچ گئے ہو ، تمہیں ایسا نہیں لگتا تھا مانو تم نے دنیا فتح کر لی۔کیا تمہیں وہاں کا قہوا بھی یاد نہیں۔اور پھر تم پہلگام کو کیسے بھول سکتے ہوجہاں تم ڈرتے ڈرتے گھوڑوں کی پیٹھ پربیٹھتے تھے اور ٹیرھی میڑھی پہاڑیوں کو عبور کرتے ہوئے خوبصورت وادیوں میں پہنچ جاتے تھے، کتنی بار تو تمہیں ایسا بھی لگتا تھا کہ اب تم کھائی میں گر جائو گے، کبھی تمہیں لگتا تھا کہ تمہارا گھوڑا برف پر پھسل جائے گا لیکن ایسا کبھی نہیں ہو اکیوں کہ میرے یہاں کے گھوڑے بھی مہمان نوازی جانتے ہیں ان کو اپنے فن میں مہارت حاصل ہے۔کیا تم اوپر پہنچ کر نہیں کہتے تھے، واہ جنّت کا نظارہ دیکھ لیا۔ پھر تمہار ا وہ سون مرگ پر جانا اور برف سے ڈھکی وادیوں کے حسن کو اپنی موجودگی سے دوبالاکرنا۔آئو تمہیں میں اور بھی کچھ یاد دلاتا ہوں۔وہ ہاؤس بوٹ اور وہ شکارا۔تم نے یہاں کتنے مزے لوٹے ہیں ۔تمہارا شکارے میں بیٹھ کر چار چناری پر جانا اور اپنی محبت کو یادگار بنانا۔ تم لوگ تو شکارے میں بیٹھ کر اپنے آپ کو کسی فلمی ہستی سے کم نہیں سمجھتے تھے۔اور ہاؤ س بوٹ میں کھڑے ہوکر میری حسین وادیوں کے نظارے کرتے تھے اور پھر جب برف باری ہوتی تھی تو تم اس کا لطف اٹھانے کے لیے سڑکوں پر اتر آتے تھے۔ کچھ لوگ ہائوس بوٹ میں بیٹھے بیٹھے ہی برف باری کے مزے لیتے تھے اور ان کی پلکیں تک نہیں جھپکتی تھیں۔وہ چنار کی قطاریں ، وہ سیب کے باغات، وہ کانگڑی کی گرماہٹ کن کن چیزوں کو تم بھلائو گے۔نہیں، تم مجھے یوں بھلا نا پائو گے۔ ‘ نلیش بڑبڑایا ،’نہیںمیں کچھ نہیں بھولاہوںلیکن اب تمہارے اندر وہ تازگی کہاں۔‘
’ہاں،اتنا بے بس تو میں کبھی نہیں تھا جتنا کہ آج ہوں ۔ آج میرا پورا بدن چھلنی ہے۔ بدن کے ریشے ریشے سے خون رس رہا ہے۔ کبھی جن سڑکوں پر سیلانیوں کی گہما گہمی اور بچوں کی کلکاریاں ہوتی تھیں وہاں آج صرف گولیوں کی آوازیں آتی ہیں ، بم پھٹنے کی آوازیں آتی ہیں ، رونے بلکھنے کی آوازیں ، چیخ و پکار ۔ اب یہی میرا نصیب بن گیاہے۔ ارے تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ میں تفریق کرتا ہوں اگر ایسا ہوتا تو میں اپنے آپ کو ’سری نگر ‘ کیوں کہلاتا ۔ ایک طرف میرا ایک لال وردی پہن کر خون میں لت پت وطن پر شہید ہو رہا ہے تو دوسری طرف میرا ہی لال اس سر زمین پر قربان ہو رہا ہے اور جسے تم دہشت گرد کہہ رہے ہو۔ ذرا سوچو تو وہ دہشت گرد کیسے ہو سکتا ہے۔ کیا کوئی بیٹا اپنی ماں کی گود سونی کرنا چاہے گا، کیا وہ چاہے گا اس کی ماں کا سینا خون میں رنگ جائے۔ ارے یہ تو وہ نوجوان ہیں جو تمہارے خیر مقدم کے لیے کھڑے رہتے تھے۔ اب تو میں ان نوجوانوں سے کھالی ہو چکا ہوں کیوں کہ یا تو یہ مالکِ حقیقی سے مل گئے ہیں یا قید خانوں کی صعوبتیں برداشت کر رہیں ہیں۔ یہ کیا ہوا کہ ان ننھے ننھے ہاتھوں نے پتھر اٹھا لیے۔ ان کو تو اب سیاہی کا مطلب بھی نہیںمعلوم ہوگا کیوں کی یہ تو صرف خون کے رنگ سے واقف ہیں۔ میری جھیلیں سونی ہو گئی ہیں جیسے ہر کشمیری عورت کی کوکھ،یہاں کی جھیلیں پانی کو ترس گئی ہیں ایسے ہی جیسے ہرکشمیری عورت کی چھاتی دودھ کو۔ان کی چھاتی سے اب خون نکلتا ہے صرف خون۔ میری یہاں کی یہ کلیاں تو ایسی مرجھائی ہیں کہ اب کبھی نہیں کھلنے کی قسم کھائی ہے۔ میرے یہ مرد ! ان کی تو غم سے پیٹھیں جھک گئی ہیں ، ان کا سینا دھونکنی بنا ہوا ہے اور میرے یہ نوجوان! تمہاری زبان میں دہشت گرد ۔ یہ دہشت گرد نہیں ہیں یہ بھوکے ہیں ۔ پیٹ سے اور محبت کے۔تمہیں کیا معلوم کشمیریوں کے گھروں میں کئی کئی دن تک چولھے نہیں جلتے۔ یہ تو سال کے بارہ مہینے روزے رکھتے ہیں ۔ ان کی اگر سحری ہو جاتی ہے تو افطار کا پتا نہیں ہوتا۔ اور اگر افطار کر لیتے ہیں تو بنا سحری کے روزہ رکھتے ہیں۔‘
’نلیش اس چور سپاہی کے کھیل میں میرا سب کچھ تو لُٹ گیا، سب کچھ تو تباہ ہوگیا۔ میرے سیلانی چھن گئے ، میری صنعتیں ختم ہو گئیں، کشمیریوں کے روزگار تباہ ہوگئے۔ یہاں کی عورتوں سے ان کے لال چھن گئے، دوشیزائوں کے ہونٹوں سے ہنسی چھن گئی ، ایک باپ سے اس کے خواب چھن گئے، میرے موسم چھن گئے ، میری وادیاں اندھیروں میں ڈوب گئیں ، میری جھیلیں سرخ ہو گئیں، میری راہوں میں پتھر بچھ گئے۔ یہی نہیں میرے بچوں کے منھ سے نوالے چھن گئے ۔‘ ’ہاں نلیش ،میں زخمی ضرور ہوں لیکن میری بانہیں تو ابھی بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ میری آبیاری پھر سے کیوں نہیں کرتے۔ میرے بچے دہشت گردنہیں بے روزگار ہیں۔ یہ غصّہ ہیں کیوں کہ تم اب ان کے پاس نہیں آرہے ہو۔ محبت کے دو بول، بول کے تو دیکھو ! یہ تو اپنا سب کچھ لٹا دیں گے۔رکو !کیا تم بھی سن رہے ہو جو میں سن رہا ہوں۔
ہاںنلیش ،سنو ! صدائیں آ رہی ہیں:
’موسم! بے مثال بے نظیر ہے ۔یہ کشمیر ہے، یہ کشمیر ہے ۔‘
بچترا نے انگڑائی لی اوراپنی بانہیں نلیش کی بانہوں میں ڈال دیں۔نلیش گھبرا کر اٹھ گیا۔اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔اس نے بچترا سے کہا،’بچترا ہم لوگ کل واپس چلے جائیں گے۔‘
’کیوں نلیش؟تمھیں کیا ہو گیا ہے؟‘ وہ پریشان ہوگئی تھی۔
’بچترا میں جو محسوس کر رہا ہوں۔کیا تم بھی وہی محسوس نہیں کر رہی ہو۔‘ سردی میںبھی وہ پسینے سے شرابور تھا۔’نہیں نلیش !کشمیر آج بھی اتنا ہی خوبصورت ہے جتنا کل تھا۔اسے تم ایک بار ، صرف ایک بارمیری نظروں سے دیکھو۔‘اور پھر وہ اس کے وجود پر چھاگئی۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر