کوروناوائر س:تحفظ اور ہماری دینی و دنیوی ذمہ داریاں

0
36

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی

اِس وقت پوری دنیاکورونا وائرس کی چپیٹ میں ہے۔جب سے ہم نے شعور کی منزل میں قدم رکھا ہےتب اب تک کوئی وبائی بیماری ایسی نہیں دیکھی جس نے ایک ساتھ پوری دنیا کو اِس قدر تیزی سے متأثر کیا ہو اورجس پر قابو پانے کے لیے اِنسان کبھی یوں بےبس نظر آرہاہو، لیکن یہ سچائی ہے کہ پوری دنیا اور بڑے سے بڑے ڈاکٹرزکورونا وائرس کے سامنے چاروں خانےچت نظر آرہے ہیںاور تمام تروسائل کے باوجود آج کی ترقی یافتہ دنیا کوایک بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ایسے حالات میں ہماری مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بہرحال اِس پر یقین رکھیںکہ دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اللہ سبحانہ نے ہماری تقدیر میں لکھ رکھا ہے کہ صحت اور بیماری سبھی کچھ اللہ سبحانہ ہی کی طرف سے آتی ہے،ارشادنبوی ہے :
‘‘جان لوکہ اگر ساری دنیا تمھیں نفع پہنچانےکے لیے متفق ہوجائے تب بھی وہ تمھیں نفع نہیں پہنچا سکتی، اُس نفع کےعلاوہ جونفع اللہ سبحانہ نے تمہارے حق میںلکھ رکھا ہے اور اگر ساری دنیا تمھیں نقصان پہنچانے کے لیے متفق ہوجائےتب بھی وہ تمھیںکچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی، اُس نقصان کے علاوہ جو نقصان اللہ سبحانہ نے تمہارے حق میں لکھ رکھا ہے۔’’(مسند احمد،حدیث:۲۶۵۹)
مزید جب بھی کوئی وبائی بیماری/ خطرناک مصیبت آتی ہے توہمارےلیے اُس میں رحمت اور نعمت ہوتی ہے،جیساکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘ جو کوئی بھی مسلمان بیمارہوتا ہے/اُسے کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے،تو اُس کے بدلے اللہ تعالیٰ اُس کے گناہوں کو اِس طرح جھاڑدیتا ہے(معاف کردیتا ہے)جیسے درخت سے اُس کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔’’ (صحیح بخاری، حدیث:۵۶۶۰)
چنانچہ ایسی گھڑی میںہم جزع وفزع کے بجائے صبروشکر کا مظاہرہ کریں، رجوع الیٰ اللہ ہوں،معاملات درست رکھیں، صدقہ کی عادت ڈالیںکہ ‘‘ صدقہ، اللہ سبحانہ کے غضب کو ٹھنڈا کردیتا ہے اور بُری موت سے محفوظ رکھتاہے۔’’ (سنن ترمذی، حدیث:۶۶۴)
پھراَگر ہم وبائی بیماری سے انتقال کرجاتے ہیںتو یاد رکھیں کہ ہمیںشہید جیسا اجر ملےگا، ارشاد نبوی ہےکہ ‘‘ جواِنسان طاعون میں مبتلا ہو، اوروہ اپنے شہر میں صبر اور ثواب کی اُمید کے ساتھ لاک ڈاؤن رہے،نیز اِس بات پر یقین رکھے کہ اُسے وہی چیز پہنچ سکتی ہےجو اللہ سبحانہ نے اُس کی تقدیر میںلکھ دیاہےتو ایسا شخص اجرمیں شہید کے مثل ہے۔ ’’ (صحیح بخاری،حدیث:۳۴۷۴)
