حفیظ نعمانی
گورکھ پور اور پھول پور سے الیکشن ہارنے کے بعد وزیراعلیٰ یوگی مہاراج کچھ اس طرح کا تاثر دے رہے تھے جیسے وہ نیند میں تھے اور اکھلیش دبے قدموں آیا اور دونوں سیٹیں چراکر لے گیا اور وہ کیرانہ اور نور پور میں بی جے پی کا پرچم لہراکر حساب برابر کردیں گے۔ اور حساب برابر کرنے کے لئے جتنے حربے ہوسکتے تھے وہ آزمائے اب تک اکثر جگہ سے یہ شکایت آتی تھی کہ مسلم علاقوں میں پولنگ کے عملہ کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سست پولنگ کراتے ہیں جتنی دیر میں سو ووٹ پول ہوسکتے ہیں بمشکل پچاس ہوتے ہیں لیکن یہ پہلی بار ہوا کہ سیکڑوں پولنگ بوتھ پر مشینوں کو پیچش ہوگئی اور مشینوں کی خرابی کا بہانہ کرکے روزہ دار ووٹروں کو مجبور کردیا کہ بغیر ووٹ دیئے واپس چلے جائیں۔
اور یہ بھی سوچی سمجھی سازش تھی کہ سیکڑوں بوتھوں پر مشینوں کے خراب ہونے کے بعد صرف 73 پر دوبارہ ووٹ ڈالنے کا دوسرے دن کے لئے اعلان کردیا اور دنیا حیران رہ گئی کہ جو جذبہ پہلے دن تھا دوسرے دن اور زیادہ جوش کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا جبکہ سرکاری عملہ بھی جانتاہے اور ہم جیسے تماشائی بھی کہ جس بوتھ کے بارے میں کسی بھی بدعنوانی کی وجہ سے یہ اعلان ہوتا ہے کہ وہاں دوبارہ پولنگ ہوگی اس بوتھ پر صرف وہ ووٹ ڈالنے آتے ہیں جو اُمیدواروں کے قریبی رشتہ دار، دوست اور پارٹی کے عہدیدار ہوتے ہیں۔
کیرانہ وہ قصبہ ہے جس کے بارے میں دو سال پہلے لکھنؤ میں بی جے پی کے اجلاس میں حکم سنگھ نے محض مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے کے لئے یہ اعلان کرکے سنسنی پھیلادی تھی کہ کیرانہ میں مسلمانوں کی دہشت گردی سے عاجز آکر ہزاروں ہندو اپنے مکانوں کو تالا لگاکر چلے گئے ہیں اور بی جے پی کے تھانیدار امت شاہ نے دھمکی دی تھی کہ جیسے وہ کیرانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ میڈیا کا کئی دن صرف ایک کام تھا کہ وہ ان مکانوں کو دکھا رہے تھے جن میں باہر سے تالا لگا ہے اور بتارہے تھے کہ یہ پنڈت فلاں کا مکان ہے، یہ ٹھاکر فلاں کی حویلی ہے اور یہ منشی فلاں کی کوٹھی ہے۔ اور نفرت پھیلانے کا یہ کھیل اس وقت کم ہوا جب ثابت ہوگیا کہ نہ جانے کتنے مسلمانوں کے مکانوں میں بھی تالے لٹک رہے ہیں اور اس کا سبب نفرت یا دہشت گردی نہیں ہے بے روزگاری ہے۔ کیرانہ میں کوئی کام ہی نہیں تو ہر پریشان روزی روٹی کی تلاش میں کسی دوسرے شہر میں ہے اور آتے جاتے رہتے ہیں۔
