9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر اسد عباس
کورونا ایک عالمی موذی مرض ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں میں اس نے پوری دنیا میں اپنے پیر پھیلا دیئے ہیں اور ہمارے ملک میں نہ صرف دستک دی ہے بلکہ اس کے قہر تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ دوسرے ممالک کے پچھلے مشاہدے کو دیکھتے ہوئے آج نہیں تو کل اس کا اثر بالواسطہ یا بلاواسطہ طریقے سے ہر بھارتیہ پر پڑنے کا امکان ہے۔ آج اس بیماری کی لڑائی میں خاص طور سے ڈاکٹر، طبی ملازمین، صفائی ملازمین، پولیس اہلکار، میڈیا کے لوگ، ضروری اشیاء سے متعلق کاروبار سے وابستہ لوگوں کا تعاون کررہے ہیں۔ یہاں پر یہ کہنا ضروری ہے کہ ان کے علاوہ سماج کے ہر شخص کے تعاون کے بغیر یہ لڑائی نہیں جیتی جاسکتی۔ اپنے کو اس بیماری سے بچانے کیلئے طبی ملازمین اور حکومت کے ذریعے بتائے گئے تراکیب کا مکمل طور سے عمل کرنا ہی اس بیماری سے لڑنے اور جیت پانے میں مددگار ہوگی۔
اس مرض کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک نیا وائرس ہے جو ابھی تک کی معلومات کے مطابق خاصیت سے رسپی ریٹری سسٹم کو متاثر کرتا ہے۔ یہ جسم کے اور اعضاء کو کس طرح سے متاثر کرتا ہے یہ ابھی ریسرچ کا موضوع ہے۔ ہمارے ملک میں اس مرض سے لڑنے کی کوشش جاری ہے لیکن آنے والا سماج طے کرے گا کہ ہمیں کتنی کامیابی ملی ہے۔ اس بیماری کے سلسلے میں کچھ معلومات جو ہر شخص اور ساتھ میں میڈیکل علاقے سے وابستہ لوگوں کے لئے ضروری جانکاری اخبار سے آپ تک پہنچانے کی کوشش ہے۔ کووِڈ- 19 ، کورونا وائرس کنبہ کا ایک نیا وائرس ہے جو ابھی تک کی اطلاع کے مطابق بہت تیزی سے پھیلنے والا رسپی ریٹری سسٹم کو شکار کرنے والا وائرس ہے۔ یہ بہت تیزی سے مریض کے رابطے میں آنے والے نارمل لوگوں کو شکار کرتا ہے۔
ابھی تک کی معلومات کے مطابق انفیکشن کی خاص علامات ہیں:
بخار، سوکھی کھانسی، جسم میں درد، ناک کا بہنا، کمزوری لگنا، پیٹ کا خراب ہونا، سانس کا پھولنا/ سانس لینے میں پریشانی ہونا۔ ایک مریض سے رابطہ ہونے اور نئے شخص میں علامت آنے کا وقت عام طور سے 4-14 دن دیکھا گیا ہے۔
مذکورہ بالا علامات ہمارے ملک میں نارمل وائرل بخار میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں اس لئے کورونا کا امکان اسی کی وجہ مانی جاتی ہے اگر مریض نے گذشتہ کچھ دنوں میں کسی کرونا کا شکار ملک کے سفر میںہو یا کسی کورونا مریض کے قریب رابطے میں آیا ہو، یا کسی ایسے شخص کے رابطے میں آیا ہو جس نے کورونا شکار ملک کا سفر کیا ہو۔ اس مضمون کے لکھنے تک طبی افسروں کی مانیں تو ابھی ہمارے ملک میںکمیونٹی اسپریڈ کی تصدیق نہیں کی گئی ہے اس لئے اوپر لکھے گئے فیور کے مریضوں کے علاوہ دیگر بخار میں مبتلا کورونا کے امکان کم ہیں لہٰذا انہیں احتیاط برتنا ہے لیکن ان کا کورونا ٹیسٹ لازمی نہیں ہے۔
ناظرین کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ابھی تک عالمی سطح پر جو اعداد و شمار ہیں ان میں سے بیماری کے سنگین علامات کے ہونے کا امکان 20 فیصد تک ہے، 80 فیصدی مریض ہلکے بخار، زکام کے علامات کے ساتھ ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
