[email protected]
9807694588موسی رضا۔ ۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر مسعود جعفری
9949574641
دنیائے شعر و ادب میں شاعروں کا تسلط رہا۔انہی کی قدو قامت ،فکر و خیال کے گل بوٹے مہکتے رہے۔سارے راستے انہی پر ختم ہو جاتے تھے۔ مردانہ جنسMale Gender گراں بہا شئے تھی۔جس طرح سلطنت ،حکومت ،حکمت، اور فکر و فلسفہ کی بساط پر مردوں کا راج تھا اسی طرح شعرو و شاعری میں بھی ابن آدم یعنی حضرت انسان کی بلا شر کت غیر بالا دستی مسلمہ تھی۔ہمارے ہو نٹوں پر میر و غالب ،اقبال و فیض ، جوش و ساحر ، کیفی و مخدوم کی غزلیات کے رومانی اور انقلابی شعروں
کی دلآویز قوس و قزاح بکھری تھی۔ہم انہی کی تخلیات کی بستی میں گم شدہ رہے۔چند معدو د خواتین بیت بازی یا بیت بنتی ہوں گی۔ان کا ہو نا نہ ہو نے کے برابر تھا۔ان کا حساب شمار ریت کے گھروندوں کی ما نند تھا یا پھر چراغ رہگزر جو نہ جانے کب گل ہو جائے۔کرہ ارض کے سارے بر اعظموں ،ملکوں اور شہروں میں مردانہ آواز کی گونج تھی۔اس لا بدی حقیقت سے کوئی فرد بشر بھی منکر نہیں ہو سکتا۔انگریزی ادب چاسر ،شیکسپیر ، ملٹن ،با ئرن ،ورڈس ورتھ ، پوپ ،کیٹس کے خوابناک تصورات سے بھرا رہا۔ادھر فارس میں حافظ شیرازی ،ظہوری ، بیدل ،عرفی ،رومی و خیام چھائے رہے۔تلگو شعریات میں ویمنا ،پو تننا ،سری سری ، الا سا نی پدننا ، کالوجی ، ور واراو وغیرہ کا جادو سر چڑھ کے بو لتا رہا۔شاہی دور میں ایکا دکا شہزادیوں کے شاعرانہ نام مل جا تے ہیں جیسے نور جہاں،جہاں آرا،زیب النسا مخفی۔ ان کی حثیت چاندنی میں جھلملاتے دئے جیسی رہی۔مین اسٹریم میں تو صنف نازک نہیں تھی۔اس کی سب سے بڑی وجہ مردانہ سماج کے علاو تہذ یبی آدا ب بھی تھے۔بیسویں صدی کی چھٹی و سا تویں دہا ئی میں نسوانی رعد اور دھنک شاعری کے افق پر ابھرنے لگی۔غزل چونک کر مڑ مڑ کے دیکھنے لگی۔لوگ حیرت ذدہ ہو گئے۔یہ تازہ دم آواز کس کی تھی۔غزلوں میں صبا کی سبک روئی،آخر شب کے ستاروں کی غم
نا کی،محرابوں سے اونگھتے چرا غوں کی واپسی ،پچھلے پہر کی سر گو شیاں،دلوں کی دھڑکنوں کا زیرو بم،ساحل سے سر پٹکتی مو جیں،سر شام دریا میں ڈوبتے ہوئے سورج کی کر نیں ،در زنداں کھلنے کی آس،پھولوں پر منڈلاتے بھونروں کا راگ،ہجر میں بانسری کی آہ و فغاں اور سرد ہواوں کا نو حہ سنائی دینے لگا۔دھیمی دھیمی آنچ دینے وا لی شعری کا ئنات کی خالق کو ئی اور نہیں خوبصورت ،ذہین ،غم جا ناں و غم دوراں کے ماتم کو اپنے سینے میں لے کر چلنے وا لی پروین شاکر تھی۔جس نے ایک جست میں صدیوں کا فا صلہ طئے کر دیا۔اس نے دیکھتے ہی دیکھتے غزل کا رنگ تبدیل کر دیا۔ایسے حسین شعر کہنے لگی جن سے دامن خیال تہی تھا۔اس کی نت نئی لفظیات،روح کو چھونے وا لے استعارے ،فصیح و بلیغ اشارے کنائے ، نا یاب تشبیہات ا نمول تمثیلیں و تلمیحات،گہری امیجری ،جما لیاتی پیکر تراشی ،خوابوں کا بکھراوامنگوں کے چاند نے شاعری کا چولا بدل ڈالا۔اس کی روایتی ڈگر تبدیل کر دی۔فرسودہ خیالی کو خیر باد کہا۔گھسے پٹے مو ضوعات سے کنارہ کشی کر لی۔پامال را ہوں سے گریز کیا۔نئے سفر میں نئے چرا غوں کا بندو بست کیا۔لوح و قلم کا رخ نئی منزلوں کی جانب پھیرا۔ نئے تخلیقی صبح و شام پیدا
