9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
حقانی القاسمی
ارشاد سیانوی کی تحقیقی جستجو کا یہ عمل ایک ایسی کثیر الابعاد شخصیت کے حوا لے سے ہے جس نے لسانی اور ملکی سر حدیں توڑ کر عالمی سطح پر اپنی شناخت بنائی ہے اور جن کی تخلیقات کے ترجمے دنیا کی بیشتر زبانوں میں ہو چکے ہیں۔اس لیے عالمی ادبیات میں یہ نام ناما نوس یا اجنبی نہیں ہے۔ قرۃ العین حیدر کے نام سے معروف اس عظیم ادیبہ اور دانشور کو اردو فکشن کاPrima DonnaاورGrand Dame بھی کہا جاتا ہے۔ گارسیا مرکیز اور میلان کندیرا جیسے اہم ناول نگاروں کی صف میں بھی انہیں رکھا جاتا ہے۔اردو فکشن کو انہوں نے نئے مو ضو عاتی جزیرے اور اظہاری منطقے عطا کیے ہیں اور فکشن میں یہی ان کے نشانات امتیاز ہیں۔
قرۃ العین حیدر (20جنوری 1927۔21؍ اگست2007) کی تخلیقات کی تفہیم و تعبیر کے حوالے سے اردو میں تحریروں کا بیش بہا ذخیرہ ہے۔ ان کے فکرو فن کے تعلق سے جو تحقیقی اور تنقیدی مطالعات شائع ہوچکے ہیں ان میں پروفیسر ارتضیٰ کریم کی مرتبہ ’’ قرۃ العین حیدر ایک مطالعہ‘‘(1992)،ڈاکٹر عبد المغنی کی’’ قرۃ العین حیدر کا فن‘ ‘ (1985) ،خورشید انور کی’’ قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں تاریخی شعور‘‘(2004)، پروفیسر عبد السلام کی’’ قرۃ العین حیدر اور ناول کا جدید فن‘‘(1983)،محی الدین بمبئی والا کی ’’ قرۃ العین حیدر ایک مطالعہ‘‘،اسلم آزاد کی ’’ قرۃ العین حیدر بحیثیت ناول نگار‘‘،(2004)،ڈاکٹر صاحب علی کی ’’ قرۃ العین حیدر شخصیت اور فن‘‘(2008)ڈاکٹر اختر سلطانہ کی’’ قرۃ العین حیدر تحریروں کے آئینے میں‘‘(2005)، کافی اہمیت کی حامل ہیں کہ ان تنقیدی مطالعات سے قرۃ العین حیدر کی شخصیت اور فن کے مختلف ابعاد سامنے آتے ہیں۔ان میں مو خرالذکر کتاب تقریباً926 صفحات پر محیط ہے۔اختر سلطا نہ نے عینی آپا کی تحریروں کی مختلف جہتوں کا مبسوط جائزہ پیش کیا ہے۔ خاص طور پر عینی آ پا کا سوانحی مواد بہت بیش قیمت ہے۔ان کتابوں کے علاوہ’’نگار‘‘ پاکستان(دسمبر2007)،’’نیا دور‘‘،لکھنؤ(فر وری، مارچ2009)’’ چہار سو‘‘ راولپنڈی (جولائی۔ اگست2005) ’’کتاب نما‘‘،نئی دہلی(7؍ اکتو بر2007 ء)،’’ آج کل‘‘،نئی دہلی(اگست1990)، ’’ایوان اردو‘‘،نئی دہلی (جنوری2008) اور’’ سطور‘‘ملتان نے قرۃ العین حیدر پر خصوصی شمارے شائع کیے۔ان مطالعات میں عینی آ پا کے مشہور ناولوں ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ ،’’سفینۂ غم دل‘‘،’’ آگ کا دریا‘‘،’’آخر شب کے ہم سفر‘‘، ’’چاندنی بیگم‘‘ کے تنقیدی تجزیے بھی شامل ہیں۔مگر زیادہ تر ناقدوں نے عینی آپا کے شاہکار ناول’’آگ کا دریا‘‘ پر ہی اپنے مطالعات کو مر کوز رکھا ہے اور اسی ناول کے حوالے سے تنقیدی گفتگو کی گئی ہے۔ان ناولوں میں سب سے کم توجہ چاندنی بیگم پر دی گئی ہے۔ جب کہ یہ ناول اتنا اہم ہے کہ اس کے انگریزی ترجمہ کی وجہ سے اس کی رسائی نہ صرف دور دور تک ہوئی بلکہ یہ انگریزی فکشن کے تنقیدی ڈسکورس میں شامل ہوئی۔ سلیم قدوائی کے انگریزی ترجمے کی پذیرائی انگریزی داں حلقے میں خوب ہوئی اور اس پر انگریزی اخبارات و رسائل میں عمدہ تبصرے بھی شائع ہوئے۔ اردو میں پروفیسر شمیم حنفی، ڈاکٹر عبد المغنی، پروفیسر زاہدہ زیدی، ڈا کٹر ممتاز احمد خان، نزہت سمیع الزماں یا چند اور ادیبوں نے ہی اس ناول کو اپنی تنقید کا مرکز بنایا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو چاندنی بیگم جیسے اہم ناول پر ایک مشرح اور مبسوط تنقیدی مطالعے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ ارشاد سیانوی نے شاید اسی کے پیش نظر اپنی تحقیق کا محور و مرکز چاندنی بیگم جیسے اہم ناول کو بنایا ہے ۔ کیو نکہ یہ ناول قرۃ العین حیدر کا نہ صرف یہ کہ آخری ناول ہے بلکہ اس کی دو خوبیاں ایسی ہیں جن کی طرف پروفیسر شمیم حنفی جیسے ممتاز ناقد نے اشارہ کیا ہے۔ ان کے مطابق اس ناول کی’’ ایک خوبی تو انسانی سوزو دردمندی کا وہ پہلو ہے جو عام انسانی زندگی سے علاقہ رکھتا ہے۔ دوسرے تاریخ کی سمجھ میں آنے والی اور ناقابل فہم اتفاقات کے نتیجے میں ہستی کے یکسر تبدیل ہوتے ہوئے محور کا تصور۔‘‘
چاندنی بیگم آج کے تناظر میں ایک بہت اہم ناول ہے جس میں تقسیم کے بعد کی نسل کی تہذیبی اور لسانی شناخت کے بحران کو فن کارانہ طریقے پر پیش کیا گیا ہے۔ اشرا فیہ طبقہ اور جاگیر دارا نہ نظام کے زوال، تہذیبی قدروں کی تبدیلی اور لسانی سطح پر پیش آنے والے تغیرات کو بیان کیا گیا ہے۔ چاندنی بیگم در اصل تقسیم ہند سے تنا زعہ اجو دھیا تک پر محیط ہے۔ یہ ماضی اور حال کا ایک مربوط ثقافتی سماجی اور سیاسی مکالمہ ہے۔ اس میں برطانوی عہد کا لکھنؤ ہے۔ اس کی قدیم تہذیب اور پھر اس کی بدلتی معاشرتی اور تہذیبی قدریں بھی ہیں۔ چاندنی بیگم میں ہجرت کی داستان بھی ہے اور ہجرت سے جڑی ہوئی اذیت کا بیان بھی۔ اس کے اہم کردار چاندنی بیگم کی ساری اذیتوں کی وجہ صرف اور صرف تقسیم ہند اور ہجرت ہے۔ چاندنی بیگم جن کے بابا ہفت ہزاری، دادا صو بیدار، پر دادا خان بہادر، ڈپٹی کلکٹر اور نانا بڑے زمین دار تھے۔ مگر باپ کے پاکستان ہجرت کرنے اور چاندنی بیگم کی ماں علیمہ بانو کو وہاں سے طلاق نامہ بھیجنے کی وجہ سے اس کا پو را آ شیانہ بکھر جاتا ہے اور ایم اے، بی،ایڈ چاندنی بیگم اعلی خاندان سے تعلق رکھنے کے با وجود قسمت اور حالات کے جبر کی وجہ سے ایک خا دمہ بن کر رہ جاتی ہے۔ متمول بیرسٹر شیخ اظہر علی اور بدر النساء بٹو باجی کے بیٹے قنبر علی سے اس کی شادی کا خواب بھی پو را نہیں ہو تا اور اذیتیں سہتے سہتے وہ ایک دن ریڈ روز کوٹھی کی آگ کی نذر ہو جاتی ہے۔ اس ناول کی پو ری کہانی ریڈروز حویلی سے تین کٹوری ہائوس کے ارد گرد گھومتی ہے بعد میں زمین کی ملکیت اور جائیداد کے تنازعہ اور مقدمے تک کے مسائل اس ناول کا حصہ بن جاتے ہیں اور یہیں احساس ہوتا ہے کہ معاشرت کی تبدیلی سے کیسے کیسے مسائل جنم لیتے ہیں اور صارفی معاشرت کس طرح رشتہ کا کوئی قدر و احترام نہیں کرتی۔ اس ناول میں خوابوں اور آ رزئوں کی شکست کا بیان بھی ہے۔زندگی کی اتھل پتھل بھی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں آ نے وا لے نشیب و فراز کا ذکربھی ہے۔یہ ناول لکھنؤ، بمبئی ،کلکتہ، کرا چی، لندن، امریکہ جیسے علاقوں کے تہذیبی اور معاشرتی حالات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
