کورونا اور کوویڈ ۱۹ کی وبا کا علاج نفرت نہیں

0
78

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

عارف نقوی

پچھلے کئی مہینوں سے جاڑوں کی تلخیوں کا سامنا کرنے کے بعد اب یہاں موسمِ بہار کی آمد ہوئی ہے۔ رفتہ رفتہ خنکی کم ہوئی ہے۔ پیڑوں پر ہرے ہرے پتے نکلنا اور پھول کھلنا شروع ہوئے ہیں ۔جرمنی اور یورپ کے دیگر ملکوں میں گرمیاں خدا کی بہت بڑی نعمت سمجھی جاتی ہیں، لوگ مہینوں ان کے لئے ترستے ہیں اور اگر سورج کی چمچماتی ہوئی کرنیںہر طرف نور پھیلا دیتی ہیں، تولوگوں کے چہرے بشاش ہو جاتے ہیں۔بچے، بوڑھے ، پارکوں، جھیلوں اور پہاڑی مقامات کی طرف بھاگنے لگتے ہیں۔یا ایشیا، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے مرغزاروں اورسمندری ساحلوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ لیکن اب کئی ہفتوںسے یہاں کے ماحول پر اُداسی طاری ہے۔خوبصورت پارک، جھیلیں، پہاڑی تفریحی مقامات اور سمندری ساحل سنسان ہیں ۔ رقص گاہیں، عالیشان ریستوراں، تھئیٹر اور سنیما ویران ہو گئے ہیں۔اور یہ سب ایک مہلک وبا کا نتیجہ ہے جو کورونا وائرس کی شکل میںنازل ہوئی ہے۔جس میں لاکھوں انسان یورپ میں مبتلاء ہیں اور ہزاروںمر چکے ہیںاور ابھی نہ جانے کس کس کی باری آنے والی ہے۔
لیکن اس وبا نے ایک بات کا احساس سب کے دلوں میں پیدا کر دیا ہے اور وہ یہ کہ کورونا کے جراثیم یہ نہیں دیکھتے ہیںکہ کون حسین ہے کون بدصورت، کون کالا ہے اور کون سفید، کون عیسائی ہے، کون یہودی، یا مسلمان یا ہندو، یا لامذہب۔ انہیں صرف انسانی جانوں سے مطلب ہے اور انسانی جانوں میں بہنے والا خون مختلف رنگوں کا نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ لوگوں میں اس وقت ایک دوسرے کی مدد کرنے یا کم سے کم خیریت پوچھ لینے کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے۔ مجھے بھی لاتعداد لوگ فون کر کے خیریت دریافت کرتے رہتے ہیں بہت سے نوجوان جانتے ہیں کہ کورونا کے وائرس سن رسیدہ لوگوں کے لئے خاص طور سے مہلک ہوتے ہیں، انہیںبازار وغیرہ پبلک مقامات پر نہیں جانا چاہئے۔ اسلئے وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے وہ بازار سے لا کر ہمیں پہنچا دیں گے۔ اور یہ چند جملے ہی ہمارے لئے باعثِ قوت ہوتے ہیں۔ انسانیت پر ہمارے اعتقاد کو اور مضبوط کر دیتے ہیں۔خصوصاً اس لئے کہ ایسی ہمدردی دکھانے والے ہر مذہب اور قومیت کے لوگ ہیں۔
بہرحال ہفتوں کے اداس ماحول کے بعد آج جب موسم خوشگوار ہوا، درجہ حرارت ۱۸ تک پہنچا اور چمچماتی ہوئی سنہری دھوپ نکلی تو بہت سے لوگ وحشت ناک ماحول کو بھول کرپارکوں کی طرف نکل پڑے ۔ مجھے اور میری اہلیہ کو بھی اپنی قید سے نکل کر کچھ دیر تفریح کرنے کے لئے بہانہ مل گیا ۔