وہ خطیب اعظم تھا

0
370

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

سید علی ہاشم عابدی

بیسویں صدی کے مشہور و ممتاز عالم دین خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ سنہ 1928ء میں ضلع رائے بریلی میں پیدا ہوئے ـ آپ کے والد جناب سید محمد نقی رضوی صاحب مرحوم تھے جو بجنور ضلع لکھنو کے رہنے والے تھے۔
ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ ناظمیہ لکھنو میں داخلہ لیا اور وہاں سے ممتاز الافاضل کی سند حاصل کی۔ الہ آباد بورڈ سے منشی، مولوی، عالم، فاضل، فاضل طب، فاضل فقہ وغیرہ کی اسناد بھی حاصل کیں۔ مدرسہ ناظمیہ سے فارغ ہونے کے بعد مدرسۃ الواعظین میں داخلہ لیا، اور وہاں سے فارغ ہوے۔ آپ کو مدرسۃ الواعظین سے گہرا لگاو تھا اس لئے 18 برس تک اس سے وابستہ رہے، ان دونوں مدارس میں موجود اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ لیکن جس استاد نے آپ کی شخصیت سازی میں کلیدی کردار نبھایا وہ علامہ سید عدیل اختر اعلی اللہ تعالی مقامہ تھے۔ جو شب ھاے پیشاور کے مصنف مرحوم سلطان الواعظین قدس سرہ کے اصحاب میں سر فہرست تھے۔
دنیا و آخرت میں کامیاب انسان وہی ہے جو اپنے مقصد حیات کو درک کر لے اور اسی مقصد کی روشنی میں اپنی رفتار و گفتار و کردار کو سنوارے اور اس کردار سازی کے مراحل میں جس چیز کو محوریت حاصل ہے وہ “خلوص” ہے۔ جیسا کہ شاہ کلام امیر بیان حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے فرمایا ” سارے انسان ہلاک ہو جائیں گے سواے علماء کے، تمام علماء بھی ہلاک ہو جائیں گے سواے علماے با عمل کے اور یہ علماے با عمل ہلاک ہو جائیں گے سواے انکے جو مخلص ہوں۔ اور مخلصین کے لئے بہت زیادہ خطرات ہیں” مولا کی حدیث کی روشنی میں نجات نہ علم میں ہے اور نہ عمل میں بلکہ اسی علم و عمل میں نجات پوشیدہ ہے جس میں خلوص کار فرما ہے۔