قرۃ العین حیدر کے فکشن کی اساس تاریخ و تہذیب پر ہے، ان کے یہاں ناسٹلجیا، یاد ماضی، کھوئے ہوئوں کی جستجو، آتش رفتہ کا سراغ جیسے موضوعات ہیں۔اسی لیے اس ناول میں بھی انہوں نے اپنے پسندیدہ موضو عات کو ہی محور بنایا ہے۔ اس ناول میں انہوں نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کیسے ثقافت ایک سیاسی مسئلے میں تبدیل ہو کر پورے تہذیبی و معاشرتی منظر نامہ کو تبدیل کردیتی ہے اور مشترکہ تہذیب کے تانے بانے کو منہدم کردیتی ہے۔ اس ناول میں1947ء کے بعد مسلم خا ندان کے جذبا ت و احساسات کی عکاسی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح کی المناک صورت حال سے اشرافیہ طبقے کے لوگ دو چار ہوئے۔ خاص طور پر پاکستان ہجرت کر نے کی وجہ سے معاشرتی توا زن بگڑا۔ لڑکیوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔ زمینداری کے خا تمے کی وجہ سے بہت سے المیوں نے جنم لیا جن میں لڑکیوں کی شادیاں نہ ہو نا یا اچھے لڑ کوں کا نہ ملنا بھی شامل ہے۔ اس ناول کو عمرا نیاتی تناظر میں بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ کیو نکہ اس میں شیخ اظہر علی کی کوٹھی،ریڈ روز اور راجہ انوار حسین کی کو ٹھی تین کٹوری ہا ئوس یہ محض عمارتیں نہیں بلکہ تہذیبی و ثقافتی علامتیں بھی ہیں۔ یہ دو نوں خاندان ایک ہی ندی کے دو کناروں پر آ باد ہیں مگر حالات کے جبر کی وجہ سے دو نوں خاندان نہیں مل پاتے۔ لال کو ٹھی کے قنبر علی کی شادی تین کٹوری کی صفیہ سلطانہ سے نہیں ہو پاتی ہے۔ کیو نکہ قنبر علی کسی جاگیر دار خاندان میں نہیں بلکہ اعلی تعلیم یافتہ اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑ کی سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ قنبر علی اس میں ایک اہم کردار ہیں جو ایک جاگیر خاندان سے تعلق رکھنے کے با وجود غریبوں کے مسیحا ہیں اور طبقاتی نظام کے خلاف ہیں۔ ترقی پسند خیالات کے حامل ہیں اور وہ اردو میں گل سرخ اور ہندی میں لال گلاب کے نام سے میگزین بھی نکالتے ہیں۔ یہ ناول در اصل تداول ایام کی ایک فن کا را نہ تصویر ہے۔ وقت تبدیل ہو تا ہے تو تقدیریں بھی بدل جاتی ہیں۔ اس ناول کے بیشتر کردار تقدیر کی ستم ظریفی کا شکار ہیں۔یہاں تقدیر اور گردش ایام کا رشتہ ماضی سے بھی جو ڑا گیا ہے کہ وقت کی تبدیلی سے افراد کی قسمتیں بھی جڑی ہوتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب ٹیپو سلطان شیر میسور تھا، حکمراں تھا مگر اب اس کی اولادیں رکشہ کھینچ رہی ہیں۔ قرۃ العین حیدر نے اس ناول میں ایک جگہ لکھا ہے:
’’رکشہ والا شیر میسور کی اولاد میں سے ہے۔‘‘
’’ افلاس‘‘
’’ افلاس بوجہ اسراف‘‘
