مولانا ابوالکلام آزاد کانظریۂ تعلیم

0
817

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

موسی رضا

کسی ملک کی ترقی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب وہاں کے باشندے اپنی ذات میں کمال پیدا کریں اور شخصیت سازی کے خاطر اپنے فرسودہ اور غیر ضروری طور طریقوں میں تبدیلی لائیںجس کے لئے انہیں ایک ایسے ہادی کی ضرورت در پیش ہوتی ہے جو صاحب بصیرت اور عصری تقاضوں کی احتیاج کے ساتھ ساتھ ماضی کی مستحکم روایت کا قدرشناس بھی ہو، تاکہ چلی آرہی پرانی روایت میں مفید اور غیرمفیدکے مابین امتیاز کر سکے۔انسان کی شخصیت سازی میں جس امر کو سب سے زیادہ دخل ہوتا ہے وہ ’تعلیم‘ ہے۔کوئی بھی تعلیم اس وقت تک انسان کو بام عروج تک نہیں پہنچا سکتی جب تک وہ عصری تقاضوں پر کھری نہ اترتی ہو لہٰذا جتنا ضروری ترقی کے لئے’ تعلیم‘ کا بہتراور موافق عن الحال / حالات حاضرہ کے موافق ہونا ہے اتنا ہی ضروری تعلیم میں تغیر و تبدل کا ہونا بھی ہے۔
ایک اچھی تعلیم انسان کونہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر شہرت یافتہ بنا دیتی ہے اوراس طرح وہ اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے وطن کے اقتدار کوبھی مزید بلند کر دیتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ تعلیم کاایسا ڈھانچہ تشکیل دینا جس میں پچھلی یا مذہبی روایت کی شمع بھی فروزاں ہو اور عصری حالات کی تجلیاں بھی جلوہ گرہوں، پانی پر خط کھینچنے کے مترادف ہے۔تعلیم کے ایسے منضبط اور منظم ڈھانچے کی تعمیر کے لئے ان اعلیٰ و ارفع اور جہاں دیدہ افراد کے نظریات کی کمک درکار ہوتی ہے جن کے قلوب علم کی روشنی سے منورہو ں اور چشم بصیرت ماضی میں زوال پذیرہونے والے اسباب سے لیکر مستقبل میں کامیاب ہونے والے آلات کی نشاندہی کر رہی ہو۔تعلیمی ترقی کے متعلق سونے کی قلم سے لکھے جانے والے ایسے ہی نظریات میں سے ایک نظریہ ابوالکلام محی الدین احمد آزاد المعروف مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے۔جن کی رائے اور نظریات کے متعلق ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو رقمطرازہیں
’’۔۔۔۔۔۔وہ رائے ایک ایسے آزمودہ کار اور صائب دماغ کی پیدا وار ہوتی تھی جسے ماضی و حال کے علم و فضل اور غیر معمولی دانش و فراست سے نوازا گیا ہو اور یہ ہمہ گیر قوتیں بہت کم ہستیوں کا حصہ ہوتی ہیں‘‘۔۱؎
مولانا نے جس ماحول میں نشو ونما پائی وہ عقائد و روایت سے ذرّہ برابر بھی انحراف کی اجازت نہیںدیتا تھا۔ خود مولانا اپنے ایک خط میں (جو غبار خاطر میں 11واںخط ہے) تحریر فرماتے ہیں ’’میں نے ہوش سنبھالتے ہی ایسے بزرگوںکو اپنے سامنے پایا جو عقائد و افکار میں اپنا ایک خاص مسلک رکھتے تھے اور اس میں اس درجہ سخت اور بے لچک تھے کہ بال برابر بھی اِدھر اُدھر ہونا کفرو زندقہ تصور کرتے تھے۔‘‘اس کے باوجود مولانا آزاد روایتی زنجیر کے پابند نہ تھے ،پرانے بندھے ٹکے روایتی نظام جن پر ان کے بزرگوں نے کبھی انگشت نمائی نہ کی ہو،اگر وہ کسی بھی پہلو سے ناقص نظر آتے تومولانا بڑی بے باکی سے ان پر تنقید کردیتے وہ اعتقاد کو علم ونظر کی کسوٹی پر پرکھنے کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک نقائص سے پاک نظم و ضبط ہی قابل اعتنا ہوتا جو انسانی زندگی کوترقی سے ہمکنار کرانے میں مدد گار ثابت ہو۔ یہی سبب تھا کہ مولانا نے تعلیم کے حوالے سے بھی اس بات کو لازم جانا اور خود اپنی ابتدائی تعلیم کا حال تأسفانہ انداز میںاس طرح بیان کیا کہ
’’خوداس تعلیم کا حال کیا تھا جس کی تحصیل میںتمام ابتدائی زمانہ بسر ہوا؟ اس کا جواب اگر اختصار کے ساتھ بھی دیا جائے تو صفحوں کے صفحے سیاہ ہوجائیں،۔۔۔۔۔۔ ایک ایسا فرسودہ نظام جسے فن تعلیم کے جس زاویۂ نگاہ سے بھی دیکھا جائے ، سر تا سر عقیم ہو چکا ہے ، طریقِ تعلیم کے اعتبار سے ناقص، مضامین کے اعتبار سے ناقص، انتخابِ کتب کے اعتبار سے ناقص، درس و املا کے اسلوب کے اعتبار سے ناقص۔۔۔‘‘۲؎
