چھلنی بھی بولی جس میں 72 چھید

0
278
प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

حفیظ نعمانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کانگریس کے صدر بننے کے لئے راہل گاندھی کے کاغذات نامزدگی کے علاوہ کسی نے مقابلہ میں نامزدگی نہیں کرائی اور راہل گاندھی اب کانگریس کے صدر ہوگئے۔ کانگریس کے ایک بہت پرانے لیڈر منی شنکر ایر نے کسی وقت کہا تھا کہ جہانگیر کے بعد شاہجہاں کا بادشاہ بننا اور ان کے بعد اورنگ زیب کا بادشاہ بننا معلوم تھا کیونکہ باپ کے بعد بیٹا ہی بادشاہ بنتا تھا۔ ان کے اس تبصرہ کو مودی جی نے دانت سے پکڑلیا اور احمد آباد کے ہر جلسہ میں باپ کے بعد بیٹا بادشاہ بننے کا فقرہ دہراکر کہا کہ مگر ہم اورنگ زیب کا طریقہ نہیں اپنا سکتے۔
مودی جی کے جگر میں مسلمانوں سے متعلق آلپن کی نوک ہر وقت چبھا کرتی ہے گجرات میں اس بار مسلمان الیکشن میں خاموش ہیں ابتدا میں ایک پوسٹر دکھایا گیا تھا کہ جب ٹکٹ نہیں تو ووٹ نہیں۔ لیکن اس کے بعد خاموشی سے اندازہ ہوا کہ وہ کوئی شرارت تھی۔ مسلمانوں نے 2002 ء کے تذکروں سے اپنے کو الگ کرلیا ہے۔ اب وہ جسے مناسب سمجھیں گے ووٹ دے دیں گے لیکن مودی جی کو احمد میاں کہنے کا موقع نہیں ملا اس لئے انہوں نے بادشاہ کا بیٹا بادشاہ کی چٹکی سے دل خوش کرلیا۔
حیرت ہے کہ مودی جی یا بی جے پی کے کسی لیڈر کی راہل کی تاجپوشی پر زبان کھولنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ وہ اپنے کو دیکھیں کہ بی جے پی میں صدارت کا مسئلہ تھا اچانک ایک صاحب خوب رو خوب تن و توش کے مالک اسکوٹر پر بیٹھ کر آئے اور انہوں نے اڈوانی جی جیسے تمام لیڈروں کو ناگ پور کا پیغام دیا کہ تم دہلی والوں میں کوئی صدر بننے کے لائق نہیں ہے ہم ان کو بھیج رہے ہیں یہ بی جے پی کے صدر ہوں گے اور یہ پانچ سال کے لئے نہیں دس سال کے لئے ہوں گے ان کے لئے دستور میں ترمیم کردی جائے۔ اور کسی کی سوال جواب کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی اور گڈکری بی جے پی کے دس سال کے لئے صدر بن گئے۔ اب اگر کانگریس کا کوئی لیڈر معلوم کرے کہ الیکشن کہاں ہوا اور ووٹ کس کس نے دیئے تو؟
یہ تو اتفاق تھا کہ بی جے پی کے صدر کی پانچ سال کے بعد حقیقت سامنے آگئی کہ ان کی درجنوں جعلی کمپنیاں ہیں جن کے نام پتے اور ڈائرکٹر سب فرضی ہیں اور اتنا شور ہوا کہ ناگ پور کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا اور وہیں سے حکم آیا کہ اب راج ناتھ سنگھ کو صدر بنادو کیا یہ الیکشن ہوا؟ اور اس کے بعد جب مودی وزیراعظم بن گئے تو انہوں نے امت شاہ کو صدر بنا دیا ان کا حکم ہی الیکشن بن گیا۔
