9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری
کرونا ،ایک وبائی مرض، جس نے دنیا کے ایک بڑے حصّے کر مفلوج سا کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک ایسا مرض، جس کا اب تک علاج سامنے نہیں آیا ہے۔ کسی حد تک جسمانی دوری بنائے رکھنے سے اسے کم کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کے پھیلاؤ کوکم کرنے کا ایک طریقہ لاک ڈاؤن ہے۔ یعنی بھیڑ بھاڑ والے علاقے بالکل بند کر دیے جائیں اور لوگوں کو اپنے اپنے گھروں تک محدود کر دیا جائے۔ اتنی خطرناک بیماری کہ جس نے دہشت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ایک ایک دن میں سینکڑوں اور ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ کچھ ممالک اب اس سے باہر بھی آرہے ہیں اور باہر آنے میں معاون لاک ڈاؤن ہی ثابت ہو رہا ہے۔ جس ملک کے باشندوں نے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کیا اور حکومتوں کی مدد کی ہے وہاں اس وباء کے مریضوں کی تعداد بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔
لاک ڈاؤن لفظ بھی انہیں دنوں سمجھ میں آیا ہے کہ اس سے قبل خال خال ہی سننے میں آیا ہوگا۔ لاک ڈاؤن کا مطلب ہر طرح کے کام کاج بند ۔ ذرائع نفل وعمل ، ہر طرح کا کاروبار، سرکاری و نیم سرکاری دفاتر ، تمام تعلیمی ادارے، تفریح گاہیں وغیرہ کو آئندہ حکم تک کے لیے بند کر دیا جائے۔ لاک ڈاؤن پر عمل درآمد کرنے کے لیے مقامی انتظامیہ ذمہ دار ہوتی ہے۔ گذشتہ تقریباً ایک ماہ سے ہندوستان میں لاک ڈاؤن کا حکم نافذ ہے ۔صُبح کے وقت ضروری اشیاء کی فراہمی کے لیے لاک ڈاؤن میں ڈھیل ہوتی ہے۔ باقی وقت ہر جگہ پولس کا سخت پہرا حتیٰ کہ تمام عبادت گاہیں اور پوجا ارچنا، نماز وغیرہ پر پابندی عائد ہے۔ ان حالات میں زندگی کتنی سخت ہوتی ہے۔ یہ ان حضرات سے دریافت کریں جو روزانہ گھومنے پھرنے ، چائے خانوں میں بیٹھنے اور بازاروں میں جانے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایسے علاقے اور محلّے جہاں کثیر آبادی ہے ، خاص کر فصیل بند شہروں کے پرانے علاقے، جہاں گھر کے افراد کی تعداد کمروں کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے علاقوں میں لاک ڈاؤن کی پابندی کو مذاق کے طور پر لیا جانے لگا تو کرونا نے اپنے ہاتھ پاؤں پھیلانے شروع کر دیے ،اور دیکھتے دیکھتے مریضوں کی تعداد ملک کی گیر سطح پر ہزاروں تک جا پہنچی۔
اس بیماری نے جہاں ہمیں اچھا خاصا نقصان پہنچایا ہے اور متعدد محا ذ جیسے تعلیمی ، معاشی اورسماجی محاذوں پر شکست دے کر کافی پیچھے دھکیل دیا ہے۔ وہیں ہمیں بعض اچھے لفظ بھی عطا کیے ہیں ۔ بعض اچھی باتوں کا عادی بنا دیا ہے۔ بندھے ٹکے اصول و ضوابط اورزندگی کی ایک ہی طرح گذارنے سے پرے نئے طور تریقوں کی طرف بھی مائل کیا ہے۔ سب کچھ تبدیل سا ہو گیا ہے۔ نہ سونے کا وقت طے ہے نہ جاگنے کا۔ کھانے کے وقفے میں بے حد کمی واقع ہو رہی ہے۔بعض لفظوں کا استعمال بدل گیا ہے ، نئے پس منظر میں وہ کچھ اور معنی دے رہے ہیں۔ اب منفی ہونا ، اچھی بات ہے اور اگر مثبت پائے جاتے ہیں تو منفی حیسا سلوک ہوگااور منفی ہونے پر خوشی منا سکتے ہیں۔پہلے لوگ قربت کی تمنّا کرتے تھے ۔ آج قربت سے ڈر اور بے زاری پیدا ہو گئی ہے۔ قریب رہ کر بھی لوگ دور ہوتے جا رہے ہیں۔ دور ہونا پہلے معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ آج اُسے اچھا سمجھا جا رہا ہے۔
