’ کوروؔنا ‘کے دوران ’محفوظ رمضان‘ !

0
75

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

ڈاکٹر علی جعفر عابدی ،ایم ۔ڈی ۔

دنیا بھر میں قریب ایک ارب نوے کروڑ مسلمان رمضان المبارک میں پورے مہینے کے روزے رکھتے ہیں جو اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے،جس کا حکم دیتے ہوئے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ’’اے ایمان والو تم پر روزے اُسی طرح فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ ‘‘(البقرہ ۱۸۳)اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےفرمایا کہ ’’صحت مند رہنا چاہتے ہو تو روزے رکھو ‘‘(نہج الفصاحۃ ص ۵۴۷حدیث نمبر ۱۸۵۴)اور مسلمان بھی قوت ارادی کے استحکام اور تقویٰ کی بلند ترین منازل کے حصول کی خاطر اس ماہ ِمبارک میں ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پرعمل کرتے ہوئے طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک ، ضروریات زندگی اور لذّاتِ حیات کا حصول ترک کر دیتا ہے۔
اسلام ایک عملی دین ہے ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اِس (قرآن) میں ہدایت اور ’ حق و باطل ‘ کے درمیان فرق کرنے والی واضح نشانیاں موجود ہیں ۔ لہٰذا جو اس مہینے کو پائے اُس کا فرض ہے کہ روزہ رکھے ،البتہ کوئی مریض یا مسافر ہو تو وہ (قصر کرےاور )اُتنے ہی دن دوسرے زمانے میں روزہ رکھے ۔اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے ،وہ تمہارے لیے ہرگز تنگی نہیں چاہتا ۔’اُتنے ہی دن ‘ کا حکم اس لیے ہے کہ تم(قصر کے ) وہ عدد پورے کردو (جس میں مرض یا سفر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکے تھے )اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی کا اقرار کرو ،شاید کہ اس طرح تم اس کے شکر گزار بندے بن سکو‘‘ ( البقرہ ۱۸۵) ۔مریض و مسافر کی طرح ضعیف و ناتواں بوڑھے،حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں بھی ماہ مضان المبارک کے روزے قصر کر سکتے ہیں۔
رمضان کا مہینہ شروع ہونے میں اب کچھ ہی دن باقی ہیں اور پوری دنیا کے مسلمان متفکر ہیں کہ کہیں پانی کی کمی کرونا کے خطرے میں اضافے کا سبب تو نہیں بنے گی ؟ اور یہ کہ کیا ،روزہ ہماری فطری قوت مدافعت کو کمزور کر سکتا ہے َ؟ تاریخ انسانی کے سنگین ترین موجودہ حالات میں، کہ جب پوری دنیا میں عوام کو یہ مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ اپنے حلق کو خشک نہ ہونے دیں ،ان سوالات و خدشات کو کلیتاً غیر منطقی بھی نہیں قرار دیا جا سکتا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ’’سنجیدہ مشورے ‘‘ نے بھی بہت سے لوگوں کو متفکر کر رکھا ہے جس میں کرونا مریضوں کا علاج کرنے والے کچھ جاپانی ڈاکٹروں کے حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو اسے یقینی بنانا چاہیے کہ اس کا منھ اور حلق دیر تک خشک نہ رہنے پائے ۔کم از کم ہر پندرہ منٹ پر تھوڑا سا پانی ضرور پیتے رہنا چاہیے ۔کیوں ؟ اس لیے کہ ،مذکورہ رپورٹ کے مطابق ’’اگر(خدانخواستہ) کرونا وائرس آپ کے منھ میں چلا بھی جائے تو پانی اسے آپ کے پیٹ میں پہنچا دے گا جہاں موجود قدرتی ’ایسڈ ‘ اُس وائرس کی موت کا سبب بن جائے گا اور آپ اس کی ہلاکت خیزی سے محفوظ رہیں گے ۔اور اگر آپ تھوڑے تھوڑے وقفے سے پانی کی معقول مقدار نہیں لیں گے تو وائرس آپ کی سانس کی نلی میں داخل ہو کر پھیپھڑوں میں جا سکتا ہے جو ہلاکت کی حد تک خطرناک ہوگا ۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ تھوڑا تھوڑا پانی پیتے رہنا اور حلق کو تر رکھنا ،مجموعی طورپر ہماری صحت کے لیے اہمیت رکھتا ہے لیکن صرف پانی پینا ہی کرونا انفکشن کو روکنے کے لیے کافی نہیں ۔اس لیے کہ کرونا وائرس اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اول تو محض پانی اُس کا راستہ نہیں روک سکتا ،دوسرے یہ کہ یہ وائرس آنکھوں اور ناک کے ذریعے بھی ہمارے جسم میں داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔لہٰذا اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ پانی ، کرونا کے کُل کے کُل اجزا کو پیٹ میں پہنچا ہی دے گا جہاں گیسٹرک ایسڈ اس کا قلع قمع کر ڈالے گا ۔
