ڈاکٹر کیفی سنبھلی کی شعری کائنات:ایک جائزہ

0
430

سید بصیر الحسن وفاؔ نقوی

فنکار جس عہد جس معاشرے یا جس ماحول میں سانس لیتا ہے اور اپنی زندگی کے اوقات صرف کرتا ہے تو شعوری یا لاشعوری طور پر اُس کی تخلیق میں اس کے گرد و پیش کی عکاسی کا رنگ ضرور واضح ہوتا ہے۔اس سلسلے سے ایک منزل ایسی آتی ہے جب فنکار قلم نہیں چلاتا بلکہ قلم اُسے چلاتا ہے قلم اس کے ہاتھ کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ اُس کا ہاتھ قلم کا محتاج ہوتا ہے۔شاعر ہو یا نثر نگار اگر وہ واقعی تخلیقیت کا حق ادا کرنا چاہتا ہے تو اپنی تخلیق کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔وہ تخلیق کو خلق نہیں کرتا بلکہ تخلیق اسے خلق کرتی ہے اور اُسے دنیا میں ممتاز کرتی ہے۔وہ اپنے خالق کو اس بامِ عروج پر پہنچا دیتی ہے جہاں سے شہرتوں کی ممکنہ بلندی کا ہمالیہ بھی اسے ذرہ نظر آتا ہے۔اس کی تخلیق اسے ان وادیوں کی سیر کراتی ہے جہاں اس کی فکر بھی نہیں پہنچ سکتی اس کا خواب بھی وہ تصور نہیں کرسکتا جہاں وہ اپنے آپ کو پاتا ہے۔اس کی تخلیق اُسے ان دریائوں اور سمندروں کی تہہ میں لے جاتی ہے جہاں ہر قطرۂ آب اس کے خونِ جگر کی رنگت اختیار کرکے اسے اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ اس نے تہوں میں اتر کر کن کن بیش قیمت موتیوں اور بے مثل اشیاء کو اپنی ملکیت بنا لیا ہے لیکن اس منزل تک پہنچنا ہر کس و ناکس کے مقدر میں نہیں یہ مقام ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو سچے تخلیق کار اور جہاں دیدہ ہوتے ہیں جن کی تخلیق میں بناوٹ یا صناعی نہیں بلکہ آمد کی تازگی و دلفریبی کارفرما ہوتی ہے۔ایسے افراد تخلیق محض دنیا میں داد و تحسین حاصل کرنے کے لئے نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور قارئین کو وہی پیش کرتے ہیں جو حقیقت میں سوچتے ہیںیا محسوس کرتے ہیں۔ایسے ہی بلند پرواز یا منفرد شعراء میں ڈاکٹر کیفیؔ سنبھلی کا نام سرِ فہرست ہے۔
ڈاکٹر کیفیؔ سنبھلی ایک ایسے فطری شاعر ہیں جو ادب کی ایک زمانے سے بے لوث خدمت انجام دے رہے ہیں ۔انھوں نے اردو ادب کو کئی شعری مجموعے تحفتاً پیش کئے۔عموماً دیکھا جاتا ہے کہ کوئی شاعر کسی مخصوص صنفِ سخن میں اپنے کمالات و جوہر دکھانا اپنے لئے طرۂ امتیاز سمجھتا ہے یا پھر قدرت کی طرف سے اسے اتنی ہی صلاحیت ملتی ہے کہ وہ کسی ایک صنف کا ہو کر رہ جاتا ہے لیکن ڈاکٹر کیفیؔ سنبھلی کا کمال یہ ہے کہ انھیں شاعری کی مختلف اصناف پر دسترس حاصل ہے ۔وہ حمد ،نعت،منقبت ،مرثیہ یا پھرغزل ہو وہ ہر میدان میں پیش پیش نظر آتے ہیں اور اپنے زو رِ تخیل اور شاعرانہ صلاحیتوں کی سحر کاری سے داد و تحسین وصول کرتے ہیں۔فی الحال ان کے تین شعری مجموعے ’’حرفِ پریشاں‘‘(۲۰۰۴ء)،’’پاسنگ‘‘(۲۰۱۴ء) اور ’’انتقام‘‘(۲۰۱۶ء) کے مطالعہ کی روشنی میں ان کی شاعری پر اجمالی طور پر اظہارِ خیال مقصود ہے۔
