9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد اویس سنبھلی
کورونا وائرس کے خلاف لڑائی میں پورا ملک ایک ساتھ کھڑا ہے، مسجد میں تالے لگے ہیں ، مندر خالی ہیں ، گرجا گھروں اور گرودومیں سنّاٹا ہے۔ ایسے میں بھی گودی میڈیا اوربی جے پی ملک میں ایک طرح سے نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف رہیں۔ کورونا وائرس کے پھیلائو کے لیے مرکز نظام الدین کو ذمہ دار بتاتے ہوئے پوری مسلم قوم کو بدنام کرنے کی سازش رچی گئی اورگودی میڈیا چیخ چیخ کر تبلیغی جماعت پر پابندی لگانے کی بات کرنے لگانیزتبلیغی جماعت کے اجتماع میں شامل غیر ملکی لوگوں پر مقدمہ درج کرنے کی بھی ۔ حد تو اس وقت ہوگئی جب میڈیا یہ تک کہنے لگا کہ کورونا وائرس چین کے ووہان سے نہیں بلکہ دہلی کے تبلیغی جماعت کے مرکز سے پھیلا ہے۔دہلی بی جے پی کے صدر منوج تیواری نے اسے ایک بہت بڑی سازش بتایا اور مرکز کو سیل کرنے کا مطالبہ کیاجانے لگا۔لیکن دو روز قبل اقوام متحدہ کی ایک میٹنگ ہوئی ۔ اس میٹنگ کے بعد اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹیمو گوڈرس نے جاری پریس ریلیز میں کہا کہ ’’اقوام متحدہ میں قرارداد منظور کی گئی ہے کہ کورونا وائرس ایک مہلک مرض ہے ، اس میں کسی کے ساتھ بھید بھائو اور نسلی امتیاز نہیں ہونا چاہئے ، انسانی حقوق کا احترام کیا جائے اور اگر کوئی ملک کسی فرقے و طبقے کے ساتھ امتازی سلوک کرتا ہے تو ایسے ملک کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی‘‘۔
اقوم متحدہ کی اس پھٹکار کے بعد ملک میں بی جے پی کے تیور نرم پڑ گئے اور پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا نے پریس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ پارٹی کا کوئی بھی شخص کسی طرح کا بیان نہ دے اور نہ کسی جماعت پر الزام لگائے کیونکہ یہ ایک مہلک بیماری ہے ۔ اس پر کسی کا بس نہیں۔پورا ملک کورونا جیسے وبائی مرض سے لڑنے میںایک ساتھ کھڑا ہے ‘‘۔بی جے پی اور اس کے لیڈران ایک نیا تنازع کرنے پر آمادہ تھے جس پر اب بظاہر لگام لگ گئی ہے۔
پی جے پی لیڈر شاہنواز حسین ،منوج تیواری وغیرہ کے ساتھ کیرالہ کے گورنر عارف محمد خاں نے بھی این ڈی ٹی وی کو دیے ایک انٹرویو میں تبلیغی جماعت ، اس کے ذمہ داران نیز علمائے دیوبند اور دارالعلوم دیوبند کو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وہی ایک پرانا راگ الاپا کہ ’’یہ وہی لوگ ( تبلیغی جماعت والے )ہیں جنہوں نے سرسید کے خلاف سو سو فتوی دیے تھے‘‘۔ عارف محمد خاں کیرالہ کے گورنر ہیں ۔ گورنر کا عہدہ ایک غیر سیاسی عہدہ ہوتا ہے۔ انھیں اس طرح کے کسی متنازع موضوع پر اپنا بیان یا انٹرویو ریکارڈ نہیں کرانا چاہئے تھالیکن افسوس !۔ ان کی پوری زندگی اسی عمل میں گزری ہے۔ شاہ بانو کیس سے لے کر اب تک کے سیاسی کیریر میں انھوں نے اسی طرح کی متنازع گفتگو کے ذریعہ بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ نام و نمود، شہرت اور عہدے سب کچھ ان کے حصہ میں آئے ہیں۔یہ گورنری بھی ’’سی اے اے، این آرسی ‘‘ کی حمایت کے نتیجہ میں ان کے دامن میں آئی ہے۔ہمارے ملک میں اظہار رائے کی آزادی سب کو ہے۔اگربعض چیزوں سے انھیں اختلاف ہے توان کی بہت سی باتوں ں سے اختلاف کا حق ہم بھی رکھتے ہیں۔خیر ! یہاں ذکر اس سب کا نہ کرکے صرف دو باتیں عرض کردی جائیں ایک یہ کہ علمائے دیوبند کو سرسید سے اختلاف کس بات پر تھا اور سرسید کے نزدیک علمائے دیوبند کا مقام و مرتبہ کیا تھا۔