یہاں پر سوال اُٹھتا ہے کہ دنیا بھر میں اتنی گھبراہٹ کیوں ہے؟ اس کے کئی وجوہات ہیں: یہ وارئس نیا ہے لہٰذا ابھی اس کے مکمل اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ روزانہ نئی معلومات اور اعداد و شمار آرہے ہیں۔ اس وائرس کی دوسروں کو مبتلا کرنے کی شرح اور تیزی سے دیگر وائرس کے مطابق کافی زیادہ ہے اس لئے یہ اتنا کم وقت میں پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کرچکا ہے۔ اس وائرس کے اتنی تیزی سے پھیلنے سے مریضوں کی بڑھتی تعداد امریکہ اور اٹلی جیسے ترقی پذیر ممالک کی طبی نظام کو تعطل کرسکتی ہے۔ یہ وائرس زیادہ عمر کے لوگوں اور دوسری بیماریوں جیسے ہارٹ، لیور، لنگ، کڈنی کی بیماریوں میں مبتلا لوگوں مین تیزی سے خطرناک صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اس مرض کا نہ ابھی تک کوئی سائنسدانی طور پر نامکمل علاج ہے اور نہ کوئی ٹیکہ دستیاب ہے۔ ابھی ان سب نکات پر ریسرچ جاری ہے۔ جس طرح سے طبی معاملے اور ذرائع ڈاکٹروں اور طبی ملازمین کو اسے لڑنے کیلئے چاہئے جیسے ماسک، ٹی پی آئی، گلووس اور مریضوں کیلئے وینٹی لیٹر ترقی پذیر ممالک میں بھی اس تناسب میں دستیاب نہیں ہیں۔
ابھی اس صورت حال میں جب یہ لوگ ہمارے ملک میں بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ہماری حکومت نے جو فیصلے ماہرین کی رائے لی ہیں اس میں تعاون کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ جیسا میں نے بتایا ابھی تک اس بیماری میں کوئی کارگر علاج نہیں ہے تو اس کو بڑھنے نہ دینا ہی اس کا علاج ہے۔ ایسے میں ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں۔
کیا کریں:
لاک ڈائون یا جنتا کرفیو پر مکمل طور سے عمل کریں۔ جیسے کچھ لوگ کرفیو پاس کو گھومنے کا لائسنس سمجھ رہے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ کرفیو پاس صرف ضروری خدمات سے وابستہ لوگوں کے لئے ہے۔ آپ کا گھر سے باہر نکلنا آپ کی اور آپ کے کنبے کی حفاظت کے ساتھ ملک اور سماج کی حفاظت کیلئے ہے۔ انتظامیہ جو انتھک کوشش اس کے لئے کررہی ہے وہ حقیقت میں اپنے صحت سے زیادہ آپ کے صحت اور ہونہاری کی فکر کررہی ہے۔
اپنے ہاتھ کو بار بار صابن پانی سے دھوتے رہیں الکحل بیسڈ سینی ٹائزر کا استعمال تبھی کریں جب صابن پانی دستیاب نہ ہو۔ الکحل بیسڈ سینی ٹائزر تبھی کارگر ہے جب 65 فیصدی سے زیادہ الکحل کانٹینٹ ہو۔
کھانسی یا چھینک آنے پر منھ پر کپڑا رکھیں یا ٹیشو کا استعمال کریں۔ کھانسنے یا چھینکنے کے بعد ہاتھ کو دھولیں۔
ان میں سے کوئی بھی علامت ہونے پر اپنے گھر میں رہ رہے ضعیفوں اور بیمار لوگوں سے فاصلہ بنالیں۔
علامت بڑھنے پر سرکاری ہیلپ لائن نمبر یا فلیو کلینک سے رابطہ کر ہدایات کی تعمیل کریں۔
کیا نہ کریں:
کسی معاملہ کے ڈپریشن میں مبتلا نہ ہوں
ٹی وی پر یا سوشل میڈیا زیادہ سے زیادہ کورونا سے متعلق باتوں کو نہ پڑھیں۔ صرف سرکاری اور صحیح معلومات والے ویب سائٹ اور ٹی وی چینل کے نیوز پر بھروسہ کریں۔
