9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد اویس سنبھلی
کورونا کی وبا کے ذریعہ اللہ نے انسان کو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت جو ہم بھلا بیٹھے تھے یاد دلا دی۔اس وبا کے ذریعہ اللہ نے ہمیں بتا دیا کہ تم جتنی بھی ترقی کرو ، کتنے بھی طاقتور ہوجائے، کتنی فوجیں جمع کرلو، ایجادات کے انبار لگا دو، جتنے چاہو منصوبے بنالو، فضائوں اور سمندروں کو کتنا بھی تسخیر کرلو ، اللہ کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کا ایک اشارہ تمہاری ہر تدبیر الٹ سکتا ہے۔ہم دیکھ رہے ہیں کورونا وائرس جب سامنے آیا تو اس کا سب سے بڑا شکار چین بنااور پھر اس کے پھیلائونے دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے لیا اٹلی اور اسپین جیسے ترقی یافتہ ممالک کی چیخیں سب سے زیادہ نکلیں اور جب یہ وائرس امریکہ پہنچا تو اس کے درو بام ہلاکررکھ دیے اور چند ہی دنوں میں اس کی تمام سپرپاور کو کوڑا بنادیا۔
اروندھتی رائے (پیدائش: 24 نومبر 1961) ایک ہندوستانی مصنفہ ہے جو اپنے ناول ’’The God Of Small Things‘‘ (مطبوعہ1997) کے لئے مشہور ہے۔1997میں اس ناول نے نان فکشن کا مین بُکر پرائز جیتا تھااور سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول بن گیا تھا۔ارودھتی رائے ایک سیاسی کارکن بھی ہیں جو انسانی حقوق اور ماحولیاتی مقاصد کے لیے آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔وہ امریکی خارجہ پالیسی اور نیوکلیئر ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ صنعتی اور معاشی نمو کے بارے میں ہندوستان کی پالیسیوں کی شدید تنقید نگار ہیں نیز حق گوئی و بے بیباکی کے لیے پوری دنیا میںمشہورو معروف ہیں۔
حال ہی میں برطانیہ کے ایک اخبار’’فنانشل ٹائمز‘‘ میں ان کا ایک طویل مضمون بعنوان’’The Pandemic is a portal‘‘ شائع ہوا ہے جس میں انھوں کورونا کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔اس تحریر کے کچھ حصے قارئین کی خدمت میں حاضر کرتا ہوں۔
’’وباء پھیل چکی ہے ۔ یہ جملہ ان دنوں سوچتے اور بولتے ہوئے جھرجھری سی آجاتی ہے۔ذرا تصور کریںایک ایسی دنیا کا جس میں ہر دروازے کا ہینڈل،ہر ڈبّے، سبزی کی ٹوکری یا بیگ، کھڑکی ، چوکھٹ پر ایک کسی کو نہ دِکھنے والی بلا بیٹھی ہواور وہ آپ کے پھیپھڑوں پر وار کرنے سے پہلے آپ کی سانس کی نالی میں گھس کر جابیٹھے۔۔۔۔۔۔غورکیجئے، آج کسی کو ہاتھ لگانا، کسی کا بوسہ لینا ، بس پر سوار ہونے اور اپنے بچے کو اسکول بھیجنے سے کون خوفزدہ نہیں۔ کون ہے جو روز مرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے پہلوئوں سے لطف اندوز ہونا نہیں چاہتا ہو لیکن دل میں کہیں نہ کہیں نامعلوم خوف کلبلا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔کون سا ایسا طبی ماہر اور سائنسداں ہے جو دل ہی دل میں کسی معجزے کی دعا نہ کررہا ہو اور کون سا ایسا مولوی یا پنڈت ہے جو بنا اظہار کیے کسی ویکسین کے انتظار میں سائنس کی چوکھٹ کو امید بھری نظروں سے نہ دیکھ رہا ہو۔
