9807694588 موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عالم نقوی
کیا تم ان سے ڈرتے ہو ؟اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم صرف اس سے ڈرواگر صاحب ایمان ہو (سورہ توبہ آیت ۱۳)
فی زمانہ ’اہل ایمان کے دائمی دشمنوں‘ نے پوری دنیا کو اپنی سازشوں اور مظالم کے ساتھ ساتھ مفسدین فی الارض کے ساختہ و پرداختہ ایک حیاتیاتی اور کیمیائی وبا کے ’خوف ‘ میں بھی مبتلا کر رکھا ہےجبکہ ڈرنا تو بس اللہ سے چاہیےجو زمین اور آسمانوں سمیت پوری کائنات اور اُس میں موجود ہر شے کا خالق ہے ، با لخصوص مسلمانو ں کے دل میں تو اللہ کے سِوا ،اور کسی کا خوف ہونا ہی نہیں چاہیے جو توحید ،نبوت ، آخرت اور اللہ کی کتاب قرآن پر ایمان رکھنے ہی کی وجہ سے مسلمان اور مؤمن کہے جانے کے مستحق بنتے ہیں ۔اہل ایمان کی ایک بڑی تعداد اور ان کے ’بڑوں ‘ کی اکثریت،بد قسمتی سے قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر ’دشمنان ِایمان ‘کو خوش رکھنے کے لیے وہی سب کیے چلے جارہی ہے جس کا وہ مطالبہ کر رہے ہیں ۔مثال کے طور پر پچھلے کچھ دنوں سے، ملک کے مختلف مقامات پر، کم و بیش ہر مسلک کے عوام تو عوام
’خواص ‘ اور ’رہبران قوم ‘ تک اُمورِ شرکیہ انجام دینے کے تعلق سے اپنے ظلم اور تعصب کے لیے شہرت رکھنے والوں کی مختلف اپیلوں پر وقتاً فوقتاً جس طرح لبیک کہتے آ رہے ہیں وہ نہایت شرمناک اور ہر طرح قابل مذمت ہے ۔ میت کو دفن کرنے کے بجائے نذر آتش کیا جانا، مسجدوں میں اذانوں اور جمعہ و جماعت کا بند ہو جانا اور بعض جگہ تالے پڑ جانا ،اور مثلاً اتوار (۵ اپریل ) کی شب میں نو بجے مسلط کردہ اندھیرے میں اجتماعی طور پر موبائل کی ٹارچ یا دیے جلا کر تصویریں وائرل کرنے کے جو مظاہرے ہوئے ہیں کہ دیکھو ہم بھی تمہارے فرمانبرداروں میں ہیں،وہ قطعاً غلط اور بطور حکمت عملی بھی شرعاً بے جواز ہیں ۔ وہ بھول گئے ہیں کہ ۔۔’’صاحبان ایمان تو صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ اُسی نے ہمیں ہمارے راستوں کی ہدایت دی ہے اور ہم یقیناً اذیتوں پر صبر کریں گے اور توکل (بھروسہ)کرنے والے تو بس اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں،اور کافروں نے رسولوں سے کہا کہ تم ہمارے مذہب کی طرف پلٹ آؤ ورنہ ہم تم کو اپنی سر زمین سے نکال باہر کریں گے ۔تو پروردگار نے ان کی طرف وحی کی کہ ،خبر دار ! گھبرانا نہیں ،ہم یقیناً ظالموں کو تباہ و برباد کر دیں گے اور تمہیں کو ان زمینوں پر آباد کردیں
گے ،اور یہ سب ان لوگوں کے لیے ہے جو ہمارے مقام اور مرتبے سے سے ڈرتے ہیں اور ہمارے عذاب کا خوف رکھتے ہیں ‘‘(سورہ ابراہیم آیات ۱۱ تا ۱۴ )