کنبہ اور دوستوں کے فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ بنائے رکھیں۔
اچھا اور مقوی غذا کھائیں پھل اور سبزیاں اگر آسانی سے دستیاب ہیں تو زیادہ مقدار میں استعمال کریں۔ پانی خوب پئیں زیادہ پروٹین والی ڈائٹ لیں۔
ہلکا پھلکا جسمانی ورزش و کسرت کرتے رہیں۔
اچھی نیند لیں، اپنے کنبہ کے ساتھ اچھا وقت گذاریں اور یہ کوشش کریں کہ کسی کے بھی رابطے میں منفی خیال نہ لائیں۔
طبی ملازمین، ڈاکٹروں، صفائی ملازمین، میڈیا کے لوگوں، ضروری سہولیات کے وابستہ لوگوں اور خاص کر پولیس انتظامیہ کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کا تعاون کریں اور ان کے کاموں میں رُکاوٹ نہ بنیں۔
ایک سب سے ضروری کام اس مصیبت میں گھڑی میں اپنے آس پاس رہ رہے ایسے لوگوں کا دھیان رکھنا کا ہے جو غریب طبقہ سے آتے ہیں اور جو روزانہ کمانے اور کھانے والے ہیں۔ ہم سبھی کا فرض ہے ان میں سے کوئی بھی بھوکا نہ رہے۔ اگر ہر مستحق شخص صرف اپنے آس پاس سے بندوبست بنالیں توہمارے ملک پر اس آفات میں آنے والا مالی بحران ٹل سکتا ہے۔ ایسے میں حکومت اپنا انتظامات کو خاص کر طبی خدمات کو سدھارنے کی جانب زیادہ دھیان دے سکتی ہے۔
آج ہم 130 کروڑ ہندوستانی متحد ہوکر اس مصیبت کو دور کرسکتے ہیں اور پوری دنیا کو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ لوگوں کا آپسی تعاون اور اتحاد کی طاقت اس موذی مرض کو ہرا سکتی ہے۔
آج ایک خاص مسئلہ ہمارے سماج یعنی مسلم بھائیوں کی طرف سے آرہی ہے۔ ان کی طرف سے اس لاک ڈائون اور سوشل فاصلہ کو ٹھیک سے نہ سمجھ پانے کی خبریں میڈیا میں مسلسل گشت کررہی ہیں۔ اس میڈیا ٹرائل کے دَور میں ہمیں کوئی ایسا موقع نہیں دینا چاہئے جس سے لگے کہ ہم کچھ الگ سوچتے ہیں۔ ہمیں پوری طرح سے انتظامیہ کا تعاون کرنا چاہئے اور ہر بات کو تسلیم کرنا چاہئے۔
سماج کے ذمہ دار لوگوں کا یہ فرض ہے کہ اپنے آس پاس والوں کو اس بیماری اور اس سے بچائو کے بارے میں بتائیں۔ لوگوں کو بتائیں کہ اس وقت گھر میں نماز پڑھیں مسجد جانے سے بہتر ہے۔ کسی طرح سے مذہبی اجلاس یا تقریب اس وقت ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے۔ مسلم ممالک نے بھی یہی فیصلہ لیا ہے خانۂ کعبہ میں عمرہ کو روک دینا، ایران، عراق، سعودی عرب میں مساجد میں جانے سے پرہیز کرنا اس بات کی دلیل ہے۔ ایسے بھی اس طرح کے موذی مرض سے نپٹنے کیلئے اللہ کے رسولؐ کی حدیث موجود ہے۔
حضرت محمد مصطفیٰؐ کے زمانے میں جب عرب میں ایسے ہی پلیگ یا طاعون کی بیماری پھیلی تھی تب آپ نے یہی حکم دیا تھا کہ جو جہاں ہے وہیں رہے نہ کوئی اس جگہ جائے جہاں بیماری ہے اور نہ کوئی اس بیماری کی جگہ سے باہر آئے۔
ہم لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس سے بہتر کوارنٹائن، جنتا کرفیو، لاک ڈائون کا ایکس پلے نیشن اور کیا ہوسکتا ہے۔
دوسری حدیث یہ ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ جس کو بھی ایک دوسرے کے کانٹیکٹ سے پھیلنے والی بیماری ہے اسے تندرست لوگوں سے دور رکھا جائے۔ یہ پیغام اُن لوگوں کے لئے ہے جو سوشل فاصلہ کو نہیں سمجھ پارہے ہیں۔
