9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
عشرت معین سیما ۔۔برلن جرمنی
“ تمہاری گاڑی میں سردیوں کے ٹائر نہیں بدلے گئے ہیں ۔۔۔ اور یاد ہے نا ! آج پہلی دسمبر ہے ۔۔۔۔آج تم اپنی گاڑی چھوڑ جاؤ تو میں ورکشاپ میں جاکر پہئے بدلوا لوں گا” میرے شوہر نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے مجھے مخاطب کیا ۔ میں صبح آفس جانے کے لیے تیار تھی اور گاڑی کی چابی اٹھا کر انہیں خدا حافظ کہنے کے لیے کمرے میں آئی تھی ۔“
اوہ ! آج سے تو گاڑی میں ونٹر وہیل بدلنا لازمی ہیں ۔۔۔۔ سردی چاہے دیر سے آئے لیکن سردی کے قانون اس ملک میں پہلے ہی لاگو ہوجاتے ہیں۔ابھی تو موسم بہتر ہے اتنی سردی تو نہیں ہے کہ پہئے بدل دئیے جائیں”
میں نے کلائی پہ بندھی گھڑی پر نظر ڈالی اور جرمنی کے نظام و قانون پر اپنا بے لاگ تبصرہ کرنے لگی ۔
“ ابھی تو وقت ہے تم دس منٹ میں جانے والی سٹی ٹرین سے آفس پہنچ سکتی ہو”
میرے شوہر نے کمرے کی وال کلاک پر نظر ڈالی اور میری اس تنقید کو رد کرتے ہوئے مجھے سرکاری آمد رفت کے زرائع استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ اس سے قبل کہ وہ ماحولیات اور قومی بچت پر اپنا لیکچر شروع کرتے میں نے ایک ہی لمحے میں ٹرین سے جانے کا فیصلہ کیا اور گاڑی کی چابی و کاغذات پرس سے نکال کر فوراً واپس میز پر رکھ دیئے اور انہیں اس پرخلوص پیشکش پر شکریہ ادا کر کے خدا حافظ کہتی ہوئی جلدی سے گھر کے گیٹ کی جانب بڑھ گئی ۔
ٹرین کا آخری اسٹیشن ہمارے گھر کے قریب تھا ۔ میں پانچ منٹ میں تقریباً دوڑتے بھاگتے میں اسٹیشن کے قریب پہنچی ۔ ٹکٹ مشین سے ٹکٹ نکالنا تھا لیکن وہاں مشین کے سامنے پہلے ہی ایک عورت کھڑی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی ۔ میں نے اپنے موبائل فون میں سٹی ٹرین سروس کی ایپ کھولی اور وہاں آن لائین ٹکٹ کی فروخت پر کلک کرتے ہوئے ٹکٹ خریدا اور ٹرین کے پہلے ڈبے میں داخل ہوگئی- میرا دھیان موبائل فون پر تھا ۔ جیسے ہی میں ٹرین کے اس ڈبے میں داخل ہوئی تو ایک ناگوار بو اور خالی ڈبے میں ایک عورت عجیب و غریب حالت میں بالوں سے چہرہ چھپائے اورسر کو جھکائے دیکھا ۔ میں ٹھٹھک گئی وہ عجیب سی آواز میں سسکیاں رہی تھی۔ اس کے میلے اور کھرنڈ ذدہ زخموں سے بھرے ہاتھ اور پاؤں سے خون رس رہا تھا ۔ صبح کے وقت ٹرین اکثر کام پہ جانے والوں اور اسکول کالج جانے والے بچوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ لیکن آج ٹرین قدرے خالی تھی جس کی وجہ ایک تو اسکول کالج کی تعطیلات اور دوسری وجہ اسٹیشن پر تعمیراتی کام کی وجہ سے ٹرین کی غیر معینہ آمد و رفت تھی۔ لیکن میرا خیال ہے کہ اس ڈبے کے خالی ہونے کی ایک وجہ یہ عورت بھی تھی ۔ جس کے پاس سے ایک انتہائی تیز بدبو نے پورے ڈبے کی فضا کو ناگوار بنا دیا تھا ۔ اس کی درد بھری آواز میں سسکیاں جو کبھی اونچی ہوکر کھڑی ہوئی ٹرین کے انجن کی گڑگڑاہٹ کو دبانے لگتی تھیں ساتھ ہی اس عورت کا پر اسرار وجود بھی صبح صبح اس ڈبے کو وحشت ناک بنا رہا تھا۔
