عالم نقوی
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے حالیہ اقدام کے نتیجے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ملک میں ہم جنسی ’’قابل دست اندازیِ پولیس جرم‘‘ کے زمرے سے باہر ہو جائے اور چیف جسٹس کی قائم کردہ نئی سہ رکنی بنچ دلی ہائی کورٹ کے ۲۰۰۹ کے فیصلے کو قائم رکھے جسے ۲۰۱۳ میں خود سپریم کورٹ کا لعدم قرار دے چکا ہے ۔
آج بھی دنیا کے نصف سے زائد ممالک میں ہم جنسی نہ صرف خلاف قانون ہے بلکہ اکثریت اسے غیر فطری بھی گردانتی ہے ۔
شمالی اور جنوبی امریکہ ،آسٹریلیا ،جنوبی افریقہ اور شمال مغربی یورپ کے چند ملکوں کے سوا اور کہیں اسے قانونی منظوری حاصل نہیں لیکن مغربی تہذیب و ثقافت کے تسلط کے نتیجے میں اب وطن عزیز میں بھی پتھروں کی بارش والے عذاب کو دعوت دینے والے غیر فطری فعلِ شنیع و قبیح کو قانوناً جایز قرار دیے جانے کے امکانات واضح طور پر نظر آنے لگے ہیں ۔
ابھی تک صرف ارجنٹینا ،اسپین ،آسٹریا ،امریکہ (یو ایس اے ) بلجیم ،برازیل ،برطانیہ ،کناڈا ،کولمبیا ،ڈنمارک ،فن لینڈ ،فرانس ،جرمنی، آئس لینڈ ،آئر لینڈ ،لکسمبرگ ،مالٹا ،میکسیکو ،نیدر لینڈ (ہالینڈ ) ،نیو زی لینڈ ،ناروے ،پرتگال ،ساؤتھ افریقہ ،سویڈن اور یوروگوئے ایسے ملک ہیں جہاں ہم جنسی اور ہم جنسوں کی شادی وغیرہ قانوناً جائز ہیں ۔
قرآن بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ ا لسلام کے بھتیجے حضرت لوط علیہ ا لسلام، ہم جنسی کی لعنت میں مبتلا جس قوم کی ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے تھےوہ شرقِ اُردن کے علاقے میں رہتی تھی۔بائبل میں اس قوم کے صدر مقام کا نام ’سدوم ‘ہے جو اب بحیرہ مردار(ڈیڈ سی ) میں غرق ہو چکا ہے ۔اس فعل خبیث کا انگریزی ہم معنی لفظSadomy اسی سے ماخوذ ہے ۔ہم جنسی کے اس قابل نفرت فعل سے یوں تو بد کردار لوگ کبھی باز نہیں آئے لیکن مولانا مودودی کے لفظوں میں’’یہ فخر صرف یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفہ نے اس گھناؤنے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبے تک اُٹھانے کی کوشش کی اور اس کے بعد جو کثر باقی رہ گئی تھی اسے یورپ (کے بعض ملکوں بلکہ موجودہ نام نہاد مہذب مغربی دنیا نےجس کی فہرست اوپر درج ہے ) پورا کر دیا ہے ۔فطری جنسی ضرورت کے لیے ہم جنسی قطعی طور پر فطرت کے خلاف ہے ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات اَنواع میں نر و مادہ کا فرق محض تناسُل اور بقائے نوع کے لیے رکھا ہے ۔اور نوع انسانی کے اندر اُس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اُس سے تمدن کی بنیاد پڑے ۔جو لوگ فطرت کی اس اسکیم کے خلاف عمل کر کے خود اپنے ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرتے ہیں وہ بیک وقت متعدد جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
اولاً ایسے لوگ اپنی معمول کی طبعی ساخت اورنفسیات سے جنگ کرتے ہیں اور اس میں خلل ِ عظیم برپا کر دیتے ہیں جس سے دونوں کے جسم ،اَنفُس ،اور اَخلاق پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ۔دوسرے وہ فطرت کے ساتھ غداری اور خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں کیونکہ فطرت نے جس لذت کو نوع انسانی اور اس کے تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کے ساتھ وابستہ کیا تھا وہ اُسے کسی بھی خدمت کی بجا آوری ،کسی فرض اور حق کی ادائگی اور کسی ذمہ داری کے التزام کے بغیر چُرا لیتے ہیں۔
تیسرے یہ کہ وہ انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بد دیانتی کرتے ہیں کہ جماعت کے قائم کیے ہوئے تمدّنی اداروں سے فائدہ تو اُٹھا لیتے ہیں مگر جب اُن کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھانے کے بجائے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کے ساتھ ایسے طریقے پر استعمال کرتے ہیں جو اجتماعی تمدن و اخلاق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں ، ایجاباً مضرت رساں بھی ہیں ۔وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نا اہل بنا دیتے ہیں اور اپنے ساتھ ایک اور مرد کو بھی غیر طبعی زنانہ پن میں مبتلا کردیتے ہیں اور اس طرح ہر ہم جنس جوڑا کم از کم دو عورتوں کے لیے بھی صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے ‘‘ (تلخیص تفہیم ص ۲۶۵)۔
پوری قوم لوط کو اللہ نے اسی لیے پتھروں کی بارش کے ذریعے نیست و نابود کر دیا تھا ۔