قدرتی مدافعتی نظام ( Immunology)کے ایک معتبرجریدے میں شایع ایک رپورٹ کے مطابق رمضان کے روزے مدافعتی نظام پر کوئی دیر پا اثر نہیں رکھتے۔ابتدا میں جو معمولی سی تبدیلی آتی ہے وہ عارضی ہوتی ہے اور کچھ ہی دنوں بعد صورت حال رمضان سے پہلے جیسی ہوجاتی ہے ۔البتہ روزرکھنے سے خون میں موجود شکر اور چکنائی کی مقدار حد اعتدا ل میں ر ہتی ہے اور روزہ رکھنا ، دل کے مریضوں کو بلا شبہ فائدہ پہنچاتا ہے ۔
وبائے کرونا کے پس منظر میں، محفوظ رمضان کے تعلق سے ، ۱۵ اپریل ۲۰۲۰ کو جاری عالمی صحت تنظیم کے اعلانیہ میں کہا گیا ہے کہ ابھی تک ایسی کوئی تحقیق منظر عام پر نہیں آئی ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ روزے اور کرونؔا انفکشن کے خطرے کے کسی باہمی تعلق کا جائزہ لیا گیا ہو ۔ہمیشہ کی طرح اِمسال بھی صحت مند افراد ماہ رمضان کے روزے رکھ سکتے ہیں ۔ اور جس طرح دیگر مریض روزہ رکھنے یا نہ رکھنے میں اپنے ڈاکٹر کی صلاح پر عمل کرتے ہیں ،اسی طرح کرونا کے مریض بھی کریں ۔یعنی اگر اُن کا معالج انہیں اس حالت میں روزہ نہ رکھنے کی صلاح دے تو وہ اس کی پابندی کریں ۔
ماہ رمضان المبارک میں صحتمند رہنے کے لیے کچھ مشورے :
عام مشاہدہ یہ ہے کہ وبائی بیماریاں روحانیت میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بنتی ہیں اور مریض روزہ رکھنے پر ہمیشہ سے زیادہ آمادہ نظر آتے ہیں ۔ سو، اِن دنوں پوری دنیا میں ،ایک طرف تو سرکاری ادارے اور عوامی صحت خدمات کے عمال ،وبا کے تدارک اور اس کے منفی اثرات پر قابو پانے کی جد و جہد میں مصروف ہیں تو دوسری طرف مذہبی رہنما رمضان کے دوران غیر معمولی تدارکی و حفاظتی اقدامات کےاحکامات دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔
کرونا انفکشن چونکہ افراد کے قریبی رابطے ،کھانسنے ،چھینکنے ،تھوکنے اور ہاتھ ملانے سے بھی ہو سکتا ہے اس لیے آیت اللہ العظمیٰ سید علی السیستانی ،رہبر معظم سید علی خامنہ ای ،آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی اور مختلف مسالک کے دیگر متعدد علماے کرام اور سعودی عرب جیسے مسلم ممالک کے مفتیان ِ عظام اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ماہرین صحت کے ضابطوں جیسے فتاوی ٰ اور احکامات جاری کر چکے ہیں جس میں نماز جمعہ و جماعت اور نماز تراویح تک کو مساجد کے بڑے اجتماعات کے بجائے گھروں تک محدود رکھنا شامل ہے۔ مساجد میں نماز جماعت اور اجتماعی عبادات پر عائد یہ عالمی پابندی ’وباے کروؔنا‘ کے خاتمے تک جاری رہے گی ۔اگرچہ ایک حدیث کے مطابق رمضان المبارک میں ’عُمرہ ‘کرنے کا ثواب حج کے برابر ہے (سنن ترمذی جلد ۲ حدیث نمبر ۲۶۸)لیکن مذکورہ تدارکی پابندیوں میں ’عمرہ ‘بھی شامل ہے ۔
صحت بخش تغذیہ :
ماہ رمضان المبارک میں صحت بخش آب و دانہ کی فراہمی از بسکہ ضروری ہے ۔لوگوں کو چاہیے کہ وہ گھر میں بنی ہوئی غذااور تازہ پھل کھائیں اورہر طرح کی ڈبہ بند غذائی اشیا(ہر طرح کے پِیزا ،بَرگر اور چِپس وغیرہ )اورسبھی نام نہاد ٹھنڈے مشروبات(کولڈ ڈرنکس) سے مطلق پرہیز کریں ۔تازہ پانی خوب پئیں اور جہاں تک ممکن ہو سکے سفید شکر ،چکنائی اور نمک کا بھی کم سے کم استعمال کریں ۔اور لاک ڈاؤن نہ ہو تب بھی باہر جا کے ہوٹل وغیرہ میں کھانا کھانے سے حتی المقدور پرہیز کریں اور کرونا سے بچنے کے لیے لوگوں سے ملنے میں ’ محفوظ فاصلہ ‘بنائے رکھیں جس کے لیے آجکلSocial Distancing کی اصطلاح رائج ہو چکی ہے ۔