صبح ساڑھے چھ بجے جب میں بھی ٹرین کے اس ڈبے میں داخل ہوئی تو پہلے صورتحال سے گھبرا کر باقی لوگوں کی طرح ڈبہ بدلنے کے لیے ایک لمحے اُلٹے قدموں جانے کا ارادہ کیا۔مگر جب اُس عورت کے منہ سے زوردار الفاظ “ گوڈ سائی ڈانک( خدا تیراشکریہ “ کے سنے تو میرے قدم وہیں رک گئے ۔ وہ اتنی بری حالت میں بھی اپنے رب کوشکریے کے ساتھ یاد کر رہی تھی۔میں ہمت کرکے ڈبے میں داخل ہوگئی اور اُسکے عین سامنے کی سیٹ پربیٹھ گئی۔اس نے اپنے بالوں سےچھپے چہرے سے میری جانب دیکھنے کے لیے نظر اٹھا ئی اور اپنی ساری طاقت جمع کر تے ہوئے زورسےآواز لگائی” بھاگ جاؤ” بھاگ جاؤ یہاں سے مجھے سکون سے رہنے دو”
اُ سکاسراسی طرح جھکا ہوا تھا۔ اس کے اس طرح چیخنے پر میں زرا گھبرا گئی تھی ۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا ۔ مگر پھر بھی میں اپنے حواس جمع کر کے کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی ٹرین کے چلتے ہی میں نے اپنا بیگ کھول موبائل بیگ میں رکھنا چاہا لیکن صرف اپنے تحفظ کا سوچ کر چپکے سے بیگ کی آڑ سے اُس عورت کی دو تصاویر بنا ڈالیں ۔ کچھ لمحے بعد ہمت کر میں نےاپنالنچ بکس اور پانی کی بوتل بیگ سے نکال کر اسکی طرف بڑھادیئے ۔ ایک جھٹکے سےاُسنے میرے ہاتھ سے لپک کرچیزیں چھین لیں اور ڈبہ کھول کر اُسی تیزی سے اس میں رکھے سینڈوچ کھانا شروع کر دیئے۔اس کے اس اچانک رد عمل سے میں اور بھی ڈر کر چونک گئی اس وقت میرادل بھی اس اچانک حملے پرزورزورسےدھڑکنے لگا تھا ۔ اس وقت مجھے کچھ دیرکے لیے واقعی اس عورت سے ڈر محسوس ہوا تھا ۔کیونکہ ٹرین کے اس ڈبے میں صرف ہم دونوں تھے ۔ چند لمحوں بعد وہ پراسرارعورت سینڈوچ کے ساتھ بھر پور انصاف کر نے لگی شاید اس نے کافی دیر سے کچھ نہیں کھایا تھا ۔ میرے لنچ سے وہ اپنی دیرینہ بھوک مٹانے لگی۔کچھ دیر کے بعد میں نے ایک بارپھر ہمت کی اور اپنے بیگ سے ٹیشو پیپر نکال کراسکومنہ اورہاتھ صاف کرنے کو پیش کیئے تواُس نے بھی بلا توقف جلدی سے وہ بھی لے لیے۔ اس وقت ایک نظر اس نے غور سے مجھ کو دیکھا اور پھر سرجھٹک کر ٹیشو پیپر سےاپنے ہاتھ اور پاؤں سے بہتےخون کو پونچھ نے لگی۔کچھ دیر بعد اس نے لنچ بکس اور بوتل زمین پر پھینک دیے اور ایک ساتھ بہت سارے ٹیشو پیپرز پاؤں کے پنجوں میں لپیٹ لیے اور اپنے دونوں ہاتھ بغل میں دبا کر اور اپنے بال چہرے پر بکھیر کر پہلے کی طرح اسی حالت میں بیٹھ گئی جیسے پہلے بیٹھی ہوئی تھی ۔ ٹرین اپنی مخصوص رفتار میں چل رہی تھی ۔ میں کچھ دیر بعد اپنی جگہ سے اٹھی اور ٹرین کے اس ڈبے میں بکھرے ٹیشو پیپر سمیٹنا شروع کر دیئے اور خالی پانی کی بوتل اور لنچ بکس زمین سے اٹھا کر اپنے بیگ میں واپس رکھنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھے سےکچھ بول رہی ہے ۔ میں نے اس کے ہلتے ہوئے ہونٹوں کو غور سے دیکھا تو محسوس ہوا کہ اس کے منہ سے شاید میرےلیے شکریے کےالفاظ ادا ہورہے ہیں ۔میں نے اس کو غور سے دیکھا ۔ اُس لمحے میں نے مسکراتاہوااس کا معصوم سا چہرہ الجھے بالوں کے پیچھےچھپا ہوا تھا۔ اس وقت اس نے پہلو بدلا وہ اپنے دونوں ہاتھوں اپنی بغلوں سے نکال کر اپنی گود میں رکھنے لگی اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر دییں تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پیٹ بھرنے کے بعد اب اُسے کچھ قرار آگیا ہو ۔ ٹرین سیٹی بجاتی آگے بڑھ رہی تھی۔