کیرانہ مظفر نگر کی تحصیل ہے وہ مظفرنگر جہاں 2013 ء میں جاٹوں نے نہ جانے کتنے غریب مسلمانوں کی زندگی برباد کردی تھی۔ آج چار سال کے بعد اسی کیرانہ اور نور پور نے یہ دکھایا کہ ایک مسلمان خاتون اور نعیم کو ان ہی جاٹوں نے لائن میں لگ کر ووٹ دیئے اور وزیراعلیٰ یوگی نے جو 300 جاٹوں کے خلاف مقدمے واپس لینے کا اعلان کیا اس احسان کو ٹھوکر سے مار دیا۔ دیکھنے والوں نے بتایا کہ لائن میں لگی روزہ دار برقع پوش مسلم بہنوں کو بلاکر انہیں اپنی جگہ دے دی کہ وہ ووٹ دے کر جلدی چلی جائیں اور خود دوسری لائن میں لگے رہے۔
مٹھی بھر آزاد فطرت، بے مہار، نام کی ان مسلمان عورتوں کو جو تین طلاق بل کو قانون بنوا رہی تھیں اور مودی جی ان کی درد بھری آواز سے اتنا متاثر ہوئے کہ بل پاس نہ ہونے کی وجہ سے آرڈی نینس لانے کی بات کررہے تھے ان لاکھوں روزے دار مسلمان عورتوں نے گھنٹوں لائن میں لگ کر مودی جی کے خلاف ووٹ دیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان وہ فیشن ایبل نازنین نہیں ہیں ہم ہیں۔ اس آرڈی نینس کا یہ جواب ہے کہ مسلمان خاتون کو ہندوئوں نے مودی کے سابق ممبر کی بیٹی کے مقابلہ میں کھڑا کیا اور مودی اور یوگی کو مسلمان عورت نے ہراکر یہ اعلان کیا کہ یہ سارے ووٹ اکھلیش یا اجیت سنگھ کو خوش کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ مودی جی اور یوگی جی کو یہ جتانے کیلئے ہیں کہ آپ کی حکومت سے ہم نفرت کرتے ہیں۔
پارلیمنٹ اور اسمبلی کی ملک کے مختلف حصوں میں 14 سیٹوں پر الیکشن ہوئے کیا یہ پورے ملک کا مودی جی کے خلاف عدم اعتماد کا اعلان نہیں ہے؟ ہر ہارنے والا ہمیشہ یہ کہتا رہا ہے کہ ضمنی الیکشن اور جنرل الیکشن میں فرق ہوتا ہے لیکن اگر حکومت کے اُمیدوار جیت جاتے ہیں تو اسے نیتاجی کی مقبولیت کہا جاتا ہے اتفاق نہیں۔ اب تک مدھیہ پردیش، راجستھان، بنگال، اُترپردیش اور جہاں بھی ضمنی الیکشن ہوئے ہیں وہاں بی جے پی کو عوام نے ہرایا ہے۔ اور برابر یہ دیکھا جارہا ہے کہ ووٹروں کو اُمیدوار کو جتانے سے زیادہ مودی جی کو ہرانے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اور یہ صرف ان کی نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور چار سال کی مسلسل وعدہ خلافی کا ہی نہیں اس کا بھی نتیجہ ہے کہ 2014 ء میں جن وعدوں پر ووٹ دیا تھا ان کا تو وزیراعظم ذکر نہیں کرتے اور جس کا کوئی ذکر نہیں تھا اس کا ڈھول بجائے جارہے ہیں کہ ہر گھر میں بیت الخلا ہر غریب کو پکوان گیس۔ وہ پکوان گیس جس کی قیمت تین گنا ہوگئی ہے اور جس کے لئے غریب کسان کو ایک سلنڈر کے لئے 800 روپئے دینا پڑتے ہیں اور اندر کی بات یہ ہے کہ یہ غریب کسان اور مزدور کے پاس جو رکھا ہے یا آتا ہے وہ بھی اس سے چھیننے کی ترکیب ہے۔
