پیاس

0
289

(شمسہ نجم (لاس اینجلس

نوٹ: یہ افسانہ غلطی سے ڈاکٹر عشرت ناہید کے نام سے شائع ہوگیا تھا جب کہ یہ افسانہ شمسہ نجم (لاس اینجلس) کا ہے۔ قارئین کو ہوئی زحمت کے لئے معذرت خواہ ہیں۔

بہت سے صحرائی پرندے ایک سمت اڑتے جا رہے تھے۔ریت کے بگولے لمحہ بہ لمحہ شدت اختیار کرتے جا رہے تھے۔ شدید طوفان کے آثار سے سہمی شالو اپنے چنرے یعنی جھونپڑی میں لالٹین کی مدھم روشنی میں بستر کے اندر دبکی پڑی تھی۔ ساس سسر کی دن رات کی خدمتوں کے عوض، ساس کی لعن طعن، کوسنے اور بانجھ ہونے کے طعنے شالو کا مقدر تھے اور ان طعنوں کی آج کی خوراک پوری طرح شالو کو بہم پہنچانے کے بعد ساس بھی دوسرے چنرے میں اپنے شوہر کے ساتھ بند ہو بیٹھی تھی۔
شالو کے کنبے کو اس جگہ ڈیرہ ڈالے کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ یہاں قریب ہی گورنمنٹ کی طرف سے بھیجے گئے انجینئرز کے لیے کنواں بنایا گیا تھا۔ اس لیے اس کے کنبے والوں کو یہ جگہ رہائش کے لیے بہت مناسب لگتی تھی۔ پہلے کنویں کے ساتھ ان انجینئرز کے خیمے ہوا کرتے تھے، لیکن چھ مہینے پہلے انہوں نے لال اینٹوں کی چھوٹی سی ایک بلڈنگ بنا لی تھی، لیکن پانی کنویں کا ہی استعمال ہوتا تھا۔ یہ کنواں انجینئروں کی اس بلڈنگ کی چاردیواری میں بائیں طرف بالکل دیوار کے ساتھ تھا۔ پانی لینے پر کوئی رکاوٹ یا روک ٹوک نہیں تھی، ان کا مین گیٹ ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ شالو کا کنبہ بھی اس کنویں کی وجہ سے مستقل یہیں براجمان ہو گیا تھا۔ شالو کے گھر سے بلڈنگ تک ایک فرلانگ کا فاصلہ تھا۔ یہاں شالو کا ایک اکیلا گھر نہیں تھا۔ یہ کوئی پندرہ سولہ گھرانے تھے جو ایک جگہ آباد تھے۔ سب کنبوں کے اپنے اپنے چنرے یعنی جھونپڑے تھے۔اس جگہ چند ایک درخت بھی تھے جن کی ہوا اور سایہ جینے کی امید تھا۔ یہ جگہ اس لحاظ سے بہتر تھی کہ طوفان آنے کی صورت میں عموماً ہوا کا زور درختوں کی وجہ سے ٹوٹ جاتا تھا، اور نہ جانے کیوں زیادہ تر ہوا کا رخ مخالف سمت ہوتا تھا۔ یہ قدرت ہی ہے جو ریگستان میں نخلستان بساتی ہے۔ اور جنگل میں پھول کھلاتی ہے۔ شالو بھی ایک ایسا ہی پھول تھی۔
شالو کی شادی چودہ پندرہ سال کی عمر میںپینتالیس سالہ تھراج سے ہوئی تھی۔ تھراج کی پہلی بیوی پندرہ سال کی رفاقت کے بعد مر گئی تھی اس سے کوئی بچہ بھی نہیں تھا۔ شالو سے تھراج کی دوسری شادی تھی۔ شالو کی آمد اس کنبے میں ایک خوشگوار تبدیلی تھی۔ چھوٹی چھوٹی آنکھوں اورسیاہ رنگ کے موٹے نقوش والے افراد کے خاندان میں پتلے ناک نقشے اور ہلکے سانولے رنگ کی گویا پری آ گئی تھی، جس کی صرف آنکھیں موٹی تھیں،کالی بڑی بڑی آنکھوں پہ سیاہ گھنیری لانبی پلکیں سایہ فگن تھیں جن کے باعث وہ اور دلفریب اور معصوم لگتی تھی،لیکن معصوم حسن ناقدری کا شکار ہو چلا تھا۔