’’ راجہ رام موہن اور ٹیپو سلطان دونوں ہم عصر تھے۔اور دو نوں نئے ہندوستان کے پیغامبر۔ڈالی گنج میں میٹرو اسٹیشن تعمیرہوا۔راجہ رام مو ہن رائے کے نام لیوائوں نے کلکتے کی زمین کے نیچے ریل چلادی۔ ٹیپو کی اولاد اسی زمین پر رکشہ کھینچ رہی ہے۔‘‘
اس طرح کی تبدیلیِ حالات اور زوال کے بہت سے اشارے اس ناول میں موجود ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھاجائے تو چاندنی بیگم تین نسلوں کی ایک تاریخی، تہذیبی دستا ویز کی بھی حیثیت رکھتی ہے اور اسی لیے یہ ناول اس قابل ہے کہ اسے تحقیق اور تجزیے کا عنوان بنایا جائے۔ ارشاد سیانوی نے ناول چاندنی بیگم کا انتخاب کر کے یقینا ایک اچھی پہل کی ہے ورنہ اس ناول کے حوالے سے مضامین تو لکھے جاتے مگر اس ناول کی تمام جزئیات اور تفصیلا ت قارئین کے سامنے آ نہیں پاتیں۔
ارشاد سیانوی نوجوان محقق ہیں۔ ان کے سامنے امکانات کی ایک وسیع تر کائنات ہے۔ وہ ذہنی تاب و توانائی اور حرکت و حرارت سے بھی معمور ہیں۔اس لیے ان کے لیے تحقیق کی خاردار را ہوں میں چلنا قدرے آ سان ہے۔ ان کے لیے ایک اچھی بات یہ بھی رہی کہ جس ناول کو انہوں نے تنقیدی و تحقیقی تجزیے کا محور بنایا ہے اس ناول پر مواد بھی زیادہ نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں آ زادی کے ساتھ اپنی ذہنی قوت کے استعمال کا مو قع ملا ہے ۔کیو نکہ مواد کی کسرت نہ صرف تعبیروں کو الجھا دیتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے کسی نئے زاویہ نظر کی جستجو میں بھی دقت پیش آ تی ہے۔ تنقید ان امتیازی نکات یا اختصاصی جہات تک رسائی میں اکثر ناکام رہتی ہے جو تخلیق کے بطون میں مضمر ہوتے ہیں۔تخلیق کار جس دراک ذہن سے پرواز کے نئے آسمان تلاش کرتا ہے۔ تنقید نگار اس کی صرف ایک سمت کی طرف ہی سفر کر پاتا ہے۔ ہاں اگر تنقید نگار میں طغیانی اور جولا نی ہے تو کئی اور سمتیں بھی اس کی پرواز کے دائرے میں آ سکتی ہیں۔ ورنہ تنقید معمولی تعبیر و تفہیم میں الجھ کر ہی دم توڑ دیتی ہے۔ تخلیق کی تہہ میں اترنا اور اس کے مضمرات و ممکنات تک رسائی پانا اکثر دشوار ہو تا ہے اور شاید اسی وجہ سے ایک ہی تخلیق کی کئی تعبیریں سامنے آ تی ہیں اور کوئی ضروری نہیں کہ ان تعبیرات سے تخلیق کے تمام اسرا ر و رموز منکشف ہو سکیں۔ تخلیق نہایت پر اسرار اور پیچیدہ عمل ہے اور جب یہ معا ملہ قرۃ العین حیدر جیسے ہمہ جہت ذہن سے متعلق ہو تو پھر اس کی تفہیم و تعبیر اور دشوار ہو جاتی ہے۔نقاد ساری ذہنی توانائیاں صرف کر نے کے با وجود بھی تخلیق کی تہہ تک پہنچنے میں نا کام رہتے ہیں، جس کا شکوہ خود قرۃ العین حیدر کو بھی رہا ہے۔