قرآن کریم میں اللہ سے ڈرنے کے اس مفہوم کے لیے خَشِیَّت اور خُشوع،اِنذار اور تَقویٰ کے مُشتَقات استعمال ہوئے ہیں ۔ مثلاً ۔۔اَلَّذین یَخشَونَ رَبہُم ۔۔اور جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں (سورہ زُمر آیت ۲۳) ’اِنَّما تُنذِرُ الَّذینَ یَخشَونَ رَبَّہُم بالغیب۔ ۔اے نبی آپ صرف اُنہی لوگوں کو (عذاب جہنم سے) ڈرا سکتے ہیں جو بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں (سورہ فاطر آیت ۱۹)’اِنَّما یَخشَی اللہ مِن عبادِہِ العُلمٰوءا ۔۔اللہ کے بندوں میں سے صرف علما ء(اہل علم و عرفان ) ہی اُس سے ڈرتے ہیں (سورہ فاطر آیت ۲۸)اور ۔۔’وَ مَن یّتق ِاللہ یجعل لّہ مخرجا۔۔۔ اور جو بھی اللہ سے ڈرتا ہے ،اللہ اس کے لیے نجات کی راہ پیدا کر دیتا ہے (سورہ طلاق آیت ۲)’وَمَن یَّتق ِاللہ یجعل لہ من اَمرہ یُسرا ً ۔اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے امر میں آسانی پیدا کر دیتا ہے (الطلاق ،آیت ۴)’ومن یتق اللہ یکفر عنہ سیِّآتہ و یعظم لہ اجرا ً۔اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کی برائیوں کو دور کر دیتا ہے اور اس کے اجر میں اضافہ کر دیتا ہے (الطلاق، آیت ۵) ۔۔او ر ۔۔۔اللہ سے ڈرتے رہو کہ شاید تم پر رحم کیا جائے‘ ۔۔اور ۔۔’ ۔۔اللہ سے ڈرو کہ بےشک وہی توبہ کا قبول کرنے والا اور مہربان ہے‘ ۔
’انما تنذر من ا تبع الذکر و خشی الرحمن با لغیب ۔۔آپ صرف ان لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں جو ’الذکر ‘ (یعنی قرآن ) کی نصیحتوں کا اتباع کریں اور بغیر دیکھے رحمن سے ڈرتے رہیں (سورہ یٰسین آیت ۱۱)یعنی جس کے دل میں بغیر دیکھے بھی ’رحمن ‘ کا خوف ہو ۔اور کوئی اس دھوکے میں نہ رہے کہ رحمن کے یہاں عذاب کا گزر نہیں ہے بلکہ اس کی رحمت کے ایمان کے ساتھ ساتھ اس کے قہر و غضب سے بھی ہمیں خوفزدہ رہنا چاہیے تاکہ دل نرم رہے اور نصیحت اثر کر سکے ۔فی الواقع’ تقویٰ‘ یعنی اللہ کا خوف ہی،از روئے قرآن ، بزرگی ،برتری ،کمال ، شرافت ،عزت اور احترام کی حقیقی بنیاد ہے ،رنگ و نسل،قوم و قبیلہ اور حسب و نسب نہیں ، جیسا کہ دنیا والوں نے گڑھ رکھا ہے ۔اللہ کا مقرر کردہ اصول تو بس ۔’ یہ ہے کہ تم میں سے اللہ کے نزدیک ’اکرَم‘ ( یعنی بزرگ ،برتر ،صاحب ِ کمال و عزت و احترام )صرف اور صرف وہی ہے جو اللہ سے زیادہ ڈر نے والا ہے‘ ۔(سورہحجرات،آیات ۱۰۔۱۲،اور ۱۳ )یعنی جسے ہر وقت یہ احساس رہے کہ اللہ سبحانہ تعالی جو ’رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہے ‘ ۔وہ ہر وقت ،اندھیرے اُجالے ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ۔وہ سب دیکھ رہا ہے ،وہ سب جانتا ہے اور وہ دلوں کے حال اور نیتوں سے بھی واقف ہے۔ یعنی نہ اس سے کچھ چھپا ہوا ہے نہ کچھ چھپایا جا سکتا ہے ۔اور ہمیں آخرت میں اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے اور اگر وقت رہے سچے دل سے توبہ نہیں کی ہے تو اپنے سبھی گناہوں اور تمام برے کاموں کا عذاب بھی ہر حال میں بھگتنا ہے ۔