9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
تقدیس نقوی
کچھ دن پہلے جے-این – یو میں ہوئی تشدد کی خبر آئی تو دل کو کسی طرح یقین ہی نہیں ہوا. یقین بھی کیسے ہوتا گذشستہ ہفتوں میں ہوئے ملک بھرمیں تشدد کے واقعات کے سلسلے میں پولیس کی بے مثال مستعدی اور حسن کارکردگی کی تعریفیں کرتے کرتے ہماری زبان خشک ہوگئی تھی. خیر پولیس کا نام لینے پر زبان خشک ہوجانا اک فطری کیفیت ہے جس کی تائید دلی والوں سے زیادہ اور کون کرسکتا ہے. ہم ابھی حکومتی اہلکاروں کی جانب سے تسلی و تشفی دلانے کے باعث اس واقعہ کو معمولی کہہ کر اپنے ذہن سے محو کرنےکی کوشش کرہی رہے تھے تو یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ جے-این-یو کے متاثرہ طلباء واساتذہ کی حمایت میں ملک کے دوسرے مقامات پر بھی احتجاج ہورہے ہیں .ہمیں مجبور ہوکر اپنے عزیز دوست میر صاحب کو اس واقعہ پر کچھ روشنی ڈالنے کے لئے زحمت دینا پڑی جن کا شمارحکومت کے بڑے حامیوں میں ہوتا ہے اورجوہرہندوستانی کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتے ہیں کیونکہ انکی ایک آنکھ میں پھولا ہے.
میر صاحب نے ہماری بات سنے بغیر ہی ہمیشہ کی طرح اک دھواں دھار تقریر کر ڈالی:
ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہے کہ آپ بھی دوسرے بھولے بھالے ہندوستانیوں کی طرح سے مخالفین کے زریعہ پھیلائی جارہی افواہوں کے شکار ہورہے ہیں. گذشستہ کئی ہفتوں سے ہمارے ملک کی میڈیا نہ جانے کہاں سے بے سر پیر کی اڑارہی ہے کہ آج کل ہر طرف تشدد کا نشانہ صرف طلباء ہی بنائے جارہے ہیں. اپنے بے بنیاد دعووں کی دلیل میں کچھ زرائع ابلاغ تو جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘ اے -ایم -یو اور اب تازہ تازہ جے-این-یو کا نام تک لے کر ان عظیم اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں. ان لوگوں نے نہ جانے کہاں سے ان تعلیی مراکز کے طلباء پر ہورہے نام نہاد تشدد کی جھوٹی ویڈیوز بھی بنا رکھی ہیں جو وہ ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر ڈھٹائی سے دکھا رہے ہیں.
میر صاحب نے تھوڑا سانس لیا تو ہم نے ان سے پوچھا :
تو کیا آپ جے-این-یو میں طلباء اوراساتذہ پر ہوئے اس کھلےعام تشدد سے متعلق ویڈیوز کو فیک مانتے ہیں ؟
پہلے تو یہ وضاحت کرتا چلوں کہ ویڈیوز کے مطابق یہ واقعہ ‘کھلے عام نہیں ہوا ہے بلکہ ہوسٹل اور لائبریری کے اندر ہوتا ہوا دکھایا گیا ہے. اس سلسلے میں یہ کاروائی انجام دینے والوں کی ستائش کرنا پڑیگی کہ انھوں نے اس واقعہ کو عوام کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی پوری کوشش کی اور یونیورسٹی کی حدود کا احترام باقی رکھا. یوں بھی پولیس یہ کاروائی کرنے والوں کو کنٹرول کرنے کی خاطر یونیورسٹی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر اندر داخل ہونے کی مجاز نہیں تھی. دوسرے پولیس کا یونیورسٹی کے اندر جانا وہاں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی مانا جاتا اس لئے پولیس نے اندر جانے سے اجتناب کیا میر صاحب نے پولیس کے وکیل صفائی کی پوری ذمہ داری نبھاتے ہوئے کہا.
مگر میرصاحب اسی دہلی میں کچھ دن پہلے ہی جامعہ ملیہ میں تو یہ اندر باہرلائبیریری اور ہوسٹل کی کسی قید ‘ پابندی اور احترام کا خیال نہیں رکھا گیا تھاہم نے بھی میر صاحب کے دوہرے معیار کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی.
