9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
تفسیر حسین
زندگی اس کے لیے بڑی سادہ سی تھی۔ ماں باپ نے ریکھیں (مسیں)نکلتے ہی جورو اس کے گلے ڈال دی۔وہ ماموں زاد تھی۔ یہ گاؤں کا الہڑ دیہاتی اور وہ گاؤں کے شہر جابسے ماں باپ کی دلاری۔گاؤں میں جی نہ لگا تو شوہر سمیت باپ بیٹی کو اپنے گھر لے آیا۔ اب بھانجا دامادسے گھر داماد ہوگیا۔وہ اپنے ساتھ گاؤں کی بہت کہانیاں لے کر آیا تھا۔ جیسے نیولے کا احترام ہر انسان پر واجب ہے اس لئے کہ وہ بہت سےسانپوں ناگوں ناگنیوں کو دھر دبوچتااور انھیں ان کے زہر سمیت دوسرے سنسار کا رستہ دکھاتاہے۔نیولے سےاس کی گرویدگی کا عالم یہ تھا کہ لوگوں نے اسے اسی نام سے بلانا بھی شروع کر دیاتھا۔ کنکڑ پتھر چلانے میں اس کو ئی ثانی تھا۔ جس آم پر نگاہ پڑتی پتھر اس کے ہاتھ سے چھٹے ہی اسی آم سے جاٹکراتا۔ اسے آم کی فکر پہلے نہ ہوتی پتھر پہلے اٹھاتا اور پھر آم کی شکل دیکھتا۔پتھر سے لگے زخم کو دیکھتا ۔ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے پر دکھ لرزتاپھراسے چاروں اور سے ٹٹولتا پھر سونگھتا گہرا سا نس اس کی سگندھ اندر اتا رنے کے لئے کھینچتا۔آم کی ادھڑی کھال درست کرکے کنارے رکھتاپھر دوسرے آم پر نشانہ سادھتا۔ تخمیآموں کے جہازی پیڑوں میں پتوں کے پیچھے چھپے پکے آم بھی اس کے پتھر کانشانہ قبول کرنے میں جیسے فخر محسوس کرتے تھے۔ بڑے بڑے سے پیڑوں پر بندر کی بھی زیادہ تیزی سے چڑھتا۔بالکل طوطوں اور پرندوں والی خصلتیں بھی اس میں خوب تھیں۔ پشت سے پکے آمکو دانتوں سے کتر دیتا۔ نصف پکے آم کو ڈال میں ہی کھا کر چھوڑ دیتا۔ چڑیوں کو کسی بھی آم کو کترتے دیکھتا تو ہاتھ میں پتھر آجاتا اور گلہری آم کتر کر کھا رہی ہوتی تو مسکرا کر دیکھتا اور گرویدگی سے دیکھے ہی جاتا۔جس پیڑ چڑھا ہوتا اور وہاں کو ئی گلہری شکم سیر ہوتی دکھ جاتی تو انگشت شہادت ہونٹوں پہ ایستادہ کر سکوت کو برقرار رکھنے کے اشارے کرتا۔گلہری شکمسیر ہو چکتی اور دسترس میں آنے لائق ہوتی تو بڑے پیار سے اسے پکڑتا چومتا اور پھر اس کی جگہ پر چھوڑ دیتا۔
نیولے کا گھر املی کے تین سو سال پرانے جہازی پیڑ سے کے پچھم طرف تھا۔ ہے املی کا پیڑ پیڑ نہ تھا گو پورے گاؤں کی چوپال تھی۔ بڑے بوڑھے اور ادھیڑ عورتیں پیڑ کی سونڈوں پر بیٹھے گپی ہانکا کرتے۔ ایک طرف راجنیتی کے سنگھاسن پر وچار پروسے جاتے،یادو ،اہر، چمار، پاسی، کرمی، بنیا، جلاہا، پنڈت ،ٹھاکر سب کے سمیکرن بٹھا ئے جاتے۔ گاؤں کی پردھان اور پردھانی بر بحث ہوتی پڑوسیوں کی خاندانیفوجداریاں داستان کی صورت بیان ہوتیں کہ فلان کی دشمنی تین پشتوں سے جاری ہے تو فلاں کاکھاب دان قرآن کی جھوٹی قسملینے سے ختمہوا تھا۔ عورتوں کی ٹولی کسی کی موت پر چرچا کرتی یتیمپچوں کی مسکینی پر آنسوں بہاتیں ۔ عورت کی جوانی کا نوحہ بھی دور چار بولوں پڑھ دیتیں۔ پھول سے معصوم بچے۔سوکھے منھ سے باپ کا جنازہ تکے جا رہے تھے۔ اور پتہ ہے وہ چھوٹا بچہ جنازے کے چاروں طرف چکر کاٹ تتلا کر کہے جا رہا تھا ابا تو رہے ہیں۔بیچاری عورت ابھی دس سال کی شادی ۔سامنےجوانی کی پوری کھیتی ابھی تو ایک آدھ بسوا ہی کاٹ پائی تھی کہ دیّا نےآگلگادی،زندگیکیبتی بجھادی اور پھر اپنیاپنی بہؤوں کی کہانیاں لے کر بیٹھ جاتیں۔ زیا دہ تر عورتیں اپنیبہؤوں کے دیر تک سونے سے نالاں ہوتیں۔انھیں کام چور کہتیں کچھ اپنےبیٹے کے بہو ہاتھوں اغوا ہونےکانوحہ کرتیں۔چوری اور چھنالے کے واقعے قدرے پھسپھسا ہٹوں میں بیانہوتے اور گٌیّاں کسیسےکہہ مت دیناسے بات شروع ہوتی۔ کہنے کامطلب یہ وہ پوروے میں املی کا پیڑ نہ تھا بلکہ وہ پوروے کی لوک سبھا ،ودھان سبھا کے ساتھ گھریلو سبھا کا مکھیہ استھان تھا۔ ان سب کے بیچ بچے وہاں کنچے کھیلتے ،نیولا کنچے کےسارے فارمیٹ میں چیمپئین تھا۔ وہ ہر کام میں ایمان دار تھا۔ بڑے سلیقے سے کھیلتا اور کھیل کو دیر تک بنا یے رکھتا۔ ساتھ ہی اس کے کان بھی کھلے رہتے عورتوں کی پھسپھسا ہٹوں اور مردوں کے منتروں سے بیک وقت آگاہ ہوتا رہتا۔
نیولے نے اس املی سبھا کی مجلسوں سے نت نیاگیان اور نت نئی کہانیاں اکٹھا کر لی تھیں۔اسے گاؤں اور پروے کی ساری سیا ست،میت، جھگڑ ےاور چھنالے ازبر تھے۔ اس نے جب بھی کوئی کہانی سنائی، اس میں زمین اور چھنالے کا ذکر ضرور آیا۔کہیں زمین پردہ ہوتی اور چھنالا وجہ تو کہیں زمین اصل وجہ ہوتی اور چھنالا الزام وبہتان۔
نیولے میں ایک اور خوبی بھی خوب تھی۔ وہ پرانے گانوں کے کیسیٹ بڑے شوق سے سنتا۔ رفیع محمود اور کشور اسے ازبر تھے۔ گانے کی دھن سن کر گانے کے بول بولنے لگتا۔ جو گانا زیادہ بھاتا اسے کہتا کیا پکا راگ گایا ہے بالکل نیولا ٹائپ۔
نیولے کی شادی کے شروعاتی دن اس کے بڑے مزے اور تجسس کے تھے۔ نکاح کی گھڑی جیسے قریب آتی گئی ،اسکا تجسس بڑھتا گیا۔ سارے نیے نویلے شوہروں کے دروں پر اس نے دستک دی ،بڑے گر اکٹھاکئے۔ اسنےاپنی زبان تک پر کام کیا۔ کتنے لفظ درست کئے ،کتنے جملے پوچھ پوچھ کر یاد کئے ۔فلمی گیتو کے مطلب سمجھے۔ اور بھر گیتوں کے لفظوں سے محاورے گڑھنے لگا۔ نیولے نے زیادہ پڑھائی نہ کی تھی۔ مامو زاد سے اس کی اتنی قربتیں بھی نہ تھیں کہ اس کی درست لیاقت کا اسےاندازہ ہوتا۔سو وہ تیاری پہ تیاری کیے جا رہا تھا۔اس کی زبان گو اچھی ہو گئی ہوگی لیکن اس کے اطوار وہی رہے۔ اس نے اپنی دیہاتی آن بان سے ہاتھ دھونے میں تکلف کیا۔ سادگی ،بے تکلفی، معصویت گو اس کی طبیعت تھی۔ اس سے بغیر ٹھیٹ تجربے اور چار چھ احساس اور جذبے کے جھٹکے دارجھکولوں کے بغیر چھٹکارا ممکن نہ تھا۔
