9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی
’’میرے دیش واسیو!ہمارا دیش ابھی مہان نہیں بنا ہے۔اپنے دیش کو مہان بنانے کے لئے ہمیں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔‘‘خواب گر سیاسی نیتاقومی سطح کے سیاسی جلسے میں سیکڑوں لوگوں کے سامنے شعلہ بیان تقریر کررہاتھا۔’’پچھلے پچاس ساٹھ ورشوں سے دیش کا ایک اہم اور باعزت طبقہ امتیازی برتاو ٔ کا شکار رہا ہے۔میں کہتا ہوں کہ اگر ہمیں گاندھی جی کے خواب کو پورا کرناہے تو ملک کی اس بڑی اقلیت کو پورا سمان دینا ہوگا‘جبھی ہمارا دیش مہان دیش کہلائے گا۔‘‘
’’صدر صاحب۔۔۔اتنی کوشش کے باوجود بھی ہمارا ووٹ بینک کچھ ڈھیلا سا دکھائی دے رہاہے‘‘ایک ممبرپارٹی میٹنگ میں اظہار خیال کرنے لگا۔’’ہماری نظریں اقلیتی ووٹ پر تھیں ‘لیکن ان کا رجحان مخالف پارٹیوںکی طرف زیادہ نظر آرہا ہے۔‘‘
’’اگر اس طبقے کا سپورٹ ہمیں نہیں ملا ‘‘ایک اور ممبر جذباتی انداز میں بول پڑا۔’’توالیکشن میں پارٹی کی پوزیشن خراب ہوسکتی ہے۔‘‘
’’یہ طبقہ نرمی سے نہیں ماننے والا ‘ان کی عقل سٹھیا گئی ہے ‘‘خواب گر سیاسی نیتا تمام باتیں سن کر کہنے لگا۔’’انہیں سمجھانے کی کوئی کارگر ترکیب نکالنی پڑے گی‘تب ان کی عقل ٹھکانے پر آے گی۔‘‘
’’ان لوگوں نے لوٹ مار کرکے ہمارے گھرکوبھی آگ لگا دی‘‘حیدر علی کی بہن پرنم آنکھوں سے اپنی غم بھری کہانی سنا رہی تھی۔’’آپ کے جیجاجی ہاتھ جوڑ جوڑ کر ان سے زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے لیکن اسے آگ میں زندہ جلایا گیااورمیں اندھیرے کی آڑ میں وہاں سے بچوں کے ساتھ بھاگ آئی۔‘‘
’’اللہ پر بھروسہ رکھو‘‘حیدر علی اپنی غم زدہ بہن کو دلاسہ دینے لگا۔’’میں کل ہی پولیس اسٹیشن میںرپوٹ درج کراونگا۔’’بستی کے دوسرے لوگوں کا کیا حال ہے؟‘‘
’’ساری بستی پر قیامت سی ٹوٹ پڑی ہے‘‘وہ ہچکیاں لیتے ہوئے کہنے لگی۔’’تمام لوگ وہاں سے بھاگ گئے ہیں۔‘‘
’’کیا تم وہاںپر موجود تھے؟‘‘پولیس افسر حیدرعلی سے پوچھ بیٹھا۔’’نہیں جناب!‘‘حیدر علی نے جواب دیا۔’’میں شانتی نگر میں رہتا ہوں ۔یہ فساد توہمارے گاوں سے کئی کوس دور دوسرے گاوں میں ہوا ہے۔وہاں میری بہن رہتی ہے۔اسی پر غم کا یہ آسمان ٹوٹ پڑا ہے۔‘‘
’’کیا نام بتایا تم نے‘ہاں حیدر علی۔‘‘پولیس افسر سگرٹ سلگاتے ہوئے پوچھنے لگا۔’’قانون اپنا کام جبھی صحیح طریقے سے کرسکتا ہے جب اس کے پاس ثبوت و شواہد موجود ہوں۔تم اپنی بہن کوتھانے لیکر آو‘ہم ان سے بیان لینے کے بعد ایف ۔آئی ۔آر درج کریں گے۔‘‘
’’لیکن جناب !آپ ایف‘آئی‘آر درج تو کر لیں‘‘میں انہیں بھی یہاں بیان دینے کے لئے پیش کرونگا۔‘‘
’’آپ سے جو کہا گیا وہ کرو‘ہمیں قانون سکھانے کی کوشش مت کرو‘‘پولیس افسر تیور بدلتے ہوئےبول پڑا۔’’چلے جاو یہاں سے اور کل بہن کو ساتھ لے آنا۔‘‘
’’ٹھہرو حیدرعلی ٹھہرو‘‘چند لوگوں نے عاصف علی کو ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے روکا۔’’تیز رفتار بائیک پرکہاں جارہے ہو؟‘‘
’’میں پولیس اسٹیشن سے لوٹ رہاہوں‘‘حیدر علی نے بائیک کو سائیڈ میں کھڑا کرتے ہوئے کہا۔’’اب گھر جارہا ہوں‘لیکن آپ لوگ اتنے گھبرائے ہوئے سے کیوں ہیں؟‘‘
’’ہم لوگ وہاں سے جان بچاکر بھاگ آئے ہیں۔‘‘ایک آدمی پھولتی سانس میں بول پڑا۔’’ساری بستی برباد ہوگئی۔تمہاری دکان بھی جلا دی گی اورتمہارے گھر والے۔۔۔۔۔!‘‘
’’گھر والے۔۔۔!‘‘حیدرعلی پریشان ہوکر پوچھ بیٹھا۔’’کیا ہوا ان کو۔۔۔؟‘‘
