[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں
مضمون نگار: صالحہ صدیقی
رسرچ اسکالر ،جامعہ ملیہ اسلامیہ
چائے روز مرہ کی زندگی کا اہم حصہ ہے گھر گھر میں دن کی شروعات اسی مشروب سے ہوتی ہے ۔شعر و ادب سے بھی اس کاگہرا رشتہ رہا ہے ،اردو شاعری میں چائے کے تصور پر گرما گرم بات چھیڑنے سے پہلے اس کی تاریخ کے پنو کو بھی الٹ کر دیکھ لیتے ہے کہ یہ جادوئی پتی ہم تک کیسے پہنچی ۔چائے دنیا میں پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے ۔جسے دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف طریقوں سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ کافی سے بھی زیادہ مقبول ہے ۔چائے کا اصل خطہ چین کا جنوب مغربی علاقہ ہے جہاں سالانہ 1.6 ارب پاؤنڈ چائے پی جاتی ہے ۔تاہم فی فرد چائے پینے کے لحاظ سے ترکی ،آئرلینڈ اور بر طانیہ سب سے آگے ہیں ۔جہاں دنیا کے سب سے زیادہ چائے کے شوقین پائے جاتے ہیں ۔
چائے کی دریافت کا سہرا ایک چینی کسان شننونگ کے سر ہے جو چینی عقائد کے مطابق زراعت کا بانی ہے،چائے کی دریافت کا ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ ہے ،شننو نگ ایک مذہبی سفر کے دوران غلطی سے زہر سے بھری ایک جڑی 72 بار کھا لی جس کے بعد وہ مرنے کے قریب پہنچ گیا ۔اسی وقت ایک پتہ ہوا میں اڑتا ہوا شننو نگ کے منھ میں چلا گیا ۔شننو نگ نے اس پتے کو چبا لیا جس سے وہ مرنے سے بچ گیا اوریہ پتی چائے تھی ،حالانکہ چائے کسی بھی زہر کا تریاق نہیں لیکن آگے چل کر یہ پتہ بہت مقبول و معروف ہوا۔اس طرح چائے چینی مذہبی عقائد و رایات میں ایک اہم درجہ رکھتی ہے۔اسی طرح چائے کی کھوج بین کے سلسلے میں کئی کہانیاں مشہور ہے جاپان میں بھی اسی طرز کا ایک واقعہ مشہور ہے ۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق بھی چائے کی پہلی کاشت اسی خطے میں تقریبا 6 ہزار سال قبل کی گئی تھی ۔چائے کو ابتدا میں کھانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ،کہیں کہیں اس پودے کو بطور سبزی بھی استعمال کیا جاتا تھا۔کھانے سے لے کر اس پتی کے پینے کا سفر 15 سو سال قبل اختیار کیا گیا۔اس وقت چائے کی بہت ساری پتیاں لے کر انھیں پیس کر پاؤڈر کی شکل دینے کے بعد گرم پانی میں ملا کر استعمال کیا جاتا تھا ۔اس کا ابتدائی نام ’موچا‘ یا ’میٹ چا‘ تھا ۔چائے کا پودا چین سے دوسرے تمام ملکوں میں مسلمان سیاحوں کے ذریعہ پہنچا ۔ایک مسلمان سیاح سلیمانی سیرانی جس نے ابو زید سیرانی کے ساتھ چین کا سفر کیا تھا اپنی تالیف ’’سلسلۃ التاریخ‘‘میں لکھا ہے ’’ چین میں ایک قسم کی گھاس پائی جاتی ہے ۔جسے وہاں کے لوگ جوش دے کر پیتے ہیں اور تمام شہروں میں بڑے پیمانے پر وہ گھاس بکتی ہے اس سے چینی حکومت کو بڑی آمدنی ہوتی ہے ۔وہاں کے لوگ اس گھاس کو ساخت چاہ کہتے ہیں۔اس میں قدرے تلخی پائی جاتی ہے اسے کھولتے ہوئے پانی میں ڈال کر پیتے ہیں اور بہت ہی مفید اور مقوی ٹانک سمجھتے ہیں جس کا کوئی دوسرا مشروب مقابلہ نہیں کر سکتا ۔‘‘ ساخ دراصل چائے ہی کا بگڑا ہوا نام ہے کیونکہ عرب ’’چ ‘‘ کا تلفظ ادا نہیں کر سکتے اس لیے ’’چاہ ‘‘ سے ساخ بن گیا ۔چائے کے مختلف نام مختلف زبانوں میں ملتے ہیں اردو ،ترکی ،چینی اور روسی میں’’ چائے ‘‘، فارسی میں ’’چائے خطائی ‘‘، پنجابی میں ’’چاء‘‘ سندھی میں ’’چاندھ‘‘ پشتو میں’’ ساؤ ‘‘،عربی میں ’’شائی ‘‘،انگریزی میں ’’ٹی‘‘ ،فرانسیسی میں ’’تھائے ‘‘ اور لاطینی میں ’’کوملیا تھیفرا‘‘کہتے ہیں ۔