کورونا سے بچنا ضروری لیکن بے روزگاری پر دھیان بھی ضروری

0
64

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

ڈاکٹر سید محمد حسان نگرامی

کرونا کا عذاب روز بروز اپنی گرفت میں پوری دنیا کو جکڑتا جا رہا ہے، مرنے والوں کی تعداد ایک کروڑ پہونچنے کو ہے اور اگر امریکہ کے اندیشہ کو سامنے رکھیں تواس کی الٹی فنتی کب شروع ہوگی کچھ پتہ نہیں۔سانحہ یہ ہے کہ ایسے تباہ کن حالات میں ہم جو اپنے مہذب، ترقی یافتہ، دانشور اور سائنداں اور خلاء کے مسافر سمجھتے ہیںبجائے اپنے ظلم و ستم پر شرمندہ ہوکراحساس جرم کرنے کے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے کیا پیغام دینا چاہتے ہیںاسے تو وہی بتا سکتے ہیں۔ ہلاکتوں کی تعداد ایک ہو یا ایک کروڑاس کا ماجرا اس ماں سے پوچھئے جس کا بیٹا چلا گیا، اس بیوہ سے پوچھئے جس کی مانگ ویران ہو گئی اس بہن سے پوچھئے جس کا واحد سہارااس کا بھائی اب اس دنیامیں نہیں رہے اور چھوٹے چھوٹے بلکتے بچوں ے پوچھئے جو یتیم ہوگئے اور جن کے ماں باپ آفس یا فیکٹری سے واپس ہوتے وقت کچھ بھی لے کر نہیں آئینگے۔
اس وبا کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ کسی کو کچھ نہیں معلوم ہے کہ یہ کتنے دنوں تک اثر ڈالے گی۔کتنی دور تک ہوا کو زہریلا بنائے گا اور وبا کے ختم ہونے کے بعد خدا کرے جلد ختم ہوجائے کتنے مہینوں تک اس کیاثرہوگا، اس کی روک تھام کے لئے ہم سماجی دوری بنانے،گھروں سے باپر نہ نکلنے اور علاقوں کی ناکہ بندی کی پریشانیوںکے باوجودرضاکارانہ طور پر یا حکومت کی سختی سی عمل پیرا ہیںاور رہنا بھی چاہئے کے یقینی طور سے نہیں پھر بھی شاید اس مصیبت سے نجات مل جائے اور اس کے نقصانات کچھ کم ہوجائیں۔
سوال یہ ہے کہ بعد میں کیا ہوگا
وبا کے بعد جو مصیبت یا آفت سب سے بڑی آپڑی ہے وہ ہے بڑھتی بے روزگاری خاص طور سے ان مزدوروں کی جو کارخانوں کے بند ہونے کے بعداپنے گھروں کو چلے آئے یہ سہی ہے کہ وہ متعلقین میں آگئے لیکن روٹی کا کیا ہوگا، چولھے کیسے جلیں گے ، کیا ۵۰۰ روپئے ماہوار کی رقم جو صرف رجسٹرڈ مزدودروں کے کھاتے میں پہونچنا شروع ہوئی ہے اس سے کتنے دن چولہا جلے گا اس کروڑوں مزدوروں کے ساتھ ان کارخانوں کے مالکوں کا کیا ہوگاجنہوں نے کارخانے بند کرکے مزدوروں کا خرچ تو کم کر لیا لیکن اس سامان کی بربادی کا کیاہو گو کو کارخانوں میں سڑ رہا ہو اور چوہے اسے اپنی غذا بنا رہے ہیں، کسان طبقہ کیا کرے گا جو صرف مزدور نہ ملنے سے ابھی گہیوں کی فصل نہیں کاٹ سکا، بے موسم بارش اور اولوں نے پہلے ہی اسے بڑے خسارے میں ڈال دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب گہیوں کھیتوں سے نہیں آئیگا تو غلہ ضرورت مندوں میں تقسیم کیسے ہوگا۔بتاتے چلیں کہ آوارہ جانوروں کی بڑھتی تعدادفصل کے بڑے حصہ کو نعمت سمجھ کر پہلے ہی ہضم کر چکی ہے۔یہی ہال ہری سبزیوں کا ہے، آلو تیار ہے ،پیاز منڈیوں میں سڑ رہا ہے، ٹماٹر ابھی کھیتوں میں ہے اور منڈی میں آگیا ہے ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں ہے وہیں برباد ہو رہا ہے، کچھ اسی طرح کے مسائل چھوٹے اور بڑے ٹرک والوں کے ہیں راستے بند ہیں، کئی کئی میل لمبی ختارے لاک ڈائون ختم ہونے کے انتظار میں ہیں، ان ٹرکوںکے ڈروئیوروں کے کھانے پینے کا مسئلہ تو ہے ہی ان ٹرکوں میں لدی سبزیوں، سیب،سنتریم انگور،پپیتے اور انار کا کیا ہوگا وہ کس ہال میں ہے یہ تو منڈی میں پہنچنے کے بعد معلوم ہوگا،ٹرینوں کے بند ہونے سے لاکھوں قلی بھیک مانگنے کے کگار پر آگئے ہیں۔یہی ہال مچھلی اور مرغی پالنے والوں کا ہے،مچھلی اور مرغیوں کو اگر دانہ نہ دیاجائے تو وہ مر جائیں گی اور جب انڈا اور مچھلی فارم سے باہر نہیں جا پائیگا تو ان کی بکری کیسے ہو گی اور جب مال نہیں بکے گا نفع تو چھوڑئے دانے کا پیسہ کہاں سے آئیگا۔
ہم نے اس تجزیہ میں بڑے سرمایاکاروں اور بڑے کارخانوں کا ذکر نہیں کیا ہے ، مہاورہ ہے کہ ہاتھی مر کے بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا یا اخباروں میں اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو ایک عام جواب یہ ملتا ہے کہ ارے بھائی بچیں گے تب کو کاروبار یا مزدوری کریں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کرونا ختم ہونے کا انتظار کرتے کرتے کہیں ایسا نہ ہو کہ بکھمری اور بے روزگاری سے مرنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ جائے کہ ہماری لئے اس کا سنبھالنا مشکل ہو جائے اس سلسلہ میں چند مشورے دئے جا رہے ہیں۔
حکومت دھیرے دھیرے کارخانوں میں کام شروع کرنے او ر مزدوروں کے لئے خصوصی ٹرین چلا کر انھیں کارخانوں تک پہونچانےکا کام جلد از جلد شروع کرائے۔
تعمیری کام کو بھی فوراًشروع کرائیں تاکہ مزدودروں کی بڑی تعداد جو بے روزگار ہوگئی ہے اپنے کام پر لگ جائے۔
ٹھیلے اور سائیکلوں پر سبزی بیچنے والوں کی مدد کر کے ان کے کاروبار کو بہال کیا جائے۔
مرکزی اور ریاستی حکومتیں ایک ٹاسک فورس بنا کر فصل کاٹنے اور اسے جلد از جلد منڈی میں پہونچانے کا انتظام کریں۔
ہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ ان مزدوروں کا مکمل سنے نی ٹائی زے شن Sanitizationکیا جائے اور ان کے لئے رہائشی کیمپوں میں صفائی کے ساتھ وبا کے ختم ہونے تک انھیں وبا سے محفوظ رکھا جائے۔
٭٭٭
سابق ڈپٹی ڈائیکٹر یونانی
7071772077

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here