9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
تقدیس نقوی
قیامت برپا ہونے سے قبل حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی شریف کے دنیا میں ظہورہونے پر صرف امت مسلمہ کا ہی اجماع نہیں ہے بلکہ بہت سے دوسرے ادیان کے پیروکار بھی اپنے اپنے طریقہ سے اس پر یقین رکھتے ہیں. صرف اختلاف اس امر میں ہے کہ ایک گروہ کا ایمان ہے کہ امام پیدا ہوچکے ہیں اور حکم الہی سے اس وقت پردہ غیبت میں ہیں جبکہ دوسرا گروہ یہ مانتا ہے کہ امام مہدی عج قیامت برپا ہونے سے قبل پیدا ہونگے. اولذکرگروہ کے مطابق ظہور کرنے والے حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی شریفاپنے والد گرامی حضرت امام حسن ابن علی العسکری علیہ السلام اوراپنی والدہ ماجدہ جناب نرجس خاتون سلام اللہ علیھا کی اکلوتی اولاد ہیں اورآپ کی ولادت باسعادت15 شعبان المعظم بوقت صبح بروز جمعہ سنہ 255 ہجری کو عراق کے شہر سامرہ میں ہوئی تھی. ولادت کے تقریبا’75برس بعد تک آپ سامرہ ہی میں عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے جس مدت کو غیبت صغرٰی کہا جاتا ہے. حکم الہی سے سنہ 329 ہجری کے بعد سے قیامت سے پہلے وقت معلوم تک آپ کی غیبت کبری کا زمانہ ہے.
قیامت سے پہلے امام منتظرعج کا ظہور ہونے پر تمام امت مسلمہ کے یقین وایمان رکھنے کی دلیل میں کئی قرآنی آیات موجود ہیں جن کی تائید متعدد احادیث رسول کریم صل اللہ علیہ و الہ وسلم سے بھی ہوتی ہے.مثال کے لئے سورہ النور 24ایت نمبر 55 میں ارشاد رب العزت ہورہا ہے :
وعدالله الذين امنو منكم وعملوالصالحات ليستخلفنهم في الارض كما استخلف الذين من قبلهم وليمكنن لهم دينهم الذي ارتضى لهم وليبدلنهم من بعد خوفهم امنا يعبدونني لا يشركون بي شيا ومن كفر بعد ذلك فأولئك هم الفاسقون ”
ترجمہ ( اللہ نے تم میں صاحبان ایمان وعمل صالح سے وعدہ کیا ہے کہ وہ روئے زمین میں اسی طرح اپنا خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے اور ان کے لئے اس دین کو غالب بنائے گا جسے ان کے لئے پسندیدہ قراردیا ہے اوران کے خوف کو امن سے تبدیل کردیگا کہ وہ سب صرف میری عبادت کریں گے اور کسی طرح کا شرک نہ کریں گے اور اس کے بعد بھی کوئی کافر ہوجائے تو درحقیقت وہی لوگ فاسق ہیں).
تقریبا” اسی مضمون کی دوسری ایت قرانیسورہ القصص 28آیت نمبر 5 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہورہا ہے :
ونريد ان نمن علي الذين استضعفوافي الارض ونجعلهم اىمة و نجعلهم الوارثين ونمكن لهم في الارض ونري فرعون و هامان وجنودهما منهم ما كأنو يحذرون ”
ترجمہ ( اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں اور انہیں کو روئے زمین کا اقتدار دیں اور فرعون و ہامان اور انکے لشکروں کو ان ہی کمزوروں کے ہاتھوں سے وہ منظردکھائیں جس سے یہ ڈر رہے ہیں)
مندرجہ بالا آیات مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اس زمین پر اپنے نیک اور صالح بندوں میں سی کسی کو اک ایسی حکومت اور اقتدارعطا کرے گا جس کے ذریعہ دین اسلام ہر طرف پھیل جائے گا اور کفر نفاق مکمل طور سے ختم ہوجائیگا جس میں لوگوں کو خوف کی جگہہ امن نصیب ہوگا اور اس وقت دنیا میں خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ ہوگی. اللہ کے اس قرانی وعدہ کے بعد سے اب تک دنیا میں کسی کو دین اسلام پر مبنی ایسی حکومت اور اقتدارعطا نہیں گیا جہاں کفرونفاق مکمل طورسے ختم ہوا ہواور پوری دنیا میں ہرطرف صرف اللہ ہی کی عبادت کی گئی ہو. کیونکہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اس لئے یہ اقتدار اور حکومت کسی کو ایسے وقت عطا کیا جائیگا جب ہر طرف دین اسلام کا غلبہ ہوگا. اس کے لئے اللہ اپنا ایک خلیفہ یا جانشین مقررفرمائیگا جو اس دنیا سے ہر طرح کا ظلم جورختم کرکے ہرطرف عدل وانصاف پھیلادے گا. اسی کی تفسیر احادیث رسول کریم ص سے ہورہی ہے.
