’نمک‘ اقبال مجید کا علامتی ناول

0
988

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

پروفیسر شارب ردولوی

ہم عصر اردو فکشن میں1980 کے آس پاس نمایاں تبدیلیاں آئیں۔ یہ تبدیلیاں اس کی ہیئت سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور فن سے بھی اردو افسانہ جو صرف داخلی تجربے ، اس تجربے کی علامتی اظہار اور اظہار میں ایک طرح کی یکسانیت کا شکار ہوتا جارہا تھا، وہ اس فضا سے باہر نکلا اور عصری کشمکش، جذباتی تناؤ اور سماجی حسیت کو اس نے اپنا موضوع بنایا۔ افسانے کا یہ سفر نہ خارج سے اندر کی طرف تھا اور نہ داخلیت سے خارج کی طرف بلکہ بدلے ہوئے حالات سے زندگی میں پیدا ہونے والی کشمکش اور ہر وقت پیش آنے والے نئے چیلنجوں Challenges کا مطالبہ تھا جس نے اردو فکشن کو نئی معنویت دی۔ اقبال مجید اردو فکشن کی اس نئی معنویت کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اردو فکشن میں اپنے تخلیقی رویّے، معاصر مسائل کو پیش کرنے کے انداز، زبان کے تخلیقی اور فطری استعمال سے ایک نئی فضا تشکیل دی۔
اقبال مجید کا فن ان کے ناولوں میں زیادہ کھل کر سامنے آیا اسی لیے شاید ’سڑی ہوئی مٹھائی‘ اور ’موٹی کھال‘ میں وہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے، نہیں کہہ سکے اور انھیں ناول ’کسی دن‘ اور ’نمک‘ لکھنا پڑا۔اقبال مجید نے ’کسی دن‘ میں عام طور پر استعاروں سے کام لیا ہے لیکن ان کا نیاناول ’نمک‘ علامتی ناول ہے اور یہ علامتیں نفسِ ناول میں کافی گہرائی تک پیوست ہیں۔ اس کی علامتوں کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس کی پہلی بنیادی علامت زہرہ خانم عرف محبوب جان اترولہ والی اور دارالاستکبار ہے۔ دوسری علامت رستم سِم سِم ہے۔ اس کے علاوہ اس کی اہم علامتوں میں نمک اور وردی وغیرہ ہیں۔ ناول میں دوسرے بہت سے کردار ہیں جو کردار کی شکل میں اپنا کام پورا کرتے ہیں اور ختم ہوجاتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ علامتیں ہی اس ناول کی توانائی ہیں۔ ناول کا عجیب و غریب آغاز ابتدا ہی میں تجسس کی فضا پیدا کردیتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے ناول آگے بڑھتا جاتا ہے یہ اسرار کھلتا جاتا ہے کہ یہ پیرایۂ بیان بنیادی علامتوں کو زیادہ معنی خیز بنانے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔
صحت الفاظ، اس کے تلفظ کی معیاری قرأت اور اس کے معنی پر خصوصی زور ایک مخصوص عہد کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ زہرہ خانم اسی مخصوصی ثقافت، تہذیب اور ایک خاص طرح کے طرز زندگی کی علامت ہے جو ہر چیز میں Perfection جامعیت اور ہر شے میں عظمت و وقار کا مطالبہ کرتی ہے، وہ خواہ زبان ہو، ستار پرکوئی راگ ہو، ٹھمری کے بول ہوں یا کتھک کی دلربائی اور اس کے گھنگھرؤں کی آواز۔