بھلے ہی وائرس بری طرح پھیل رہا ہے۔۔۔ لیکن کون سا کان ہے جس کی سماعت اس وقت کسی پرندے کی چہچاہٹ سے نہ ٹکرا رہی ہواور نیلے آسمان کی خاموشی دل کو نہ چھورہی ہو۔۔۔۔۔۔۔کورونا کے متاثرین کا آنکڑا یہی کہہ رہا ہے کہ بات سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں سے گزرتی ہوئی لاکھوں متاثرین پر جانے کے بعد اب کروڑ کی شماریاتی حد عبور کرنے کے لیے تیار ہے۔ وائرس انسان سے گزرکر ، آزادانہ طور پر تجارت اور بین الاقوامی سرمائے کی راہداریوں میں گھوم رہا ہے جس نے انسانوں کو ان کے ممالک ، اپنے شہروں اور گھروں میں قید کردیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وائرس نے امیگریشن کنٹرولز، بایومیٹرکس، ڈیجیٹل نگرانی اور ہر طرح کے ڈیٹا کے تجزیاتی جزانوں کا مذاق اڑاکر رکھ دیا ہے ۔پہلی بار کسی دشمن وہ بھی نادیدہ دشمن نے دنیا کی امیرو طاقت ترین اقوام کو جھنجھوڑ دیا اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام کے انجن میں گھس کر اسے روک دیا۔بظاہر یہ انجن عارضی طور پر رکا ہوا ہو لیکن اس وقت میں کم سے کم ہمیں یہ سوچنے کا موقع تو مل گیا کہ دوبارہ مرمت کرکے آئندہ اسی انجن سے کام چلایا جائے گا یا پھر ہمیں بدلتی ہوئی دنیا کے پکارتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر ایک زیادہ بہتر فعال موثر انجن بنانا چاہئے۔
لیکن افسوس! اس وبائی مرض سے جو لوگ نمٹنے کی کوشش میں لگے تھے وہ اسے ایک روایتی جنگ سمجھ رہے تھے ،یہاں تک کہ وہ جنگ کو استعارے کے طور پر استعمال کررہے تھے لیکن اگر واقعتا یہ جنگ ہوتی تو پھر امریکہ سے بہتر کون تیار ہوتا؟لیکن سب سے زیادہ متاثر اسی سپرپاور کے شہری ہیں۔ ایسی سپر پاور کس کام کی جس کے پاس ہتھیاروں کے انبار تو ہوں مگر وہ اس دوڑ میں ماسک، دستانوں، حفاظتی کِٹوں اور جوتوں کی تیار ی بھول گئی ہواور آج اس کی تلاش میں دردر گھوم کر اس سامان کو دوسروں سے چھین رہی ہو یا دبوچ رہی ہو۔ یہ کون سا سپر پاور ہے جس کا صدر روزانہ وائٹ ہائوس میں پریس بریفنگ دے رہا ہے مگر میڈیا کو سب سے زیادہ انتظار نیویارک کے گورنر کی پریس کانفرنس کا رہتا ہے اور ٹی وی اسکرین کے سامنے روزانہ کروڑوں لوگ نیویارک کے اس گورنر کے ایک ایک لفظ کو بڑے غور سے سن رہے ہوتے ہیں۔
امریکہ کے بڑے بڑے اسپتالوں کی کمر ٹوٹ رہی ہے۔ ڈاکٹرس اور نرسیں اپنی زندگی دائو پر لگا کر بیماروں سے خود کو سنبھالنے کے لیے کچرہ جمع کرنے والے کالے پلاسٹک بیگز اور پرانی برساتیوں میں خود کو لپیٹنے میں بھی نہیں ہچکچا رہے۔رہاستیں وینٹی لیٹر کے لئے ایک دوسرے کے خلاف زیادہ بولی لگا کر جھپٹ رہی ہیں۔کئی مقامات پر اب ڈاکٹروں کو یہ طے کرنا ہے کہ وینٹی لیٹرکسے دیا جائے اور کسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟۔ اور میں بیٹھی یہ سوچ رہی ہوں کہ، ”میرے خدا! یہ اعظیم امریکہ ہے!