ڈاکٹر کیفیؔ سنبھلی کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہایت حساس طبیعت کے مالک ہیںزمانے کی بدلتی ہوئی تصویرمٹتی ہوئی اقدار،معدوم ہوتی روایتوں،فنا ہونے والے زمینداری نظام ،معاشرے میں فروغ پاتی ہوئی عیاریوں اور مکاریوں، خود غرضی میں لپٹی ہوئی انسانی خصلتوں ،لالچ میں ڈوبے ہوئے مراسم اور لوگوں کے رویوں کی لمحہ بہ لمحہ تبدیلی وغیرہ انھیں بہت مضطرب کرتی ہے جس کے نتیجے میں ان کی شاعری میںسماج سے شکوہ اور شکایت عام طور سے نظر آتا ہے اور ان کے لہجے میں زمانے بھر کی تلخیاں سمٹ کر آگئی ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنے ماضی کو کبھی نہیں بھلاتے پرانی یادیں خصوصاً گزرے ہوئے زمانوں کی آسودگیاں انھیں جب یاد آتی ہیں تو لہجے میں ایک کڑواہٹ اور تلخی کا احساس ہوتا ہے۔ مثال کے لئے ان کی مذکورہ بالا کتابوں سے اخذ شدہ کچھ اشعار دیکھے جا سکتے ہیں۔جن میں ان کا لہجہ کہیں کہیں طنزیہ بھی ہو گیا ہے۔مثلاً’’حرفِ پریشاں‘‘ میں کہتے ہیں:
سمٹا ہوا ہے خول میں ہر آدمی یہاں
اپنے پڑوسیوں کو بھی میں جانتا نہیں
بعض مقامات پر شاعر اپنے متعلق کوئی بات کہتا ہے یا خود کو خطاب کرتا ہوا خود کلامی سے کام لیتا ہے لیکن اصل میں مقصد اس کا زمانے کے خوابیدہ اذہان کو جگاکر معاشرے کی اصلاح کا ارادہ ہوتا ہے۔بظاہر اس شعر میں شاعر خود سے مخاطب ہے اور خود کو اس بات کا احساس دلانا چاہتا ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش میں رہنے والوں کو نہیں جانتا لیکن در حقیقت یہ آج کے دورِ ترقی کا منظر نامہ ہے کہ جہاں ایک ہی علاقے میں رہنے والے افراد اپنے پڑوسیوں سے بیزار ہیں۔اب ذرا ان کے یہاں ماضی کا درد دیکھیں کہتے ہیں:
اب مرے پاس فقط ڈھال ہے تلوار نہیں
میں زمیندار کا بیٹا ہوں زمیندار نہیں
کھنڈر تلک بھی نہ باقی رہیں برائے ثبوت
زوال ایسا نہ آئے کسی حویلی پر
ثبوت کے لئے اب تخت و تاج ڈھونڈتا پھر
کہا تھا کس نے کہ آبا وَ جد کی باتیں کر
وہ آج بیچ رہا ہے بسوں میں مونگ پھلی
سنا ہے باپ کبھی والیِ ریاست تھا
پہلے شعر میں جہاںاس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمینداری نظام ختم ہونے کے بعدصرف دکھاوے کی نام و نمود باقی رہ جاتی ہے۔ تو دوسرا شعر اس بات کا عکاس ہے کہ زمانے کی گردش میں آکر بڑے بڑے گھرانوں کی شان و شوکت کس طرح زوال کا شکار ہوئی۔تیسرا شعر ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو اپنے اجداد و اسلاف کے کارناموں پرناز کرتے ہیں لیکن عصرِ حاضر کے لوگ ان کی عظمت و رفعت تسلیم نہیں کرتے۔ چوتھا شعربھی ان لوگوں کی تصویر بن کر ابھرتا ہے کہ جس میں اسلاف و اخلاف کے بدلتے ہوئے حالات بیان کئے گئے ہیں۔
وہ اس بات پر بھی اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں کہ بعض افراد اپنے ماضی کو فراموش کردیتے ہیں یا جو عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور دولت کی فراوانی کے باعث متکبر ہوجاتے ہیںوہ غرباء کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ ان کا مذاق اُڑاتے ہیں ۔شعر دیکھئے:
