سائنٹفک مزاج کے حامل ہیں پروفیسر شارب ردولوی:ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقیپروفیسر شارب ردولوی کی وجہ سے ترقی پسند تنقید کی آبرو باقی ہے:ڈاکٹر ارشاد نیازی
آل انڈیا کیفی اکادمی میں ’’جشن شارب ردولوی ‘‘میں دانشوروں اور محبان اردو کی بڑی تعداد کی شرکت
ڈاکٹر ہارون رشید
لکھنؤ۔۳؍دسمبرپروفیسر شارب ردولووی کے یہاں شرافت علمی بھی ہے اور شرافت نفسی بھی۔جب یہ دونوں خصوصیات کسی میں جمع ہوتی ہیںتو حلم پیدا ہوتا ہے۔تنقید کے لئے تخلیقی صلاحیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔میںپروفیسر شارب ردولوی کو ایک نقاد نہیں ایک فنکار مانتا ہوں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر فضل امام نے سہ روزہ ’’جشن شارب‘‘کے تعلق سے دوسرے دن آل انڈیا کیفی اعظمی اکادمی میں ایک اہم سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے کہا کہ تنقید یانقد عربی سے آیا ہے ۔جو شخص عربی فارسی ہندی اور سنسکرت ادبیات سے واقف نہیں ہے وہ کچھ بھی بن سکتا ہے مگر نقاد نہیں بن سکتا ۔ آج تنقید اور تحقیق کا معیار بہت گر گیا ہے۔حد تو یہ ہے جو لوگ متن کو صحیح طریقہ سے پڑھ نہیں سکتے وہ نقاد بن بیٹھے ہیں اور متن پر فیصلے صادر کر رہے ہیں۔انھوں نے درست تلفظ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر اردو میں شین قاف کا امتیاز ختم ہو جائے گا تو اردو کی شناخت ہی ختم ہو جائے گی۔انھوں نے کہا ضرورت اس بات کی ہے کہ زبان اور بیان کی بنیادی خوبیوں پر زور دیا جائے۔
اس سے پہلے جشن شارب کے دوسرے دن ہونے والے تین اجلاس کا سلسلہ آل انڈیا کیفی اعظمی اکادمی میں صبح شروع ہوا۔پہلے اجلاس کی صدارت پروفیسر خلیل بیگ نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹراحمد امتیاز نے انجام دئے جبکہ مہمان ذی وقار کے روپ میںپروفیسر رمیش دیکشت،ولایت جعفری اور عارف نقوی نے شرکت کی۔ڈاکٹر خالد اشرف نے اپنے مقالہ میںکہا کہ پروفیسر شارب ردولوی کی تنقید میں ذہنی اور فکری وسعت انھیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ڈاکٹرمحمد شکیل نے کہا کہ پروفیسر شارب کی کتاب ’’جدید اردو تنقید اصول و نظریات‘‘ ایسی کتاب ہے جس کا ہندوستان اور پاکستان میںبہت چربہ کیا گیا۔ ڈاکٹر کہکشاں لطیف نے شارب ردولوی کا تنقیدی رویہ عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیااور کہا کہ شارب ردولوی نے اردو تنقید کے معیار اور وقار میں اضافہ کیا۔ڈاکٹر ارشا دنیازی نے کہا کہ پروفیسر کلیم الدین احمد نے اردو تنقید کی کم مائیگی کا احساس یہ کہکر دلایا تھا کہ اس کا وجود محض فرضی ہے یہ اقلیدس کا خٰیالی نکتہ یا معشوق کی موہوم فکرہے توبہت سارے صاحب نظر حضرات نے ناک بھوں چڑھائی تھی۔اس لئے کہ پہلی دفعہ کسی نے حقیقت کے راستے اردو تنقید کے شیش محل پر ضرب لگائی تھی۔مگر آج بھی اتنا وقت گذر جانے کے بعد اردو تنقید کی صورت کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔لیکن ڈاکٹر ارشاد نیازی نے یہ بھی کہا کہ پروفیسر شارب ردولی ایک ایسے معتبرسائنٹفک نقاد کا نام ہے جس کی وجہ سے ترقی پسند تنقید کی آبرو باقی ہے۔