خط کے مذکورہ بالا اقتباس سے مولاناکا نظریہ ،تعلیم کے حوالے سے واضح ہوجاتا ہے کہ وہ ایسی تعلیم جس کے حصول کے بعد انسان میں کوئی ترقی نہ ہو، عقیم یعنی بانجھ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک تعلیم وہ ہونی چاہئے جو ’عقیم‘ نہیں بلکہ ’جنین‘ ہو، جس کی مدد سے ایک بہتر اور ترقی یافتہ نسل وجود میں آئے۔ مولانا آزاد بنیادی طور پر ایک مدرسے کے طالب علم تھے اورآپ نے ابتدا میںان ہی کتب کا مطالعہ کیا تھا جو ایک زمانے سے مدرسوں میں رائج تھیں جن کے نصاب میں عصری تعلیم کی ایک بھی کتاب نہ تھی(اور اگر تھی بھی تو حال کے تقاضوں کے مطابق نہ تھی)۔سب سے پہلے مولانا نے اصلاح کے خاطرتعلیم کے اسی ڈھانچہ کی خامیوں کی نشان دہی کی۔ اگر چہ یہ کلمات مولانا نے مدرسے کے نصاب سے متعلق ارشاد فرمائے تھے مگر اس سے مولاناکے نظریہ کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ہر تعلیم کے نصاب کو چست و درست بنانا چاہتے تھے اور اس میں جدید تحقیقات کے بعد منسوخ حقائق کو درخور اعتنا نہیں جانتے تھے۔مذکورہ خط میںآگے تحریر فرماتے ہیں کہ
’’اگر فنون عالیہ کو الگ کر دیا جائے ، تو درس نظامیہ میں بنیادی موضوع دو ہی رہ جاتے ہیں: علومِ دینیہ اور معقولات ۔ علوم دینیہ کی تعلیم جن کتابوں کے درس میں منحصر رہ گئی ہے، اس سے ان کتابوں کے مطالب و عبارت کا علم حاصل ہوجاتا ہو، لیکن خود ان علوم میں کوئی مجتہدانہ بصیرت حاصل نہیں ہو سکتی۔ معقولات سے اگر منطق الگ کر دی جائے تو پھر جو کچھ باقی رہ جاتا ہے اس کی علمی قدر و قیمت اس سے زیادہ کچھ نہیںکہ تاریخ فلسفۂ قدیم کے ایک خاص عہد کی ذہنی کاوشوں کی یادگار ہے، حال آنکہ علم کی دنیا اس عہد سے صدیوں آگے بڑھ چکی ۔‘‘۳؎
مولانا کا آخری جملہ ’دنیا اس عہد سے صدیوں آگے بڑھ چکی‘ واضح اشاریہ ہے جدید علوم کی طرف جس کا حاصل کرنابین الاقوامی سطح پر ترقی حاصل کرنے کے لئے ایک ناگزیر عمل تھا ۔ مولانا نے تعلیم کے تعلق سے یہ اعتراض فقط اپنے زمانے کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کیا تھا بلکہ آپ کی نظریں تقریباََ آئندہ نصف صدی کا محاکمہ کر چکی تھیںاور آنے والے جدید دور کو ’سائنسی اور انگریزی دور‘ شمار کر چکی تھیں جس کی بنیاد خود آپ کا سائنس اور انگریزی کی اعلیٰ کتب کا مطالعہ تھا۔ انگریزی ادب میں مولانا کو بڑا شغف تھا ۔ انھوں نے انگریزی زبان کے Byron بائرن، Wordsworth ورڈس ورتھ اور Shelleyشیلے جیسے پائے کے شعرا کو پڑھا تھا ۔ اپنی زوجہ کے گزر جانے کے بعد گھر کی ویرانی کا نقشہ انہوںنے ’ورڈس ورتھ‘کے اس جملہ سے کھینچا تھاجس کاذکر پروفیسر خلیق نظامی نے اپنے ایک مضمون میں بھی کیا ہے ۴ ؎
But She’s inher grave, and oh,
The difference to me!
مولانا کے انگریزی زبان و ادب کے مطالعہ سے اس بات کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ وہ تعلیم کے نقطہ نظر سے تعصب کے قائل نہ تھے۔ کیونکہ جس زمانے میں مولانا نے انگریزی میں دلچسپی لی اس وقت عوام انگریز اور انگریزی دونوں ہی سے متنفر تھے۔ مگر مولانا نے علم کو فقط ’علم‘ سمجھا اس کو کسی کا ذاتی مال تصور نہیں کیا۔ اگر کوئی علم ہندوستان کی عوام کے لئے مفید مطلب نظر آیا تو مولانا نے اس کے حصول میں کسی بھی رخنہ اندازی کو جائز نہیں سمجھا اب چاہے وہ اس وقت کی برطانوی جابر حکومت کی ’انگریزی ‘ہی کیوں نہ ہو۔
مولانا سائنسی علوم سے بھی باخبر تھے انہوں نے سائنس کی بہت سی کتب کا بغور مطالعہ کیا تھا اور فقط ہندوستان کے ہی تراجم نہیں بلکہ بیرونی ملک ،مصر و شام سے سائنسی کتب کے تراجم منگوا کر ان سے بھی استفادہ کیا ۔یہی سبب ہے کہ مولانا کی مستقبل شناس نظروں نے ہندوستان کے تعلیمی ڈھانچہ میں علم سائنس کی شمولیت کو اشد ضروری قرار دیا اور عوام کو سائنس سے رغبت دلانے اور اس کی تحقیقات سے باور کرانے کے خاطر نت نئے سائنسی موضوعات پر اردو زبان میں مختلف مضامین تحریر کئے۔ سب سے پہلا مضمون ’ایکس ریز‘ پر ’ضؤ غیر مرئی‘ کے عنوان کے تحت لکھا تھا جو ’’ خدنگ نظر‘‘ کے دو شماروں میں مئی اور جولائی 1903 میں بالاقساط شائع ہوا۔
ان تمام علوم کی برق رفتار افادیت و اہمیت کے باوجودمولانا کی نظر میںمذہبی تعلیم کی وقعت و رفعت میں ذرا برابر بھی کمی نہیں آئی ۔ انہوں نے اپنے تعلیمی نظریہ میں جا بجا مذہب کی افادیت سے بھی ہمیں روشناس کرایا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں
’’سائنس عالمِ محسوسات کی ثابت شدہ حقیقتوں سے ہمیں آشنا کراتا ہے اور مادی زندگی کی بے رحم جبریت (Physical Determinism) کی خبر دیتا ہے۔ اس لیے عقیدہ کی تسکین اس کے بازار میں بھی نہیں مل سکتی۔ وہ یقین اور امید کے سارے پچھلے چراغ گل کر دے گا، مگر کوئی نیا چراغ روشن نہیں کرے گا۔۔۔۔۔۔۔ فلسفہ شک کا دروازہ کھول دے گا اور اسے بند نہیں کر سکے گا۔ سائنس ثبوت دے گا، مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا۔ لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دے دیتا ہے، اگر چہ ثبوت نہیں دیتا اور یہاں زندگی بسرکرنے کے لئے صرف ثابت شدہ حقیقتوں ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ عقیدہ کی بھی ضرورت ہے۔ ‘‘۵؎
مولانا ایک ایسے ہمہ گیر تعلیمی ڈھانچہ کی کے متمنی تھے جس میں مذہبی عناصر (جس سے انسان کی روحانی ترقی ہوتی ہے)اور قدیم مشرقی کلاسیکی سرمائے کے ساتھ ساتھ مغرب کے جدید علوم اور ٹیکنالوجی کے اجزا متناسب طور پر پائے جائیں۔مولانا آزاد تعلیم میں بقول محمد حسن ’’مشرق و مغرب کے سنگم‘‘۶؎کے قائل تھے۔
مو لانا کا تحصیل علم کے حوالے سے ایک اہم نقطہ نظر یہ تھا کہ وہ علم کو خدا کی پاک امانت تصور کرتے تھے( جو کہ علم کا اصلی مقام ہے)لہٰذا ان کے نظریہ کے مطابق علم کو بحیثیت علم حاصل کرنا چاہئے۔ایک مقام پر سخت لفظوں میں تنبیہاََ تحریر فرماتے ہیں
’’ ۔۔۔۔۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ تحصیلِ علم کا مقصد اعلیٰ ہماری نظروں سے محجوب ہو گیا ہے ۔ علم خدا کی ایک پاک امانت ہے اور اس کو صرف اس لیے ڈھونڈنا چاہیے کہ وہ علم ہے، لیکن سرکاری یونیورسٹیوں نے ہم کوایک دوسری راہ بتلائی ہے۔ وہ علم کا اس لیے شوق دلاتی ہے کہ بلا اس کے سرکاری نوکری نہیں مل سکتی۔۔۔۔۔۔یہ بڑی بڑی تعلیمی عمارتیں، جو انگریزی تعلیم کی نوآبادیاںہیں،کس مخلوق سے بھری ہوئی ہیں؟ مشتاقان علم سے اور شیفتگانِ حقیقت سے؟ نہیں، ایک مٹھی گیہوں اور ایک پیالہ چاول کے پرستاروں سے۔‘‘۶؎
اندازِ تحریر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری نوکری کے حصول کی غرض سے علم حاصل کرنے کے مولانا سخت خلاف تھے۔ کیونکہ مولانا اس سے باخبر تھے کہ اگر ’علم بحیثیت علم‘ نہیں بلکہ ’بالغرض روزگار‘ حاصل کیا جائے گا تو اس میں بد عنوانیاں ، فریب کاریاںاور مکاریاںجیسے مخربات شامل ہوجائیں گے اور تعلیم کی روحانیت مجروح ہو جائے گی۔ جیسا کہ آج کے زمانے میں ہم بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اعلیٰ تعلیمات کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے اور اسی فریب ودھوکہ کے باعث اس کے معیار میں تنزلی واقع ہو ئی ہے۔ اگر مولانا کے نظریہ ’حصولِ علم بحیثیت علم‘ کو اپنایا ہوتا تو شاید تعلیم کی صورت حال آج دگر گوںنہ ہوتی۔
تعلیم کے حوالے سے مولانا کی شخصیت منفرد و ممتاز تھی۔جس کا ثبوت آزادیِ ہند کے بعد سے مولانا کا تا دم مرگ، وزیر تعلیم کے عہدئہ جلیلہ پر فائز رہنا ہے۔مولانا نے اس عہدہ پہ متمکن ہونے کے بعد اپنے نظریۂ تعلیم کوعملی شکل عطا کی اور سائنسی ، ٹیکنا لوجی ،کلاسیکی اور جدید تحقیقات کے لئے مختلف اداروں کی بنیاد ڈالی۔مولانا نے جو تعلیمی ڈھانچہ پیش کیا تھاوہ اعلیٰ ، متناسب اور معتدل نظریہ پر تشکیل پایا تھا۔یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ 1985میںنئی تعلیمی پالیسی کی تشکیل کا اعلان کیا جانا اور 1986میں نئی تعلیمی پالیسی کاملک کے سامنے پیش ہونا ، مولانا کا تعلیمی نظریہ کمزور ہونے کی نشاند ہی نہیں کررہاہے بلکہ مولانا کی حیات کے بعد ان کے نظریات پر سختی سے عمل نہ کرنے کی حقیقت کو واضح کر رہا ہے کیونکہ اس پالیسی میں بھی مولانا کے متعین کئے ہوئے بنیادی نظریات کو تبدیل نہیں کیا گیا تھا ، جس کا ذکر عبداللہ ولی بخش قادری نے اپنے ایک مضمون میں ان الفاظ میں کیا
’’بہر کیف قومی تعلیمی پالیسی 1986 کے ہر پہلو پر ’’فکر آزاد‘‘ کاپر تو بالکل صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔‘‘۷؎
مولانا کے تعلیمی نظریات سے فقط اس زمانے ہی میں نہیں بلکہ آج بھی استفادہ کیاجارہا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مولانا ابولکلام آزاد کا ’نظریۂ تعلیم‘ وقیع ہونے کے ساتھ ساتھ وسیع بھی تھا۔