شادی کو آٹھ سال ہونے کو آئے تھے اب تک کوئی بچہ بھی نہ ہوا تھا کہ اس کے سہارے ہی جی لیتی۔ بچہ نہ ہونے کی پاداش میں ساس ہر وقت بانجھ ہونے کا طعنہ دیتی تھی۔ تھراج ایک ڈیڑھ مہینے کے لیے گھر آتا اور پھر قافلے کے ساتھ چار پانچ مہینے کے لیے چلا جاتا تھا۔ قافلہ پورا ریگستان گزار کے سرحد کے پاس جاتا سرحد کے پار کے قافلے والوں سے سامان ادل بدل کیا جاتا جس میں مال برداری کے جانور، اشیائے خورد نوش اور گھریلو ضرورت کا سامان وغیرہ سرِفہرست تھے۔
سرحدی حصے میں ریگستانی علاقہ بہت زیادہ گرم تھا اور اکثر طوفانوں کی زد میں رہتا تھا۔ تھراج اور قافلے والے ان مشکلات کے عادی تھے وہ طوفانوں سے بچ نکلنے کے گْر جانتے تھے۔ لیکن ہر چکر مہینوں پر محیط ہوتا تھا۔ کیونکہ راستے میں کاروبار اور لین دین کے لیے جگہ جگہ قیام ہوتا تھا۔قافلہ لوٹتا تو گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ بچوں کے ہاتھ میں رنگ برنگے غبارے اور لڑکیوں کے ہاتھوں میں رنگین چوڑیاں اور نئے سفید براق کڑے نظر آتے۔ تھراج گھر آ کے اپنی ماں کے گھٹنے سے لگ کر بیٹھ جاتا۔ ماں کی لگائی بجھائی اثر کرتی شالو کو دھنک کے رکھ دیتا۔ اور پھر رات کو چھپر میں آتے ہی بیوی کو استعمال کی چیز سمجھنے والابے حس جانور کوئی بات سنے بنا مار کی تکلیف سے کراہتی شالو کو جسمانی ہی نہیں روحانی طور پر بھی ادھ مؤا کر دیتا۔ جدائی کا نوحہ سنے بغیر ہر ہجر کی کہانی کو پس پشت ڈال کر صرف اپنی ضرورت پوری کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔ شالو کو لگتا وہ پیاسی ہے۔ محبت کے ایک بول کو ترس رہی ہے۔ محبت کی آرزو، چاہے جانے کا ارمان، ناز نخرے اٹھوانے کی طلب ، اداؤں پہ محبوب کے اظہارِ دلبری کی خواہش اور سراہے جانے کی تمنا سب ادھورے تھے۔حُسن تو تھا ہی، اب عمر کا تقاضا تھا سو جوانی بھی پھوٹی پڑ رہی تھی۔ اور یہ ایک سچائی ہے، علم سے دوری سوچ اور وسائل کو اس قدر محدود کر دیتی ہے کہ انسان جنس اور پیٹ کی بھوک کے گرداب سے باہر نہیں نکل پاتا۔
آج طوفانی ہواؤں سے بچنے کو اپنے چنرے میں پلنگ پر الٹی لیٹی وہ سوچ رہی تھی یہ پیاس کب ختم ہو گی؟ اس کی بَلی کس لیے چڑھائی گئی تاکہ دوسروں کو سیرابی نصیب ہو، لیکن جو پیاس اس کا مقدر ہے اس کے تدارک کا کوئی حل کوئی رستہ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ پیاس بھی عجب ہے پورا جنم ایک ان دیکھی آگ میں جلتا ہے۔ پانی کی تلاش صحرا کی رِیت ہے۔ لیکن روح کی پیاس کے لیے نیا کنواں نئی راہ ڈھونڈنے کی سعی کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ سماج میں بھی اور مذہب میں بھی۔ وہ نارسائی کی کسک لیے چپ سادھے، کاموں میں لگی رہتی ہے مگر کب تک؟ اس بار تھراج آئے گا تو وہ اس سے کہے گی میرا فیصلہ کردے یا مجھے ساتھ لے کر جایا کر۔ اس بار تو حد ہو گئی پانچ چاند چڑھ کے اتر گئے کہیں اس کا پتہ ہی نہیں۔ ہر چار پانچ مہینے کے اندر آ جاتا تھا چاہے مارتا تھا لیکن اتنی پیاسی تو نہ تھی جتنی کہ اب ہو گئی۔ تھراج کی ایک رشتے کی پھوپھی کی بیٹی رجو شالو کی دوست تھی۔ رجو کا بھائی بھی اکثر تھراج کے قافلے کے ساتھ جاتا تھا۔ رجو نے اسے چپکے سے بتایا کہ تھراج رستے میں جہاں نٹوں کی بستیاں پڑتی ہیں وہاں ایک دھندا کرنے والی دسہری نام کی عورت کے پاس جاتا ہے۔ شالو نے یہ زہر بھی خاموشی سے پی لیا۔ یہ زہر اس کی رگوں میں اکثر سانپ کی طرح سرسراتا رہتا۔لیکن کس سے کہتی ‘ماں باپ کے ڈیرے سے جدا ہوئے سالوں ہو گئے۔ پتہ نہیں زندہ بھی ہیں کہ مر کھپ گئے۔ شالو کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا۔
طوفانی ہوائیں رات بھر سائیں سائیں کرتی رہیں شالو کے اندر سناٹا گونج رہا تھا،جانے رات کے آخری پہر کیسے آنکھ لگ گئی۔ شاید طوفان کی فکر تھی، سو سورج نکلنے سے پہلے آنکھ کھل گئی۔ شالو نے چنرے سے باہر نکل کر صورتِ حال کا جائزہ لیا۔ اس کے گھر میں ساتھ ساتھ تین جھونپڑی نما کمرے تھے جن کے سامنے کچھ صحن نما کھلا حصہ تھا جس کے تین اطراف لکڑیاں اور جھاڑ جھنکار رکھ کرچار دیواری کا کام لیا گیا تھا ،دائیں طرف ذرا سی جگہ باہر آنے جانے کے لیے چھوڑ دی گئی تھی۔ اس نے شکر کیا کہ طوفان کا رخ چھپروں کی طرف نہیں تھا۔ یہ بھی خدا کی قدرت تھی کہ ہر بار کی طرح طوفان اس حصے کو ہلکا سا چھوتا ہوا گزر گیا تھا۔ شالو نے دو مٹکے اٹھائے تاکہ کنوئیں سے پانی بھر لائے اور نہا لے، ریت کے طوفان کے بعد ہر چیز پر مٹی اور ریت کی تہہ چڑھ گئی تھی،وہ خود بھی مٹی سے بھری تھی۔
کنوئیں سے پانی بھرنے گئی تو صبح صبح پراجیکٹ والے انجینئروں کو کام میں لگے دیکھا۔ روزانہ تو پتہ نہیں کہاں دور جا جا کے کھدائی کرتے رہتے تھے لیکن آج سب جوان دو دو چار چار کرکے الگ الگ صفائی کررہے تھے اور کنویں کے پاس سے ریت ہٹا رہے تھے۔ وہ ان جوانوں کو کام کرتے دیکھ رہی تھی اور کنوئیں سے پانی بھر رہی تھی۔ کنوئیں سے پانی کھینچنا آسان نہیں ہوتا، ان انجینئروں میں سے ایک اس کے پاس آیا اور اسے پانی نکالنے میں مدد دی۔ اس جوان کے دوسرے ساتھی اسے فواد فواد کہہ کر بلا رہے تھے، لیکن اس نے کنوئیں سے ڈول سے پانی نکال کر اس کے دونوں مٹکے بھرے۔ جب شالو نے مٹکے اٹھانے کے لیے مٹکے پر ہاتھ رکھا تو ایکدم فواد نے اپنا گرم ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اور ہلکے سے اس کے کان میں سرگوشی کی “تو کتنی خوبصورت ہے۔ ہرنی جیسی آنکھوں والی۔ کیا نام ہے تیرا”۔ شالو نے گھبرا کر جلدی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ کسی غیر مرد نے چھوا یہ سوچ کر برا لگا لیکن پہلی بار کسی مرد کے منہ سے تعریف سن کر ایک شانتی سی دل میں اتری۔میں خوبصورت ہوں اسے یہ سن کر اچھا لگا۔