ان آیات قرآنی سے اس امر کی بھی تشریح ہورہی ہے کہ اللہ تعالی کل روئے زمین کو مشرق سے مغرب تک ایک امام کے تصرف اور اختیار میں دے دیگا.
ظہورامام حجت عج کے سلسلے میں نازل ہوئی قرآنی ایات کی تائید میں کتب احادیث میں کثیر صحیح اور متواتر آحادیث نبوی موجود ہیں. مثال کے لئے ایک بہت مشھورمعروف حدیث رسول کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم مسند ابی داؤد اور صحیح ترمذی میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے منقول ہے :
قال رسول اللہ لولم یبقی من الدنيا الا يوم واحد لطول الله ذلك اليوم حتي يبعث فيه رجلا من اهليبيتي يواطئ اسمه اسمي يملأ الارض قسطا وعدلا كما ملأت ظلما و جورا”
ترجمہ ( حضرت رسول خدا صل اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایام دنیا سے باقی نہ رہے مگر ایک دن تو حق تعالی اس روز کو بڑھا دیگا یہاں تک کہ مبعوث ہو اس روز ایک شخص میرے اہلیبت سے کہ نام اسکا موافق ہوگا میرے نام کے وہ شخص بھر دیگا زمین کوعدل وانصاف سے جس طرح بھر گئی ہوگی وہ ظلم و جور سے).
امام منتظرعج کے ظہور کے متعلق تمام ائمہ معصومین علیھم السلام کے اقوال بھی کتب احادیث میں مرقوم ہیں. مثال کے لئے نہج البلاغہ میں امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ایک طویل خطبہ کا یہ فقرہ موجود ہے جو قیامت سے قبل امام کے ظہور پر دلالت کرتا ہے:
امیرالمومنین حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں ( نہج البلاغہ ) ” لیفرجن اللہ برجل منا أهل البيت (ترجمہ : اللہ تعالی ایک شخص کو ہم اہلیبیت میں سے مبعوث کریگا کہ اس کے سبب سے خلائق خوشحالی میں رہیگی).
اس امر کی تائید میں کہ صاحب امرعج پیدا ہوچکے ہیں اور پردہ غیبت میں زندہ ہیں قرآن کریم کی سورہ القدرپیش کرنا کافی ہے. اس سورہ میں ارشاد ربانی ہورہا ہے: ” تنزل الملائکہ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر” ( لیلہ القدر) میں فرشتے اور روح (حضرت جبرائیل ع) اپنے رب کی اجازت سے ہرامرلیکرنازل ہوتے ہیں. لیلہ القدر ہر سال آتی ہے تواگرکوئی صاحب امراس وقت زندہ موجود نہیں ہے تو یہ فرشتے تمام احکام الہی لیکر کس پر نازل ہوتے ہیں. اگر صاحب امر سے بادشاہان وقت یا حکمراں مراد لئے جائیں تو چودہ سو برس سے آج تک کسی بادشاہ یا حکمراں نے یہ جھوٹا دعوہ بھی نہیں کیا کہ ہر سال شب قدر میں اس کے پاس ملائکہ امر الہئ لے کر نازل ہوتے ہیں. لہٰذا ماننا پڑیگا کہ اللہ تعالی نے اپنا ایک خلیفہ پردہ غیبت میں رکھا ہوا ہے جس پر شب قدر میں کل امر نازل ہوتے ہیں.
جیسا کہ قراںی ایات اور احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ امام منتظر کا ظہور قیامت سے پہلے اک وقت معلوم پر ہوگا مگر اپکے ظہور سے پہلے بہت سی ایسی علامات’ تغیرات اور حوادث دنیا میں ظاہر ہونے لگیں گے جو اس بات کی طرف نشاندہی کریں گے کہ امام عصر عج کا ظہور عنقریب ہونے والا ہے. اس کی مثال اسی طرح ہے جس طرح بارش نازل ہونے سے پہلے موسم اور فضا میں کچھ تغیرات رونما ہوتے ہیں جیسے آسمان پر بادل چھاجا نا ‘ سورج کا بادلوں میں چھپ جانا بجلی کڑکنا اور پروندوں کا اپنے اشیانوں کی جانب واپس لوٹنا اس بات کی پیش گوئی کرتا ہے کہ اب عنقریب ہی بارش ہونے والی ہے. اسی طرح امام کے ظہور سے پہلے دنیا میں پہلے کچھ علامات ظاہر ہونگی اس کے بعداپکا ظہور ہوگا جس کے بعد اپکی پوری دنیا پر حکومت قائم ہوگی اور اپ اس دنیا کو عدل و انصاف سے بھردینگے.