اسی طرح چائے کی ایک ہزار سے زیادہ اقسام پائی جاتی ہیں ۔جن میں سے زیادہ تر خودرو ہیں ،لیکن رنگ کے لحاظ سے تین قسمیں زیادہ مشہور ہیں سفید، سبز اور سیاہ ۔سب سے بہتر چائے وہ مانی جاتی ہے جو سفید اور خوشبودار ہو اور جن کی پتیاں ادھ کھلی ہوں لیکن یہ قسم کم یاب ہے ۔ چائے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 15دسمبر کو چائے کے شوقین افراد چائے کا عالمی دن مناتے ہیں ۔
بہر حال اس مشروب نے بہت جلد پورے چین میں مقبولیت حاصل کر لی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ چینی ادب کا حصہ بھی بن گیا۔اس وقت چینی فنکاروں نے چائے کی سطح پر نقش نگاری و فنکاری بھی کیں جسے دور حاضر میں جدید کافی آرٹ کی ابتدائی شکل بھی کہہ سکتے ہیں ۔یہ وہی دور تھا جب ریشم اور چینی مٹی کے برتنوں کی تجارت نے چین کو اہم تجارتی طاقت بنا رکھا تھا ۔بہت جلد ان دو اشیا کے ساتھ چائے بھی چین کی اہم تجارتی شئے بن گئی ۔دھیرے دھیرے یہ دوسرے ملکوں میں بھی پہنچی اور دیگر ممالک میں بھی اگائی اور بیچی جانے لگی۔آج صورت حال یہ ہے کہ دنیا کا ہر علاقہ اسے اپنی روایا ت کے مطابق تیار اور استعمال کرتا ہے مختلف زبانوں اور ادب میں اس کو مختلف نام اور اوصاف کی صورت میں یاد کیا جاتا ہے ۔چائے کی جسم اور دماغ کو تازہ دم کرنے اور فرحت بخش احساس دلانے کی خاصیت نے اسے ہر دل عزیز بنا دیا ہیں۔
بہر حال چائے ہماری زندگی کا اہم جز بن چکا ہے صبح سویرے آنکھ کھلتے ہی گرما گرم چائے کی خوشبو سے ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے شہر کا بابو ہو یا گاؤں کا کسان ،اسکول کے بچے ہو یا گھر میں یا دفتر میں کام کرنے والی عورتیں مرد ہو یا بوڑھے بزرگ چائے کے دو گھونٹ سے ہی نئی صبح کا آغاز ہوتا ہے ۔ یہی نہیں نیند کو بھگانا ہو یا دن بھر کی تھکاوٹ کو مٹانا ہو چائے کی ایک پیالی ذہن کو ترو تازہ کرنے کے لیے کافی ہے۔مہمان آئیں یا بزرگوں کی سیاسی بیٹھک ہو، خوشی ہو یا غم ہو ،سکھ دکھ کی گھڑی ہو یا ٹینشن سے نجات پانا ہو ،سر درد ہو یا اکیلے میں کسی خاص کے ساتھ وقت بتانا ہو، چائے صرف ایک خوشگوار بہانا ہی نہیں بلکہ ہماری تہذیب و تمدن ہماری روایات کا اہم حصہ بن چکا ہے۔یہاں تک کہ اگر کسی خاص سے ملنے گئے اور اس نے اس مشروب سے ان کو تر و تازہ نہ کیا تو ان کے غصے میں نکلے الفاظ بھی ’’ایک کپ چائے بھی نصیب نہ ہوئی یار کنجوسی کی بھی حد ہوتی ہے ایک کپ چائے بھی نہ پلائی ‘‘ جیسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں ۔اس طرح کی بے شمار کہاوتیں ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں ۔
ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے تو بھلا اس آئینے سے چائے کیسے چھپ سکتی تھی یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں اس کا اہم مقام رہا ہے چاہے وہ ادیب و شاعر کی نجی زندی ہو یا قلمی ،چائے نے دونوں ہی زندگیوں پر اپنے اثرات مرتب کیے ہیں ۔کچھ شاعر حضرات تو ایسے بھی ہیں جن کی رومانی شاعری میں بھی چائے کی جھلک دکھائی دیتی ہے:
تیری محفل میں چھوڑ آئے
جلتی سگریٹ ٹھنڈی چائے
اسی طرح اپنے اداسی کے لمحات کو بھی شاعروں نے چائے کے ہمراہ بیان کیا :
نہ وہ آیا نہ بجھی چشم سبک گام میری
چائے کے کپ میں پڑی گھلتی رہی شام میری
٭
تیری یاد کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر
مجھ کو اکثر چائے ٹھنڈی پینی پڑتی ہے
٭
ہنس پڑی شام کی اداس فضا
اس طرح چائے کی پیالی ہنسی (بشیر بدر)
چائے پر مبنی بے شمار ایسے بے شمار اشعار لکھے گئے ہیں جن کے مطالعہ سے ذہن میں کئی رنگ برنگے خیالات گردش کرنے لگتے ہیں ۔ایسا ہی ایک شعر جسے پڑھ کر شاعر کے دل میں چائے سے عشق کا تصور ابھرتا ہے:
اب میں تجھے نہیں سوچتا
اب میں چائے گرم پیتا ہوں
اسی طرح چائے کی خوشبو سے عشق کو کسی شاعر نے اس طرح پیش کیا :
پوچھا کسی نے کون سی خوشبو پسند ہے
میں نے چائے کا ذکر چھیڑ دیا
چائے سے والہانہ محبت کا یہ رنگ بھی ملاحظہ فرمائیں :
مانتی ہوں جناب پیتی ہوں
ٹھیک ہے بے حساب پیتی ہوں
لوگ لوگوں کا خون پیتے ہیں
میں تو پھر صرف چائے پیتی ہوں
چائے سے عشق کا ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیں :
اس نے کہا چائے چھوڑ دو
میں نے کہا تمہیں چھوڑ دونگی
اس نے کہا میں یا چائے ؟
میں نے چائے کا کپ اٹھا لیا
اسعد بدایونی نے اپنی نظم ’’تلخیاں ‘‘ میں شہر میں گھٹ رہی تلخیوں کا نقشہ یوں کھینچا :
چھوٹے چھوٹے ہو ٹلوں میں شہر کے
مضطرب دل کی تسلی کے لیے
آنے والے کل کے منصوبوں میں گم
چند انساں
پی رہے ہیں
سارے دن کی تلخیاں
اسی طرح کسی شاعر نے پاکستان اور وہاں کے عوام میں چائے کی مقبولیت پر کچھ یوں لکھا :
مہمان آرہے ہیں ………………..چائے بنا لو
سر میں درد ہے ………………..چائے بنا لو
تھکاوٹ ہو رہی ہے………………..چائے بنا لو
موت آرہی ہے………………..چائے بنا لو
اسی طرح کسی نے لکھا ’’ چائے کا احترام کیا کرو یہ تمام مشروبات کی مرشد ہے ‘‘۔اسی طرح ایک خوبصورت غزل جس میں چائے کو احساسات کی چاشنی میں ابھال کر جذبات کی کیتلی میں انڈیل کر پیش کیا گیا ہیں ملاحظہ فرمائیں :
لمس کی آنچ پہ جذبوں نے ابالی چائے
عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے
کیتلی ہجر کی تھی ،غم کی بنائی چائے
وصل کی پی نہ سکے ایک پیالی چائے
ہم نے مشروب سبھی مضر صحت ترک کئے
ایک چھوڑی نہ گئی ہم سے یہ سالی چائے
میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں
اس نے پھر اپنے ملازم سے منگا لی چائے
عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جان احمد
ٹھنڈی ہو جائے تو پڑ جاتی ہے کالی چائے
آج کے دور میں سوشل میڈیا کی طرف بڑھتے رحجان اور انجان لوگوں سے دوستی بنتے بگڑتے رشتوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے شاعر کہتا ہیں :
آن لائن محبتیں ’’چائے ‘‘ کی طرح ہوتی ہے
ذرا وقت گزرے تو ٹھنڈی ہو جاتی ہیں
میں نے گوگل پر بھی
سرچ کر کے دیکھا ہے
نہ وہ ملی نہ اس کے ہاتھ کی چائے
اس طرح کے بے شمار ایسے اشعار ہیں جن میں شاعروں نے اپنے جزبات کو بیان کیا :
دھیان اک بیتے ملن کے دوار
لب چائے کی پیالی پر (ناصر شہزاد)
دیکھ کے کھڑکی سے بارش کو پاگل لڑکی
آج بھی دو کپ چائے بنانے لگتی ہے
( ناہید اختر بلوچ)
چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے والوں
یہ تماشے سر بازار نہیں ہونے کے
( شائستہ سحر)
بہر حال چائے عام زندگی کی طرح شاعری کا بھی اہم حصہ رہا ہے ۔جس میں زندگی سے متعلق ہر جذبے کو موضوع سخن بنایا گیا ہے ۔ چائے اور اردو شاعری میں چائے کا تصور یقینا ایک وسیع موضوع ہے جسے چند صفحات میں سمیٹنا ممکن نہیں ۔لیکن اس مضمون میں چائے سے متعلق زیادہ سے زیادہ رنگوں کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہیں ۔
[email protected]