’دارالاستکبار‘ یوں تو ایک وسیع خوبصورت روشوں اور بیس کمروں والا مکان ہے جس میں ایک ہی خاندان کے پانچ کنبے آباد ہیں لیکن در اصل وہ ایک وسیع دنیا ہے جس میں مختلف عقائد کے لوگ آباد ہیں جو زہرہ خانم سے لے کر سِم سِم تک کی تہذیبی اور ثقافتی تبدیلیوں کو سمیٹے ہوئے ہے جس کے کمرہ نمبر 1 میں زہرہ خانم تقریباً 32 سال سے عملاً ایک قیدی کی زندگی گزار رہی ہیں۔
’نمک‘ دو عہد، دو تصور زندگی، دو تہذیب اور نظریۂ حیات کی جنگ ہے جس کے تضاد کو اقبال مجید نے زہرہ خانم، استم، سِم سِم، اشوتوش اور ابوبکر جیسی علامتوں اور کرداروں سے ظاہر کیا ہے۔
استم، سِم سِم اور اشوتوش آج کی زندگی اور اس کے تضادات کے نمائندہ ہیں۔ یہ عہد لیپ ٹاپ Laptop کا عہد ہے۔ پرانی قدروں کی شکست اور اپنی مرضی کے مطابق جینے کا عہد ہے۔ اس کی اخلاقیات ’کل‘ کی اس اخلاقیات سے بالکل مختلف ہے جس میں ہر چیز ایک مضبوط زنجیری رشتے سے وابستہ تھی جس کا کوئی حلقہ نہ ٹوٹ سکتا تھا نہ اپنی جگہ سے ہٹ سکتا تھا۔ جہاں ہر بات کے آداب مقرر تھے جن سے سرمو، انحراف کی گنجائش نہیں تھی۔ لیکن اس عہد نے وہ سارے آداب لیپ ٹاپ Laptop میں بند کردیئے اور ساری بندشیں توڑ دیں۔ اب نہ غیر مردوں سے اختلاط میں کوئی عار ہے اور نہ شادی سے پہلے اقرار حمل پر کوئی شرمندگی۔
یہ دنیا بہت عجیب ہے اور ’دارالاستکبار‘ کے 18 کمرے اسی نئے اقدارِ زندگی کی علامت ہیں۔
کمپیوٹر اس نئے عہد کی ایسی ضرورت بن گیا ہے جس طرح زندگی کیلئے ہوا، پانی اور حرارت۔ اقبال مجید نے اس ناول میں ماضی قریب یا ماضی بعید کی داستان کو کسی راوی یا کردار کے ذریعہ پیش کرنے یا خود بیان کرنے کے بجائے استم کے لیپ ٹاپ کے ذریعہ پیش کیا ہے اور جہاں کمپیوٹر کی یاد داشت ختم ہوجاتی ہے وہاں ’حال‘ اپنے واقعات اپنے کرداروں کے عمل کے ذریعہ شروع کردیتا ہے۔
یہ انسانی نفسیات ہے کہ وہ ’کسی دن‘ کی شوکت جہاں کی طرح اپنی پیٹھ پر چپکی چھپکلی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کسی بڑے سیاسی و سماجی رد و بدل میں اس کے مواقع آسانی سے مل جاتے ہیں کہ وہ اس چھپکلی کو نوچ پھینکے۔ اسی طرح ملک کے آزاد ہونے پر جو بڑی تبدیلیاں آئیں ان میں ’دارالاستکبار‘ کے مکینوں نے محبوب جان کی شکل میں اپنی پیٹھ پر چپکی چھپکلی کو نوچ پھینکا اور زہرہ خانم کی ایک نئی تصویر آویزاں کرکے اشرافیہ میں شامل ہوگئے۔
’’میرے باپ نے ملک کی یوم آزادی کے بعد خاصی اٹھا پٹک کرکے کچھ سرمایہ کاروں میں گھس جانے اور ایک تجارتی کمپنی کا منیجنگ ڈائریکٹر بن جانے کا کام پورا کرلینے پر اپنے سارے پرانے جوتے، موچی کے حوالے کرکے نئے جوتوں کا ڈھیر لگاکر خود کو اشرافیہ کے طبقہ میں شامل کرلینے کا اعلان کردیا تھا۔‘‘ (نمک ص 4)
اسی طرح ’دارالاستکبار‘ میں تہذیب و ثقافت کا ایک نیا سورج طلوع ہوا جس میں ماضی کی طرف دیکھنا یا ماضی کا ماتم کرنا صحیح نہیں تھا۔ وہ زندگی کی اس تیز دوڑ میں شامل ہوگئے تھے جس میں کسی چیز کے چھوٹ جانے یا ٹوٹ جانے کا غم نہیں ہوتا۔