پروفیسر رمیش دیکشت نے کہا کہ شارب ردولوی اردو کے صف اول کے ناقدوں میں ہیں،ولایت جعفری نے کہا کہ شارب جیسے تھے ویسے ہی ہیں ان کے بال سفید ہو گئے ہیں لیکن ان کا خون سفید نہیں ہوا ہے۔عارف نقوی نے کہا کہ یوں تو شارب بہت سیدھے اور سلجھے انسان ہیں لیکن بات جب اصول کی آ جائے تو نہایت سخت بھی ہو جاتے ہیں۔پروفیسر مرزا خلیل بیگ نے اپنی ملاقاتوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تنقید شارب کے مزاج میں شروع سے تھی اسی لئے انھوں نے اچھی خاصی شاعری ترک کردی اور تنقید کے حوالے سے نہ صرف اپنے قصبے کا بلکہ اپنے اساتذہ اور اپنی مادر علمی کا بھی نام روشن کیا۔
دوسرے سیشن کی صدارت ڈاکٹراقتدار حسین فاروقی نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر ندیم نے نجام دئے۔مقالہ نگاروں میں شاہد رضی نے کمزور تلفظ کے ساتھ’’شارب ردولوی کی تنقید ی بصیرت‘‘ مقالہ پیش کیا۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے اپنے علمی مقالے میں شارب ردولوی کی کتابوں کے حوالے سے ان کی تنقید نگاری کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی کی تنقیدی تحریروں میں ایک مثالی اور انصاف پسند تنقید نگار کی جھلکیاںآسانی سے محسوس کی جاسکتی ہیں۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے پروفیسر شارب ردولوی کی کتاب ’’جدید اردو تنقید اصول و نظریات ‘‘کوایک دستاویز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کتاب کو شارب ردولوی کے نقادانہ ارتقا میں سنگ ِمیل کا نام دیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر عرشیہ جبیںنے پروفیسر شارب ردولوی کی خاکہ نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے اقتباسات کی روشنی میںان کی خاکہ نگاری کے امتیازی خطوط واضح کئے۔پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ پروفیسر احتشام حسین کے شاگردوں نے اردو تنقید کو متمول کیا اور ان میں شارب ردولوی کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔انھوں نے شارب ردولوی کے حوالے سے کہا کہ وہ ترقی پسند تحریک کو انسان دوستی کی ایک غیر صوفیانہ تحریک سمجھتے ہیں۔ عارف محمود نے کہا کہ شارب ردولوی کو نرم گفتار اور صلح جو وغیرہ کہا جا تا ہے لیکن ان میں یہ صفات کیسے آئیں اس کا ذکر نہیں ہوتا ۔انھوں نے بتایاکہ انھوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس کا ذکر تفصیلی طور پر آیا ہے۔مہمان ذی وقار ابوالحسنات نے جشن میں شرکت کو اپنے لئے سعادت بتاتے ہوئے خصوصی طور پر ڈاکٹر نور فاطمہ کے مقالہ کا ذکر کیا۔احمد ابراہیم علوی نے کہا کہ شارب ردلووی ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بھی آج اگر زندہ ہیں اور ان پر گفتگو ہو رہی ہے تو صرف اس لئے کہ انھوں نے لکھا ہے اور لکھ رہے ہیں۔کسی بھی فنکارکا فن ہی اسے زندہ رکھتا ہے۔صدارتی تقریر میں ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی نے کہا کہ شارب صاحب اردو تنقید میں کیا رویہ رکھتے ہیں یہ مجھے علم نہیں نہیںکیونکہ میں اردو کا طالبعلم نہیں ہوں لیکن میں انھیں اس لئے پسند کرتا ہوں کہ وہ سائنٹفک فکر کے حامل ہیں۔