ریسرچ اسکالر شعبہ اردو

مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کیمپس لکھنؤ
شعبہ اردو سمسٹر۳

حوالہ جات
۱؎ مولانا ابولکلام آزاد ایک مطالعہ، صفحہ 88، مرتب عبدالستار دلوی، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سن اشاعت 2015
۲؎ غبار خاطر، صفحہ 97، مطبوعہ ایجوکیشنل بک ہائوس علیگڑھ، سن اشاعت2014
۳؎ غبار خاطر، صفحہ 97، مطبوعہ ایجوکیشنل بک ہائوس علیگڑھ، سن اشاعت2014
۴ ؎ مولانا ابولکلام آزاد ایک مطالعہ، صفحہ 122، مرتب عبدالستار دلوی، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سن اشاعت 2015
۵؎ غبار خاطر، صفحہ 37، مطبوعہ ایجوکیشنل بک ہائوس علیگڑھ، سن اشاعت2014
۶؎ مولانا ابوالکلام آزاد نمبرایوان اردو دہلی،دسمبر 1988، صفحہ 115،
۶ ؎مولانا ابوالکلام آزاد نمبر ایوان اردو دہلی،دسمبر 1988، صفحہ181
۷؎ مولانا ابولکلام آزاد ایک مطالعہ، صفحہ 219، مرتب عبدالستار دلوی، مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی سن اشاعت 2015

9807694588

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here