’’جو گزر گیا وہ نہ قابل فخر نہ لائق مذمت، کیوں کہ اس دنیا میں ان کے خیال میں جو گزر جاتا ہے، وقت اور جگہ کے اعتبار سے اپنے رنگ میں اپنی فتح و شکست کے ساتھ گزرتا ہے اور نہ اس فتح کا جشن دائمی ہے اور نہ اس کی شکست کا ماتم۔ کیوں کہ زندگی کا بنیادی کارخانہ نت نئی فتوحات اور شکستوں کی افزائش پر قائم ہے۔۔۔۔‘‘ (نمک ص 16)
یہ ناول آج کی زندگی کی تگ و دو اور بڑھتے ہوئے صارفی کلچر کو پیش کرتا ہے جس نے تہذیبی قدروں کو نظر انداز کردیا ہے۔ اقبال مجید نے ایک طوائف زہرہ خانم کو مٹتی ہوئی تہذیبی علامت کے طور پر شاید اس لیے استعمال کیا ہے کہ ہماری تاریخ کے عہد میں طوائفیں تہذیب کا گہوارہ سمجھی جاتی تھیں اور امراء و رؤسا کے لڑکے ان کے پاس درس تہذیب کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ آج کی سوسائٹی میں فروغ پانے والے اسی صارفی کلچر کے اثر میں ہر شخص تہذیبی اخلاقیات اور سماجی اخلاقیات کو نظر انداز کرکے صرف اپنے فائدے کے لیے دوڑ رہا ہے۔ ذکی، استم کو بتاتا ہے کہ وہ اس وقت کامرانیوں کے زینوں پر ’’نان اسٹاپ‘‘ دوڑ رہا ہے۔ اس وقت نہ وہ شادی کرسکتا ہے اور نہ کچھ اور سوچ سکتا ہے۔ اس لیے وہ اس کے حمل سے چھٹکارا پالے۔ استم بھی نہ روتی ہے اور نہ شکایت کرتی ہے، نہ تہذیبی اور اخلاقی قدروں کی دہائی دیتی ہے لیکن اس تکلیف کے موقع پر وہ ماں کے وجود اور اس کے شفقت بھرے ہاتھ اپنے کاندھے پر محسوس کرتی ہے جیسے ماں اس سے کہہ رہی ہو:
’’گھر میں بار بار ٹوکتی تھی۔۔۔۔ تو لڑکی ہے۔ ایسی لیاقتوں کے پیچھے مت دوڑ، خوابوں کے ہجوم، خواہشات کی ریل پیل! یہ مردوں کی طرح پھیلنے اور چھانے کی ضد، ایک دن اپنا سُبھاؤ کھو بیٹھے گی!۔۔۔۔ میری بیٹی، عورت کے دیدوں میں اس کی تہذیب بستی ہے، ایسے دیدوں کی رنگ سے ڈرجن میں بے حیائی کی سفیدی ہو۔‘‘ (نمک ص 25)
اقبال مجید یہاں پر ماں کو کردار کی شکل میں سامنے نہیں لائے ہیں پھر بھی دو نسلوں کی فکری فرق، دو عہد اور تہذیبوں کی کشمکش کو بڑی خوبصورتی سے ظاہر کردیاہے۔
’’استم میری جان۔ میری بات مان لے۔ جب بلندیوں کے مینار پر پہنچے گی، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے گی، خود کو اکیلا پائے گی۔ وہاں چاہنے والوں کی خاموش نفرت کا اعلان ملے گا، تو خود کو کوسے گی، بال نوچے گی لیکن کامرانیوں کی بے رحم ڈائن تجھ پر ترس نہ کھائے گی۔ تیری فتوحات اپنا قصاص مانگ رہی ہوگی۔‘‘ (نمک ص 25)
نئے عہد کے تقاضوں نے استم کو بے چہرہ بنادیا ’’وہ صنعتی اور تجارتی ضرورتوں کے لیے سدھائی گئی‘‘ ایک شے بن گئی۔ آج سوسائٹی میں بڑھتی ہوئی صارفیت ہر چہرے کو استم بنادینے پر مصر ہے اور اپنی فتوحات کے بدلے میں ’ہر قیمت دینے پر تیار ہے، حالانکہ اس موقع پر استم کا جملہ بڑا معنی خیز ہے کہ:
’’آپ چیزوں کی تعداد بڑھاسکتے ہیں لیکن اپنی مٹھی کا رقبہ نہیں بڑھاسکتے۔ ایک چیز گرفت میں ہوگی تو دوسری پھسل جائے گی۔‘‘(نمک ص 24)
لیکن اسے کون دیکھتا ہے کہ کیا چھوٹ گیا، کیا پھسل گیا۔ آج تو سب دیکھا اندیکھا حاصل کرلینے کی دوڑ ہے۔ سِم سِم کو اپنے ساتھی اشوتوش کے ٹی وی پروجیکٹ کے لیے ایک دلچسپ کہانی کی تلاش ہے اور یہ کہانی ’دارالاستکبار‘ کی دنیا سے بہتر کہاں مل سکتی ہے۔ اس لیے وہ کبھی نانی زہرہ خانم کو کریدتی، کبھی کباڑ سے بھرے کمرے میں جاکر کچھ تلاش کرتی ہے۔ ناول کے مختلف زاویے زہرہ خانم کی ماضی کی یادوں اور لیپ ٹاپ کی یاد داشت Memory سے متعین کیے گئے ہیں۔ مثلاً زہرہ خانم کے باپ نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ ملک کی موسیقی کا سُر اب بدل رہا ہے۔ یہ تبدیلی سیاسی اور تہذیبی دونوں سطحوں پر ہورہی تھی۔ گن پتی میلے میں اس کے باپ پر جان لیوا حملہ بھی سُر کے بدلنے کی علامت تھا۔ ’دارالاستکبار‘ میں بدلے ہوئے سُر پر تھرکنے والی نئی نسل تو آگئی جس نے نئی قدروں میں اپنے کو ڈھال لیا لیکن زندگی کی بنیادی حقیقتیں نہیں تبدیل ہوئیں جس نے ایک فطری تضاد پیدا کردیا۔ یہی سبب ہے کہ سِم سِم اور اشوتوش میں محبت کے باوجود شادی کی بات نہیں ہوپاتی۔ دونوں تعلیم یافتہ ہیں لیکن ایک تہذیبی تضاد ار کشمکش میں گرفتار ہیں اور بالآخر شادی کے سلسلہ میں ان میں ایک معاہدہ ہوتا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت پہلا بچہ اشوتوش کے عقائد پر اور دوسرا بچہ سِم سِم کے عقائد پر رہے گا۔ یہ معاہدہ تو ہوگیا لیکن اشوتوش اس کے بعد بھی مطمئن نہیں ہے۔ وہ سِم سِم سے کہتا ہے کہ:
’’۔۔۔۔۔۔ماتا جی کہتی ہیں ان کی بہو روز سویرے ان کے پیر چھوئے۔ ان کی پوجا کی تھالی تیار کرے۔ ماتا جی کی بڑی تمنا ہے کہ ان کی بہو انھیں تیرتھ پر لے جائے۔ جب دیکھو ماتا جی یہی کہتی ہیں کہ ایسی بہو جو شاستروں کے مطابق برت نہ رکھ سکے، مجھے نہیں چاہیے۔ انہیں اس بات کا ارمان ہے کہ جو بھی لڑکی ان کے گھر میں آئے وہ ان کی بہو پہلے ہو اشوتوش کی پتنی بعد میں۔‘‘ (نمک ص 66)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے لیے کس طرح کی بیوی قابل قبول ہوگی۔ یہ تضاد اشوتوش کا بھی ہے اور سوسائٹی کا بھی جو بظاہر ماڈرن ہے اور مذہب و عقائد سے بلندی کے دعویدار تو بن گئی ہے لیکن اندر سے تضاد کا شکار ہے۔ سِم سِم کے یہاں بھی اس طرح کا تضاد دکھائی دیتا ہے۔ وہ اشوتوش سے دوستی کے باوجود کھالوں کے بیوپاری ایک مسلمان لڑکے رشتے کو قبول کرنے سے انکار نہیں کرتی۔ آج کی آزاد خیال تعلیم یافتہ مسلمان لڑکیوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ انھیں مسلمانوں میں ہم پلہ رشتے نہیں ملتے۔ جو تعلیم یافتہ ہیں وہ ملک سے باہر ہیں اور جو یہاں ہیں اگر ان کے پاس دولت آ بھی گئی ہے تو آزاد خیالی، نفاست پسندی Sofistication اور وہ کلچر نہیں ہے۔