جس وقت تلک یہ کسی بھوکے پہ نہ ہنس لیں
یہ کوٹھیوں والے کبھی لقمہ نہیں کھاتے
انھیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ بعض لوگ احسان فراموش ہوتے ہیں کہتے ہیں:
جو بڑھ رہے ہیں مری سمت پھن نکالے ہوئے
یہ سانپ سب ہیں مری آستیں کے پالے ہوئے
اس قبیل کے اشعار’’پاسنگ‘‘ سے بھی لئے جا سکتے ہیں جو ’’حرفِ پریشاں‘‘ کے دس سال بعد منظرِ عام پر آیا۔لیکن اس مجموعے میں ان کی حساس فکر مزید جولانی وتابانی کے ساتھ شاعری میں اپنی موجودگی ظاہر کرتی ہے۔کچھ اشعار دیکھیں جن میں طنز کا تیکھا لہجہ،زمانے سے شکوہ،ماضی کی کسک اور معاشرے میںرونما ہونے والے نا خوشگوارواقعات و حالات کے ساتھ ساتھ مفلسی اور غربت کے مسائل، عزیزو اقارب اور ملاقاتیوں کی عیاریوں اور مکاریوں کی طرف واضح اشارے ملتے ہیں:
دور تک پھیلی ہوئی بھیڑ میں انسانوں کی
اب کے دو چار فرشتے بھی نظر آگئے ہیں
کل جو مسجد میں گئے ہم تو یہ محسوس ہوا
ایک ہم ہی ہیں گنہگار فرشتے ہیں سبھی
بیعتِ درہم و دینار نہیں کر پائے
خود کو ہم وقت کی رفتار نہیں کر پائے
پھر امیر ذہنوں کی پستیاں اُٹھا لائے
کوڑے دان سے بچے روٹیاں اُٹھا لائے
کوئی دیا،کوئی بادل،کوئی شجر نہ بچا
ہوا چلی تو کوئی نقشِ معتبر نہ بچا
گردشِ حالات نے سب شان و شوکت چھین لی
مجھ پہ اب کچھ بھی نہیں دنیا سے ڈرنے کے لئے
میں خود کو زمیندار سمجھتا رہا کیفیؔ
دو گز سے زیادہ مری جاگیر نہ نکلی
لے دے کے بس اک عزتِ سادات ہے باقی
اب پاس مرے اور کوئی سوغات نہیں ہے
رات آئی تو ڈھونڈتا ہوں چراغ
کتنے سورج مرے مکان میں تھے
نہ منطقی،نہ مفکر،نہ فلسفی بن کر
میں جینا چاہتا ہوں صرف آدمی بن کر
کچھ اور دوستی کا ابھی حق ادا کرو
سینے کے آر پار یہ خنجر بھی کچھ نہیں
اسی لہجے کا رنگ ان کے تازہ مجموعۂ کلام ’’انتقام‘‘ میں بھی جابجا بکھرا نظر آتا ہے۔کچھ ا شعار دیکھیں:
پالتا میں تو آرہا تھا مگر
سانپ خود آستین سے نکلا
کیسے کیسے بونے قدآور کہے جانے لگے
ہر بلندی کے لئے دولت کا زینہ چاہئے
تھی خوب مشق ضمیر اپنا بیچنے کی اُسے
سو فاتحانہ ہر اک ہار سے نکل آیا
جو بھی چاہا وہ شکم کی آگ نے کروا لیا
سارے ہی اجداد کے القاب رکھے رہ گئے
پچھلے کچھ برسوں سے یکسر میں جسے بھولا رہا
آج خود میں پھر وہی لڑکا نظر آیا مجھے
ان کے یہاں خاص بات یہ ہے کہ جہاں انھوں نے اردو ادب کی روایت کا پاس رکھا تو عصری تقاضوں کے تحت اپنی شاعری کا لہجہ جاذب نظر بنانے کی بھرپور کشش کی جس کا ثبوت ان کی شاعری میں آئے ہوئے انگریزی الفاظ ہیں جنھیں انھوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اپنی شاعری میں پرویا ہے۔کیونکہ اردو زبان کا کمال یہ ہے کہ اس میں ہر زبان کا لفظ آسانی سے کھپ سکتا ہے لیکن اس کے استعمال کا ہنر بخوبی آنا چاہئے ۔موجودہ دور کے بعض شعراء شاعری میں انگریزی الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن فصاحت و بلاغت کا حق ادا نہیں کر پاتے لیکن ڈاکٹر کیفیؔ سنبھلی کو یہ ہنر بخوبی آتا ہے کہ اردو شاعری میں انگریزی الفاظ کس صورت میں استعمال کئے جائیں اور فصاحت و بلاغت کے تقاضے بھی مجروح نہ ہونے پائیں ۔اشعار دیکھیں:
’’شو کیسوں‘‘ میں سجے ہی رہے اہتمام سے
ہم وہ لباس تھے جو بدن کو ترس گئے
چاند خوابیدہ کسی بھی ’’برتھ‘‘ پر ملتا نہیں
اب سفر ہوتے ہیں لیکن ہم سفر ملتا نہیں
کیفیؔ منافقت کی کچھ ایسی ہوا چلی
کچھ دیر بعد ہم بھی ’’شٹل کاک‘‘ ہو گئے
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جس صورت سے ہمارے کلاسیکی ادب میں تلمیحات کا استعمال ہوتا تھا وہ موجودہ شاعری میں نہیں ہے۔یعنی آج کے شعراء کو تلمیحات کے استعمال میں نہ دلچسپی رہی ہے اور نہ وہ اس کے تقاضوں پر کھرے اُترتے ہیں کیونکہ تلمیحات محض کسی تاریخی واقعے سے متعلق ناموں کی فہرست سازی کا عمل نہیںبلکہ اس کے توسل سے شعر میں معنویت پیدا کرتے ہوئے اس کے دائرے کو وسیع ترین کیا جاتا ہے تاکہ گزرے زمانے میں رونما ہونے والے واقعات و حادثات یا سانحات وغیرہ کی روشنی میں عصری منظر نامے کو سمجھا جا سکے اور شعر زمان و مکان کی قید سے باہر قرار دیا جا سکے۔لیکن ڈاکٹرکیفیؔ صاحب کی شاعری سے اس بات کا ثبوت فراہم ہوتا ہے کہ وہ تلمیحات کو برتنے کا فن اچھی طرح جانتے ہیں ،ساتھ ہی وہ اس کے تحت اپنی انفرادیت بھی قائم رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں بعض تلمیحات واضح طور پر استعمال ہوئی ہیں اور بعض کی طرف اشاروں یا علامتوں کے ذریعے سے گفتگو کی گئی ہے۔کچھ اشعار دیکھیںجن میں واضح یا براہِ راست تلمیح کا استعمال ہے لیکن ان کا یہ فن ان کے شعر کو محدود نہیں کرتا بلکہ عصرِ حاضر سے اُس کا ایک رشتہ قائم ہوجاتا ہے۔مثلاً:
بجز عمل کوئی نسبت نہ کام آئے گی
خدا کے قہر سے تو نوحؑ کا پسر نہ بچا
جو بات ہوگی یہاں پر کسی زلیخا کی
تو ذکر آئے گا اپنے بھی چاک دامن کا
اب تو یوسفؑ ہی کہا جائے گا مجھ کو شہر میں
بیچنے سے پہلے میرے بھائیوں کو روکتے
فتحِ مکّہ ہو چکی ہجرت مکمل ہو چکی
اب ذرا واپس ہمیں اپنا مدینہ چاہئے
تعلق جو ہے نسلِ حیدرؑ سے کیفیؔ
تو قاتل کو شربت پلانا پڑے گا
عجیب شخص جہانگیر بن کے بیٹھا ہے
جو عدل کرتا ہے میزان بھول جاتا ہے
مندرجہ بالا اشعار میں تلمیحات کو برتنے کا جو طریقہ ہے وہ بغیر کسی اشارے یا کنایہ کی مدد سے ہے ۔انھوں نے تلمیحات کے لئے ایسا اسلوب بھی اپنایا جس میںاصل واقعے کی وضاحت تو نہیں لیکن ذرا غور وخوض سے شعر کے قالب میں چھپے معانی صاف نظر آجاتے ہیں مثلا ایک شعر دیکھیں جس میں بظاہر شاعر اپنے ساتھ ہونے والے ناخوشگوار واقعہ کی بات کرتے ہوئے اپنے صبر و تحمل کا بیان کر رہا ہے لیکن پسِ پردہ خلقتِ آدمؑ کی طرف اشارہ ہے:
پھینکا گیا ہوں خلدِبریں سے زمین پر
لیکن کوئی شکن تو نہیں ہے جبین پر