تیسرے پہر کو جب میں نے اپنے کمپیوٹر میں فیس بک پر نظر ڈالی تو لکھنئو کے شعاع فاظمہ گرلس کالج کے دو بچوں نندنی سنگھ اور ہرش ڈکشٹ کی پینٹنگس کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، جو کورونا کے جراثیم سے اس طرح سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ مگر ساتھ ہی میری نظر اپنے ایک پرانے صحافی دوست کے مضمون پر پڑی جس میں کورینا اور تبلیغی جماعت کے حوالے سے دل کی بھڑاس نکالی گئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں جن لوگوں سے شکایت ہے ان کا واقعی کیا جرم ہے؟ ہوسکتا ہے کہ ان کی کسی بات سے انہیں ٹھیس لگی ہو، اور وہ بھی ایسی کہ دل سے بددعا نکلنے لگے۔ یہاںسے بیٹھ کر ظاہر ہے کہ میںاچھے برے کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ بددعا دیتے وقت بھی اگر کوئی اپنا بیلنس کھودے تو بس ہم صرف افسوس ہی کر سکتے ہیں اور خدا سے دعا مانگ سکتے ہیںکہ وہ معاف کردے۔
مجھے اس کی تحریر سے خاص طور سے دلی تکلیف ہوئی ہے کیونکہ میں آج بھی اسے اپنا دوست سمجھتا ہوں، عزت کرتا ہوں، جانتا ہوں کہ اس نے انسانیت کے لئے بہت سی قربانیاں دی ہیںاور میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ آج کے حالات سے متاثر ہو کر توازن کھو سکتا ہے۔ مجھے اس لئے اور بھی افسوس ہے کیونکہ مجھے آج بھی انسانیت، اپنے ملک و قوم کی انسانی قدروںپر پورا یقین ہے اور میں رات کی وحشت ناک تاریکی میںان ستاروں سے پیار کرتا ہوں جو بھٹکتے ہوئے راہی کو بھی راہ دکھاتے ہیں۔میں تو خود ان لوگوں کو اپنے ملک و قوم اور انسانیت کے لئے مضر سمجھتا ہوں ، جو مذہب و ملت، ذات پات، رنگ و نسل کے نام پر لوگوں میں زہر پھیلاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں، کہ انسان کارنگ، نسل، مذہب چاہے جو ہو اس کا خون ایک ہی رنگ کا ہوتا ہے اور کسی گلشن کی شوبھا تبھی نکھرتی ہے جب رنگ برگے پھول مسکرائیں۔
البتّہ اپنے اس پرانے دوست کے مضمون کو پڑھ کر، جو دل کو دکھاتا ہے، میں بس یہی دعا کر رہا ہوں کہ اللہ اس کے دل کا درد کم کرے اور اچھے برے کی تمیز کرنے کی توفیق عطا کرے۔
آئے ہیں میرے روبرو تلوار کو لئے
میں نے بھی بڑھ کے چوم لئے مسکرا کے ہاتھ
میرے اس دوست کو تبلیغی جماعت سے شکایت ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ کورونا کی وبا اور ہندوستان کے سارے مسائل کا باعث یہی
لوگ ہیں اوران کو شاید وہ ملک کے سارے مسلمانوں کا نمائندہ سمجھ رہا ہے۔ میں خود نہ تو ایسی کسی تنظیم کو مناسب سمجھتا ہوں، نہ اس کے اراکین کو تمام کلمہ گو انسانوں کا نمائندہ سمجھتا ہوں۔ نا ہی ان کے طور طریقوںکوآج کے حالات میں عالمِ اسلام کے لئے اور انسانیت کے لئے مفید سمجھتا ہوں۔ انہیں خود بھی سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی تبلیغ کے انداز سے دنیا اور اپنے ملک میں کتنوں کے دلوں میں شمعیں روشن کر رہے ہیں اور انہیںمسلمانوں کا ہمدرد بنا رہے ہیں اور کتنوں کو اسلام اور مسلمانوں سے بدظن اور نفرت کے اندھیرے میں ڈھکیل رہے ہیں؟ اور دیگر اندھے نظریات کی تحریکوں کی طرح ترقی پسند تحریک کے لئے نقصان دہ اور حقیقت میں دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے نادانستہ مفید ہیں اورانسانیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے ہیںکہ دنیا کو لوٹنے والی خطرناک قوتیں انہیں اور دیگر مذاہب کی تبلیغی تنظیموں کو لوگوں کو گمراہ کرنے اور ظلم و ستم ، لوٹ کھسوٹ کے خلاف جدوجہد سے دھیان بھٹکانے کے لئے کر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیںساری دنیا میں سامراجیت نے ایسا گندہ اور زہریلا ماحول پیدا کر دیا ہے، جس میں رنگ و نسل، اندھی قومیت اورمذہبی جنون کی آگ ہر طرف پھیلی ہوئی ہے اور ایک دوسرے کو شک و شبہ اور نفرت کی نظر سے دیکھنے لگا ہے ۔ یوں سمجھئے کہ ایک دوسرے کو فرقہ پرست، نسل وادی اور انسانیت و جمہوریت کا دشمن بنارہا ہے۔حالانکہ آج دنیا جس دور سے گزر رہی ہے، ٹکنیکی ترقی کے نام پر ، بلکہ منافع خوری کی ہوس میںماحولیات میں خطرناک تبدیلیاں کرکے دنیا کو تباہی کے زوال پر پہنچا دیا گیا ہے۔اسلحہ سازی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب اس کی کھپت بھی مشکل ہورہی ہے اور قوموں کو ایک دوسرے سے لڑانا اور لوگوں کو ہلاک کرنا پڑ رہا ہے۔ سرمایہ داری کا یہ بھیانک چہرہ آج بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی دیکھنے میں آرہا ہے، جہاں منافع خوری کے چکر میں نظام صحت کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تھا یا اینٹی بایوٹکس جیسی اہم دوائیں، جو ان ملکوں نے خود ایجاد کی تھیں، وہاں انھیں بنانا بندکر دیا گیا تھا، تاکہ دوسرے ملکوں میں سستی بنا کر ان سے منافع کمایا جائے۔
اب ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا کی وبا کے بعد عالمی معیشت کی حالت اس قدر خراب ہو چکی ہوگی کہ عام لوگوں کو جو تھوڑی بہت سہولتیں حاصل ہیں ان میں بھی کمی ہو جائے گی اور زندگی مشکل ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں، جو محنت کشوں کی زندگی کو اجیرن بنانے جا رہے ہیں۔سبھی محنت کشوں کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ چاہے ان کا مذہب، اعتقاد اور پس منظر کچھ بھی ہو۔ چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، یا سکھ، عیسائی یا یہودی۔ دنیا اگر مٹے گی تو سب مٹیں گے۔ ملک تباہ ہوں گے ، تو سب تباہ ہوں گے۔ اس لئے سب کو مل کر اپنے اپنے ممالک کو اور دنیا کو بچانا اورمحنت کشوں کو لوٹنے والوں سے بچانا چاہئے۔
اللہ تعلی نے ، چاہے ہم اسے جس نام سے یاد کریں، اس دنیا کو ہمارے لئے ایک نعمت کے روپ میں بخشا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی نعمت کا احترام کریں اور اس گلشن کو سنواریں، اس کے ہر پودے کو پانی دیں۔ جس کے لئے ہمیں اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ اقبالؔ نے کہا تھا: ’’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا‘‘