تمباکو کا استعمال بالخصوص سگریٹ نوشی سے تو مطلق پرہیز ہی بہتر ہے ۔بیڑی سگریٹ پینے والوں کو دمہ یا دق نہ بھی ہو تو ان کے آلات تَنَفُّس اور پھیپھڑے کمزور تو ہو ہی چکے ہوتے ہیں اور کرونا وائرس کے اصل شکار سانس لینے کے آلات اور پھیپھڑے ہی ہوتے ہیں ۔بیڑی سگریٹ تو بذات خود بھی وائرس آلودہ ہو سکتی ہے نتیجے میں انگلیاں اور ہونٹ کرونا وائرس کے شکار کا آسان وسیلہ ثابت ہو تے ہیں ۔
بلا شبہ نماز جماعت کی بہت زیادہ تاکید ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ ’’تنہائی میں ادا کی گئی ایک نماز دوسروں کی موجودگی میں پڑھی جانے والی ستر نمازوں سے بہتر ہے‘‘َ لہٰذااچھا یہی ہے کہ نمازیں تنہائی میں ہی ادا کی جائیں ۔کیونکہ کسی بھی مجمع عام میں خواہ وہ نماز جماعت اور خطبہ جمعہ ہی کیوں نہ ہو،ہم مصافحہ نہ بھی کریں تو کسی کو بھی کم از کم کھانسنے اور چھینکنے سے تو باز نہیں رہ سکتے اور اس طرح ’وائرس زدگی‘ کا خطرہ بہر حال باقی رہتا ہے ۔’کرونا زدگی‘ سے بچنے کے لیے جن احتیاطی اقدامات کی مسلسل تشہیر کی جارہی ہے وہ بالکل درست ہیں اور عافیت اسی میں ہے کہ ہم سب حتی الامکان ،سختی کے ساتھ اس کی پابندی کریں ۔یعنی کھانسنے اور چھینکنے کے وقت رومال، ٹشو پیپر یا اپنی کہنی کو منھ پر رکھیں ، کسی سے ہاتھ نہ ملائیں ،اور نہ اپنے ہاتھوں سے اپنے منھ ، ناک اور آنکھوں کو چھوئیں ،اپنے ہاتھوں کو وقفے وقفے سے اور بالخصوص جب بھی باہر سے آئیں ،لال کاربولک صابن (لائف بوائے ) سے دھوتے رہیں ۔زیادہ سے زیادہ گھر ہی پر رہیں ،بلا ضرورت اور بغیر دستانوں اور’ فیس ماسک‘ کے باہر نہ جائیں ۔ معمولی نزلہ زکام ،کھانسی یا بخار بھی ہو جائے تو اسے نظر انداز نہ کریں اور مکمل احتیاط کے ساتھ فوری طور پر دوائیں لیں، علاج اور آرام کریں۔
رہا یہ سوال کہ کسی مخصوص صورت حال میں ہم روزہ رکھیں یا نہ رکھیں ،اس کا فیصلہ کون کرے گا ڈاکٹر یا ہم خود ؟ تو ہمارا جواب ہے کہ اس کا فیصلہ خود ہمیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم ہی اپنی کیفیت سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں ۔
بحران کیسا بھی کیوں نہ ہو وہ انسانی فطرت کے لیے ’بدترین‘ بھی ثابت ہو سکتا ہے اور ’بہترین ‘بھی ۔قرآن کہتا ہے ’’ہر عُسر(تنگی اورمصیبت ) کے ساتھ یُسر (فراخی اور راحت )ہے ‘‘(سورہ شرح ّآیات ۵و۶)ضرورت اس کی ہے کہ ہم ، ہائے واویلا کرنے کے بجائے ضروری تدارکی اقدامات اور وہیں موجود اس یقینی ’’یُسر ‘ کی تلاش میں اپنا وقت زیادہ صرف کریں ۔اور بلا امتیاز خدمت خلق تو اسلام کا زرّیں بنیادی اصول ہے !
اس کرونائی وبا اور لاک ڈاؤن کے کے زمانے میں بھی فوڈ بینک میں اپنا حصہ ڈال کر ،مقامی بزنس اور کارکنوں کی مدد کر کے اور سب سے بڑھ کے پڑوسیوں کا خیال رکھ
کر ہم یہ کام بخوبی کر سکتے ہیں۔حضرت علی ؑ نے ایک جگہ فرمایا ہے (دیکھیے نہج البلاغۃ خطبہ نمبر ۴۷) کہ ’’میں تمہیں اور اپنے بچوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے سماجی امور کو بہتر سے بہتر رکھنے کی کوشش کریں کیونکہ اس کا اجر اللہ کے یہاں صوم و صلوٰۃ (نماز اور روزہ )سے بھی زیادہ ہے ۔‘‘
تو آئیے ہم سب مل کر ،بلا کسی تفریق و امتیاز کے ، ماہ رمضان المبارک اور عبادات کی اِس روح کو تازہ کریں اور مشکل کی اِس گھڑی میں اپنے گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ ساتھ اپنے اِمکان بھر، ہر ضرورت مند تک پہنچنے اور اُس کی مدد کرنے کی بھی کوشش کریں۔
٭٭٭
(میڈیکل کالج ،مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ )

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here