کاش! پلوامہ حادثہ نہ ہوتا تو ووٹ حب الوطنی پر نہیں بلکہ تاریخی فیصلہ نوٹ بندی سے آئے کالے دھن، دہشت گردی کے خاتمے، جی ایس ٹی سے حاصل ہونے والے فائدے اور یہ بھی بتایا جاتا کہ کتنے ایمس، پی جی آئی اور رام منوہر لوہیا جیسے نئے میڈیکل انسٹی ٹیوٹ بنیں، کتنی نئی یونیورسٹیاں کھلیں، کتنے اور کہاں روزگار پیدا ہوئے، وہ بلٹ ٹرین کہاں تک پہونچی، رافیل کی فائل کیسے غائب ہوگئی، پلوامہ میں 250 کلو دھماکہ خیز ملک میں کیسے آگیا اور اگلے پانچ برسوں میں محبان وطن کیلئے کیسے تعلیم میں سدھار ہوگا، کیسے ہیلتھ کا لیول بڑھے گا، کتنی یونیورسٹیاں بنیں گی، کتنے اسپتال بنیں گے، روزگار کہاں سے آئے گا؟ اگر پلوامہ نہ ہوتا تو یقینا یہ سب کچھ ہوتا لیکن پاکستان کا بیڑا غرق کرے اس نے سب ختم کردیا؟ لیکن یہ کیا؟ جس پاکستان سے بھارت کی عوام کو ڈراکر ووٹ مانگے جارہے ہیں وہی پاکستان مودی سرکار بننے کی دعا کررہا ہے، وزیراعظم عمران خان نے غیرملکی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی اقتدار میں لوٹتی ہے تو بھارت کے ساتھ امن بات چیت اور کشمیر مدعا حل ہونے کے زیادہ امکانات ہیں اور کانگریس اگر اقتدار میں آئی تو امن بات چیت ممکن نہ ہوگی۔ اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ کاش! پلوامہ نہ ہوا ہوتا تو ووٹ حب الوطنی پر نہیں بلکہ روزگار، تعلیم، صحت، ویلتھ، کسان، غریب کاروباریوں کی پریشانیوں کو دور کرنے کے وعدے پر مانگے جاتے مگر کیا کریں اب تو پلوامہ حادثہ ہوگیا اور پاکستان بھی اُدھر ہی ہوگیا؟ اب بچے صرف بھارتیہ، بھگوان اُن کا بھلا کرے۔
کاش! پلوامہ حادثہ نہ ہوتا!
Also read