ارمانوں کے پیڑ پر خواہشوں کی کونپلیں کھلتی ہیں جن میں سراہے جانے کی خواہش سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔ مالی جب پودوں کو پانی نہ دے یا انہیں سینچنا چھوڑ دے، اس پیڑ کی جڑیں بسااوقات پانی کی تلاش میں زمین کے اندر ہی اندر ندی نالوں اور کبھی کبھی گندے پانی کے جوہڑ کی طرف جا نکلتی ہیں۔
فواد نے پانی سر پر رکھوانے میں مدد کی تو اس نے انکار نہیں کیا۔ لیکن اس وجیہہ شخص کی اپنے چہرے پہ جمی نظریں اس کے دل کو اتھل پتھل کر رہی تھیں۔ پانی لے کر گھر پہنچی اچھی طرح نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے، خود کو خوب سنوارا، ہونٹوں پہ لالی لگائی، آنکھوں میں کاجل لگایااور چنری کا لال رنگ کا لہنگا سیٹ نکال کر پہنا جب تیار ہو کر باہر نکلی تو سورج کافی نکل آیا تھا،شالو چھپر سے جیسے ہی باہر آئی تو ایک دم ساس نے چلانا اور اسٹیل کا گلاس زور زور سے آنگن کے بیچ رکھی گھڑونچی پر مارنا شروع کر دیا۔ “اتنی دیر سے کس کے لیے بن سنور رہی تھی۔ گھڑے میں پینے کا پانی بالکل نہیں ہے۔ پانی لا کے سارا پانی نہانے میں لگا دیا۔ جب میاں یہاں نہیں ہے تو کم بخت کہیں کی اتنا سنورنے کی کیا ضرورت ہے۔ آنے دے تھراج کو وہ ہی تیری لگامیں کھینچے گا۔ پتہ نہیں کس کے لیے سنورتی ہے”۔ شالو ایک دم سہم گئی” ۔ تھراج تو پہلے ہی اتنا مارتا ہے۔ آوارگی کا الزام سن کر تو اس کو جان سے ہی مار ڈالے گا”۔ اس نے جلدی سے پینے کے پانی کے دو خالی مٹکے گھڑونچی پہ اوپر تلے رکھے اور پھر دونوں ہاتھوں سے اپنے سر پر رکھ لیے اور ساس سے بولی “اماں میں جا کے پانی لے آتی ہوں۔ میں نے گھڑے میں دیکھا نہیں تھا کہ پانی نہیں ہے”۔ “ہاں تجھے کچھ نظر ہی نہیں آتا تیرا دھیان اب گھر کے کاموں میں ہے ہی نہیں”۔ اماں بھڑک کر بولی۔
شالو نے جلدی سے جوتے پہنے اور گھڑے اٹھائے اٹھائے گھر سے نکل گئی۔تاکہ اماں کی مزید باتیں نہ سننا پڑیں۔ کنوئیں کے راستے میں بڑا نالہ پڑتا تھا۔ کہتے ہیں کبھی اس علاقے میں اتنی بارش ہوتی تھی کہ یہ نالہ بھرا رہتا تھا اور پورا سال لوگ اس کا پانی استعمال کرتے تھے لیکن اب تو یہ نالہ سوکھ گیا تھا۔کنویں کے راستے میں نالے کی پلیا کے پاس راستے کے کنارے پر اسے وہی جوان کھڑا نظر آیا۔ جس نے صبح پانی بھرنے میں شالو کی مدد کی تھی، صبح جسے اس کے دوست فواد کہہ کر بلا رہے تھے۔ فواد کتھئی شلوار قمیص میں تھا بہت ہی وجیہہ نوجوان تھا۔ ایسا گبھرو جوان اس کی برداری کیا جان پہچان کے لوگوں میں بھی کوئی نہ تھا۔ وہ اپنی سیاہ گہری آنکھوں سے اسے دیکھے جا رہا تھا۔وہ اسے نظر انداز کرکے جانے لگی۔ تو وہ بول اٹھا۔
