مولانا آزاد اور تحریک آزادی

0
1340

از قلم: محمد ارشد

مولانا آزاد اور تحریک آزادیارشد مرکزی ہندوستانی تاریخ میں تحریک آزادی کی روداد ایک نئے باب کا اضافہ کرتی ہے جس میں مختلف رہنمائوں نے عوام کی قیادت کرتے ہوئے امید آزادی کی شمع جلائے رکھی۔ انھی رہنمائوں کی فہرست میں مولانا ابوالکلام آزاد کا نام بھی نمایاں طور پر شامل ہے جنھوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز جنگ آزادی کے سپاہی کی حیثیت سے کیا او ر نہایت ہی کم مدت میں ان کا شمار آزادی کے سپہ سالاروں میں ہونے لگا۔ نوعمری میں ہی مولانا آزاد صحافت سے وابستہ ہوگئے اور مختلف رسائل و جرائد میں اپنے مضامین بھیج کر شہرت حاصل کرلی۔ ۱۹۰۸ء میں مولانا آزاد نے مصرو شام، ترکی اور فرانس کے سفر کے دوران وہاں کا مشاہدہ کیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے شعور کو بیدار کرنے کے لئے ایک معیاری اخبار کی اشد ضرورت ہے جس سے ہندوستانی مسلمان حالات حاضرہ اور برٹش حکومت کی پالیسیوں سے واقف ہو کر تحریک آزادی کے مفاد عامہ سے بھی باخبر ہو سکیں ۔ مولانا آزاد صحافت کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف تھے اور اسے ملک کی خدمت کے لئے ایک مؤثر ذریعہ قرار دیتے تھے۔ بڑی محنت و لگن کے بعد ۱۹۱۲ء میں کلکتہ سے  ہفت روزہ اخبار ’’الہلال‘‘ جاری کیا جس نے اردو صحافت میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس اخبار کے ذریعے مولانا نے تاریخ کے حوالے سے ہندوستانی مسلمانوں کو تحریک آزادی میں شامل ہونے کی دعوت دی اور سختی سے مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کی تلقین کی۔ ’’الہلال‘‘ کی اشاعت نے نہ صرف خوابیدہ لوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کیا بلکہ صحافت کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔  ’’الہلال‘‘ مولانا ابوالکلام آزاد کی علمی، ادبی، دینی اور سیاسی فکر کا آئینہ دار تھا جس کا اہم مقصد مسلمانوں اور تمام ہندوستانیوں کو غلامی کے طوق سے نجات دلانا اور غلامی کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنا تھا اور نتیجۃً اس سے ملکی، ملی اور سیاسی جماعتیں خوب خوب مستفید ہوئیں اور جذبۂ حریت کو بھی اس سے فروغ ملا۔ انھوں نے ہر لفظ کو انقلاب کا جامہ پہنادیا جس کا ہر جملہ انگریزی حکومت کے خلاف ایک دہکتے ہوئے شعلہ کی مانند تھا۔ مولانا ابولاکلام آزاد کا پیغام تھا کہ ہندو، مسلم اور ہندوستان کے تمام افراد اتحاد کے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر آزادی کا صور پھونکیں اور پھر دیکھیں کہ آزادی کا جام کس قدر دلآویز ہے۔ مولانا آزادی کا پیغام دینے میں اس قدر منہمک ہوئے کہ جیل تک جانے کو حق گوئی کا صلہ سمجھ کر بخوشی قبول کیا۔ انھوں نے تحریک آزادی کو فروغ دینے کے لئے گھر کے تمام زیورات بھی گروی رکھ دیے تھے لیکن اس تحریک کو کمزور نہ ہونے دیا۔ ’’الہلال‘‘ کے شمارہ ۱۸۱۲ میں لکھتے ہیں:’’ایک وقت تھا میں نے ہندوستان کی آزادی کے حصول کا احساس دلاتے ہوئے کہا تھا: جو ہونے والا ہے، اس کو کوئی قوم اپنی نحوست سے روک نہیں سکتی، ہندوستان کی تقدیر میں سیاسی انقلاب لکھا جا چکا ہے اور اس کی زنجیریں بیسویں صدی کی ہوائے حریت سے کٹ کر گرنے والی ہیں۔۔۔ اگر تم نے وقت کے پہلو بہ پہلو قدم اٹھانے سے پہلو تہی کی اور تعطل کی موجودہ زندگی کو اپنا شعار بنائے رکھا تو مستقبل کا مؤرخ لکھے گا کہ تمہارے گروہ نے جو سات کروڑ انسانوں کا ایک غول تھا، ملک کی آزادی کے بارے میں وہ رویہ اختیار کیا جو صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والی قوم کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ آج ہندوستان کا جھنڈا پورے شکوہ سے لہرا رہا ہے، یہ وہی جھنڈا ہے جس کی اڑانوں سے حاکمانہ غرور کے دلآزار قہقہے تمسخر کیا کرتے تھے‘‘۔[بحوالہ اردو دنیا (ماہنامہ)، نومبر ۲۰۱۶ء، ص ۱۸]