خلوص یعنی جس میں کسی طرح کی کوئی ملاوٹ نہ ہو، اسی لئے وہ پانی جس میں کوئی چیز ملی نہ ہو اسے آب خالص کہا جاتا ہے اور حکم شریعت کے مطابق خالص پانی سے ہی انسان طاہر اور پاک ہو سکتا ہے، اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب بغیر خالص پانی کے انسان کو ظاہری طہارت میسر نہیں ہوتی اور نہ ہی پاک و پاکیزہ مقامات تک اس کی رسائی کی شریعت اجازت دیتی ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ بغیر خلوص کے انسان اپنے مقصد حیات کو پا سکے؟ قرآن کی روشنی وہی دین اور وہی عبادت مقبول ہے جس میں خلوص پایا جائے۔ “قُلْ إِنّی أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّینَ”(زمر: 11) “وَ ما أُمِرُوا إِلاّ لِیَعْبُدُوا اللّهَ مُخْلِصینَ لَهُ الدِّینَ.” (بینه: 5)
قرآنی آیات اور معصومین علیھم السلام کے سیرت و احادیث کی روشنی میں جب انسان راہ خلوص میں قدم رکھتا ہے تو اسے اپنی تعریف کی تشنگی کا احساس نہیں ہوتا وہ نہ لوگوں کی تعریف سے خوش ہوتا ہے اور نہ ہی لوگوں کی مخالفت سے رنجیدہ خاطر ہوتا ہے۔ اس کے پیش نظر فقط معبود کی رضا ہوتی ہے کہ بس میرا مالک مجھ سے راضی رہے چاہے کوئی راضی رہے یا ناراض۔ ظاہر ہے انسان جس قدر اپنا پرچار کرے اسے وہ شہرت نہیں مل سکتی۔ بہرحال یہ انسان ہے، اس کے وسائل محدود ہیں اب اگر یہ وقتی شہرت کو اپنی کامیابی سمجھنے لگے تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی جھاگ کو پہاڑ سمجھ لے تو جھاگ پہاڑ نہیں بن جائے گی بلکہ خود یہ سمجھنے والے کی عقل پر سوالیہ نشان ہو گا ؟؟؟ اسی طرح ہم نے تاریخ اہلبیت علیھم السلام میں پڑھا کہ وہ عرشی ذوات مقدس اس فرش زمین پر اجنبی تھے اور ان کی زندگی میں ایسے مواقع بھی آئے کہ سلام کرنا تو دور جواب سلام سے بھی لوگوں نے محروم کر دیا۔ لیکن آج ان لوگوں کا کوئی نام نشان نہیں لیکن اللہ کے ان مخلص بندوں (اہلبیت علیھم السلام) کا تذکرہ پوری کائنات بلکہ فوق کائنات پر محیط ہے۔
سرکار خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ کی وفات کو 35 برس گذر گئے لیکن آج بھی ان کا تذکرہ زباں زد خاص و عام ہے تو اس کا واحد سبب آپ کا خلوص ہے۔ اللہ نے آپ کو وہ لطیف اور نفیس انداز بیان اور پرکشش لہجہ عطا فرمایا تھا کہ بہت جلد ہی آپ کی ذاکری کا شہرہ ہو گیا اور آپ آسمان خطابت کے خورشید درخشاں بن گئے۔ ملک و بیرون ملک آپ کی خطابت کے چرچے تھے۔ لیکن آپ اس پر خوش نہ ہوئے کیوں کہ آپ خطابت کے مفہوم و مقصود سے واقف تھے، خطابت چرپ زبانی، لفاظی ، اچھل کود اور بے تکے اشارہ کو نہیں کہتے بلکہ نیک ، فصیح اور مستدل گفتگو کے ذریعہ لوگوں کو توحید کی دعوت دینے کو خطابت کہتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ نے نبی خدا جناب شعیب علیہ السلام کو “خطیب الانبیاء” کے لقب سے یاد کیا، (تفسیر نور الثقلین، ج ۲، ص ۳۹۴.) ، کیوں کہ آپ نے بہترین اسلوب سے اپنی امت کو توحید و خدا پرستی کی دعوت دی۔ خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ نے جب ملک کا تبلیغی دورہ فرمایا تو محسوس کیا کہ قوم اپنی خاندانی اور علاقائی رسم و رواج کی زنجیروں میں اس طرح جکڑی ہے کہ دینی احکام کی پابندی کا فقدان ہے۔ لھذا آپ نے دیندار بنو دیندار بناؤ اس قوم کی ہر فرد کو دیندار بنا دو” کے نعرے کے ساتھ دینداری کی تحریک کا آغاز فرمایا۔ کشمیر سے کنیا کماری تک گاؤں گاؤں بستی بستی دورہ کیا اور قدم قدم پر مکتب کی شکل میں دینی تعلیم کے چراغ روشن کرتے چلتے گئے۔ صاحبان نظر سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آج اس ترقی یافتہ زمانے میں بھی سفر کرنا کتنا دشوار ہوتا ہے اور خصوصا گاوں دیہات کا سفر لیکن آپ بغیر تھکے اس سفر پر گامزن رہے اور یہ بھی نکتہ قابل غور ہے کہ آپ کے یہ تبلیغی سفر کسی نظام کے تحت نہیں تھے بلکہ از خود شاہراہ تبلیغ پر رواں دواں تھے۔ بس آپ کی زبان پر ایک ہی جملہ تھا وقت کم ہے کام زیادہ ہے”۔ آپ نے 11 اگست 1968 میں ادارہ تنظیم المکاتب کو اسی مقصد کی خاطر قائم کیا اور اپنی زندگی میں 1985 تک 515 مکاتب قائم فرمائے جسکی آج تعداد 1000 سے زیادہ ہے۔ صرف مکاتب ہی نہیں بلکہ اس کا نصاب تعلیم بھی مرتب فرمایا کہ جو آج بھی رائج ہے۔ اگر یہ کہا جاے تو مبالغہ نہیں کہ آج پچاس برس اور اسے کم عمر والے اکثر علماء و مومنین نے انہیں مکاتب میں ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی ہے ورنہ مکاتب کی نصابی کتب سے ضرور استفادہ کیا ہے۔
مکاتب کے علاوہ جامعہ امامیہ کا قیام، پندرہ روزہ تنظیم المکاتب اخبار جو آج ماہانہ میگزین کی شکل میں شائع ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ انگنت خدمات ہیں جو ادارہ تنظیم المکاتب کے زیر اہتمام آپ نے آغاز کیا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ نے صرف ہندوستان میں تنظیم المکاتب قائم نہیں فرمایا بلکہ پاکستان میں بھی اس کی بنیاد رکھی جس کے زیر نظر آج بھی پاکستان میں مکاتب سرگرم عمل ہیں۔
ادارہ تنظیم المکاتب کے علاوہ آپ کے دوسرے علمی آثار آپ کی مشہور تصنیفات ہیں “تنویر الشہادتین”، “پیاس”، “میں کیوں شیعہ ہوا” (ترجمہ)دس مجلسیں اور مختلف موضاعات پر مقالات ہیں۔
وفات حسرت آیات
شب جمعہ 18 شعبان سنہ 1405ھ مطابق 9 مئی سنہ 1985ء کو مینڈر، ضلع پونچھ (کشمیر) میں حرکت قلب بند ہوجانے سے آپ کا انتقال ہوا،۔ آپ تبلیغ دین کے مقصد سے کشمیر تشریف لے گئے تھے ـ جنازہ وطن لایا گیا اور 11 مئی سنہ 1985ء کو اپنے وطن قصبہ بجنور ضلع لکھنؤ میں دفن ہوئے۔۔۔۔مومنین کرام سے گذارش ہے ایک بار سورہ حمد اور تین بار سورہ توحید کی تلاوت فرما کر سرکار خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ کی روح کو ایصال فرمائیں۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here