نیولے کی شادی ہو گئی۔ اسنے بمباٹ سہاگ رات کی خبر اپنے ایک دو دوستوں کو دی۔ ایام عسل کی فصلکاٹ چکا تب تک اس کی جورو پاس پڑوس کی چھوریوں سے مانوس ہو گئی۔ اس نے پہلے پہل نیولے کے معصوم بھولپن پر راے ظاہر کی۔ بڑے سادے ہیں بڑے بھولے۔پاگل۔بیوی کی یہ رائے نیولے کی ملنسار، من موہنی، سادہ طبیعت پر اس کی فریفتگی خیال کی گئی۔نیو لابھی دن بھر بیوی کی سندرتا کے سمدر میں اپنے خیال کےاسٹیمر چلاتا ۔باغ میں املیکے پیڑ تلے یا ندی کنارے یا تو گیت گنگناتا یا بھر مسکراتا پھرتا۔
نیولے کے حسین دن جلدی ہی ڈھل گئے اور وہ کچھ کچھ بے چین رہنے لگا۔ لوگوں نے اسے نہ تو سانپ مارتے دیکھا اور نہ ہی گلہری کو چمکارتے۔ اس کے ہاتھوں میں غلیل بھی نظر نہ آئی جن سے وہ جنگل میں بغیر جال کے بٹیریں مارتا اور بالفور ذبح کرتا تھا۔ بس گوریوں کو مارنابلکہ چگتے کھاتے انھیں اڑانا بھی پاپ معلوم ہوتا۔نیولے اپنے سارے دلچسپ مشغلے تج دیے یہاں تک کہ سہ پہر کو اس نے گیت سننے بھی بند کر دئے۔ اس کی بیوی کے پاس آنے جانے والی لڑکیوں سے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی اسے بیوقوف اور نکھٹو ہونے کا طعنہ دینے لگی تھی۔
اس نے بیوی کو رام کرنے کے جتن شروع کئے۔ کھیت کھلیان کے کاموں میں دلچسپی لینے لگا۔ باپ کی زمین میں ہونے والی کھیتی اس کی توجہ سے ان کا انبار لگانے لگی اور وہ اناج کے انبار خرید کر ذخیرہ بھی کرنے لگا۔اس کے باپ نے کایا پلٹ کے پیچھے زن مریدی کی طاقت کا طعنہ دیا۔بنیا گیری سے باز رہنے کی نصیحت کی لیکن وہ نہ مانااور سال بھر کی مدت میں وہ بازار کے بنیوں اور کجڑوں کی ضرورت بن گیا۔ بنیوں کو دالسرسو گیہوں اور چاول بیچتا اور کجڑوں کو آلو اور پیاز۔نیولے نےاپنےسارے نشانوں کا رخ جو دھندھے کی طرف کیا تو کامچلنکلا اور ڈیڑھ سال کی تھوڑی مدت میں نیولا سیٹھ ہو گیا۔
اب اس کی بیوی کے پاس طعنے نہ پچے بس چڑچڑاہٹیں رہ گئیں۔اس نے اپنی بیوی کو گاؤں کی زندگی پر قانع کرنےکی لاکھ کوشش کی۔ہر کوشش نے چڑچڑے پن کا ہی منھ دیکھا تو اس کی مرضی پوچھی ،اس نے کو ئی سیدھا جواب نہ دیااور مائیکے جانے کی ضد باندھ لی۔مائیکے پہنچ اس نے سسرال نہ جانے کا اعلان کیا۔ چار ناچار نیولارام ہوگیااس نے اپنےماموں سے بمبئی منتقل ہونے کی ہامیبھر لی۔اور وہ بھی ماموں کے گھر جاپڑا۔