’’مت پوچھ حیدر علی مت پوچھ‘‘ایک اور ہمسایہ آنسو بہاتے بہاتے کہنے لگاـ۔’’تم بھی ہمارے ساتھ بھاگ جا۔‘‘
’’ نہیں میں کیوں بھاگوں‘‘حیدرعلی جیب میں ہاتھ ڈال کر موبائیل تلاشنے لگا۔’’او شٹ‘وہ تو چیکنگ کے دوران تھانے میں ہی رہ گیا۔‘‘
’’تو کیا ہم بھی تھانے میں رپوٹ درج کرائیں۔‘‘
’’نہیں‘‘حیدر علی مایوس لہجے میں بول پڑا۔’’وہاں جانے میں کوئی فائیدہ نہیں ہوگا۔‘‘
ایک خوف ناک مانوس آواز چہار جانب سے گونج اٹھی۔اس گونج سے تمام لوگوں کے اوسان خطا ہوگئے اور وہ حواس باختہ ہوکربھاگنے لگے۔حیدر علی بھی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنے لگا۔ایک انجانہ ساخوف اسے اپنی جنم بھومی سے بھاگنے پر مجبور کررہاتھا۔وہ بھاگتا رہا‘ بھاگتا رہا ۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے بھاگنے کا یہ خوف اس کا تعاقب صدیوں سے کررہا ہے۔بھاگتے بھاگتے اس کا جسم تھکن سے چور ہورہا تھا۔ وہ بھوکا پیاسا رات کے اندھیرے میں شہر پہنچ گیا۔دوڑتے دوڑتے اس کے پاؤں شل ہوگئے تھے۔شہر کے اندر اس کے کئی پہچان والے لوگ تھے لیکن بدلتے ماحول کی زہرناکی نے اس کو اتنا خوف زدہ کیا تھا کہ وہ اندھیرے میں کسی گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ہمت بھی نہ کرسکا تاکہ مصیبت کی اس گھڑی میں کہیں پر سر چھپا سکے۔
زور کا ڈنڈا پڑتے ہی وہ گہری نیند سے ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔خمار آلودآنکھوںسے اس نے اپنے آپ کو تین چار پولیس والوں کے گھیرے میں پایا۔وہ تھوڑا سنبھل کر کھڑا ہوگیا۔
’’ادھر کیا کررہا ہے‘‘ایک پولیس والا پوچھ بیٹھا۔’’کیا نام ہے تمہارا؟‘‘
’’حیدرعلی‘‘وہ خوف زدہ ہو کر کہہ اٹھا۔
’’توہماری انفارمیشن صحیح نکلی ‘ ذرا اس کی تلاشی لو‘‘دوسرا پولیس اشارہ کرکے بولا ’’کہیں کو ئی دھماکہ کرنے تو نہیں آیا ہے۔‘‘
’’نہیں ‘یہ تو خالی ہے۔‘‘تلاشی لینے والا بٹوا پھینکتے ہوئے بول پڑا۔’’اس کے پاس تو پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔‘‘
’’ادھرمندر میں کیا کر رہا تھا؟‘‘
’’مندر‘‘حیرت سے اس کے منہ سے نکل پڑا۔
’’نہیں تو کیایہ تمہارا لال قلعہ ہے‘‘پولیس والا طنز آمیز لہجے میں بول پڑا’’جہاں سے تم سارے دیش پرحکم چلاتے تھے۔‘‘
’’نہیں جناب‘دراصل بات یہ ہے کہ میں کل رات کے وقت شہر پہنچ گیا۔‘‘وہ معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا۔ ’’یہاں پر بہت سارے لوگوں کو سوتے دیکھ کر میں بھی یہاں سو گیا۔‘‘
’’سوگیا تو پھر یہاں کا مالک بنے گا‘‘ایک پولیس والا گردن پکڑ کر اُ سے مندر سے باہر پھینکتے ہوئے بول پڑا۔’’وہیں جاؤ جہاں سے آئے ہو۔‘‘
وہ دھڑام سے چوراہے پر گر پڑا۔اس کے گرتے ہی جیسے زمین پرزلزلہ سا آگیا۔اپنے بکھرے وجود کو سمیٹتے ہوئے وہ سوچنے لگا:
’’میں کہاں جاؤں۔۔۔۔؟یہی تو میری جنم بھومی ہے ‘یہی تو میرا وطن ہے ‘یہی تو شہید ٹیپو سلطان کا وطن ہے ۔ اس مٹی سے تو ہماری وفا پرستی کی مہک آتی ہے ۔اگرکتّوںکی بھونک سے شیر اپنے کچھار سےبھاگے گا تو یہ اسکے بہادرانہ وجود کے منافی ہوگا ۔میں وطن کا وفادار ہوں ‘غدّار نہیں۔میری وفاداریہی ان غدّاروں کی ہار ہے ۔ ‘‘
یہ سوچتے سوچتے اس کے لڑکھڑاتے قدم منزل کی جانب بڑھنے لگے ۔ خوف کی مانوس آواز چہار سو گونج رہی تھی ۔۔۔لیکن ۔۔۔وطن کی دھرتی کا سینہ اپنے وفادار پیڑ کی گہری جڑوں سے چوڑا ہورہا تھا۔
(کشمیر)
ضض