کئے۔غزلیات کو جدید رنگ و آہنگ اور ڈکشن سے رو شناس کیا۔چہار عالم میں تہلکہ بر پا کر دیا۔اپنی ادبی پہچان بنائی۔شعری ارض و سما پر اپنی شخصیت کی چھاپ مر تسم کر دی۔تا ثیر کو گہرا دیا۔اظہار کے پیڑ کے کچے پھلوں کو گدرا دیا۔پروین شاکر سے ادبی کینوس وسیع ہوا اور خیالوں کے نئے مہر و ماہ طلوع ہو ئے۔روشنی کی بارش ہو نے لگی۔پروین شاکر کے ہاں لفظوں کا گورکھ دھندا نہیں ہے۔شاعری قا فیہ پیمائی نہیں ہے۔وہ پرانی لکیروں کو نہیں پیٹتیں۔نئے موسم ، نئی رتیں اور نئے گل کھلاتی ہیں۔یہی ان کا امتیازی وصف ہے۔پروین شاکر کی زندگی نے وفا نہیں کی۔وہ 42 سال کی عمر میں اس جہان فا نی سے رخصت
ہو گئیں۔ وہ اسلام آباد میں ایک کار حادثہ میں فوت ہو گئیں۔وہ کیٹس ،مجاز ،شکیب جلالی اور جان ملٹن کی طرح کم عمری میں ملک عدم سدھار گئیں۔انہوں نے کم عمری اتنا ادب کو ما لا مال کیا جو کئی لوگ اپنی لمبی
عمروں میں نہیں کر سکے۔ بے پناہ تخلیقی وفور رکھنے وا لی شاعرہ کی نجی زندگی آسودہ نہیں رہی۔اس پر دکھ کے بادل منڈلاتے رہے۔آخر کار نصف بہتر سے مفارقت ہو گئی۔دو نوں کا جادہ الگ ہو گیا۔ازدواجی رفاقت کی نشانی ایک لڑکا مراد رہ گیا۔پروین کی شاعری میں نجی گھریلو واقعات کی کسک اور چھبن ملتی ہے۔وہ مردانہ برتری کا اعتراف کر تی ہیں۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جا وں گی
وہ جھوٹ بو لے گا اور لا جواب کر دے گا
ان کی جذباتی غزلیں پڑھتے ہوئے دل دھک دھک کر نے لگتا ہے۔تلخی شب و روز کا آتش سیال رگ و پئے میں دو ڑنے لگتا ہے۔پروین شاکر پڑھی لکھی روشن خیال خاتون تھیں۔انہوں نے انگریزی لٹریچر سے ایم ائے کیا تھا۔بیکنکینگ نظم و نسق میں پی ایچ ڈی کی تھی۔وہ محکمہ کسٹم میں اعلی عہدہ پر فا ئز تھیں۔ان کا پہلا شعری مجموعہ خوشبو1976 میں منظر عام پر آیا۔وہ را تو ں رات شہرت کے آسمان پر پہونچ گئیں۔انڈو پاک کے شعری فلک پر ایک نیا ماہتاب دمکنے لگا تھا۔پروین شاکر کا نام گھر گھر میں
سنائی دینے لگا۔ان کا لحجہ سورج کی پہلی شعاع ،ساون کی پہلی بوند ، پنگھٹ پہ ٹمٹماتا دیا،دریا میں پہلی شام گاتے ہو ئے مانجھی جیسا تھا۔دیگر شعری مجموعے صد برگ 1980،خود کلامی ،انکار 1990میں زیور طباعت سے آراستہ ہو ئے۔بعد میں ان کی شاعری کے مجموعوں کو ماہ تمام میں یکجا کیا گیا۔یہی ان کا کلیات ہے۔پروین شاکر کو آدم جی اوارڈ کے علاوہ پاکستان کے با وقار اعزازPride Of Performance سے نوازا گیا۔انہیں وہ سب کچھ ملا جو ایک بڑے قد آور ادیب و شاعر کو ملتا ہے۔پاکستان کے اور رجحان ساز شاعروں جیسے نا صر کا ظمی ،شکیب جلا لی کی طرح پروین بھی جلد ہی خالق