بتانے والے نے بتایاماموں بیٹری والا تھا۔ سو یہ بھی اسی کام میں لگ گیا۔ بیوی نے شوہر کا ڈینت پینٹ شروع کیا۔ نیولےنے بیوی کی خاطر کچھ دنوں کے لیے یہ تکلفات ڈھوئے اور آخر میں ان سے دستبردار ہو گیا کہ نہ اس کے مزاج میں اسے اس کی گنجائش دکھی اور نہ ہی دھندےمیں۔بیوی جس نے چند مہینے یہاں بڑی خوش دلی سے گزارے،امید سے ہو گئی۔نو مہینے بعد اس نے ایسا لڑکا جنم دیا جو آدھا نیولے پر تھا۔
نیولے نے اپنےخسرکی بیٹری سازی کاکام جلد ہی سیکھ گیا۔پس انداز کئے پیسے سے اس نے اپنا ذاتی کام شروع کیا اس کا یہ کام بھی چل نکلا۔خسر نے گھر دامادی میں اسے کچھ بے چین پایاتو اس کے لیے کرایہ پر دوسری کھولی لے لی ۔نیولے کی فیملی اس کھولی میں آ اتری۔ بیوی نے پھر سے نیولے کو رنگنے کے جتن کرنے شروع کئے تو اس بار وہ ہتے سے اکھڑ گیا۔ کہنے لگا‘‘جیساہوں ویسا رہنے دو۔’’
بیوی نے جیسے کو تیسا چھوڑ دیا۔جس حال میں تھی اسی حال میں مگن رہنے لگی۔کھولی کی دو منزلیں تھیں۔ایک اوپر بچہ کھیلتے کھیلتے اپنا سر دیگچی میں دے بیٹھا۔دیگچیسر میں جا پہنسی اس نے پاس پڑوس کے کئی لوگوں کو پکارا تو اس ادھیڑ مرد نے اس کی آواز پر کان دھرا اور اس کی اعانت کو پہنچ گیا۔ اس نے بڑی مشقت سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے میں دیگچی سر سےباہر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ وہ نیچےاترا۔دروازہ کھولا تو نیولا غصے میں تپا کھڑا ملا۔ اسے دیکھ کر سہما اور وہ بچہ بچہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ نیولا غصے میں اوپر آیا اور دیکھا ماں بچے کو گلے لگائے رو رہی ہے۔ نیولے نے کہا:
ڈھونڈ لیا اپنے من کا،چل کو سکون آگیا
ایک جملے نے اعتبار کے سارے پایے ہلا دیے۔ نیولے کی بیوی پھپھک پھپھک کراور رونے لگی۔نیولے کو مکر آنسو نظر آیے اس نے نگاہیں پھیر لیں۔
نیولے بمبئی سے گاؤں آیا۔بچوں نے پہلے اسے جس ڈھنگ کا دیکھا تھا وہ قریب قریب ویسا ہی تھا۔وہ بچوں کے ساتھ باغ جاتا۔پتھر ہاتھ میں لیتا۔ہتھیلی میں گھماتا کبھی پتھر کو گھورتا کبھی پتوں کو۔گلہری کو دیکھتا تکتااور کہتا تم تو اپنے پیڑوں سے وفادار ہو۔ایک دن اس نے نیولا دیکھا اور پتھر اٹھا کر اسے ہلاک کردیا۔سننے والے سب حیران ہوئے۔تیسرے دن اس نے مور شکار کیا سب نے مل کر اسے لعن طعن کیا کہ قومی پرندہ مار کر جیل جانا ہے۔ کہنے لگا اب تک سانپ مارے پاپ کیا۔مور اور نیولے مارنا پنیہ کا کام ہے۔یہ سانپ مارتے ہیں۔سانپ پاپی مارتے ہیں۔سانپ پاپی مارتے ہیں۔سانپ پاپی مارتے ہیں۔آخر نیولے نے اپنیجیون بدل لی۔
تفسیر حسینتحقیق کار،
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی مرکز السنۂ ہند
۱۱۰۰۶۷