ان ضمنی انتخابات، خاص طور پر کیرانہ اور نور پور نے مودی جی کی چار سال کی محنت پر اتنی ٹھوکریں ماری ہیں کہ اب اگر وہ اپنی عزت چاہتے ہیں تو ہندوئوں کو مسلمانوں سے اور سیکولر ہندوئوں کو سنگھی ہندوئوں سے لڑانا بند کردیں۔ اگر کیرانہ اور نور پور میں کسی سیکولر ہندو کو اکھلیش اور اجیت نے ٹکٹ دیئے ہوتے اور میڈیا کے کیمرے دکھاتے کہ روزہ رکھے ہوئے مسلمان داڑھی اور ٹوپی پہنے اور مسلمان عورتیں برقع پہنے لائن میں لگ کر ووٹ دے رہی ہیں تو تھی تو ہندو مسلم اتحاد کے نمونے کی بات یا شاہ نواز حسین اور مختار عباس نقوی جیسے مسلمان کو ٹکٹ دیتے اور انہیں اس طرح ووٹ دیتے دیکھتے تب بھی نئی بات ہوتی لیکن مسلم خاتون کو ہندو مرد اور عورتیں اس طرح ووٹ دیں جیسے ان کی بہن کھڑی ہے تو مودی جی کو مان لینا چاہئے کہ ملک کا جو دھارا سیکڑوں برس سے بہہ رہا ہے اسے ہری دوار اور اجودھیا کی طرف صرف مندروں میں حاضری اور پوجا دکھا دکھاکر نہیں موڑا جاسکتا۔ مودی جی نے جب کرناٹک میں راہل گاندھی کو یہ گالی دی کہ وہ تو سلطانوں کی سالگرہ مناتے ہیں تو مسلمان ہونے کی وجہ سے نہیں ایک ہندوستانی ہونے کی وجہ سے تکلیف ہوئی کیونکہ ٹیپو سلطان کوئی عیاش بادشاہ نہیں تھا وہ ایک مجاہد تھا اور بھارت ماں کا بہادر بیٹا تھا وہ بھی مودی کو صرف اسلئے قبول نہیں کہ وہ مسلمان تھا۔ شاید یہ قدرت کی طرف سے اسی گالی کا جواب ہے کہ مرد کی موت نامرد کے ہاتھ سے۔
تاریخ میں ایک سال بہت ہوتا ہے مودی جی کے پاس اب بھی 350 دن سے زیادہ ہیں ان کی نفرت کی فضا بناے کا اثر ہے کہ نہ جانے کتنی مسلمان عورتیں بیوہ ہوگئیں کتنے بچے یتیم ہوگئے اور وہ ہندو اور مسلمان جو بھائیوں کی طرح رہتے تھے اور نہ جانے کتنے ہندو اور مسلمان لڑکے لڑکیاں منھ بولے بہن بھائی بنے ہوئے تھے وہ فاصلے سے ملنے لگے۔ اور وزیراعظم نے یہ نہ سوچا کہ 127 کروڑ انسان اگر ایک دوسرے پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیں ہندو مسلمان کو نوکر نہ رکھے مسلمان ہندو کو نہ رکھے ہر شہر اور ہر گائوں میں بچوں کی زبان پر ہندو مسلمان آنے لگے تو کیا قدرت تماشہ دیکھتی رہے گی؟ یہ دنیا جس نے بنائی ہے اور جو اُسے چلا رہاہے اور جس نے جانوروں اور انسانوں کی فطرت الگ الگ بنائی ہے کیا وہ اسے برداشت کرے گا؟ گورکھ پور اورپھول پور کا الیکشن تو الیکشن تھا جس نے ہندوستان کو ہلا دیا لیکن وہ کیرانہ اور نور پور کے مقابلہ میں کچھ نہیں تھا۔ یہ دونوں الیکشن اس بات کا اعلان ہے کہ ہندوئوں نے مودی جی کی ہر بات کو ٹھوکر ماردی۔ اب مودی جی کو اعلان کردینا چاہئے کہ ہریانہ سے یا ملک کے کسی حصہ سے ایسی خبر نہیں آنا چاہئے کہ مسجد کی دیوار گرادی یا کوئی مسلمان گائے لے کر جارہا تھا اسے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ مودی جی نے ایسی سیکڑوں خبروں کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے اُڑا دیا یہ نریندر مودی کے لئے تو ٹھیک تھا وزیراعظم کے لئے نہیں اب یہ بات بہت اونچی آواز میں جاٹوں نے کہی ہے۔ اگر اسے بھی نہ سنا تو برے انجام کو کوئی نہ روک سکے گا۔
Also read