لیکن اِس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم بےاحتیاط ہوجائیں،بلکہ ڈاکٹرز اور سائنس دانوں کےمشورے پر عمل کرنے کے علاوہ ہم ظاہری اسباب بھی اپنائیں کہ ایسا کرنا نبوی طریقہ ہے،یعنی توکل علی اللہ کے ساتھ طبی وسائل اورسائنسی تدابیربھی اپنائیں۔ ہرطرح کی صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا خاص خیال رکھیں،اور بہترتو یہ ہے کہ ہمیشہ باوضو رہنے کااپنا معمول بنالیںکہ اعضا کی صفائی کے ساتھ نیکیاں بھی حاصل ہوتی رہیں ۔ مجمع عام/ جس مقام پر بیماری پھیلنے کے خطرات موجود ہوںایسے مقام پرجانے سے پرہیز کریں، بلکہ اگرعلاقے میں وبائی بیماری پھیل چکی ہے توگھر سے باہر نہ نکلیں اورلاک ڈاؤن ہوجائیں۔اس کے علاوہ حکومت کی گائد لائن پر عمل کریں اور کبھی بھی اُس کی خلاف ورزی نہ کریں کہ ایسا کرنے سے قانونی مجرم ہونے کے ساتھ کوروناوائرسیا اس جیسی وبا کے شکاربھی ہوسکتے ہیں۔ایسے موقع پر بالخصوص اِن ہدایات کو ضرور ملحوظ رکھا جانا چاہیے،مثلاً:
۱۔ ہم میںسےہر ایک پرلازم ہے کہ ہم اپنی سمجھ بوجھ اور شعورکے مطابق انسانی ہمدردی میں مشغول رہیںکہ جس کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ موجودنہیں ہوتاوہ انسان کہلانے کا حقدارنہیں،اِس لیے ہم اپنی انسانی ذمہ داری ضرور اداکریں۔
۲۔ حکومت و ریاست کی ہدایات پر عمل کرنے کے ساتھ اپنی وفاداری،نیک نیتی اور خیرسگالی پرمشتمل عملی نمونہ پیش کریں، اور نہ صرف یہ کہ ہم خود حکومت کی ہدایات کےپابند ہوں بلکہ یہ بھی کوشش ہو کہ دوسرے لوگ بھی اُن ہدایات پرعمل کریں۔
۳۔ خوامخواہ حکومت سے بد ظن ہونے کی ضرورت نہیںبلکہ حکومت کو اُس کے رفاہی خدمات میں تعاون کریں، اُس کے شکرگزار بنیں،اور اُس سے ملنے والے رفاہی فنڈ کا فائدہ براہِ راست حاجتمندوں تک پہنچانے کی کوشش کریں، نیز حقداروں کی نشاہدی کریں تاکہ اُن تک آسانی سے فنڈ پہنچایاجاسکے ۔
۴۔ ڈاکٹرزاوردیگرافسران جوعوامی خدمات پر مامور ہوںاُن کے ساتھ اخلاق مندی کا مظاہرہ کریں، اُن کا سپورٹ کریں، تاکہ اُنھیں کسی قسم کی بیگانگی،اَجنبیت اور دِقت کا احساس نہ ہو،اوروہ بحسن وخوبی خوشی خوشی متأثرہ افراد کی دیکھ بھال کرسکیں۔
۵۔ بالفرض اگر کسی علاقے/محلے میںحکومت کی طرف سےبروقت ڈاکٹرز/ ماہرین نہ پہنچ سکے تو اُس علاقے کے ڈاکٹرزاور ماہرین کوچاہیے کہ وبائی بیماری پر قابو پانے کے لیے خود میدانِ عمل میں آئیں اور رفاہی خدمات کا نمونہ پیش کریں، تاکہ متأثرہ لوگوں کےعلاج ومعالجے کی ضرورتیں پوری ہوںاور موجودہ مہاماری کو مزید پھیلنے سے روکاجاسکے ۔
۶۔ لاک ڈداؤن کے دور میں اگرہمارے آس پاس/گاؤں محلے میں کچھ ایسےلوگ ہیں جو بھکمری کے شکار ہورہے ہیں/ ممکن ہےکہ وہ بھکمری کے شکار ہوجائیں، تو ہم میں سے با حیثیت افراد آگے آئیںاور ایسے لوگوں کےلیے کھانے پینے کا انتظام کریں۔
خلاصہ کلام یہ کہکورونا وائرسجیسی وبائی امراض کے زمانے میں اللہ سبحانہ پر کامل اعتماد رکھنے کے ساتھ ہم ظاہری اسباب کا بھی استعمال کریں، نیزحکومت کی طرف سےجو کچھ ہدایات ہوں اُن پر عمل کریںاور اُس کے معاون ومددگار بھی بنیں۔
( ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، سید سراواں)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here