آخر میں اُن لوگوں کیلئے جو یہ کہتے ہیں کہ صرف دعا سے اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ بیشک شفا دینے والا اللہ ہے لیکن بغیر انسان کی کوشش کے کیا یہ ہوسکتا ہے۔ ایک واقعہ یہاں پر اہم ہے۔
ایک بار حضرت محمد مصطفیٰؐ کے پاس آیا اور اپنے اونٹ کو روک کر آپ کے پاس مسجد میں آیا۔ آپ نے اس سے کہا جائو اور اپنے اونٹ کو درخت سے باندھ دو۔ اس نے کہا اُسے اللہ پر بھروسہ ہے۔ آپ نے اس وقت اس سے یہی کہا کہ بیشک اللہ حفاظت کرنے والا ہے لیکن اس نے تم کو یہ عقل دی ہے کہ پہلے اپنے اونٹ کو صحیح اور محفوظ جگہ باندھو۔
ایک بات اور ہمیں ہسٹری سے سیکھنے کی ہے 1918 سے 1920 ء میں اسپینش فلیو کے اسپین میں پھیلنے کا ایک سبب آج بھی یہی مانا جاتا ہے کہ اس وقت کچھ مذہبی اداروں نے میڈیکل ایڈوائس کو نہیں مانا اور اپنے مذہبی پروگراموں کو ملتوی نہیں کیا جس کی وجہ سے سب سے زیادہ تیزی سے وہ بیماری وہیں پر پھیلی اور سب سے زیادہ لوگوں کی موت بھی وہیں پر ہوئیں۔
اس لئے ہم سب لوگوں کو اللہ کی بارگاہ میں ائمہ معصومین ؑ کے صدقے میں دعا کرنی چاہئے کہ جلد سے جلد پوری دنیا سے بیماری پر فتح یاب ہو اور ساتھ ہی اس بیماری سے لڑنے کے لئے جو میڈیکل سائنٹسٹ اور حکومت نے اصول بنائے ہیں ان کا سختی سے تعمیل کرنی چاہئے۔
کیا کریں:
لاک ڈائون یا جنتا کرفیو پر مکمل طور سے عمل کریں۔ جیسے کچھ لوگ کرفیو پاس کو گھومنے کا لائسنس سمجھ رہے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ کرفیو پاس صرف ضروری خدمات سے وابستہ لوگوں کے لئے ہے۔ آپ کا گھر سے باہر نکلنا آپ کی اور آپ کے کنبے کی حفاظت کے ساتھ ملک اور سماج کی حفاظت کیلئے ہے۔ انتظامیہ جو انتھک کوشش اس کے لئے کررہی ہے وہ حقیقت میں اپنے صحت سے زیادہ آپ کے صحت اور ہونہاری کی فکر کررہی ہے۔اپنے ہاتھ کو بار بار صابن پانی سے دھوتے رہیں الکحل بیسڈ سینی ٹائزر کا استعمال تبھی کریں جب صابن پانی دستیاب نہ ہو۔ الکحل بیسڈ سینی ٹائزر تبھی کارگر ہے جب 65 فیصدی سے زیادہ الکحل کانٹینٹ ہو۔
کھانسی یا چھینک آنے پر منھ پر کپڑا رکھیں یا ٹیشو کا استعمال کریں۔ کھانسنے یا چھینکنے کے بعد ہاتھ کو دھولیں۔
ان میں سے کوئی بھی علامت ہونے پر اپنے گھر میں رہ رہے ضعیفوں اور بیمار لوگوں سے فاصلہ بنالیں۔
علامت بڑھنے پر سرکاری ہیلپ لائن نمبر یا فلیو کلینک سے رابطہ کر ہدایات کی تعمیل کریں۔
کیا نہ کریں:
کسی معاملہ کے ڈپریشن میں مبتلا نہ ہوں
ٹی وی پر یا سوشل میڈیا زیادہ سے زیادہ کورونا سے متعلق باتوں کو نہ پڑھیں۔ صرف سرکاری اور صحیح معلومات والے ویب سائٹ اور ٹی وی چینل کے نیوز پر بھروسہ کریں۔
کنبہ اور دوستوں کے فون اور سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ بنائے رکھیں۔
اچھا اور مقوی غذا کھائیں پھل اور سبزیاں اگر آسانی سے دستیاب ہیں تو زیادہ مقدار میں استعمال کریں۔ پانی خوب پئیں زیادہ پروٹین والی ڈائٹ لیں۔
ہلکا پھلکا جسمانی ورزش و کسرت کرتے رہیں۔