سرسیداور مولانا قاسم نانوتوی انیسویں صدی کے ان چند مفکرین اور مصلحین میں سے ہیں جن کے مقام و مرتبہ کو بتانے کے لیے اب کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔دونوں کا زمانہ ایک اور فکربالکل الگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید کے ایم اے او کالج علیگڑھ کو اور دارالعلوم دیوبندکو ایک دوسرے کا حریف بتانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں تھا۔البتہ مولانا قاسم نانوتوی کو سرسید سے عقائد کے باب میں اختلاف تھا۔پروفیسرظفر احمد صدیقی نے اپنے مضمون’ سرسید احمد خاں اور مولانا قاسم نانوتوی‘ میں لکھا ہے کہ’’راقم الحروف کے پیش نظر مولانا قاسم نانوتوی کا ایک رسالہ ’’تصفیہ العقائد‘‘ سرسید کے ایک خط کا جواب ہے۔ اس رسالے کے نام اور پھر اس کے مواد مشتملات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ مولانا کو سرسید سے نہ تو کوئی ذاتی اختلاف تھا نہ ان کی تعلیمی تحریک سے کوئی پُرخاش ۔ البتہ عقائد کے باب میں سر سید کی تعبیرات نیز آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں ان کی پیش کردہ تاویلات و توجیہات کو وہ سخت ناپسند کرتے تھے‘‘۔
مولانا نانوتوی کوسرسید کی تعلیمی تحریک یا دیگر اصلاحی کاموںسے کوئی اختلاف نہ تھا۔ مولاناؒ نے لکھا ہے کہ ’’سید صاحب کی اولوالعزمی اور دردمندیٔ اہل اسلام کا معتقد ہوں۔۔۔۔۔لیکن ان کے فسادِ عقائد کو سُن سُن کر ان کا شاکی اور ان کی طرف سے رنجیدہ خاطر ہوں‘‘۔مولانا نانوتویؒ کے سوانح نگار مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے ’’سوانح قاسمی‘‘ میں لکھا ہے’’نہ علوم جدید کی افادیت ہی کے آپ منکر تھے اور نہ آپ کا یہ خیال تھا کہ مسلمانوں کو ان علوم و فنون سے الگ تھلگ رہنا چاہئے‘‘۔ان تمام باتوں سے اس کا پتا چلتا ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی کو سرسید کے کالج یا ان کے دیگر قومی و اصلاحی کاموں سے کوئی اختلاف نہ تھا البتہ مذہبی فکر کے اپنے بعض تفردات کی وجہ سے مولانانانوتویؒ کو ان سے اختلاف تھا۔ لیکن اس اختلاف کے باوجود سرسید کو مولانا قاسم نانوتوی سے جو قلبی تعلق تھا اس کا اندازہ اس تحریرسے کیا جاسکتا ہے جو سرسید نے تہذیب الاخلاق میں ان کے انتقال پر لکھی تھی۔اس تحریر کے مطالعے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سرسید کے نزدیک مولانا قاسم نانوتوی اور ان کا قائم کردہ ادارہ دارالعلوم دیوبندکا کیا مقام تھا۔اس مضمون کا کچھ حصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ سرسید لکھتے ہیں۔
’’افسوس ہے کہ جناب ممدوح حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے ۱۵؍اپریل ۱۸۸۰ء کو ضیق النفس کی بیماری میں بمقام دیوبند انتقال فرمایا۔ زمانہ بہتوں کو رویا ہے اور آئندہ بھی بہتوں کو روئے گا لیکن ایک ایسے شخص کے لیے رونا جس کے بعد اس کا کوئی جانشین نظر نہ آوے ، نہایت رنج و غم اور افسوس کا باعث ہوتا ہے۔۔۔۔۔ زمانۂ تحصیل علم میں جیسے کہ وہ ذہانت اور عالی دماغی اور فہم و فراست میں معروف و مشہور تھے، ویسے ہی نیکی اور خدا پرستی میں بھی زبانِ زدِ اہلِ فضل وکمال تھے۔ان کو مولوی مظفر حسین کاندھلوی کی صحبت نے اتباع سنت پر بہت زیادہ راغب کردیا تھا اور حاجی امداد اللہ ؒ کے فیض صحبت نے ان کے دل کو ایک نہایت عالی رتبہ کا دل بنادیا تھا۔خود بھی پابند شریعت تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی پابند سنت و شریعت کرنے میں زائد از حد کوشش کرتے تھے۔ بہ ایں ہمہ تمام مسلمانوں کی بھلائی کا ان کو خیال تھا۔ان ہی کی کوشش سے علوم دینیہ کی تعلیم کے لیے نہایت مفید مدرسہ دیوبند میں قائم ہوا ۔۔۔۔۔علاوہ اس کے اور چند مقامات میں بھی ان کی سعی و کوشش سے مسلمانی مدرسے قائم ہوئے۔ وہ کچھ خواہش پیر و مرشند بننے کی نہیں کرتے تھے لیکن ہندوستان میں اور خصوصاً اضلاعِ شمال و مغرب میں ہزارہا آدمی ان کے معتقد تھے۔۔۔۔ان کا پایہ اس زمانے میں شاید معلوماتی علم میں شاہ عبدالعزیز ؒ سے کچھ کم ہو، الّا اور تمام باتوں میں ان سے بڑھ کر تھا۔۔۔۔وہ دراصل فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے شخص تھے اور ایسے آدمی کے وجود سے زمانے کا خالی ہوجانا ان لوگوں کے لیے جو ان کے بعد زند ہ ہیں،نہایت رنج اور افسوس کا باعث ہے۔۔۔۔۔دیوبند کا مدرسہ ان کی ایک نہایت عمدہ یادگار ہے اور سب لوگوں کا فرض ہے کہ ایسی کوشش کریں کہ وہ مدرسہ ہمیشہ قائم اور مستقل رہے اور اس کے ذریعہ سے تمام قوم کے دل پر ان کی یادگاری کا نقش جما رہے۔‘‘
