حفیظ نعمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ طریقہ بھی مسز اندرا گاندھی نے ہی اپنایا تھا کہ پارٹی کے جن لیڈروں سے آنکھ میں آنکھ ڈال کر سوال کرنے کا خطرہ ہو اُنہیں حکومت سے دور رکھا جائے یشونت سنہا اٹل جی کی حکومت میں وزیر مالیات بھی رہے اور وزیرخارجہ بھی۔ ان کی کارکردگی اور تعاون اٹل جی کی طاقت تھی۔ دوسرے بزرگ لیڈر اڈوانی جی اور مرلی منوہر جوشی کا وہ مقام تھا کہ اگر آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت کا مودی جی کی کمر پر ہاتھ نہ ہوتا تو وہ اُن لیڈروں کے سامنے کرسی پر بھی نہ بیٹھتے۔ وزیراعظم نے اپنی سیمابی طبیعت کی وجہ سے جو فیصلے کئے اس نے ملک کو وہاں پہونچا دیا جہاں وہ 2009 ء میں تھا۔ نااہل ساتھیوں اور کمزور حیثیت کے وزیروں کی ہمت نہیں تھی کہ وزیراعظم نریندر مودی کی کلائی پکڑ لیتے۔
مودی جی کی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی اور جیٹلی جیسے ہارے ہوئے تابعدار کو وزیر مالیات بنانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب کشتی ڈوبنے کے خطرہ سے چوہے کود کود کر بھاگ رہے ہیں۔ ایسے وقت میں بزرگ لیڈر یشونت سنہا نے بی جے پی کے تمام ممبروں سے کہا ہے کہ وہ جمہوریت کو بچانے کے لئے آگے آئیں اور بی جے پی کے بے عزت کئے ہوئے لیڈروں اڈوانی جی اور مرلی منوہر جوشی سے کہا ہے کہ وہ قیادت کریں اور پارٹی کو بچالیں کیونکہ 2019 ء کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ مودی جی کے ہاتھوں پارٹی کا کیا حشر ہوگا؟
پورا ملک ہر دن کسی نہ کسی مسئلہ سے دوچار ہوجاتا ہے اُنائو میں ایک ایم ایل اے کی حمایت میں حکومت نے اندھی ہوکر جس طرح ایک بدکردار ایم ایل اے اور اس کے بھائیوں کی حمایت کی اس نے پوری پارٹی کو ذلیل کردیا اور بات اتنی بگاڑ دی کہ خود ہی سی بی آئی کو بلاکر پورا معاملہ اس کے سپرد کردیا اور اب سی بی آئی نے جو کچھ سامنے رکھا ہے وہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کو شرمندہ کرنے کے لئے کافی ہے۔
یہ ملک کی کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ سپریم کورٹ کے جج بھی جمہوریت کی طرف سے فکرمند ہیں اور صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی اگر مداخلت ایسی ہی رہی تو جمہوریت خطرہ میں آجائے گی۔ وزیراعظم نریندر مودی جن کی حیثیت 2014 ء میں بھگوان کی تھی آج ان کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ ہر برائی کا ذمہ دار اُنہیں سمجھا جارہا ہے جموں کے کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ جو ہوا اس پر پورا ملک شرمندہ ہے لیکن جموں کے بھاجپائی ان شیطانوں کی حمایت میں جلوس نکال رہے ہیں، جموں بند کر رہے ہیں اور سی بی آئی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آصفہ کے گھر والے سی بی آئی کا مطالبہ کرتے۔
پورے ملک میں حیدر آباد میں این آئی اے کی خصوصی عدالت کے جج کے استعفے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ جج صاحب نے فیصلہ سنایا کہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے تمام ملزم بری کئے جاتے ہیں۔ جج صاحب نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اس حادثہ کے 60 گواہ تھے گیارہ برس میں سب مکر گئے یہ بات عدالت کے کاموں سے واقف ہر آدمی جانتا ہے کہ گواہ لانا پولیس، سی بی آئی یا اس ایجنسی کی ذمہ داری ہے جو مقدمہ کی پیروی کررہی ہو۔ جب وہی نہ گواہ پیش کرسکے اور نہ ثبوت تو جج نے سمجھ لیا کہ جو سب سے بااثر ہیں وہ نہیں چاہتے کہ سزا دی جائے اور انہوں نے بری تو کردیا لیکن خود کو بھی قربان کرکے اشارہ دے دیا کہ حقیقت کیا ہے؟
مودی جی نے اسی دن کے لئے ایسے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دیا تھا اور جیتنے کے بعد ایسے ایسے لوگوں کو وزیر بنایا تھا جو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ گائوں کے سرپنچ بھی بن جائیں گے۔ پارٹی کے اندر جو ہورہا ہے وہ اڈوانی جی اور مرلی منوہر جوشی بھی دیکھ رہے ہیں لیکن انہوں نے دیکھ لیا کہ مودی جی نے جو اپنی وزارتی فوج بنائی ہے وہ اس وقت تک ان کے ساتھ چپکی رہے گی جب تک مودی وزیراعظم ہیں۔
اڈوانی جی اور جوشی جی نے چار برس تک جس خاموشی سے ذلت برداشت کی ہے وہ وقت واقعی سر اٹھانے کا نہیں تھا لیکن اب جبکہ ملک کا مخالف طبقہ بھی یہ مان رہا ہے کہ اگر اڈوانی جی وزیراعظم ہوتے تو ملک کی اتنی بری حالت نہ ہوتی۔ اب مذاق نہیں تو کیا ہے کہ 50 کروڑ ہندوستانیوں کو خطرناک بیماری کے علاج کے لئے لاکھوں روپیہ دیا جائے گا یہ ان کو دینے کا وعدہ کیا جارہا ہے جن کی بیوی اسپتال میں مرجاتی ہے تو اسے ایمبولینس نہیں ملتی وہ اپنی بیوی کی لاش کاندھے پر کھ کر دس کلومیٹر دور اپنے گھر لاتا ہے۔ 2014 ء کے پندرہ پندرہ لاکھ روپئے سے بڑھ کر یہ مذاق ہے جس کے بارے میں ہر آدمی کی زبان پر ہے کہ سرکاری اسپتال کہاں ہیں؟ اور وقت گذرنے کے بعد کہہ دیا جائے گا کہ یہ تو انتخابی جملہ تھا۔