نظم
کھنڈر
آو چلیں اُس کھنڈر میں
جو عرصہ پہلے ٹوٹ گیا
کچھ یادیں ان میں باقی ہیں
فریادیں بھی کچھ باقی ہیں
شہنائ کا ہے کوئ مدھم سر
اِن دیواروں میں گونج رہا
آو چلیں اُس کھنڈر میں
جوعرصہ پہلے ٹوٹ گیا
کچھ سائے ہمارے بچپن کے
کچھ یاد ہمارے لوگوں کی
اس کھنڈر سے وابستہ ہیں
تھی نقش بہت سی تصویریں
اس کھنڈر کی دیواروں پر
تم جانتے ہو وہ کس کی تھیں
کچھ بچوں کی کچھ بوڑھوں کی
کچھ میرے اپبے بچپن کی
آو چلین اُس کھنڈر میں
جو عرصہ پہلے ٹوٹ گیا
اور
ساتھ بہت کچھ لوٹ گیا
وہ دیکھ رہے ہو بنجر تل
اس کھنڈر کا وہ حصہ تھا
تب صحن اسے ہم کہتے تھے
سب مل کے اس میں رہتے تھے
شام کی اکثر چائے ہم
اُس جا پر بیٹھ کے پیتے تھے
آئو چلیں اُس حصے میں
جہاں بیٹھ کے ہم سب پڑھتے تھے
شور مچایا کرتے تھے
اور سب کو ہنسایا کرتے تھے
کبھی لڑتے تھے کبھی روتے تھے
یہ دیکھو یہ جو مٹی ہے
ہم اسمیں کھیلا کرتے تھے
اور گھنٹوں کھیلا کرتے تھے
وہ دیکھو وہ ٹوٹی ڈیوڑھی
میرے گھر کی چوکھٹ ہے
ہر سال نیا سا رنگ کوئ
ہم لوگ چڑھاتے تھے اس پر
جانتے ہو یہ کھنڈر کبھی
آباد بھی تھا شاداب بھی تھا
ہم لوگ اسی میں رہتے تھے
یہ گھر تھا ہمارا پیارا سا
اور پیارے پیارے لوگ بہت سے
ساتھ ہمارے رہتے تھے
ہم جشن منایا کرتے تھے
اُن چاھنے والے لوگوں کے
لہجے کی لہک آنکھوں کی چمک
قدموں کی دھمک
اِس گھر کی فضا میں گونج رہی
تم غور کرو آہستہ چلو
یہ کھنڈر نہیں ہے گھر ہے میرا
اِس گردش دوراں نے جسکو
یوں لوٹ لیا برباد کیا
میں لوٹ کے اب جو آئ ہوں
اسباب بہت سے لائ ہوں
پر سنے والا کوئ نہیں
نایاب ہوئے وہ لوگ سبھی
وہ آنکھین تھک کے مند بھی گئ
جو رات کو جاگا کرتی تھیں
اب یہ تو بس اک کھنڈر ہے
آو چلیں اس کھنڈر میں
شمیم فاطمہ اسریٰ