تیسرے اور آخری سیشن کی صدارت پروفیسر فضل امام نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد کاظم نے انجام دئے۔ڈاکٹر محمد ارشد نے اپنے مقالہ میں شارب ردولوی کی ولی فہمی کے حوالے سے گفتگو کی۔ڈاکٹر اشرف علی نے شارب ردولوی کی کتاب’’ جگر فن اور شخصیت ‘‘کا مطالعہ پیش کیا۔ڈاکٹر عمر غزالی نے ’’شارب ردولوی کا تنقیدی عمل ‘‘پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شارب ردولوی کی تنقید بندھے ٹکے اصولوں پر آگے نہیں بڑھتی ان کی تنقید مدبرانہ،محققانہ اور مفکرانہ ہے۔ڈاکٹر پرویز احمد نے اپنے مقالہ’’شارب ردولوی کی شعری جہات‘‘میں ان کی شاعری کا محاکمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر شارب ردولوی نے شاعری ترک نہ کی ہوتی توآج ملک کے بڑے شعراء میں ان کا شمار ہوتا۔پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ پروفیسر شارب ردولوی ایک نقاد ہی نہیں ایک تخلیق کار بھی ہیں۔انھوں نے خود کو کبھی نظریاتی تعصبات کا شکار نہیں ہونے دیا۔انھوں نے کہا کہ کچھ لوگوں نے انھیں سکہ بند نقاد کہا ہے وہ لوگ شارب ردولوی کی کتابوں کا غور سے مطالعہ کریں۔انھوں نے کہا کہ شارب سر نے خود کو نظریاتی جکڑ بندیوں میں مسدود نہیں کیا۔انھوں نے ایک شعر پڑھا کہ
اس راستے میںجب کوئی سایہ نہ آئے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا
وندنا مشرا نے کہا کہ میں ان کی شاگرد تو نہیں ہوں لیکن آج بھی جب ان سے ملاقات ہوتی ہے تو ہر ملاقات میںان سے سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کا موقع ضرور ملتا ہے۔انھوں نے کہا کہ سر سید نے یونیورسٹی امیر زادوں کے لئے بنوائی تھی لیکن شارب ردولوی نے ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کیا جہاں وہ بچیاں اعلی تعلیم حاصل کرتی ہیں جو کسی بڑے اسکول میں نہیں جا سکتیں۔مجھے امید ہے کہ ایک دن یہ ایک یونیورسٹی میں تبدیل ہوگا۔ ڈاکٹر نہال رضا نے کہا کہ شارب ردولوی کے نام میں ردولوی کا لاحقہ ہر ردولی والے کے لئے فخر کا باعث ہے۔انھوں نے نگر پالیکا کی طرف سے یہ اعلان بھی کیا کہ ردولی میں ان کے نام سے منسوب ایک گیٹ کی تعمیر کی جائے گی یا نئی تعمیر ہونے والی سڑک شارب ردولوی کے نام سے منسوب کی جائے گی۔آخر میں پروفیسر فضل امام نے اپنے صدارتی خطاب میں تمام مقالات کا احاطہ کرتے ہوئے گفتگو کی اور اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج پڑھنے کا شوق کم ہوتا جا رہا ہے۔
اس موقع پر ہال میںپروفیسرمحمد ظفرالدین، پروفیسر نصرت جمال،پروفیسر عباس رضا نیر،وقار رضوی،ڈاکٹر مجاہد الاسلام،ڈاکٹرعمیر منظر،ڈاکٹر ریشماں پروین ،ڈاکٹر عشرت ناہید،شاہ نواز قریشی،نجم فاروقی،ڈاکٹر پروین شجاعت،عائشہ صدیقی،سلام صدیقی،علی سردار جعفری،ایم ایم محسن،عبدالسمیع،ڈاکٹر خان فاروق،ڈاکٹر مرزا شفیق حسین شفق،ڈاکٹر شبنم رضوی،اجے کمار سنگھ،یاسر جمال،یامین علوی ،اردو ریسرچ اسکالرس اور محبان اردوکی بڑی تعداد موجود تھی۔