پہلا یہ موقع ہے جب لاک ڈاؤن کے سبب زیادہ تر شوہر ،گھروں میں قید ہیں۔ ابتدائی کچھ دنوں تک تو میاں بیوی کی محبت کے سمندر میں کافی تلاطم برپا ہوئے۔ اب آہستہ آہستہ قربت ، ایک عجیب سے فاصلے میں تبدیل ہو رہی ہے۔ یعنی قربتوں کے فاصلے والا معاملہ ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی، ہر وقت ایک دوسرے کی صورت دیکھ کر بے زار ہو تے اپنے اپنے موبائل میں آباد ہو گئے ہیں۔ بیگم ہر وقت کی شوہروں کی انواع واقسام کے کھانوں کی فرمائش سے عاجز ہوگئی ہیں۔ فیس بک، وہاٹس ایپ وغیرہ نہ ہوں تو گھر پر وقت گذارنا کتنامشکل ہو۔ ٹی وی پر خبریں دیکھنے کا دل نہیں کرتا کہ ہر وقت ایک ہی بات کی رٹ۔ فلمیں بھی کتنی دیکھیں ۔ پھر ہر گھر میں ایک مسئلہ اور پیدا ہو گیا ہے پاپا ممّی، پُرانی فلموں کے شوقین جبکہ بچے نئی فلموں کے ۔بچوں کی ہی جیت ہوتی ہے۔
گھریلو خواتین کا باورچی خانے سے جو وقت بچتا ہے وہ سیریلس ، فلموں یا پھر موبائل پر گذرتا ہے۔ غلطی سے کسی دوست یا رشتہ دار کا فون آجائے تو سمجھئے کم ازکم آدھے گھنٹے وقت گذاری کا موقع مل جاتا ہے ۔ خوب خیریت لی جاتی ہے۔ مردوں کابھی یہی حال ہے۔ میرے ایک دوست ہیں، بڑے افسانہ نگار ہیں۔ وہ آج کل دن بھر میں 35-40 کالز روزانہ کرتے ہیں۔ کئی بار تو حال احوال کے بعد کوئی موضوع نہیں ملتا ہے تو پھر ایک دوسرے کی کھینچا تانی شروع ہو جاتی ہے۔
نئی نسل کے جوانوں کے لیے یہ وقت بہت مشکل ہے ۔ ہر وقت ماں باپ کے سامنے ، نہ کوئی حرکت نہ شیطانی ۔ ایسے میں کچھ نوجوان حیلے بہانوں سے شہر کا جائزہ لینے بھی نکل جاتے ہیں۔ کوئی ساتھ میں دوائی کا پرچہ رکھ لیتا ہے ، تو کسی کے پاس گھر کے سامان کی فہرست ، کچھ تو اپنی بیویوں کو بائک پر بٹھا لیتے ہیں ۔ کچھ دن تک تو سب چلتا رہا، لیکن اب پولس والے بیویوں کو اُتار کر شوہر کی ایسی حجامت بنارہے ہیں کہ ساری زندگی بیوی کے سامنے بول نہیں سکے گا۔ یہی معاملہ گھومنے پھرنے والے نوجوانوں کا ہے ایسی مار پڑرہی ہے کہ نانی یاد آرہی ہے۔ اب توٹوپی لگا کے مسجد جانے کا بھی بہانہ نہیں رہا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں نے ابتدائی وقت گھر میں گذارنے کے بعد اپنی گلی محلے میں کرکٹ شروع کر دیا۔ لاک ڈاؤن کی سختی نے ان کے ارمانوں پر بھی پانی پھیر دیا ہے۔ اب لوڈو، پلاٹ نائن، کیرم جسیے گیمز کی چاندی ہو گئی ہے۔
سب سے زبردست تبدیلی شعراء و ادبا کی زندگی میں آئی ہے۔معروف شعراء کرام ، کم معروف شعراء ، الٹے سیدھے مصرعے قلم بند کرنے والے اور دوسروں کے اشعار پڑھنے والے لوگوں کی بے چینی اور اضطراب کا عجیب عالم ہے۔ سوشل میڈیا ایک سچے ہمدرد کی شکل میں اُبھرا ہے۔ فیس بک پر تو پہلے بھی جائز تھا لیکن ان دنوں زیادہ جائز ہو گیا ہے کہ آپ وہاں کسی بھی طرح کی دو سطریں لکھ دیں ۔ لائک اور رسمی کمنٹس کرنے والے آپ کو شاعر ثابت ہی کر دیتے ہیں۔ بیچارے میر، غالب، اقبال وغیرہ کی تو شامت ہی آ ئی ہوئی ہے ۔ایسی ایسی غزلیں اور اشعار جن کے وزن کا بھی پتہ نہیں ،ان شعراء کے نام سے اپ لوڈ کیے جارہے ہیں۔ یہی نہیں کنبہ مشق اور اچھے شعراء میں بھی ہوڑ سی لگی ہے۔ کہیں ، وبا کے دنوں کی شاعری ، تو کہیں کرونا کی نظمیں ، کہیں غزلوں پر غزلیں ، ایسے ایسے سلسلے عام ہیں کہ شعراء کا وقت خوب گذرنے لگا ہے۔ پھر یو ٹیوب کی مہربانی بھی کیا کم ہے۔ کیسی بھی غزل ہو، اچھے ترنم میں گائی گئی ہو، سننے والوں کی کمی نہیں ۔ لوگ خوب بھڑاس نکال رہے ہیں۔ متعدد گروپ ریکارڈنگ کرکے اپ لوڈ کر رہے ہیں۔