حقیقی سے جا ملیں۔شکیب جلالی نے خود کشی کی اور پرویں شاکر کار کے سڑک حادثہ میں جاں بحق ہو گئیں۔ان کا المناک انجام ہوا۔قدرت کے کھیل بھی نرا لے ہو تے ہیں۔انگریزی میں ایک کہاوت
ہےMan proposes God disposes یہی کچھ پروین جیسی ہو نہار شاعرہ کے ساتھ ہوا۔وہ ہم میں نہیں ہے ۔اس کی فکر رسا کے گلاب کھلے ہو ئے ہیں۔باغ اردو ان سے معطر رہے گا۔اس کی غزلوں کی قرات ہو تی رہے گی۔قارئین فرط انبساط سے جھومتے رہیں گے۔اب ہم منفرد لب و لہجہ کی شاعرہ کے شاعرانہ نگار خانے میں جھانکتے ہیں اور زندگی کے سرد و گرم تجربات کو محسوس کر نے کی کو شش کر تے ہیں۔پروین شاکر کے نسائی جذبات کے اتار چڑھاو کا مشاہدہ کرتے ہیں۔مشرقی لڑکی کی نسوانی کسک کی کرچیاں فرش راہ بنی ہو ئی ہیں۔
پابہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون
طو فان ہے تو کیا غم آپ مجھے آواز تو دیجئے
کیا بھول گئے آپ مرے کچے گھڑے کو
کو بہ کو پھیل گئی بات شنا سائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیارئی کی
کیسے کہدوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
وہ اب میری ضرورت بن گیا ہے
کہاں ممکن رہا اس سے نہ بو لوں
مرا نوحہ کناں کو ئی نہیں ہے
سو اپنے سوگ میں خود بال کھو لوں
اس بیت میں ایک حساس عورت کی بے چارگی جھلک رہی ہے۔
ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا
اس شعر کی سلگتی آگ کی تپش ملا حظہ کیجئے۔
ریل کی سیٹی میں کیسے ہجر کی تمہید تھی
اس کو رخصت کر کے گھر لو ٹے تو اندازہ ہوا
پروین شاکر پہلی شاعرہ ہے جس نے نسائی احساسات پر اوس نہیں ڈالی۔ان کی پردہ پوشی کرنے کی ناکام سعی نہیں کی۔رسم و رواج کی اسیر ہو کر شمع کی طرح خاموش نہیں ہو گئی۔اس نے اپنے باطن کو زبان دی۔ اظہار کو وسیلہ بنا یا۔سماجی جبر کے آگے سپر نہیں ڈا لی ۔وقت و حالات سے نبرد آزما ہو نے کی اپنے اندر طاقت پیدا کی۔پروین شاکر خود اپنی کتاب کے دیباچہ دریچہ گل سے میں زیر لب کچھ کہہ رہی ہیں۔ان کی با تیں راز ہائے سر بستہ کی پر تیں کھول رہی ہیں۔ان میں عمیق معنی خیزی ہے۔
گریز پا لمحوں کی ٹوٹتی دہلیز پرہوا کے بازو تھامے ایک لڑکی کھڑی ہے اور سوچ رہی ہے کہ اس سے اور آپ سے کیا کہے۔برس بیتے۔گئی رات کے کسی ٹھیرے ہو ئے سناٹے میں اس نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ اس پر اس کے اندر کی لڑکی کو منکشف کر دے۔
خدائے ذولجلال نے اس کی مناجات کو شرف قبولیت عطا کیا اور وہ اندر کی لڑکی گویا ہو ئی۔اس کا
دستاویزی ثبوت ان کے شہکار شعری مجموعے ہیں جن سے اقلیم ادب نور و نکہت میں ڈوبا ہوا ہے۔
09949574641حیدر آباد