9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
مسرت آرا
آ ج میں نے ان کو تیسری بار دیکھا ۔ ان کا مجھے ملنا کسی بڑی پریشانی سے کم نہ تھا مگر کیا وجہ تھی کہ وہ فقط میرے ہی رو برو آتی تھی ۔ ان کے چلنے پھرنے سے یوں لگ رہا تھا کہ وہ نہایت شادمان تھے ۔جب وہ دونوں میرا پیچھا چھوڑتے اس کے فوراً بعد ان کا خیال مجھے گھیرتا تھا ۔ آخر کیا مکنون تھا ان میں ۔ پہلے کسی حد تک غور کرنے لگی مگر معمول سمجھ کر چھوڑ دیا ۔ من میں تو ہزاروں سوال تھے مگر ذاتی مصروفیات کی وجہ سے بے توجہ بنی کیونکہ اس سماج میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں تھی ۔ جس پر دھیان دیا جائے ۔ یہاں کون کس کا ،کوئی کسی کا چہرہ نہیں دیکھ پاتا پھر اندر کے حالات کا پتہ لگانا ناممکن ہے ۔ دن گزرتے رہے اور وہ دونوں میاں بیوی غیر ارادی طور پر ہی سہی ساتھ ساتھ چلتے رہے ۔مختلف حالات اور راستوں سے لڑ کر ، گزر کر آگے بڑھتے رہے ۔ چاہے کیسا بھی ماحول اور موسم بھی ہو وہ گھر سے جیسے جان بھوج کر عجیب و غریب منزلوں کو طے کرتے گئے اور مجھ سے بھی مسلسل ملاقاتیں ہوتی گئیں ۔ ایک بار دو بار پھر تیسری بار اب یہ واقع قابل نظر انداز نہیں تھا ۔میں نے من ہی من میں سوچا اور ارادہ بھی کیا کوئی بات ضرور ہے لہٰذا اب مجھے ہی پیش قدمی کرنی چاہئے ۔میں اندر سے زندہ ہوں متحرک بھی ہوں حالات کے ہاتھو ں مجبور بھی ضرور ہوں مگر کہیںنہ کہیں انسان کے لئے اظہار خیال بھی ضروری بنتا ہے خوموش بیٹھنا انسان کی علامت نہیں ہے ۔ خاموشی تو بے زبانوں کا زیور ہے پھر رب نے مجھے زبان اور دماغ دونوں چیزیں عطا کی ہیں اور انسانی صورت میں اس دنیا میں مجھے بھیجا ہے ۔ بھلے ہی آج کا سماج مجھے کمزور سمجھے آخر میں بھی تو انسان ہوں ۔میں نے بہت کوشش کی کہ میں بھی وہی زندگی گزاروں جس طرح ہماری بزرگ خواتین نے جیسے تیسے کرکے کاٹی ۔مگر ایسا میرے ساتھ نہیں ہو پایا ۔
خیر زندگی میں اور بھی بہت ساری مصروفیات دوچار رہتی ہیں ۔ ایک دن میں کسی کام کے سلسلے میں گھر سے باہر کوسوں میل دور چلی گئی ۔من میں کچھ الجھن سلجھن ہر وقت رہتی ہی ہے لہذا میں رستہ بھٹکنے کی وجہ سے دوسری گاڑی میں بیٹھ گئی ۔ جب مجھے تھوڑا ہوش آیا گاڑی اب تک آگے نکل گئی تھی ۔ بیچ راستے پر اترنا میں نے مناسب نہ سمجھا یہاں تو سیٹ پر آرام سے بیٹھی تھی کسی درجہ حفاظت میں بھی تھی اتر کر کہاں جائوں ،ایک آہ بھری تو دونوں نکیر منکر کی طرح میرے ہی ساتھ ۔۔۔۔ میں کیا کروں کچھ سمجھ نہ آیا ان سے پوچھوں مگر انہوں نے وقت نہ دیا ۔میں نے سوچا چپ چاپ دونوںکو گھوروں تاکہ کوئی نتیجہ عکس کرلوں ۔اب تک کھل کر کچھ سمجھ پانا میرے لئے محال تھا ۔ کون بہتر اور کون بدتر ۔مگر یہاں ایک بات ضرور تھی کہ انسان جنسی تسکین کے لئے کچھ بھی کر گزرتا ہے ۔ وہ دیکھ نہیں سکتا تھا ،سن نہیں سکتا تھا ، یہاں تک وہ خود بغیر سہارے کے چل بھی نہیں پاتا تھا ۔پھر کس چیز نے اس کو مجبور کیا کہ ایک معصوم پھول سی نازک اور چاند سی چمکدار کمسن کو آغوش میں لینے کی۔اور اپنی بے روشن آنکھوں سے پتہ نہیں کیا منظر دکھا رہا تھا ۔اس کے ہر بار ایک ہی لباس سے اس کاسارا پس منظر چھلک رہا تھا۔اب چونکہ میں بذات خود ایک عورت ہوں اس لئے میں اس معصوم لڑکی کے لئے بے چین ہوئی ۔ وہ چھوٹی قد والی لڑکی عمر بھی قد کے برابر ،نجانے اس نے خود کو کس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا ۔یہ دنیا بھی کیا عجیب ہے اور زندگی بھی کیا زندگی ہے جہاں انسان کے خواب پورے نہ ہو پائیں ۔ جہاں سارے ارمانوں پر پانی اور جوان خواہشات کو دفن کرنا پڑے ۔ میں کچھ دیر کے لئے تذبذب کے عالم میں اس لڑکی کے پر سکون چہرے کو دیکھتی رہی ۔راستے کا لگ بھگ نصف حصہ طے ہونے کے بعد گاڑی ایک بڑے بازار میں جا ٹھہری ۔ہم سب گاڑی سے اترے ،اترنے کے بعد میں نے دائیں بائیں دیکھا تو وہ دونوں ایک دوسرے کے سہارے نکل پڑے ۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں آخری بار ان کو دیکھ رہی ہوں ۔میں نے دل ہی دل میں ان کو الودع کہا ۔ اور جب میں گھر لوٹی تو میری آنکھیں اشک بار تھیں ۔مجھے ہر طرح کے طوفانوں نے جیسے گھیرا تھا۔اور سمندر کی تہہ تک لے گئے تھے جہاں بہت کچھ مضمر تھا ۔صورت سے وہ لڑکی انوکھی تھی اس کے اندر ایک خاموش احساس تھا ۔بہت سے گلے تھے انصاف مانگتی ہوئی آنکھیں اور پر شکوہ ادائیں تھیں۔ مگر کاش ! کوئی اس کا سہارا بنتا ۔اگر مدد ملتی تو بات کوئی اور ہوتی ۔لیکن یہاں تو ان تمام چیزوں نے اس کو مجبور کیا اور وہ خود کو تباہ و برباد، یا یوں کہئے سمجھوتا کرنے پر آمادہ ہوئی۔وہ کب کی مر گئی تھی مگر اب عادتاً زندہ تھی ۔اس کے پاس نہ لینے کے لئے کچھ تھا نہ دینے کے لئے ، ان تمام حالات و واقعات میں آخر ہمارا بھی حصہ تھا ۔میں اپنے آپ سے بہت ناراض ہوئی ،میں نے بھی خود کو لاچار سمجھا ۔مگر نہیں اگرچہ میں بغاوت بھی نہ کر پائوں کم سے کم سمجھوتہ بھی کیوں کروں ۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے ہے جہاں اپنی اصلیت پر بھلا کون جائے۔مجھے لوگوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا لہذا میں اٹھی اور کہانی رقم کرنے لگی ۔
دونوں کو میں نے پہلی دفعہ اسپتال میں دیکھا تھا تو میری حیرانگی کی کوئی حد نہیں رہی۔ اس وجہ سے نہیں کہ اس لڑکی نے ایک بچے کو جنما تھا جس کو اس کے ستر سالہ شوہر نے بیچ دیا اور عوام میں یہ بات عام کردی کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا بلکہ اس وجہ سے کہ وہ لڑکی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی اور اس کا بے رحم اور ہوس پرست شوہر بار بار ایک ہی بات اس کے کان میں جا کر بولتا تھا کہ’’ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے پہلی بار تو ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے ۔میری جان دوسری مرتبہ ایسا نہیں ہوگا ، یہ میرا وعدہ ہے چاہے میں رہوں یا مر جائوں ۔کم سے کم اپنی حالت دیکھ کر یہ باتیں مت کرو ‘‘ وہ روتے روتے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی ۔یہاں اس بزرگ آدمی کے منہ لگنا بے سود تھا ۔وہ سب کی نظروں میں آیا ہوا خود کو اچھا ثابت کرنے کے لئے دوسروں کی حوصلہ آفزائی کرتا رہا ۔ میرے لئے تو یہ سب کچھ ایک دکھاوا تھا کیونکہ میں پہلی ہی نظر میں اس کو تب پہچان گئی تھی جب میں نے ایک کو لگ بھگ ستر سال کا اور دوسرے کو چودہ پندرہ سال کے آس پاس پایا تھا ۔وہ بیڈ پر لاش کی مانند لیٹی ہوئی تھی اور اس کا شوہر ڈاکٹروں سے بار بار اس کو گھر لے جانے کی گزارش کرتا تھا ۔یہ میرے لئے بہت ہی درد ناک منظر تھا ۔ خیر بنی نوع انسان کے لئے تو ایک بات پہلے ہی سے واضح کی گئی ہے کہ وہ اپنے نفس کو ہمیشہ قابو میں رکھے مگر یہاں کا معاملہ ہی الگ تھا ،قبل از مرگ بھی اس آدمی کی جوان خواہشات کیا کہیے! اس کے اندر جنسیت زیادہ تھی جس نے اس کو اندھا کیا تھا ۔وہ تو چلا گیا اپنی بیوی کو لیکر پھر سے نئی دنیا بسانے مگر وہ لڑکی جاتے جاتے پلٹ پلٹ کر مجھے دیکھتی رہی ۔خاموشی سے پھر اس کا سہارا بنی ۔یوں مجھے وہ اپنی ساری پریشانی اور کہانی دے گئی۔ وہ مجھ سے کیا چاہتی تھی ؟ کہ آج پھر سے وہ مجھے ملی !۔
پی ایچ ۔ ڈی اسکالر ۔۔ کشمیر یونی ورسٹی
ضضض