بھئی جے-این – یو کا معاملہ مختلف ہے. یہ طلباء کا آپسی معاملہ لگتا ہے .اس طرح کے آپسی چھوٹے موٹے جھگڑے تو ہر تعلیمی ادارے میں ہوتے رہتے ہیں. دراصل اس طرح کے واقعات تو وہاں کے طلباء کی دوراندیشی معاملہ فہمی اور سیاسی تدبر کی علامت ہیں میر صاحب اس سنگین واقعہ کو دو بچوں کے درمیان ہوئی تو تو میں میں سے تعبیر کررہے تھے.
اگر ایسا کہیں کچھ ہوتا تو کیا عوام میں اس قدر مقبول ہماری حکومت یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی اور اپنے نو نہالوں کے جسم سے بہتے ہوئے خون کا تماشہ بے بسی سے کھڑی دیکھتی رہتی.؟ کیا ہماری حکومت ایسی گئی گذری ہے کہ وہ اس بات سے بھی واقف نہیں کہ یہ طلباء ہمارے ملک کا مستقبل ہیں اور آئندہ وقت میں عنان حکومت ان ہی کے ہاتھوں میں آنے والی ہے. جب حکومت کے قائدین بار بار یہ یقین دلارہے ہیں کہ پورا ہندوستان انکا اپنا پریوار ہے تو کیا یہ طلباء انکے اپنے بچے نہیں ہوئے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہماری وہ حکومت جو اپنے کسی موقف سے ‘ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹنا پسند کرتی وہ اپنے ہی طلباء پر ہوتے ہوئے تشدد کو برداشت کرلیگی.” میر صاحب جذباتی حربہ استعمال کرنے لگے.
مگرآج کل تو ہرطرف طلباء پر ڈنڈے برسائے جارہے ہیں وہ چاہے پولیس کی جانب سے ہوں یا کسی اور کی.
ہم نے بھی میر صاحب کے ضمیر کو جھنجھوڑا.
بھئی پولیس کے ڈنڈا استعمال کرنے کا توجواز یہ ہے کہ دراصل پولیس حکومت کی نیابت کرتے ہوئے طلباء کے ساتھ اک ایسے استاد کا کردار نبھاتی ہے جو کبھی کبھی اپنے شاگردوں کوصحیح راہ دکھانے کی غرض سے ڈنڈے کے زریعہ سبق یاد کراتا ہے. یہ ‘ڈنڈا تھریپی طلباء کے لئے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ استاد اور کتابیں.
میر صاحب نے پولیس کے زریعہ برسائے جانے والے ڈنڈوں کی عظمت اور افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا.
میر صاحب یہ ڈنڈے سبق یاد کرانے کے لئے برسائے گئے تھے یا سبق سکھانے کے لئے ؟ سبق یاد کرانے اور سبق سکھانے میں فرق تو پولیس جیسے تجربہ کار استاد کو بخوبی ہوگا
ہم نے بھی دو ٹوک سوال کیا.
جناب استادوں کے ڈنڈا استعمال کرنے کی تو پرانی ریت چلی آرہی ہے. ہمارے بچپن میں اسے قمچی کے نام سے جانا جاتا تھا. یہ بات ضرور ہے کہ ماڈرن ایجوکیشن نے اس ‘ قمچی ماڈل ‘ کی اہمیت نہیں سمجھی جس کا خمیازہ ہماری نئی نسل بھگت رہی ہے ورنہ آج آپ ان ڈنڈوں کی شکایت نہ کرتے.
یہ کہتے کہتے میر صاحب اپنے ماضی کی وادیوں میں چہل قدمی کرنے لگے.
