9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
شازیہ چودھری
اس وقت ہم دنیا کی تاریخ میں ایک نیا دور دیکھ رہے ہیں ۔ بحران کا، جنگوں کا، وباؤں کا انقلاب کا اور ردِ انقلاب کا دور۔ کسی تالاب میں ایک کنکر سے پیدا ہونے والی لہروں کی طرح اس بحران کے اثرات دنیا کے ہر کونے تک جا رہے ہیں۔ پہلی یا دوسری عالمی جنگ عظیم کے بعد دنیا میں بہت سارے وائرس پھیلے اور انہوں نے بہت ساری انسانی جانوں کا اس کرہ ارض سے صفایا بھی کیا جیسے برڈ فلو، سارس وائرس، زیکا وائرس، ایبولاوائرس، ماربرگ بخار وائرس ، نپاہ وائرس، کریمین کانگو بخار وائرس، انفلوئنزا، جیسے وائرس۔ لیکن حالیہ وائرس ایک بہت بڑی وباء ہے جس کو کورونا وائرس یا کووڈ-19 کے نام سے جانا جا رہا ہے یہ سماج میں پیدا ہونے والا سب سے بڑا بگاڑ ہے۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا کی حکومتوں کو بہت بڑے پیمانے پر افراتفری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور پورے عالم میں سماجی، معاشی، سفارتی اور عسکری توازن بگڑ کر رہ گیا ہے۔ یہ وائرس تقریباً دنیا کے ہر ملک میں اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے اور ہر طرف جنگی صورتحال پیدا ہو چکی ہے خاص کر پوری دنیا میں اس وقت کی سب سے بڑی سماجی اور معاشی ایمرجنسی نافذ ہو چکی ہے۔ کہیں کورونا وائرس کا یہ قہر تیسری عالمگیر جنگ ہی تو نہیں۔ کیونکہ اس وائرس نے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو بھی خطر ناک حد تک متاثر کیا ہے، اور بد دستور کر رہا ہے اور واللہ عالم کس حد تک کرے گا کیونکہ پیشن گوئیاں تو یہاں تک کی جا رہی ہیں کہ عالمی معیشت کےایک فیصد سے بھی کم ہونے کے امکانات ہیں۔ لینن نے کہا تھا کہ تیسری عالمی جنگ کا تو مجھے پتہ نہیں البتہ چوتھی عالمگیر جنگ تلواروں اور ڈنڈوں سے لڑی جائے گی۔ لینن کی اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ صورتحال جنگی صورتحال ہے کیونکہ اس صورتحال کا سب سے زیادہ اثر معیشت پہ پڑ رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر دنیا کے ایسے ممالک جن کے پاس نیوکلیائی بم اور ہتھیار ہیں وہ نیوکلیائی بحران کا بھی شکار ہوں گے کیونکہ ظاہر سی بات ہے معیشت ختم ہوگی تو ہتھیار بھی ختم ہوں گے اور پھر اسکے بعد کی لڑی جانے والی جنگیں تلواروں اور ڈنڈوں سے ہی لڑی جائیں گی۔ کورونا وائرس کی وجہ سے اس وقت تک ہزاروں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اور لاکھوں لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وباء اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں روزانہ 20 سے 30 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ فی الحال اس کی کوئی ویکسین نہیں ہے اور کسی کے پاس حالات پر قابو پانے کا کوئی مؤثر منصوبہ بھی نہیں ہے۔ زیادہ تر ممالک عالمی ادارہ صحت(WHO) جیسے اداروں کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی مرضی کے اقدامات کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں کے صحت کے شعبے جواب دے چکے ہیں اور دوسرے ممالک کے شعبہ صحت کے کارکنان آنے والے ہفتوں اور مہینوں کو لے کر خوفزدہ ہیں۔اور اس وباء سے فوری بحالی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ کچھ ماہرین یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اس سال عالمی معیشت کی شرحِ نمو کم ہو کر 1 فیصد رہ جائے گی جو پچھلے سال 2.6 فیصد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے ممالک معاشی بحران کا شکار ہوں گے۔ مگر یہ خوش فہمی ہے کہ صنعت، تجارت اور آمدورفت بار بار تعطل کا شکار ہوں گے۔ عالمی معیشت کو ایک گہرے بحران کا سامنا ہو گا۔ دنیا کے سپر پاور کہلانے والے ملک امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 11 مارچ تک تو یہ ماننے سے ہی انکار کرتے رہے کہ بیماری سے کوئی خطرہ ہے۔ چینی حکومت کمزور معیشت کو نقصان کے خوف سے کئی ہفتے تک وباء کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرتی رہی۔ اس کے بجائے انہوں نے اطلاع دینے والوں اور تحقیق کرنے والوں کو قید کیا اور انہیں سزائیں سنائیں۔ ایران میں حکومت نے کئی ہفتوں تک بیماری کی موجودگی سے ہی انکار کیا تاکہ پارلیمانی انتخابات کا سلسلہ چلتا رہے۔ ابھی تک حکومت بیماری کی شدت چھپا رہی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ابھی تک کورونا وائرس سے محض چند سو افراد ہلاک ہوئے ہیں، مگر غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہلاکتیں اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ متاثر ہونے والوں کی اصل تعداد لاکھوں میں ہو۔ ایسے ملک جن کو دنیا میں معاشی اعتبار سے بڑا رتبہ حاصل رہا ہے اس وباء نے ان ملکوں میں سب سے پہلے اپنے پنجے گاڑھے ہیں اور ان ملکوں نے شروعات میں اس وباء کو چھپانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں کورونا وباء آج دنیا کے ہر ملک میں پھیل چکی ہے اگر شروعات میں ہی وہ سب احتیاطی تدابیر اپنائی جاتیں جو آج عالمی سطح پر اپنائی جا رہی ہیں تو شائد صورتحال اتنی تباہ کن نہ ہوتی۔ آج بیشک بہت ساری احتیاطی تدابیر اپنائی جا رہی ہیں عوامی کرفیو نافذ کر دئیے گئے ہیں، سفر پر پابندی عائد ہے، بازار بند ہیں، ہر ملک نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں یعنی نہ کوئی باہر جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی باہر سے ملک میں آ سکتا ہے ایسے میں ظاہر سی بات ہے تجارت بھی بند ہو گئی ہے یعنی اب ہر ملک میں اشیاء خوردنی کی قلت ہوگی۔ عوام پہلے تو وائرس سے مرے گی، اس سے بچی تو وائرس کے خوف سے مرے گی، اس سے بھی بچ گئی تو بھوک سے مرے گی۔ یعنی وباء کے ساتھ ساتھ ہر ملک کو اب بھوک مری اور فاقہ کشی کی جنگ بھی لڑنی ہے۔ ان احتیاطی تدابیر کے بغیر چارہ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ وباء ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو رہی ہے ایسے میں انسان کو انسان سے دوری بنا کے رکھنی ہے اور سماجی دوری ہی اس وباء سے بچنے کا موثر طریقہ ہے اس کے علاوہ کچھ اور احتیاطی تدابیر ہیں جن پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے
1- اپنے ہاتھ ایسے صابن یا جل سے دھوئیں جو وائرس کو مار سکتا ہو۔
2- کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کو ڈھانپیں، بہتر ہوگا کہ ٹشو سے، اور اس کے فوری بعد اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس پھیل نہ سکے۔
3- کسی بھی سطح کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں۔ وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے یہ آپ کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
4- ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں جو کھانس رہے ہوں، چھینک رہے ہوں یا جنہیں بخار ہو۔ ان کے منہ سے وائرس والے پانی کے قطرے نکل سکتے ہیں جو کہ فضا میں ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد سے کم از کم ایک میٹر یعنی تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔
5- اگر طبیعت خراب محسوس ہو تو گھر میں رہیں۔ اگر بخار ہو، کھانسی یا سانس لینے میں دشواری تو فوری طبی مدد حاصل کریں
6- طبی حکام کی ہدایت پر عمل کریں۔ اس وائرس کے خطرات سے ہم خود کو اور اپنوں کو خود ہی بچا سکتے ہیں سماج کا ہر شخص اگر گھر میں ہی رہے گا اور مندرجہ بالا احتیاطی تدابیر کو اپناۓ گا تو یقین کامل ہے کہ ہم کورونا وائرس کی اس جنگ کو جیت سکتے ہیں۔ اور خود کو اور اپنوں کو ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو اس وباء سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
کلر راجوری جموں و کشمیر بھارت
ضضض