مولانا آزاد نے ہندوستانی مسلمانوں سے حکومت کے خلاف بغاوت کرنے اور قومی سیاست میں عملی طور پر حصہ لینے پر زور دیا۔ لکھتے ہیں:’’یقینا ایک دن آئے گا جبکہ ہندوستان کا آخری انقلاب ہو چکا ہوگا۔ غلامی کی وہ بیڑیاں جو خود اس نے اپنے پائوں میں ڈالی ہیں، بیسویں صدی کی ہوائے حریت کی تیغ سے کٹ کر گر چکی ہوںگی اور وہ سب ہو چکے گا جس کا ہونا ضروری ہے‘‘۔[ابوالکلام آزاد: ایک ہمہ گیر شخصیت، رشید حسن خاں، ص ۳۷۰]مولانا آزاد مسلمانوں کے تئیں کس درجہ متفکر تھے، اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے لکھتے ہیں:’’غفلت اور سرشاری کی بہت سی راتیں بسر ہو چکیں اب خدا کے لئے بستر مدہوشی سے سر اٹھا کر دیکھئے کہ آفتاب کہاں تک نکل آیا ہے، آپ کے ہمسفر کہاں تک پہنچ چکے ہیں اور آپ کہاں پڑے ہیں؟ یہ نہ بھولئے کہ آپ اور کوئی نہیں بلکہ مسلم ہیں اور اسلام کی آواز آپ سے آج بہت سے مطالبات رکھتی ہے‘‘۔[ایضاً، ص ۳۷۱]

مولانا آزاد نے دینی ماحول میں پرورش پائی لیکن ان کی فطرت باغیانہ تھی جو غلامی کو کبھی قبول نہیں کرسکتی تھی۔ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ان کا اسلوب و آہنگ ہے، وہ اسلوب و آہنگ جو زندانی ادب کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ’’الہلال‘‘ پر پابندی عائد کردی گئی تو انھوں نے ’’البلاغ‘‘ کو پیغام رسانی کا ذریعہ بنایا۔ ۱۲؍نومبر ۱۹۱۵ء میں البلاغ جاری ہوا اور جب اس کے شعلوں کی لپٹیں حریت کا پیغام لے کر پھیلیں تو اس کی گرمی برٹش حکومت سے برداشت نہ ہو سکی اور چھ مہینے کے اندر ہی اسے بند کردیا۔ مولانا کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ جب وہ بولتے تھے تو ان کے الفاظ دماغ سے ہوتے ہوئے دل میں پیوست ہو جاتے تھے۔ ان کا اسلوب نگارش آتش فشاں کی مانند تھا، جب وہ پھٹتا تھا تو برطانوی سامراج کے ہوش ٹھکانے آجاتے تھے۔ تبھی تو مولانا کے اسلوب تحریر سے متأثر ہو کر رشید احمد صدیقی نے کہا تھا:’’مولانا کا اسلوب تحریر ان کی شخصیت تھی ان کی شخصیت اور ان کا اسلوب، دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ [بحوالہ اردو دنیا (ماہنامہ)، نومبر ۲۰۱۶ء، ص ۱۸] تحریک آزادی کی کاوشوں سے آزادی کی صبح تو نمودار ہونے لگی تھی لیکن تقسیم ہند کا مسئلہ طول پکڑتا جا رہا تھا جو مولانا کے لئے پریشان کن تھا۔ مولانا آزادی سے زیادہ ہندوستانی قوم کے اتحاد کو اہم سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بٹوارہ نہ کر کے دو ایک سال کے لئے آزادی کو ٹال دیا جائے تاکہ جو فسادات کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں ان پر قابو پایا جا سکے لیکن سیاسی اتار چڑھائو میں ایسا ممکن نہ ہو سکا اور ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ملک آزاد تو ہوا لیکن آزادی کی خوشی سے کہیں زیادہ فسادات کے تکلیف دہ مناظر رونما ہونے لگے۔ خونریزی روز مرہ کا معمول بن گئی، ہندوستان اور پاکستان سے لوگ ایک دوسرے ملک میں ہجرت کرنے لگے۔ مولانا ہندوستانی مسلمانوں سے خوف و ہراس ختم کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہے، انھوں نے ہندوستان چھوڑ کر پاکستان جانے والے مسلمانوں کو اس عمل سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا:’’یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے، اس پر غور کرو، تمہیں محسوس ہوگا کہ یہ غلط ہے۔ اپنے دلوں کو مضبوط بنائو اور اپنے دماغ کو سوچنے کی عادت ڈالو پھر دیکھو کہ تمہارے فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں۔‘‘[مولانا آزاد کی کہانی، ظفر احمد نظامی، ۸۰] اپنی اس تقریر کے دوران مولانا نے جذباتی ہو کر مہاجروں سے درخواست کرتے ہوئے کہا:’’آخر کہاں جارہے ہو اور کیوں جا رہے ہو؟ یہ دیکھو! مسجد کے مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کردیا؟ ابھی کل کی بات ہے کہ یہیں جمنا کے کنارے سے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا اور آج تم کو یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے؟ حالانکہ دلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے‘‘[ایضا ، ص۸۰] مولانا نے مسلمانوں سے نئے حالت کا سامنا کرنے اور دلوں سے خوف و ہراس مٹانے کی ہزار کوششیں کیں، جن سے متأثر ہو کر بہت سے لوگوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا اور یہیں رہنے بسنے کو تیار ہو گئے لیکن جانے والے تو خیر جانے والے تھے، انہیں روکنے کے لئے مولانا کے پُرشکوہ الفاظ ناکافی ٹھہرے۔ جانے والوں کے لئے مولانا آزاد کی یہی فکر تھی جو میں نے اس شعر میں سمونے کی کوشش کی ہے:جانا تھا جن کو، وہ تو وطن سے چلے گئےمجھ کو مِری زمیں سے اجازت نہیں ملی
ریسرچ اسکالر: مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، لکھنؤ کیمپس

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here