حفیظ نعمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گجرات اسمبلی کے انتخابات نے ملک کی سیاست کا رُخ موڑ دیا ہے۔ بی جے پی نے 99 سیٹیں جیت کر حکومت سازی کی تقریب اتنی ہی دھوم دھام سے منائی جیسے پندرہ سال کے بعد اترپردیش میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد منائی تھی کہ جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت تھی وہاں کے وزیر اعلیٰ کو تالی بجانے کے لئے بلایا تھا۔ اور یہ سب بی جے پی کے دل برداشتہ کارکنوں کے دلوں سے اس دہشت کے مٹانے کے لئے تھا جو اس الیکشن میں ان کے دلوں میں بیٹھ گئی تھی۔
الیکشن سے پہلے مودی جی اور امت شاہ کی زبان پر 150 سے زیادہ سیٹوں کا چرچا تھا اور یہ بھی ہوسکتا تھا کہ 160 سیٹیں جیت جائے لیکن جیسے کانگریس کی خودپسند حکومت نے کجریوال کو پیدا کیا اسی طرح اقتدار کے نشہ میں چور بی جے پی کے مودیوں نے اپنی فرعونیت سے جگنیش میوانی پیدا کردیا۔ دلت پورے ملک میں آباد ہیں اور ہمیشہ سے ہیں ہمارا خاندان بھی زمینداروں کا خاندان تھا ہم اپنے بزرگوں کو تو اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ ان میں دینداری تھی اور وہ سب کو اللہ کا بندہ مانتے تھے لیکن اپنے عزیزوں میں اور سنبھل میں ایسے زمیندار بھی تھے جن کے لئے اس وقت چمار کہے جانے والوں کی حیثیت غلاموں کی ہوتی تھی۔ لیکن یہ کبھی نہیں سنا کہ ان کو باندھ کر پیٹا گیا یا ان کو جان سے مار دیا گیا۔
گجرات کے اس الیکشن نے بی جے پی کی کمر توڑ دی اور 22 برس میں جتنا زہر بھرا گیا تھا وہ مرکزی حکومت کے غرور نے خاک میں ملا دیا۔ دلت برادری کے دو لڑکوں کا مودی جی، امت شاہ اور یوپی کے وزیر اعلیٰ کی جان توڑ محنت کے باوجود ایم ایل اے بن جانا بی جے پی کی شکست کے برابر ہے۔ اب وہ صرف گجرات کے ایم ایل اے نہیں ہیں بلکہ پورے ملک کے دلت نوجوانوں کی فوج کے کمانڈر ہیں۔ اور یہ مہاراشٹر کے دلتوں کو اُن کی حمایت کا ہی اثر تھا کہ انہوں نے برہمنوں کے خلاف مہاراشٹر بند کا اعلان کیا اور اسے اتنا ہی کامیاب بنا دیا جتنا صرف شیوسینا بناتی تھی اور کوئی پارٹی نہ بن سکی اور مہاراشٹر کے دلتوں کی رگوں میں وہ نیا خون گجرات سے آیا ہے اور وہی اپنے ساتھ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے کنہیا کمار اور خالد عمر کو ساتھ لایا ہے۔ اور یہ اُن کی ہی دہشت ہے کہ مہاراشٹر حکومت نے پونے کے قریب بھیما کورے گائوں میں جو تشدد بھڑکا جو صرف دلتوں نے بھڑکایا اس کو بھڑکانے کا الزام جگنیش میوانی اور خالد عمر پر لگایا گیا مودی جی کو سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ دلت مسلم اتحاد کا جو کام بڑے نہ کرسکے وہ یہ لڑکے کرکے دکھا دیں گے۔