امام عصرعجل اللہ تعالی شریف کے ظہور سے متعلق علامات اور پیشین گوئیاں کتب احادیث میں بکثرت ملتی ہیں.
مجموعی طور سے یہ علامات ظہور امام عصرعج دو اقسام کی بیان کی گئی ہیں.
پہلی قسم وہ ہے کہ جن کا تعلق امام عصرعج کے ظہور ہوجانے کے بعد پوری دنیا پراقتدار حآصل ہوجانے کے دور سے ہے. اور دوسری علامات وہ ہیں جو اپکے ظہور سے بہت پہلے اور کچھ ظہور سے قریبی دور میں وقوع پذیر ہونگی.
ان علامات یا تغیرات کی دوسری قسم کا تعلق اس دور سے ہے جب ظہور امام کی تیاریا ں کی جارہی ہونگی.یہ وہ دور ہوگا جب دنیا میں کچھ عجیب وغریب تغیرات رونما ہونے شروع ہوجائینگے.اس دورمیں عصر حاضر بھی شامل ہے جب بے شمار ایسے حوادث و تغیرات تجربہ انسانی میں آرہے ہیں جو اس سے قبل بنی نوع انسانی نے کبھی نہ دیکھے تھے.عقل انسانی ایسے تغیرات و حوادث دیکھ کر حیران و پریشان ہے کہ جو اس سے پہلے کبھی رونما نہیں ہوئے تھے. تو کیا یہ تغیرات و حوادث وہ علامات ظہورامام زمانہ عجل اللہ تعالی ہیں جن کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے؟ اس کی حقیقت سے تو خدائے بزرگ و برتر ہی واقف ہے مگر جب ان حوادث کا ان علامات ظہور امام سے موازنہ کیا جاتا ہےجن کا زکر اللہ کے رسول اور انکے اہلیبیت علیھم السلام نے کیا ہے تو عقل یہ بات ماننے پر مجبور ہے کہ اب علامات ظہورامام ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ بالآخرآس وقت معلوم سے جا ملے گا جب امام اس دنیا میں ظہور فرمائیں گے.
ظہور کی علامات کے متعلق حدیث رسول کریم ص ہے کہ : اس وقت تک قیامت نہ ہوگی جب تک میری اولاد میں سے مہدی ظہور نہ کرے اور مہدی ظہورنہ کریگا جب تک ساٹھ جھوٹے شخص خروج نہ کریں گے جن میں سے ہرایک کہے گا” میں نبی ہوں.”
ان علامات کوآمیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے بھی اپنے خطبات میں بیان فرمایا ہے. نہج البلاغہ کے خطبہ نمبر 138میں امام فرماتے ہیں :
جب امام منتظر عج پردہ غیب سے باہر آئیگا تو ہوائے نفس کو ہدایت و رستگاری کی طرف لوٹا دے گا( یعنی گمراہوں کو راہ راست پر لے ائے گا) جس زمانے میں لوگ ہدایت کو ہوائے نفس سے تبدیل کردیں گے( یعنی شریعت محمدیہ سے عملا” رو گرداں ہوجائینگے اور خواہش نفس کی پیروی کرنے لگیں گے) اور قرآن کو اپنی رائے کی طرف موڑ لیں گے ( امام منتظر) ان کے افکار و آراء کو قرآن کی طرف موڑ دیگا.
اسی خطبہ میں امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
اس دنیا میں تباہ کاریاں بڑھ جائیں گی. یہاں تک کہ جنگ و خوں ریزی تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی جس طرح غضبناک شیر اپنے دانتوں کو آشکارا کرکے جھپٹنا ہے یا جس طرح اونٹ دودھ سے بھرے پستانوں کے ساتھ شربت مرگ پر لپکتا ہے جس کا آغاز شیریں اور انجام تلخ اور بدمزہ. خبردار جو خبر میں دے رہا ہوں کل یہ واقع ہوکر رہیگی اور بہت جلد فردا تمہارے روبرو ایسی چیز پیش کریگا جس کو تم نہیں جانتے. بادشاہ کے گروہ کے علاوہ ایک حاکم ( امام عصر) بدکار حاکموں سے ان کے اعمال بد کا محاسبہ کریگا اور زمین اس کے لئے خزانے اگل دیگی اور اپنے خزانوں کی کنجیاں اسے سونپ دے گی اور وہ ( امام عصر) تمہیں بتا دے گا کہ عدل و دادگستری کیونکہ روبہ کار آتی ہے اور قوانین متروک شدہ کتاب و سنت کیسے زندہ ہوتے ہیں.”