ایک شعر میں فتحِ مکہّ کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب رسالت مآب کے دوشِ مبارک پر کھڑے ہوکر حضرت علی ؑ نے خانۂ کعبہ میں بت شکنی کی تو رسولؐ نے پوچھا یاعلی ؑ کیسا محسوس کر رہے ہو تو حضرت علیؑ نے فرمایا کہ میں خود کو اتنی بلندی پر محسوس کر رہا ہوں کہ اگر چاہوں تو آسمان کے تارے چھو سکتا ہوں۔شعر اس طرح ہے:
چھونے لگا ہوں چاند ستاروں کو ہات سے
آگے نکل گیا ہوں حدِ ممکنات سے
ہر عہد کے شاعر نے واقعۂ کربلا اور اس سے منسلک واقعات کو بھی شاعری میں بطورِ تلمیح پیش کیا ہے۔ڈاکٹر کیفیؔ سنبھلی بھی اس میں پیش پیش ہیں کچھ اشعار دیکھیں جس کا مطالعہ وسیع ہوگا یا تاریخِ کربلا سے واقف ہوگا وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ شعر میں کیا کہا گیا ہے:
تقدیر میں بھی لکھا تھا اک پیاس کا سفر
دریا بھی میری راہ میں پڑنا ضرور تھا
نمازِ عشق ادا کرنا کھیل مت سمجھو
کہ سر کٹانے کو سجدے میں جاناپڑتا ہے
نہیں بعید کہ سورج سے گفتگو کی ہو
بلند ہوکے جو نیزے پہ سر گئے ہوں گے
مندرجہ بالا اشعار میں یوں تو واضح طور پر کربلا کا واقعہ بیان نہیں کیا گیا ہے لیکن پہلے شعر میں ’’پیاس کا سفر‘‘ اور’’دریاراہ میں پڑنا‘‘ شہدائے کربلا کی تشنہ دہانی کا قصہ سناتا ہے۔دوسرے شعر میں نمازِ عشق ادا کرنے کے لئے سجدے میں جانا امام حسینؑ کے اس سجدے کی طرف اشارہ ہے جو انھوں نے کربلا میں جنگ کے دوران وقتِ عصر ادا کیا اور شمر نے کند خنجر سے ان کا سر تن سے جدا کر دیا۔جب کہ تیسرے شعر میں اسیرانِ کربلا اور شہدائے کربلا کا نوکِ سناںپر سر بلند ہوکر کوفہ و شام کی طرف روانہ ہونا یاد دلاتا ہے۔
موصوف نے یہی نہیں کہ واقعۂ کربلا کی طرف اشاروں میں گفتگو کی ہوبلکہ ان کے یہاں ایسے اشعار بھی ہیں جن مین واقعۂ کربلا سے متعلق کرداروں کے نام بھی موجود ہیں اور اس سے منسلک ضمنی واقعات کابھی بیان ہے۔ جیسے:
حسینؑ ہو کے بھی کوفے میں جانا پڑتا ہے
سمندروں کو ہی کوزے میں جاناپڑتا ہے
میں ساری فوج مخالف سے بد گمان نہیں
چھپا ہوا ہے کوئی حُر بھی ان لعینوں میں
اپنے نل کا اپنے بھائی پر بھی پانی بند ہے
آپ کس منہ سے یزیدوں کو برا کہنے لگے
ان اشعار میں ’’حسینؑ‘‘’’حُر‘‘ اور ’’یزید‘‘جیسے نام بغیر کسی اشارے یا ذہنی کثرت کے واقعۂ کربلا کے عکا س ہیں اسی طرح کچھ اشعار میں انھوں نے دس محرم میں ہوئے واقعات اور اس کے بعد اہلبیتؑ کی اسیری کی کہانی بھی سنائی ہے کہتے ہیں:
کیفیؔ سوالِ بیعتِ فاسق ہے سامنے
پھر سے شعورِ کرب و بلا چاہئے مجھے
گلے پہ تیر بھی کھاکر جو ہے لبوں پہ مرے
جو ہو سکے تو مری اس ہنسی کا قتل کرو
بغض میں سارے ہی آداب و شرافت نہ بھلا
سر سے سیدانیوں کے چادرِ تطہیر نہ کھینچ
پہلے شعر میں’’ سوالِ بیعت ِ فاسق‘‘ یزید کے امام حسینؑ سے مطالبۂ بیعت کی کہانی بیان کرتا ہے دوسرے شعر میں حضرت علی اصغرؑ ابنِ حسینؑ کا تیر کھا کر بھی مسکرانا اور راہِ حق میں جان قربان کرنا مذکور ہے تو تیسرے شعر میں مخدراتِ عصمت کی بے ردائی کا ذکر ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ موصوف صرف اسلامی تلمیحات ہی کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں بلکہ وہ ہندو دیومالائی تلمیحات کو اور داستانی تلمیحات کو بھی اپنی غزلوں میں سموتے ہیں جس سے ان کی وسعتِ نگاہ صاف نظر آتی ہے مثلاً:
وہ جن کی حد ہے ہمیشہ سے لکشمن ریکھا
کبھی سمجھ نہیں سکتے مزاج راون کا
پوجنے لگتی ہے دنیا پھر اسے کہہ کر گنیش
آدمی کے جسم پر جب اس کا سر ملتا نہیں
نہ کوئی قیس نہ فرہاد ہے نہ ہے رانجھا
بتائو مملکتِ عشق کس کے نام کروں
شروع کے دو اشعار ہندومذہب کے پیشوائوں کا ذکر کرتے ہیں توتیسرا شعر ہمارے داستانی ادب کا مظہر ہے۔یعنی ہم یہ پورے وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ داکٹر کیفیؔ سنبھلی کا زاوایۂ نگاہ وسیع اور پروازِ فکر بلند ہے ۔
ان کی شاعری کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ بعض الفاظ ان کے یہاں بار بار آئے ہیں جنھیں بطورِ علامت استعمال کیا گیاہے جیسے’’دھوپ‘‘’’سورج‘‘’’مٹی‘‘’’شجر‘‘’’رات‘‘’’آسمان‘‘’’سانپ‘‘’’تتلی‘‘’’کاغذکی کشتی‘‘’’ساحل‘‘’’سمندر‘‘’’مچھلی‘‘’’چراغ‘‘’’نوکِ نیزہ‘‘’ ’تلوار ‘‘’’تیر‘‘’’خنجر‘‘’’دستار‘‘ اور’’آئینہ‘‘وغیرہ۔ان کے یہاںنئی تشبیہات بھی ملتی ہیں مثلاً ایک شعر ملاحظہ کریں:
مختصر سی یہی تعریف ہے دنیا تیری
اک بھکارن جو شہنشاہوں سے پالی نہ گئی
وہ اپنی شاعری کے آئینے میں کہیں کہیں انا پرست کہیں خوددار اور کہیں نہایت خود اعتماد کہیں خدا کی ذات پر یقین ِ کامل رکھنے والے تو کہیںزمانے کو حوصلہ بخشتے ہوئے نظر آتے ہیںمثلاً:
سورج ہوں رویہ تو بدلنے سے رہا میں
تاروں کی طرح شب کو نکلنے سے رہا میں
احسان مت لے چاند ستاروں پہ خاک ڈال
کٹ جائے گی ضرور یہ تاریک رات بھی
سدا میں اپنے عزائم کے بل پہ اُڑتا ہوں
کہ بال و پر کے بھروسے مری اُڑان نہیں
اس کی عطا میں کوئی کمی کا سوال کیا
کہہ کر تو دیکھ ارض و سماں چاہئے مجھے
پھر ایک بار تجھے آسمان چھونا ہے
ابھی یہ ٹوٹے ہوئے پر ذرا سنبھال کے رکھ
غرض کہ ڈاکٹر کیفیؔ سنبھلی مابعد جدید شاعری کے حوالے سے ایک مستند و معتبر نام ہے۔ان کی شاعری اس پُر بہار ہوا کے جھونکے کی طرح ہے جس کو محسوس کرکے مرجھائے ہوئے دل کے پھول پر تازہ مسکراہٹ کی چمک رونما ہوتی ہے۔وہ بدلتے ہوئے زمانے کے مزاج سے شاکی تو ہیں لیکن اپنے گرد و پیش سے مایوس نہیں گویا وہ کبھی امید کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔چند لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ شاعروں کی بھیڑ میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں اور ان کی شاعری کا کینوس نہایت وسیع اور مختلف دلکش رنگوں سے پُر ہے ۔میںاس مضمون کو ان کے ایک شعر پر ختم کرتا ہوںجو ان کا تعارف بھی ہے:
میںبھیڑ میں کبھی شامل نہ ہو سکا کیفیؔ
سدا مجھے مرا معیار روک لیتا ہے
٭٭٭
سول لائن علی گڑھ یوپی
موبائل:9219782014

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here