بی جے پی کو ہمیشہ یہ فکر رہی ہے کہ دلت اس کی جھولی میں آجائیں۔ اب تک کی دلتوں کی ٹھیکیدار مایاوتی نے تو اپنی غلطیوں سے اپنی گردن میں رسی باندھ کر خود مودی جی کو دے دی اور مودی جی نے بھی فراخ دلی کے ساتھ موریہ ذات کو نوازا جس کی وجہ سے مودی جی کو دلتوں کی طرف سے اطمینان ہوگیا تھا لیکن اب جو طاقت گجرات کا سینہ چیرکر آئی ہے وہ مایاوتی کی طرح کسی کانشی رام کی ارتھی کاندھے پر نہیںلائی ہے اس نے سیدھا حملہ یہ کہہ کر کیا ہے کہ پہلے مودی جی فیصلہ کریں کہ ملک میں منواسمرتی کا قانون رائج ہوگا یا ہندوستان کے دستور کا؟
جگنیش میوانی گجرات سے مہاراشٹر آئے اور اسے بند کراکے پورے ملک سے منوا لیا کہ زمانہ بدل رہا ہے۔ اس کے بعد وہ دہلی آئے اور حکومت نے انہیں ریلی کی اجازت نہیں دی لیکن انہوں نے اجازت کے بغیر دو ہزار پولیس والوں کی موجودگی میں جلسہ کیا اور وہیں پریس کانفرنس کی اور اس جلسہ میں ملک کے گوشہ گوشہ سے آئے ہوئے نوجوان لیڈروں نے جمہوریت اور آئین پر منڈلانے والے خطرہ اور اسے بچانے پر زور دیا۔ ان گرم خون کے لیڈروں نے کھل کر کہا کہ وزیر اعظم اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے لوجہاد، گئوہتیا اور گھر واپسی کے نام پر نقلی دشمن کھڑا کرکے اس سے لڑرہے ہیں۔ کسان، مزدور، اسٹوڈینٹ اور بے روزگاری جس نے پورے ملک کو توڑکر رکھ دیا ہے اس سے قوم کا ذہن ہٹا رہے ہیں۔ جلسہ میں چندرشیکھر آزاد کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا اور 800 طلباء کے خلاف جو مقدمات قائم کررکھے ہیں انہیں ہٹانے کا مطالبہ کیا۔
مس مایاوتی خود کچھ نہیں تھیں انہوں نے کانشی رام کو سیڑھی بناکر اپنا قد اونچا کیا وہ اگر ممتا بنرجی کی طرح صرف لیڈر بنی رہتیں اور ملک کی بہت بڑی سرمایہ دار خاتون بننے کے مرض میں مبتلا نہ ہوئی ہوتیں تو وہ آج بھی وزیر اعلیٰ ہوتیں۔ جگنیش میوانی اور کنہیا کمار کسی لیڈر کے کاندھوں پر چڑھ کر یا کسی کی گود میں بیٹھ کر نہیں آئے ہیں انہوں نے اپنا راستہ خود بنایا ہے اور ان کا اپنے بل پر الیکشن جیتنا اور مہاراشٹر کو مکمل طور پر بند کرادینا یہ اشارہ دے رہا ہے کہ وہ جو مودی جی کو 2019 ء کے بارے میں للکار رہے ہیں وہ گیدڑ بھپکی نہیں ہے۔ میڈیا چینل میں بیٹھ کر جگنیش میوانی اور کنہیا کمار دونوں نے کہا ہے کہ اُن کے سامنے پارٹی بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کے قول و قرار حرفِ آخر نہیں ہوتے۔ اچھا ہے کہ وہ اپنی پارٹی نہ بنائیں لیکن وہ مختلف صوبوں میںمختلف پارٹیوں کو اگر حمایت دیں تو کون روک سکتا ہے؟ اور ایسے بے داغ لوگوں کو ہر پارٹی گلے لگائے گی۔ یہ سب دیکھ رہے ہیں کہ مایاوتی کا کھیل ختم ہوگیا۔ اب اگر کوئی ان کے ٹکٹ سے جیتتا ہے تو اس کی اپنی مقبولیت زیادہ ہوتی ہے۔ اور یہ عارضی چیز ہے۔