میرے دل میں اس معصوم چہرے والی ادھیڑ عمر اس عورت کے لیےاب خوف کی جگہ ہمدردی کے جذبات پختہ ہورہے تھے۔ میں سوچ رہی تھی کہ خداؤں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے والی یہ عورت یقیناً کسی اچھے خاندان کی تربیت میں پلی ہے۔خدا جانے زمانے کی تلخیاں اسے کیسے اس حال تک لے آئیں ۔ میں دل ہی دل میں دعا بھی کر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے اور کسی کو بھی اس حال تک نہ پہنچائے ، پردیس میں تنہائی اور اکیلا پن سب سے بڑا روگ ہے ۔ ناگوار بد بو کے سوا اب اس ڈبے میں فضا قدرے بہتر ہوگئی تھی۔ ہم ایک دوسرے کے لیے زیادہ اجنبی نہیں رہے تھے۔ ٹرین کا اگلا اسٹیشن آنے کو تھا ۔وہ اچانک اٹھی اور ٹرین کے رکتے ہی آٹومیٹک دروازہ کھلنے پر وہ میرے قریب آئی ۔ میں ابھی اس صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اُس نے اپنی اسکرٹ کی جیب سے ایک کاغذ کا ٹکڑانکالا اور اگلے اسٹیشن پر اتر نے سے قبل میری طرف اچھالتی ہوئی ہوئی یکدم لوگوں کے ہجوم غائب ہوگئی ۔ میں نے یہ مڑا تُڑا کاغذ کھول کر دیکھا۔کاغذ پر جرمن زبان میں لکھا تھا
”میں ڈیمنشیا کی مریض ہوں براہ مہربانی مندرجہ ذیل پتے اورفون نمبر پر میرے بیٹے سے رابطہ کریں ۔ ڈاکٹر لوڈیا بیکر “
میں نے کاغذ کی اس پرچی سے نظر اٹھا کر پلیٹ فارم پر ٹرین میں اترتے اور چڑھتے لوگوں کے رش کی جانب اس امید سے دیکھا کہ شاید وہ مجھے دوبارہ نظر آجائے لیکن وہ اتنی تیزی سے ٹرین کے رکتے ہی اسٹیشن پر اتری تھی اور پل بھر میں غائب ہوئی تھی کہ میں بھی کوئی فیصلہ ہی نہ کر پائی کہ اسٹیشن پر ڈیڑھ منٹ رکنے والی اس ٹرین سے اس انجان عورت کے پیچھے اتروں یا نہیں۔ اگلی ٹرین نہ جانے کب آئے۔آفس کو بھی دیر ہورہی تھی ۔ ٹرین کے چلتے ہی میں نے پلیٹ فارم پر اسے دیکھنے کی کوشش کی لیکن چند لمحوں میں وہ اجنبی پراسرار عورت پلیٹ فارم پہ میری نظروں سے اوجھل ہوگئی – میں ایک پچھتاوے کا احساس اپنے اندر محسوس کرنے لگی تھی ۔ میری نظر اس وقت میرے ہاتھ میں پکڑے موبائیل پر گئی ۔ میں نے جلدی سے پرچی پہ لکھے اس موبائل نمبر پر کال کی۔ دو تین بیل جانے کے بعد دوسری جانب سے قدرے نیند میں ڈوبی آواز آئی
ہیلو ! اسٹفان بیکر از ہئر
میں نے “ بیکر “ نام سن کر اندازہ لگایا کہ یہ جولیا بیکر کا کوئی رشتہ دار ہی ہے ۔ پھر میں نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے اپنا تعارف کروایا ۔۔۔۔ہیر از مسز انور” ۔۔۔
میں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اس واقعہ کے سارے متعلقہ الفاظ جمع کیے میں اورکہنا شروع کیا ” میں یہاں ٹیلٹو شہر کے آخری سٹی ٹرین اسٹیشن پر ٹرین نمبر ایس پچیس کے ڈبے میں کچھ دیر پہلے سوار ہوئی تو ایک عورت برے حال میں بیٹھی تھی اور۔۔۔
ابھی میں اپنی بات مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ دوسری جانب سےاسٹیفان بیکرنےکہا “ جی جی میں سمجھ گیا کسی لوڈیا بیکر کے پاس سے آپ کو یہ نمبر ملا ہے۔ یقین جانیئے میں کسی لوڈیا بیکر کو نہیں جانتا ۔ آپ برائے مہربانی پولیس کو کال کریں یا قریبی کسی ہسپتال میں اس عورت کو پہنچا دیجئے اور پلیز مجھے دوبارہ فون نہ کیجئے گا۔
اس نے انتہائی کرخت لہجے میں جواب دیا ۔ دوسری جانب سے فون بند ہوگیاتھا۔ میں حیران ہوکر اسٹفان بیکر کے جواب پر اپنی سوچوں میں اُلجھ رہی تھی اور ٹرین پٹری پر آگے کی جانب بڑھ رہی تھی بالکل معاشرے میں پھیلی بے حسی کی طرح ۔