“سنو-”
وہ ٹھٹھک کر رکی۔
“کیا کسی نے تمہیں کبھی بتایا ہے کہ تم کتنی سندر ہو۔ پریوں جیسی”۔
اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اندازہ نہیں ہو پارہا تھا تعریف سن کر حیا سے، جذبات سے یا اس کی بے تکلفی پر غصے سے۔ اس نے شالو اور اس کے سر پر رکھے مٹکوں کو نظر بھر کر دیکھا۔
” پانی چاہئیے؟ پیاسی ہو؟” فواد نے مسکراتے ہوئے معنی خیز انداز میں سوال پوچھا۔
“ہاں”۔
“کتنی”، وہ بہت گہرے لہجے میں بولا، سینے میں نجانے کیوں ایک ہوک سی اٹھی، ایک تپش کچھ خلش اور عجیب سی پیاس۔رگوں میں چھپا سانپ سرسرانے لگا ۔
” بہت”، کہتے ہوئے اس نے آہستگی سے گھڑے زمین پر رکھے اور سیدھی کھڑی ہو گئی۔ فواد نے غور سے اس کے جثے پر نظر ڈالی۔ لال کڑھائی والے بلاوز پہ نظر پڑی۔ جسم کے بڑھتے تناؤ نے پیاس کا پول کھول دیا۔ فواد نے باہیں کھول دیں وہ جیسے بھاگ کر سینے سے جا لگی۔فواد نے اپنے سے الگ کرکے اس کی کلائی کو مضبوطی سے تھاما اور اسے لیے لیے نالے میں اتر کر پلیا کی دیوار کی اوٹ لے لی۔ سیرابی کے سفر میں مان مریادا ، پتی ورتا ہر شے بہہ گئی۔ دریا کا چڑھاؤ اترا تو اسے ایک دم فکر ہوئی “اماں انتظار کر رہی ہو گی۔ دیرسے آنے پہ غصہ کرے گی”۔ فواد نے ماتھا چومتے ہوئے کہا۔
“آؤ میں تمہاری پانی بھرنے میں مدد کروں۔ تمہارا ٹائم بچ جائے گا”۔وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ پانی بھر کر تیز قدموں سے گھر پہنچی تو اماں نے پوچھا کہ “پانی لانے میں دیر کاہے ہوئی”، تو پہلی بار اماں کا استفسار برا نہیں لگا، “اماں وہاں کوئی تھا نہیں اکیلے پانی کھینچنے میں دیر تو لگتی ہے” “ہاں یہ تو ہے، چل چولہے پہ ہانڈی رکھی ہے اسے دیکھ لے”۔
اماں کی ہر بات طنز لگا کرتی تھی۔ آج پتہ چلا اسی کو طنز لگتی تھی شاید اماں اتنی بری بھی نہیں تھی۔ روح کی سیرابی مزاج کی شادابی بن گئی تھی۔ وہ ہر کام مسکرا مسکرا کے کیے جا رہی تھی۔لیکن کہیں تھراج جلدی نہ آ جائے۔ اس نے اماں سے پوچھا “اماں تھراج کب آئے گا”۔اماں تو یہ سوال سن کر نہال ہو گئی “لگتا ہے تجھے تھراج کی فکر ہوئی ہے۔ بیس ایک دن تو اور لگیں گے پتری فکر نہ کر”۔ سیرابی کے اس سفر سے وہ مطمئن، اماں خوش ، گھر میں سکون اور تھراج کا انتظار آسان ہو گیا تھا۔اور پھر بانجھ پن کا ٹھپا ہٹنے کا امکان بھی تو بڑھ گیا تھا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here