مشہور مصنف و مورّخ شیخ محمد اکرام سرسید کی سیرت و شخصیت سے غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے۔انھوں نے اپنی کتاب ’’موج کوثر‘‘ میں سرسید احمد خاں، ان کے نامور رفقاء اور علی گڑھ تحریک سے متعلق بہت تفصیلی گفتگو کی ہے۔آخر میں اس کا ایک اقتباس جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علماء کرام نے انگریزی تعلیم یا علوم جدیدہ کی بالکل مخالفت نہیں کی۔ یہ محض غلط فہمی پر مبنی ہے۔شیخ محمد اکرام ’’سرسید کی مخالفت‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:
’’یہ غلط فہمی بہت عام ہے کہ علماء نے سرسید کی مخالفت اس وجہ سے کی کہ وہ مسلمانوں میں انگریزی تعلیم رائج کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے سرسید کے موافق اور مخالفت تحریروں کا مطالعہ کیا ہے۔ ہماری رائے میں یہ خیال غلط ہے اور علماء اور اسلام کے ساتھ صریح بے انصافی ہے۔
اس کے علاوہ جب شاہ عبدالعزیز سے انگریزی کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے سے متعلق فتویٰ لیا گیا تو انہوں نے بزور کہا’’جائو انگریزی کالجوں میں پڑھو اور انگریزی زبان سیکھو۔ شرعاً ہر طرح جائز ہے’’۔اب لوگ حیران ہیں کہ جب سرکار کے قائم کیے ہوئے کالجوں میں پڑھنا جائز تھا تو ایک ایسے مدرستہ العلوم کی کیوں محالفت ہوئی جو مسلمانوں کا جاری کردہ تھا اور جس میں مذہبی تعلیم کا بھی انتظام تھا۔
اس معمہ کے حل کرنے کے لیے ان مضامین اور فتوویٰ کا مطالعہ کرنا چاہئے جو سرسید کی مخالفت اور ان کی تکفیر میں شائع ہوئے۔ ان کے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ علی گڑھ کالج کی مخالفت اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ وہاں مغربی علوم پڑھائے جاتے تھے بلکہ اس لیے ہوئی کہ اس کی بنا میں سرسید کا ہاتھ تھا اور سرسید اپنی کتب اور تہذیب الاخلاق میں معاشرتی اور مذہبی مسائل کے متعلق ایسے خیالات کا اظہار کررہے تھے جنھیں عام مسلمان اسلاف کے خلاف سمجھتے تھے۔ علی گڑھ کالج کے متعلق سخت سے سخت مضامین اور درشت سے درشت فتاویٰ میں یہ نہیں لکھا ہے انگریزی پڑھنا کفر ہے، بلکہ یہی درج ہے کہ جس شخص کے عقائد سرسید جیسے ہوں وہ مسلمان نہیں۔۔۔۔۔۔لوگوں کا خیال تھا کہ سرسید اپنے مدرسے میں ان عقائد کی تبلیغ کریں گے جن کا اظہار وہ اپنے رسالے اور کتب میں کررہے ہیںلیکن سرسید نے ایسا نہیں کیا۔
جن لوگوں نے سرسید کے حالات بغور نہیں پڑھے وہ سمجھتے ہیں کہ سرسید کی مخالفت ان دقیانوسی علماء نے کی جو ہندوستان کو دارالحرب سمجھتے تھے اور سرکارِ انگلشیہ اور انگریزی تعلیم کے مخالف تھے۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔مدرستہ العلوم کے سب سے بڑے مخالف دو بزرگ تھے۔ان دونوں معزز سرکاری ملازم یعنی مولوی امداد علی ڈپٹی کلکٹراور مولوی علی بخش سب جج۔حالی نے لکھا ہے’’ہندوستان میں جس قدر مخالفین اطراف و جوانب سے ہوئیں ، ان کا منبع انھیں دو صاحبوں کی تحریر تھیں۔‘‘
دراصل کہیں نہ کہیں اپنی بعض کمیوں اور ناکامیوں کو چھپانے کی غرض سے اس طرح کے بکھیڑے کھڑے کیے جاتے ہیں ۔اس وقت ہمیں اس وبائی بیماری سے لڑنے کے لیے ایک مستحکم پالیسی کی ضرورت ہے اور لاک ڈاؤن سے پریشان غریب اور مزدور طبقے تک ریلیف ورک پہنچانے کی ضرورت ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ بیماری سے کم اور بھوک کے شکار زیادہ لوگ ہوئے ۔