ابوبکر اس سے دیوانہ وار محبت کرتا ہے لیکن اسے قبول کرنے میں سِم سِم کو صرف اس لیے ہچکچاہٹ ہے کہ وہ تہذیبی طور پر اس سے کمتر ہے۔ وہ محسوس کرتی ہے کہ سب ایک دوسرے سے اپنے دل میں چھپے چور کو چھپاتے ہیں۔ اسی لیے وہ اشوتوش کو ایک طویل خط لکھ کر ہر بات صاف صاف بتا دیتی ہے اور اس سے دریافت کرتی ہے کہ:
’’وہ موسم کب آئے گا، الفاظ کی ایمانداریوں اور تصورات کی صداقتوں کا موسم۔ وہ اس سے کہتی ہے کہ ’’اشوتوش نہ تم ہندو ہو اور نہ وہ لڑکا مسلمان۔ تم بھی دوسروں کی بنائی وردی میں ہو اور وہ بھی۔۔۔۔۔۔۔‘‘ (نمک ص 84)
اس ناول کی معنویت اس کی علامتوں میں ہے جن میں اس کا نام ’نمک‘ بھی ہے۔ نمک انسان کی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ نمک پاشی یا نمک چھڑکنا ایک بلیغ محاورہ ہے۔ یہ نام بچپن کی سنی ہوئی اس کہانی کی بھی یاد دلاتا ہے جو کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ ایک بادشاہ کے کئی بیٹیاں تھیں۔ ایک دن بادشاہ نے ان سے پوچھا تم مجھے کتنا چاہتی ہو۔ سب نے الگ الگ جواب دیے۔ سب سے چھوٹی بیٹی نے کہا کہ بابا میں آپ کو ’نمک‘ کے برابر چاہتی ہوں جو نمک کی معنی انگیزی کی طرف ایک اشارہ ہے۔ نمک ذائقے کی بنیاد ہے۔ نمک اصل ہے، روح ہے۔ ناول کی ابتداء میں زہرہ خانم کا سِم سِم کے یکایک ابکائی آجانے پر دریافت کرنا ’’بیٹی تیرا نمک کہاں ہے‘‘ اور اختتام پر زہرہ خانم کا آبلوں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہنا:
’’بٹیا زہرا کا نمک اٹھ چکا، جو باقی تھا وہ ذائقے کے لیے نہیں زخموں پر چھڑکنے کے لیے ہے۔‘‘ (نمک ص 136)
ناول کی معنوی جہتوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اقبال مجید نے ناول میں آج کی سوسائٹی کے تضادات، تہذیبی، سماجی اور سیاسی طور پر پیدا ہونے والے Tentions، صارفیت کے تہذیب، ثقافت پر بڑھتے ہوئے اثرات سب کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
اقبال مجید ان لکھنے والوں میں ہیں جنھوں نے افسانے کو ایک بلیغ استعارہ بنا دیا۔ ان کے یہاں قدیم سے بھی انحراف ہے اور جدید سے بھی انحراف، ان کا بیانیہ لغوی معنوں میں بیانیہ نہ ہوتے ہوئے بھی ایک اندرونی تسلسل سے پیوست ہے۔ اقبال مجید کے فکشن کی ایک خصوصیت اس کی سماجیات ہے۔ میرا خیال ہے کہ اپنے عہد، اس کے تضادات، اس کی کمزوریوں اور اس کے مطالبات اپنی پوری شدت کے ساتھ ان کے افسانے اور ناول میں سامنے آتے ہیں۔ اقبال مجید کے فکشن کا ہر استعارہ اور ہر علامت وسیع تہذیبی اور سماجی حوالے اور معنویت رکھتی ہے جو کہانی کے کینوس کو محدود موضوعی حوالوں سے نکال کر پورے عہد پر محیط کردیتی ہے۔ اقبال مجید کے یہاں جو کرب اور جدید حسیت ہے اس نے ان کے فکشن کو انسانی نفسیات اور جدید فکر کا آئینہ بنادیا ہے۔

09839009226

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here