امریکہ میں جاری یہ المیہ فلمی نہیں ہے بلکہ سوس فیصد حقیقی ہے ۔ یہ المیہ نیا نہیں ہے۔بس دنیا کے سامنے اب ننگا ہوا ہے۔یہ المیہ اس ٹرین کا ایک ملبہ ہے جو برسوں پہلے پٹری سے اترچکی ہے۔امریکی نظام کے دروازے دہائیوں سے کمزور طبقات کے لیے بند ہیں۔ سپرپاور امریکہ کو پہلی بار پتا چلا کہ ایک غریب اور محروم شخص کو لگنے والی بیماری بھی کیسے امارات کے محل کی بنیادیں ہلا سکتی ہیں۔مگر اس سب کے باوجود برنی سینڈرز جیسے شخص کو امریکہ کا صدر بننے میں عرصہ لگے گا۔ تب تک امریکہ کی شکل کیا ہوگی کون جانے۔ برنی سینڈرز یہی تو چاہتا تھا کہ صحت کی سہولتیں ہر امریکی شہری کو مفت میں دستیاب ہوں۔ اس سے پہلے کہ ٹرمپ کا برنی سینڈرز سے براہ راست سامنا ہوتا برنی کی اپنی ڈیمویٹک پارٹی نے اس کا کریا کرم کرڈالا۔ جہاں سیاسی جماعتیں لابی کی غلام ہوں وہاں برنی سینڈرز جیسے کس کھیت کی مولی ہیں۔
حالانکہ اس وائرس کی وجہ سے ہماری گورننس اور معیشت کی کھوکھلی بنیادیں ننگی ہوچکی ہیں، مگر ہم پھر بھی دعا گو ہیںکہ دنیا کے حالات اور انسانی زندگی پہلے کی طرح معمول پر لوٹ آئیں۔ ہم ایک بار پھر اپنے مستقبل کو اپنے ماضی سے جوڑنے کے لیے اتاولے ہورہے ہیں۔ یقیناً بہت نقصان ہوچکا ہے اور مزید ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ معاشی بحران کس حد تک پہنچ جائے اور کتنا جانی نقصان دنیا کو دیکھنا پڑے۔ اس خوفناک مایوسی کے درمیان ہم اس مہلت اور آزادی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس قیامت خیز ڈھانچے کو بدلنے کے بارے میں سوچیں جس کے بوجھ نے ہمیں اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔اس وقت پہلے جیسی نارمل زندگی کی خواہش سے بدترین کوئی اور خواہش نہیں ہوسکتی۔
تاریخ میں آج تک جتنی بھی وبائیں آئیں ہیں انھوں نے ایک زمانے سے دوسرے زمانے میں داخل ہونے کے لیے دروازے کا کام کیا ہے اور انسانوں کو ماضی سے رشتہ توڑنے اور اپنی دنیا کو نئے سرے سے تصور کرنے ، نیا سوچنے کا موقع دیا ہے۔آج بھی ہماری سامنے دو طرح کے امکانات ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔یا تو ہم اپنے تعصب اور نفرت، مردہ خیالات،مردہ دریاؤں اور دھوئیںسے آلود آسمان کا بدبودار بوجھ اپنے اوپر لادے ہوئے، اس سے گزرنے کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ یا ہم یہ سب سڑا ہوا سامان یہیں اتار کر کسی تازہ تخلیقی سوچ کے ساتھ ایک نئی دنیا کا تصور کرکے مستقبل میں قدم رکھ سکتے ہیں۔‘‘
حلانکہ اروندھتی رائے کے اس مضمون کا ایک طویل حصہ ہندوستان میں کورونا کے پھیلائو اور حکومت کے انتظامات پر تنقید نیز لاک ڈائون کے سبب بھوک کا بحران اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے حکومت اور میڈیا کا کورونا کو مذہبی رنگ دینے سے متعلق تھا لیکن چونکہ دنیا کی سپر پاور امریکہ میں اس مرض کا پھیلائو دیگر ممالک کے مقابلہ زیادہ ہے، جانی نقصان بھی یہاں سب سے زیادہ ہوچکا ہے اوراس وبائی مرض سے لڑنے میں سب سے زیادہ پریشانیوں کا سامنا ہے بھی انہیں کو لاحق ہے ، اس لیے یہاں صرف اس حصہ کا انتخاب کیا گیا۔ جب دنیا کی سپر پاور اس وباء کے سامنے لاچار و بے بس نظر آرہی ہے تو باقی دنیا کے لیے تو اسی میں بڑا سبق پوشیدہ ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی موجودہ حالات سے سبق حاصل کرکے گی اور کورونا کے بعد دنیا بدل جائے گی؟۔
٭٭٭
رابطہ:9794593055