پہلی قسم کی علامات میں جو تغیرات شامل ہیں ان میں چند یہ ہیں : زمین تمام دفائن اگل دیگی’ دجال و سفیانی اور یاجوج و ماجوج خروج کرینگے ‘ امام ان کو قتل کرکے دنیا میں امن امان قائم کرینگے’ حضرت عیسی ع آسمان سے نزول کرینگے’ مشرق و مغرب پر آپکی حکومت ہوگی’ وغیرہ.
ان علامات میں جو ظہور سے پہلے ظاہر ہونگی شامل چند علامات یہ ہیں :
امیرالمومنین ع نے فرمایا کہ قائم علیہ السلام سے پہلے سرخ موت اور سفید موت ہے اور ٹڈی دل کا وقت بے وقت آنا جو خون کے رنگ کی ہوگی. سرخ موت سے مراد تلوار ہے(یعنی جنگ سے لوگ ختم ہوجائینگے) اور سفید موت سے مراد طاعون و وباء ہے ( کتاب الارشاد) ( یعنی ایسی وباء جو پوری دنیا میں پھیل جائے گی جس سے پوری دنیا میں لوگوں کی موت واقع ہوگی جسے سفید موت سے تعبیر کیا گیا ہے. کہیں آج کورونا وائرس جیسی وباء سے پوری دنیا میں ایک وقت میں ہونے والی اموات سفید موت کا پیش خیمہ تو نہیں ہے ؟ واللہ عالم بالصواب )
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا : ..” شام ( سیریا) کی ایک بستی کا زمین میں دھنس جانا جسے جابیہ کہیں گے’ ترکوں ( ترکی) کا جزیرہ اور روم (مغرب) کا رملہ میں نزول اور اس وقت ہر خطئہ زمین میں زیادہ اختلاف ہونا یہاں تک کہ شام ( سیریا) برباد ہوجائیگا اور اس کے برباد ہونے کا سبب یہ ہے کہ اس میں تین جھنڈے ( تین بڑے ممالک) جمع ہوجائینگے. سفید سرخی مائل جھنڈا’ مختلف رنگوں والا جھنڈا اور سفیانی کا جھنڈا. ( کیا یہ محض اتفاق ہے کہ شام میں اس وقت جاری جنگ میں شامل اہم ممالک ترکی کا جھنڈا پورا سرخی مائل ‘ روسی اور سیرین جھنڈے میں ایک تہائی اور امریکہ جھنڈے میں دو تہائی سے زیادہ سرخ رنگ ہے؟)
بیت اللہ معطل کردیا جائے گا ( یعنی بند کردیا جائے گا)حج کا راستہ بند کردیا جائےگا ‘دین میں خود رائی کی جائیگی، حرام کو حلال کیا جائیگا، قران پڑھنا اور سننا بار ہوگا، غیبت کو اچھا سمجھا جائیگا، ویرانہ ابادی سے بدل جایگا، آلات غنا مکہ و مدینہ میں عام ہونگے، شراب کے زریعہ مریضوں کا علاج کیا جائیگا، دین کو دنیا کے بدلے بیچا جائیگا، حکمراں فاسق و فاجر ہونگے، ظلم وجور عام ہوگا، طلاق بہت زیادہ ہوگی، شراب نوشی عام ہوگی،
یمن سے آگ بھڑکے گی،جس سال ظہور ہوگا چوبیس دن بارش ہوگی ‘ پندرہ رمضان کو سورج گرہن اور آخر رمضان میں چاند گرہن ہوگا۔ مغرب سے آفتاب نکلے گا وغیرہ.
ظہورامام عصر عج سے قبل کے دور سے متعلق بیان کی گئی علامات پرغورکرنے سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ اکثر علامات دور حاضر میں ہرطرف ظاہر ہورہی ہیں اور جن کا سلسلہ آج بھیانک وباؤں اور خونی جنگوں کی شکل میں روز بروز بڑھتا جارہا ہے.
ضضضض