چنانچہ اپنے دوست کے مضمون کو پڑھ کر میں ستر ، اسّی برس پرانی دنیا میں پہنچ گیا ہوں جب میں اپنے اسکول کے لڑکوں کے ساتھ مل کر، جن میں ہندو بھی تھے، مسلمان اور عیسائی بھی، شرارتیں کیا کرتا تھا اور ماسٹر کی مار کھاتا تھا، پتنگیں اڑاتا، کنچے لڑاتا، لٹّو نچاتا تھا۔جیسا کہ میں اپنی کتاب یادوں کے چراغ میں لکھ چکا ہوں، کبھی کبھی جب چکبست روڈ سے چل کر گومتی کے کنارے جاگنگ کرتے ہوئے اور ریزی ڈنسی کے پاس سے گزرتے ہوئے بلرام پور کی ڈھال کے پاس پہنچتا تھا تو وہاں ایک پنڈت جی سے ملاقات ہو جاتی تھی، جو مالا جبتے ہوئے اور رام رام کہتے ہوئے روز وہاں سے گزرا کرتے تھے اور کبھی کبھی مجھے اپنے پاس بلا کر شیکسپئیر کا کوئی ڈائلاگ سناتے اور اس کے مطلب پوچھتے تھے اور پھر میری مجبوری کو سمجھ کر خود ہی دیر تک اس کے مطلب، پس منظر اور کِس ڈرامے میں شیکسپئیر نے استعمال کیا تھا ، سمجھاتے اور نمستے کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔ اور میں سو چتا رہتا تھا، کہ یہ کونسی مخلوق ہے؟ کیا نام ہے؟ کہاں سے آئے ہیں؟ آج بھی مجھے نہیں معلوم۔ بس ایسا لگتا ہے جیسے کسی فرشتے کی طرح، کسی دُوت کی طرح آئے تھے اور مجھے کچھ دے کر چلے گئے ہیں۔ اور آج تک میری نظروں میں آدرش ہیں۔سنٹینیل اسکول میں جب میں نے داخلہ لیا تو وہاں ہمارے ہیڈماسٹرای ایم لال تھے جو عیسائی تھے، ایک ٹیچر ’پیٹر‘ تھے ، جو کلاس میں بینت لئے آتے تھے۔ وہ بھی عیسائی تھے۔ ہمارے سائنس کے ٹیچر ردھوان سنگھ تھے ، جو ہندو تھے اور اردو کے ٹیچر محمد باقر تھے جو مسلمان تھے۔ ان سب نے ہماری پٹائی بھی کی اور محبت سے تعلیم بھی دی ، کہ میں بعد میں یونیورسٹی میں جا سکا۔ وہاں بھی احتشام حسین نے اگر اردو پڑھائی اور یوسف حسین موسوی نے فارسی، تو کالی پرشاد نے نفسیات۔اور وی پی سنگھ، رنجنا سدھانت وغیرہ نے بہت کچھ علمی خزانوں سے مالامال کیا۔ جب میں نے آل انڈیا ریڈیو کے ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا تو وہاں جی ایم شاہ اور پھرہندی کے مشہور لیکھک اور ڈرامہ پروڈیوسر امرت لال ناگر جیسی شخصیت سے ملاقات ہوئی ، جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ میرے من پسندمصنفوں اور شاعروںمیں اگر غالب،اقبال اور پریم چند تھے تو کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، اوپندرناتھ اشک ، رام لعل اور رتن سنگھ وغیرہ بھی ہر دلعزیزتھے۔ رتن سنگھ کی کہانی ’ہادی‘ تو آج تک مجھے یاد ہے جو انہوں نے میری دادی کے بھانجے ’ہادی‘ چچاکے بارے میں لکھی تھی۔میرے دوستوں میں جن کے ساتھ مل کر میں آزادی اور انقلاب کے خواب دیکھتا اورادبی نشستیں، کرتا، ڈرامے کھیلتا، نعرے لگاتا ہندو اور مسلمان تھے۔ میرے محبوب فنکاروں میں پرتھوی راج کپور، سنیل دت، راجیش کھنّا،اور گلو کاروں میں سہگل۔ نورجہاں، لتا منگیشکر، مناڈے، کشور کمار تھے۔ ہدایت کاروں میں محبوب، ستیہ جیت رائے، بمل رائے، کھلاڑیوں میں مرچنٹ، ہزارے، امرناتھ اور بعد میں سنیل گواسکر اور تیندلکر، ہاکی کے دھیان چند اور اشونی کمار اور کیرم کے ماریہ اری دیم اور ارون دیش پانڈے تھے۔ ہم نے کبھی فن، کھیل ، سائنس اور علم کو مذہب میں تقسیم نہیں کیا۔ مذہب ہر انسان کا اپنے اعتقاد کا معاملہ ہے۔ اسکے خالق کا کیا نام ہے، وہ سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد وہ جنت یا دوزخ میں جائے گا یا اپنے کرموں کے مطابق پھر سے پیدا ہوکر اچھی یا بری زندگی بتائے گا، یہ اس کا اپنا عقیدہ ہے۔ اس سے دوسرے کا کوئی نقصان نہیں۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ایک دن سب لوگوں کو مرنا ہے اور وہ اپنے ساتھ دھن دولت لے کر نہیں صرف اپنے اعمال لے کر جائیں گے۔چاہے کورونا سے یا دوسری بیماری سے یا کسی کی بندوق اورخنجر سے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ، وہ جب کسی سے ملتے ہیںتو ان کی زبان سے نکلنے والا پہلا جملہ ہوتا ہے: ’سلام علیکم‘ ۔ جو دوسرے کے لئے سلامتی اور امن کی خواہش کا اظہار ہے۔اسے نہ کسی مسلمان کو بھولنا چاہئے، نا ہی مسلمانوں کے بارے میں رائے کا اظہار کرنے والے کو۔
میں اس سے قبل اپنے ایک مضمون میں تحریر کر چکا ہوں، کہ برلن میں میرا ایک گجراتی ہندو ملاقاتی ہے ’سہگل‘۔ وہ جب مجھے دیکھتا ہے تو ’سلام علیکم‘ کہکر مخاطب ہوتا ہے اور میری زبان سے اس کے لئے بے ساختہ نکلتا ہے: ’نمستے‘۔ ایک دوسرا سکھ ملاقاتی ہے سربجیت سنگھ ہے۔وہ بھی جب ملتا ہے کہتا ہے: ’نقوی صاحب سلام علیکم‘ اور میں جواب دیتا ہوں ’ست سری اکال‘۔ اسی طرح کوئی ’گوڈ مارننگ‘ کہتا ہے، کوئی ’گوٹین مارگین‘۔ ہر ایک کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے جس سے وہ دوسرے کے لئے بھلائی کی کامنا کر رہا ہوتا ہے۔ اگر یہ جذبہ ہر دل میں پیدا ہو جائے تو دنیا کے کتنے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ کم سے کم آج کورینا اور کوویڈ ۱۹کے دور میں تو ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہئے۔
آجکل جہاں دنیا میں کورونا سے تباہی مچی ہوئی ہے اور تقریباً ادھے ملین لوگ اس سے متاثر ہیں ، نیزہزاروں مر چکے ہیں ۔یورپ میں سب سے زیادہ ہلاکتیںاٹلی اور اسپین میں ہوئی ہیں اور ہزاروں گھروں میں ماتم ہو رہے ہیں وہیں سبھی مذاہب، نسلوں اور قومیتوں کے لوگ ایک دوسرے کی ہمتیں بڑھانے کے لئے گھروں کی کھڑکیوں سے گردنیں باہر نکال نکال کر گا بجا رہے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں مودی جی کی آواز پر ایک دن شام کو لوگوں نے اپنے گھروں میں شمعیں اور چراغ جلا کرکورونا کا جواب دیا ہے۔ جو قابل ستائش ہے۔ ایسے ہی جذبات سے کورونا جیسی وبا سے سچا مقابلہ کیا جا سکے گا اور انسانیت کا بھلا ہوگا۔ یہی وقت کا تقاضا بھی ہے ۔ اندھیرے کا جواب روشنی ہے اندھیرے کو بڑھانا نہیں۔ ذرا کسی دن اپنے گھروں سے باہر گردنیں نکال کر ایک ساتھ ’نمستے‘، ’سلام علیکم‘ اور ’ست سری اکال‘ یا ’واہے گورو‘کی آوازیں ایک ساتھ لگا کر دیکھئے۔ کورونا سے مقابلہ کرنے میں کتنی روحانی قوت حاصل ہوگی۔
برلن، ۸؍ اپریل ۲۰۲۰

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here