ارشاد سیانوی نے چاندنی بیگم کو اپنا محور و مرکز بنا کر اس ناول کی تمام فکری اور فنی لہروں کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے اور اس کے مو ضوعی اور اسلوبی امتیازات و اختصاصات کی نشاندہی کرتے ہوئے اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ چاند نی بیگم قرۃ العین حیدر کا ایک ایسا ناول ہے جس میں انہوں نے تہذیب اور تاریخ کے پو رے سلسلے کو نہ صرف رو شن کیا ہے بلکہ عصری مسائل سے اس کا رشتہ بھی جوڑا ہے۔ یہ ماضی کی تہذیب کا نو حہ نہیں بلکہ آج کے سماجی، اقتصادی اور ثقافتی مسائل کا عکس ہے۔ انہوںنے اس ناول میں مشترکہ تہذیب کے انہدام اور نئی تہذیب کے طلوع ہونے کی منظر کشی کی ہے اور مختلف جنریشن سے تعلق رکھنے والوں کرداروں کے حوا لے سے آج کے تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی منظر نامے کو پیش کیا ہے۔ اس میں پرا نی اور نئی نسل کا تصادم بھی ہے اور طبقا تی کشمکش کی تصویر بھی۔ اس ناول میں الگ الگ اسلوب حیات کے حامل کردار بھی ہیں۔ ان سارے کرداروں سے ان کی طبقاتی جبلتوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔جہاں منشی بھوانی شنکر سوختہ،قنبر علی، بٹو باجی اور چاندنی بیگم جیسے کردار ہیں،وہیں بیلا را نی شوخ اور موگرے جیسے کردار بھی ہیں۔ انہیں کرداروں کے حر کت و عمل سے اس ناول میں ایک کشش پیدا ہوتی ہے۔ کرداروں کے یہی الگ الگ رنگ اس ناول کو ایک نئی معنویت عطا کرتے ہیں۔ ارشاد سیانوی نے اپنی اس کتاب میں چاندنی بیگم کی جملہ جزئیات کا احا طہ کیا ہے۔انہوں نے منازل قمر کے ضمن میں گل سرخ، صنوبر فلم کمپنی مدھو مالتی کادمبری، جھا نکڑ باغ، کجلی بن ، مائونٹن گاڈ، قصر شیریں، بوہمین گرل، چار کھوٹ میں نوبت باجی، ڈسکوری آ ف اے کلچر ہیرو، آلھا اودل، ٹیپو سلطان بار، بنت الجبل جیسے عنوانات اور ابواب کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے۔ اس ناول کی کردار نگاری، منظر نگاری زبان و اسلوب کے حوا لے سے مربوط گفتگو کی ہے اور اس ناول کی انفرادیت پر بھی بھر پور رو شنی ڈا لی ہے۔ انہوں نے ناول کے تجزیے کی جو بھی ممکن صورتیں ہو سکتی ہیں ان تمام کو بروئے کار لاکر چاندنی بیگم کا بھر پور فنی اور فکری اور لسا نی تجزیے کا حق ادا کیا ہے۔
چاندنی بیگم کا اب تک کسی نے اس طور پر مبسوط مطالعہ نہیں کیا ہے۔ اس اعتبار سے ارشاد سیانوی کی اس تحقیقی کاوش کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے گو کہ ان کا یہ مطالعہ چاندنی بیگم کے تحلیل اور تجزیے پر مرکوز ہے۔لیکن انہوں نے ضمناً قرۃ العین حیدر کے عہد اور شخصیت پر بھی روشنی ڈا لی ہے۔ اس کے علاوہ قرۃ العین حیدر کے ہم عصر ناول نگاروں سجاد ظہیر، کرشن چندر، عزیز احمد، عصمت چغتا ئی، حیات اللہ انصاری، خواجہ احمد عباس، انتظار حسین وغیرہ کے ناولوں کا بھی ذکر کیا ہے تا کہ ان معاصرین کے درمیان عینی آپا کے امتیازات اور ان کی انفرادیت کو واضح کیا جا سکے۔ چاندنی بیگم ایک مطالعہ میں ارشاد سیانوی کی محنت اور ریاضت کی چمک نظر آتی ہے مگر یہ صرف انہی آ نکھوں کو دکھائی دے گی جو نئی نسل سے بعد نہیں قربت کا شتہ رکھتے ہیں۔ انہیں ہر محاذ اور ہر موڑ پر آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ یہ ایک نئے ذہن کی نئی کاوش ہے۔ اس لیے امید ہے کہ ایک نئی نظر اور نئے نظریے سے اس کا استقبال کیا جائے گا۔
ضضضض