پچھلے دنوں جب آن لائن مشاعرے شروع ہوئے تھے تو کسی نے ( اچھے شاعر) گھاس نہیں ڈالی تھی۔ جبکہ آج آن لائن مشاعروں اور نشستوں کی بھی قطار لگ گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہت اچھی شروعات ہے۔ آن لائن مشاعروں کا سلسلہ یوں ہی پختہ ہوتا گیا جس کے جون تک یوں ہی چلتے رہنے کا قوی امکان ہے، تو عوام کو زبردست فائدہ ہونے والا ہے ۔ مشاعرے کرانے والے لوگوں کو اب چندہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔بنا پیسے کے آپ اپنے پسندیدہ شعراء کو سن سکتے ہیں ۔اس سے عوام کی خون پسینے کی کمائی کو دوسری جگہ ، ضرورت مندوں تک پہنچنے کی اُمید بڑھ جائے گی۔
لاک ڈاؤن میں اِدھر کئی بڑے مشاعرے آن لائن منعقد ہوئے ہیں۔ 10؍ اپریل کو پوئٹری اینڈ لیڑیری گروپ PLGمسقط نے ایک شاندار آن لائن مشاعرے کا اہتمام کیا۔ جس میں تقریباً 26 شعراء و شاعرات نے حصّہ لیا۔ اس بین الاقوامی مشاعرے میں ہندوستان ، لندن، ساؤتھ افریقہ، مصر کے علاوہ خلیجی ممالک کے شعراء ، شاعرات نے اپنا کلام سنایا۔ طفیل احمد اس مشاعرے کے کنوینر تھے جبکہ پشکن آغا مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے موجود تھے۔
12؍ اپریل کو اردو انجمن برلن کے صدر محترم عارف نقوی کی صدارت میں آن لائن مشاعرہ بعنوان ’’ آن لائن عالمی اسکائپ مشاعرہ ‘‘ منعقد ہوا۔ مشاعرے میں چار براعظموں ایشیا ، افریقہ ، امریکہ کینیڈااور یورپ کے شعراء نے شرکت کی ۔ سید انور ظہیر رہبر( نائب مدر: اردو انجمن ، برلن) نے مشاعرے کا انعقاد کیا۔ مشاعرے میں تقریباً 14؍ شعراء نے شرکت کی۔
15؍ اپریل کواکادمی ادبیات ،پاکستان کے زیر اہتمام ایک شاندار آن لائن عالمی مشاعرہ منعقد ہوا۔ مشاعرے کی صدارت معروف شاعر افتخار عارف نے کی ۔ مشاعرے میں کئی ممالک کے شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔ مشاعرہ جناب یوسف خشک کی نگرانی میں مکمل ہوا تقریباً دو درجن شعراء نے شرکت کی ۔ سبھی شعراء کو اکادمی کی طرف سے ایک سند پیش کی گئی۔ ایسا ہی ایک مشاعرہ سخنور شکاگو نے بھی 19؍ اپریل کو منعقد کیا۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف مشاعرے اور شعری نشست ہی آن لائن منعقد ہو رہی ہیںبلکہ اب تعزیتی نشست اور قومی سیمینار تک آن لائن ہو رہے ہیں۔ ابھی گذشتہ دنوں معروف مزاحیہ شاعر اسرار جامعی کے انتقال پر جامعہ کے سابق طلبہ نے ایک آن لائن تعزیتی میٹنگ کا انعقادکیا۔ 21؍ اپریل کو اردو کے عظیم شاعر علامہ اقبال کی یومِ وفات تھی۔ اس موقع پر اکادمی ادبیات ، پاکستان نے ’’ آن لائن قومی اقبال سیمینار‘‘ کا انعقاد کیا۔
کرونا بیماری کے سبب لاک ڈاؤن نے جس طرح فاصلوں کو بڑھا وا دیا ہے ایسے میں ہماری زندگی میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ ایسے میں تنہائی سے نبرد آزما ہونے کے متعد د طور طریقے اپنائے جارہے ہیں۔ یہ ضروری بھی ہے ورنہ یہ تنہائی کہیں روگ نہ بن جائے اور اندر اندر ہم سب کو گھلا نہ دے۔ بہت سے لوگ ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں خود کو اور طور طریقوں کو تبدیل کرتے ہوئے کسی بھی طرح ایک تو بیماری سے لڑنا ہے دوسرے زندہ دلی کا مظاہرہ کرنا ہے، ورنہ بیماری کا خوف ہی ہمیں مار ڈالے گا۔
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ کیا خاک جیا کرتے ہیں
[email protected],