پردہ۔۔۔۔اخلاق کے معیار کی پہچان

0
328

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

قر ۃالعین

پردہ یا حجاب جس کے معنی ہے اوٹ ، حجاب ،نقاب،برقع، حیا، شرم وغیرہ ۔عورت کا غیر مردوں یاغیر محرموں سے ستر چھانا ۔اپنے آپ کو پوشیدہ رکھنا پردہ یا حجاب کہلاتا ہے۔فحاشی۔بدکاری،زنا،اور اس کے مسائل دنیا کی ان مہلک بیماریوں میں سے ہیں جن کے مضر اثرات صرف اشخاص اور افراد کو ہی نہین بلکہ قوموں اور خاندانوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔آج کل کے دور میں جو بدکاری،بے حیا ٰ ،فتنہ وفساد ،لڑائی جھگڑے کے واقعات پیش آتے ہیں تو اکثر واقعات کے پس منظر میں عورت کار فر ماہے۔ان ہی فتنوں اور فسادوں سے بچنے کے لیے شریعت نے پردے کا حکم دیا ہے۔سب سے پہلے جو مردوں اورعورتوں کو دیا گیا ہے ۔اللہ تعالی نے سورہ النور مین فرمایا ہے: ’’ اے نبیﷺ!مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت وعفت کی حفاظت کریں،یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا طریقہ ہے۔یقینا اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ ہیں۔اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سواے اس زینت کے جو خود ظاہر ہو جاے ۔[آیت ،۳۰ ،۳۱]
ان آیتوں میں مردوںاور عورتوں دونوں کو نظریں نیچی رکھنے اورشرمگاہوں کو محفوظ رکھنے کا حکم فرمایاہے۔سب سے بڑی چیزجومردکوعورت کی طرف یاعورت کومرد کی طرف مائل کرنے والی ہے وہ نظرہی ہے۔اس لیے دونوں کونیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔مردوں کو صرف اتنی تاکیدکی گئی ہے۔مگر عورتوں کے اس کے علاوہ بھی ضوابط ضروری ہے۔پردے کا حکم مردوں اور عورتوںدونوںکے دلوںکو نفسانی خواہشات سے پاک رکھنے کے لیے دیا گیاہے۔عورتوںکے پردہ کا بیان قرآن کریم کی سات آیتوں میں آیا ہے۔سورہ نور کی تین اورسورہ احزاب کی چار آیتوں میں۔سورہ احزاب مین ازواج مطہرات اور بنات طاہراتؓکے ساتھ عام مسلمانوں کی عورتوں کو بھی پردہ کا حکم دیا گیا ہے۔سورہ احزاب آیت ۸۹ ترجمہ: ’’اے نبیﷺ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دوکہ اپنے اوپراپنی چادروںکے گھونگھٹ ڈال لیا کریں،اس سے یہ بات زیادہ متوقع ہے کہ وہ پہچان لی جاییں گی اور انہیںستایا نہ جا یے گا۔‘‘
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہے کہ پردہ مسلمان عورت کی پہچان ہے اور اس کا فا ئدہ یہ ہے کہ جب وہ اسطرح باہرنکلیں گی تو لوگ دور سے ہی پہچان لین گے کہ مسلمان عورت ہے،شریف ہے،حیا دار ہے،بے حیا یا بے شرم نہیں ہے، تو لوگ ان کو ستائے گے نہیں۔جس چیز کو ہماری پہچان بتایا گیا ہے، اور جو ہماری عزت و عفت کا محافظ ہے بد قسمتی سے آج ہم نے اُس چیز کو پسں پردہ ہی ڈال دیا ہے، اور اسی چیز کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہے۔جو چیز ہمیں گراں مایہ بنا دیتی ہے ہم اسی کو فضول سمجھتے ہیں۔ہمارے سماج میں تو اس رواج نے مضبو طی سے جڑ پکڑی ہے کہ ہماری مائیں،بہنیں،بیٹیاں بلا جھجھک بازاروں، کالجوں، یونیورسٹیوں، گلی کوچوں میںبے پردہ ہو کر پھرتی ہیں۔بن ٹھن کے گھروں سے نکلی، فیشن کے لیے ڈوپٹہ گلے میں ڈال دیا نہ اس سے بال چھپے،نہ سینہ ڈھکا،نہ ہی چہرہ۔پھر جدھر کو جانا ہو چل پڑیں۔نہ پھر حیا رہتی ہے نہ ہی شرم،نہ اپنے پراے کا امتیاز نہ غیر محروموںسے بچنے کی فکر۔یہاں وہی اکبر الہ آبادی کا شعر ؎