کانگریس نے پنڈت نہرو کے بعد لال بہادر شاستری کو وزیراعظم بنایا اس دَور کے کامراج صدر تھے تو اس وقت باپ کا بیٹا بادشاہ کہاں مودی کو نظر آگیا؟ یہ لال بہادر شاستری کی کم سمجھی تھی کہ انہوں نے مسلم یونیورسٹی کے معاملے میں چھاگلا کو آگے کردیا اور انہوں نے جیسے بیانات دیئے ان کے بعد مسلمان کانگریس سے الگ ہوگئے ان بے وقوفوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ کانگریس کی سب سے بڑی طاقت مسلمان ہیں۔ اب یہ اتفاق ہی تھا کہ پاکستان نے جنگ چھیڑدی اور انجام یہ ہوا کہ تاشقند میں شاستری جی کی زندگی کی ڈور ٹوٹ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ صدر کامراج، مرارجی ڈیسائی، نیلم سنجیوا ریڈی اور بزرگ لیڈروں نے اندرا گاندھی کو وزیراعظم بنادیا تاکہ گونگی گڑیا ان کے اشاروں پر ناچتی رہے گی۔ جن بے وقوفوں نے اندرا گاندھی کو گونگی گڑیا سمجھا ان کو کیا کہیں کیا وہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ اپنی پسند کی شادی کے بعد دو بچوں کی ماں وزیر اعظم کی بیٹی اور ان کی عزت فیروز گاندھی کے گھر کو ٹھوکر مارکر چلی آئی کیا کوئی تجربہ کار یہ سوچ سکتا ہے کہ گونگی گڑیا بغیر لڑے اور بار بار لڑے بغیر گھر چھوڑنے کا آخری فیصلہ کرسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کے بڑوں کو معلوم تھا کہ شاستری کے بعد اور کوئی آتا ہے تو کانگریس بکھر جائے گی۔ اور یہ بات راجیو گاندھی کے بعد نرسمہارائو کو وزیراعظم اور سیتا رام کیسری کو صدر بناکر دیکھ لیا کہ کانگریس بکھر گئی اور اگر سونیا گاندھی کیسری کو ہٹاکر کانگریس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہ لیتیں تو آج کانگریس کا وجود بھی نہ ہوتا۔
یہ ہمارے ملک کا مزاج ہے۔ کیا بابر کے آنے سے پہلے ملک میں حکومت نہیں تھی اور کیا الیکشن ہوا کرتے تھے اگر مودی کے ناگ پور کے دفتر میں بابر سے پہلے کے الیکشن کے پوسٹر رکھے ہوں تو ہم بھی دیکھنا چاہیں گے۔ اور کیا ہندوستان میں سیکڑوں راجہ مہاراجہ نہیں ہوئے اور کیا ان کا یہ طریقہ نہیں تھا کہ راجہ کے بعد بڑا راج کمار راجہ بنے گا وہاں کون مسلمان بادشاہ کا بیٹا بادشاہ بنا رہا تھا۔ ہندوستان کا مزاج ہی یہ ہے کہ کسی کی حکومت چاہتا ہے اور وہی حکومت کو مضبوط کرتا ہے اب اگر سونیا کے بعد راہل نہ بنائے جاتے تو وہی ہوتا جو نرسمہا رائو اور سیتا رام کیسری کے بعد ہوا تھا۔ مودی جی کو کچھ نہ کچھ کہنا ہے اس کا تعلق عقل سے ہو یا نہ ہو۔ انہیں تو بولنے سے پہلے دیکھنا چاہئے تھا کہ وہ کون ہے جس نے انہیں 2014 ء میں وزیر اعظم کا اُمیدوار بنایا اور اڈوانی جیسے تمام بڑے لیڈر مخالفت کرتے رہے مگر کسی کی نہیں سنی گئی۔ اگر الیکشن ہی سب کچھ ہے تو بی جے پی میں کون الیکشن کے بعد صدر ہوا اور 70 برس میں کب الیکشن ہوا؟ مخالفت کے شوق میں جو منھ میں آئے بول دینا اور اپنا گھر نہ دیکھنا عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گجرات نے اُن کے ہوش اُڑا دیئے ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here