بچپن میں ہم جس پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے وہاں دنیا کے تمام علوم کو بیک وقت ایک نیم کی لمبی قمچی پر لپیٹ کر طلباء کے کند آذہان میں تحلیل کیا جاتا تھا. اس سلسلے میں اس وقت کے مدرسین اپنے طلباء کے درمیان کسی قسم کی تفریق کرنا خلاف آصول تدریس مانتے تھے. اس وقت کا اگر کوئی بدقسمت طالب علم کسی عذر کے باعث اس قمچی کے لمس سے محروم رہا ہوگا تو وہ اپنی آئندہ زندگی میں قمچیاں توڑنے کےعلاوہ کوئی اور ڈھنگ کا کام کرنے کے قابل نہیں رہا ہوگا. قمچی کی اس علمی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر اکثر اسکولوں کے باہر ایک نیم کا تناور درخت پہلے سے موجود ہوتا تھا. یہ نیم کا درخت سبک ‘مضبوط اور زود اثرقمچیوں کی بروقت سپلائی کے لئے ہول سیل سپلائر کی ذمہ داری نبھاتا تھا. کچھ طلباء اسکول کے فاضل مدرسین کو جھانسا دیتے ہوئے ایسے موٹے کپڑے زیب تن کرکے اسکول آتے تھے جو نہ صرف قمچی کو انکے نازک بدن تک پہنچنے میں رکاوٹ بنتے تھے بلکہ قمچی کی دھار کو کند کرنے میں بھی معاون ہوتے تھے. مدرسین کرام ایسے چالاک طلباء کا علاج سبق پڑھانے سے پہلے ہی انکی قمیض اترواکر انکی ننگی کمرپر اس قمچی سے اپنا نسخہ کیمیا لکھ کر کردیتے تھے. اور یہ سب اہتمام اس لئے کیا جاتا تھا کہ جب والدین اپنے بچوں کو پہلی بار اسکول لے کر آتے تھے تو بچے پر اپنی محبت اور شفقت نچھاور کرتے ہوئے استاد سے درخواست کرتے تھے:
جناب آج سے اسکی صرف ہڈی ہماری باقی سب آپ کا ہے
اس باقی سب میں وہ سب کچھ شامل ہوتا تھا جو وہ ستمگر زمانہ قمچی اپنے ساتھ بدن کے کسی بھی حصے سے اس کا نمونہ اٹھا لاتی تھی. مگر کیا مجال ہے کوئی اُف بھی کرسکے. اپنے بچوں کے جسم پر قمچی کے نشانات دیکھ کر انکے والدین بہت خوش ہوتے تھے اور یہ یقین کرتے تھے کہ انکا بچہ اپنے استاد کی خاص نگرانی میں تربیت پارہا ہے. آج کل کی طرح نہیں کہ پولیس نے دوچار ڈنڈے کیا مار دئیے ہر طرف واویلا مچا ہوا ہے. اس ‘قمچی تھریپی ‘ کا مقصد پوری نسل کو صحیح راستے پر چلنے کی تعلیم دینا ہوتا تھا.
میر صاحب آج کل طلباء کے ساتھ کی جارہی ڈنڈا گردی کو ڈنڈا تھریپی ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے.
آج کل ہماری حکومت بھی پرانی روایات کی تجدید کرنے میں مصروف ہے تاکہ ہماری پرانی ثقافت کی حفاظت کی جاسکے. ممکن ہے پورے ملک میں آج کل طلباء کے ساتھ کی جارہی یہ ” ڈنڈا تھریپی” اسی مہم کا حصہ ہو.ہماری قوم کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ وہ حکومت کے ہر اقدام کے مثبت پہلووں کو نظر انداز کر رہی ہے. اب اگر تھوڑے سے ڈنڈے کے استعمال سے ہمارے طلباء راہ راست پر آجائیں تو اس میں کیا قباحت ہے. آپ نے غور کیا ہوگا اسی لئے صاحب اقتدار طبقہ کی جانب سے اس ‘ڈنڈا تھریپی کی مذمت نہیں کی گئی .کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ڈنڈا تھریپی ہی طلباء کے مستقبل کے لئے مفید ثابت ہوگی. اس ڈنڈا تھریپی کا اگر اک فائدہ یہ ہوگا کہ طلباء احتجاج کرنے کی غیر اخلاقی عادت سے پرہیز کرنا سیکھ جائیں گے تو دوسرا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ وہ اس تھریپی کے بعد بے روزگاری اور معاشی بدحالی کے متعلق شکوہ شکایت کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرینگے.
میر صاحب سے اپنی نوجوان نئی نسل کے تئیں اتنی اصلاحی اور ڈنڈا آلود گفتگو سن کر ہم نے بھی اپنے بے قرار دل کو یہ کہہ کر منالیا کیا پتہ آج کل نئی نسل کے تمام مسائل کا حل ڈنڈے کے زریعہ ہی نکل آئے. یہ تو اب وقت ہی بتائے گا کہ آئندہ ڈنڈا کس کے ہاتھ میں ہوگا. ہم کیوں زیادہ فکر کریں بقولے غالب:
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم – گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو۔
٭٭٭