پوچھا جو ان سے آپکا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
یہ بات تو بہت ہی کڑوی ہے مگر صداقت پر مبنی ہے۔آج بیشتر لڑکیوں کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہی ان کے گھروں میںمرد حضرات بھی رہتے ہیں جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔جب ان چیزوں کی طرف اور کویٔ متوجہ نہیں ہو تا ہے تو پھرحیا و شرم کا نام و نشان بھی باقی رہتا ہے۔پردے کا مقصد تو حیا ہی ہے اور حیا تو عورت کی فطرت میںشامل ہیں۔جب عورت ضمیر کے خلاف کام کرتی ہے تو بے حیابن جاتی ہے اور حیا وشرم کو ایک طرف رکھ دیتی ہے۔حضرت محمدﷺ نے ارشاد فرمایاہیں:جب تو بے حیا بن جاے تو پھر جو چاہے کر۔‘‘اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بے حیا یی ہی بے پر دگی کا سبب بنتی ہے۔اور بے پردگی جب عام ہو جاتی ہے تو اس سے سماج میں بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں،اور بہت جلد پھلتی بھی ہیں۔مغرب والوں نے تو اپنی فحاشی کے جواز میں عورتوں کے پردہ کو عورتوں کی صحت اور اقتصادی، معاشی حیثیت سے منفی ثابت کرنے اور بے پردہ رہنے کے فوایٔد پر اگرچہ بحثییں کی ہے۔مگر جب اس بے پردگی سے ملک وقوم کو ہزاروںفسادات کا سامنا کرنا پڑے تو پھر یہ سود مند کیسے ثابت ہو سکتا ہے۔؟ فتنہ و فساد کو روکنے کے لیے ہی پردے کا حکم دیا گیا ہے۔چونکہ اس دور میںفتنہ و فسادات بہت زیادہ ہے،عصمت و عفت کے دشمن بڑھ گیٔ ہیں۔بد نظر اور بد نفس جو عورتوں کو تانکتے جھانکتے اور پریشان کرتے ہیںتو اس حکم کی اہمیت زیادہ ہوگیٔ ہے۔امام احمدؒنے ام المومنیںسیدہ عائشہؓسے روایت کیا ہے :’’میں اس کمرے میںداخل ہوتی جس میںحضورﷺمدفون ہیںتو اپنی چادر رکھ دیتی تھی اور کہتی تھی کہ یہاں تو صرف میرے شوہر اور میرے والد مدفون ہیں۔ لیکن جب حضرت عمرؓکو دفن کیا گیا تواللہ کی قسم،میںان سے حیا کی وجہ سے خوب اچھی طرح سے پردہ کر لیا کرتی تھی‘‘۔اس سے بھی پردے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے حضرت عائشہؓ تو قبر میں شخص سے بھی پردہ کر رہی ہیںجبکہ ہم آج کل کی عورتیں جیتے جاگتے مردوں سے بھی پردہ نہیں کرتیں ہیں۔جب بھی کسی سے وجہ پوچھی جائے جواب یہی ملتا ہے کہ ہماری نیت صاف ہے مان بھی لیں ہماری نیت صاف ہے ۔مگر ان کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتے ،جو دیکھتے ہیں۔ جس دور میں پردے کا حکم ملا ہے اس دور میںتو ایک طرف ازواج مطہرات تھیںتو دوسری طرف صحابہ ؓتھے جن کی پاکدامنی کی گواہی خود قرآں دیتا ہے۔پھر نیت کا سوال کہاں سے آتا ہے؟۔ہماری ترقی میں حجاب رکاوٹ نہیں ہے پس اس بات کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے جبکہ جس مذہب نے عورت کو قدرومنزلت کے افق پر براجمان کیا ہے وہ عورت کو شمع انجمن بننے سے روکتا ہے،حیا اور پردہ داری اور عفت مآبی کی تعلیم دیتا ہے، گھر کی ملکہ کو اہل خانہ کے سوا ہر ایک کے لیے قرۃالعین بننے سے منع کرتا ہے۔
عورت کی حمیت کا نگہبان ہے پردہ
اخلاق کے معیار کی پہچان ہے پردہ
(بارہمولہ کشمیر)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here