9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد اویس سنبھلی
ملک میں موب لنچنگ کو حکومت کے سنجیدگی سے نہیں لینے کے سبب ایک مرتبہ پھر ہجومی تشدد کے ذریعہ تین افراد کا بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر قتل کردیا گیا۔ ماضی قریب میں پیش آنے والے ہجومی تشدد کے واقعات کو اگر حکومت نے سنجیدگی سے لیا ہوتا تو شاید آج یہ واقعہ پیش نہ آتا ۔ 2014کے بعد سے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ایک ماحول بننا شروع ہوگیا جس کے سبب موب لنچنگ کے ذریعہ متعدد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیااور حکومت اور اس کے حامی ایسے لوگوں کے خلاف قانونی شکنجہ کسنے کے برعکس ہجومی تشدد کو انجام دینے والوں کی گل پوشی کرکے حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ وقت کا پہیا گھوما اورپال گھر علاقے میں دو سادھوئوں اور ان کے ڈرائیور کو اجتماعی تشدد کے ذریعہ پیٹ پیٹ پر قتیل کردیا گیا۔اس واردات کی ویڈیو کے کئی چھوٹے چھوٹے حصے وائرل ہوئے ہیں جس میں سادھو روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر بھیڑ کے سامنے گڑ گڑا رہے ہیں لیکن بھیڑ جس کے ہاتھ میں ڈنڈے ہیں وہ سادھوئوں پر حملہ بول دیتی ہے۔ویڈیو دیکھتے ہوئے آنکھیں نم ہوگئیںاورمیری آنکھوں کے سامنے پہلو خاں اور جنید کی آنکھوں میںموت کا خوف نیز ان کی لاچار و بے بس تصویر گردش کرنے لگی اوربلند شہر کے پولیس انسپکٹرسبودھ کمار سنگھ کاچہرہ میرے سامنے آگیا۔پال گھر کی اس ویڈیو میں بھی پولیس نظر آرہی ہے لیکن وہ صرف تماشائی بنی رہی۔
پال گھر میں سادھوئوںاور ان کے ڈرائیور کو جس بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا وہ انتہائی طور سے ٹھیک اسی طرح قابل مذمت ہے جس طرح اخلاق، جنید، پہلو خان اور دیگر درجنوں افراد کو بھیڑ بن جانے والی یا بھیڑ کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر قتل کردیا جانا۔اگر ماضی میں ہوئے ہجومی تشدد کے خلاف پولیس نے سخت کاروائی کی ہوتی توشاید پال گھر کا واقعہ پیش نہ آتا۔اس واقعہ کی سماج کے ہر طبقہ کی جانب سے مذمت کی جارہی ہے۔مذمت کرنے والوں میں انوپم کھیر، ذیشان ایوب، کنگنا رناوت سے لے کر فرحان اختر، عرفان پٹھان ، گوتم گمبھیر، کماروشواس ،عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ اور کانگریس کے سنجے نروپم شامل ہیں۔سنجے نروپن نے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے قصورواروں کو پھانسی پر لٹکا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔سنجے نروپم کے ذریعہ اس واقعہ کی مذمت اپنی جگہ درست ہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ انھوں نے اس سے قبل ملک میں ہونے والے موب لنچنگ کے واقعات پر یا تو کبھی منھ ہی نہیں کھولاتھا یا اس قدر ڈٹ کر کبھی کچھ نہیں بولاتھا۔انوپم کھیر بھی گذشتہ ۶؍برسوں میں بی جے پی کی حمایت کرتے ہوئے زہر اگلتے رہے ہیں۔پال گھر واقعے سے انھیںجتنا جھٹکا لگا ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہیں لگا ۔مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین دو مسلم ناموں والے قومی لیڈر ہیں جو بی جے پی کا حصہ ہے۔ حال ہی میں دیے ایک بیان میں نقوی صاحب نے اس ہندوستان کو جس میں گذشتہ چھ برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی طویل داستاد تیار کی جاچکی ہے، مسلمانوں کے لیے جنت بتایا ہے اور شاہنواز حسین نے سادھوؤں کے بے رحمی سے قتل کیے جانے پر مہاراشٹر سرکاراور انتظامیہ کو تنقید کا شدید نشانہ بنایا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ پال گھر کی اس واردات سے مسلمانوں کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔سیکولرزم کا ڈھول پیٹنے والے یہ دونوں قومی لیڈر اخلاق، پہلو خان، جنید وغیرہ کو جب ہجومی تشدد کا شکار بنایا گیا تو کہاں سو رہے تھے ۔ دہلی جل رہی تھی تب بھی یہ دونوں لوگ غائب تھے، ان کی زبانوں پر تالے لگے ہوئے تھے۔ہاں! جب تبلیغی جماعت کا مسئلہ اُٹھا تو نیوز چینل پر ڈبیٹ کا حصہ بننے کے لیے شاہنواز حسین بھی حاضر تھے اور مختار عباس نقوی بھی۔دراصل بی جے پی نے ان دونوں کو اسی کام لیے اس قدر نوازرکھا ہے۔بقول کرن تھاپر’’بچپن میں جب کرکٹ ٹیم بنائی جاتی تھی تواس میں ایک دو کھلاڑی وہ رکھے جاتے تھے جو نالی سے گیند اُٹھاکر لانے کا کام کرتے تھے‘‘۔بی جے پی میں ان دونوں معزز حضرات کا کام بھی کچھ ایسا ہی ہے۔لکھنؤ کے ایک شاعر تشنہ عالمی کا شعر ہے ؎
جو کیڑے جو رینگتے رہتے ہیں نالیوں کے قریب
وہ مر بھی جائیں تو ریشم بنا نہیں سکتے
مہاراشٹر پولیس اور سرکار دونوں اس وقت سادھوؤں کے قتل کو لے کر سوالوں کے گھیرے میں ہے۔بلیم گیم کا دور شروع ہوچکا ہے۔کچھ نیوز چینلزکے ذریعہ اور خاص کرسوشل میڈیا پر اسے فرقہ وارانہ تشدد کا رنگ دینے کی کوشش جاری ہے اورکوروناوائرس سے جوجھ رہے مہاراشٹر میں فرقہ پرستوں کی جانب سے متواتر ہندوتو کا کارڈ کھیل کر دوقوموں کے مابین نفرت پھیلانے کی بھی۔
دوشنبہ کو جاری اپنے بیان میں اودھ ٹھاکرے نے صاف کہا کہ پال گھر کی اس واردات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش نہیں جی جائے۔ یہ ایک ہی مذہب کے لوگوں کے بیچ غلط فہمی کی بنیاد پر پیش آنے والا سانحہ ہے۔فرقہ پرستوں نے پال گھر سانحہ کو تبلیغی جماعت کے مسلمانوں سے جوڑ کے ایک قوم کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ادھوٹھاکرے نے اس نازک گھڑی میںبڑی دانش مندی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن و امان قائم رکھنے کی کامیاب کوشش کی ۔یہی سبب ہے کہ اب اوھو ٹھاکرے کو بھی سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔سوشل میڈیا پر گوسوامی سماج کے ایک لیڈر گوسوامی انوراگ بھر گونشی کا ایک زہریلا ویڈیو وائرل ہوا ہے جس میں اس موب لنچنگ کو جماعتی مسلمانوں سے منسوب کرنے کے علاوہ وزیر اعلیٰ اودھ ٹھاکرے کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کیاگیا ہے۔اس ویڈیو میں وہ کہہ رہے ہیںکہ:
’’دو دن پہلے مہاراشٹر کے پال گھر میں گوسوامی سماج کے دوسنتوں کو مہاراشٹر پولیس کے سامنے پیٹ پیٹ کر ماردیا گیا۔مارنے والوں میں کچھ جماعتی بھی شامل تھے۔یہ کام مہاراشٹر کی ادھو ٹھاکرے سرکار کی ناک کے نیچے ہوا ۔ اگر آج وہاں بھاجپا یا دیویندرفڑنیوس بیٹھے ہوتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ جس طرح گوسوامی سماج کے سنتوں کو مارا گیا، اگر اس سے بری حالت میں نہیں کروا سکا تو گوسوامی انوراگ بھر گونشی راج نیتی چھوڑ دیگا۔ قسم کھاتا ہوں بابا مہا کال کی کہ ۴۸ ؍گھنٹے میں ایک ایک دوشی پر کاروائی نہیں ہوئی تو راج نیتی چھوڑ دونگا۔ابھی پانچ منٹ پہلے بھگت سنگھ کوشیاری گورنر مہاراشٹر کا فون آچکا ہے میرے پاس اور میں ان کو بتا چکا ہوں ، یہ کوئی عام آدمی نہیں مرا ہے یہ گوسوامی سماج اور سناتن سنسکرتی کے پوجنیے مارے گئے ہیں اور اس اوھو ٹھاکرے کا ہندوتو تو مر چکا ہے اور یہ بھی بھڑوا ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔مہاراشٹر سرکار کو سب کچھ معلوم ہے لیکن ادھو سیکولر ہوچکا ہے، وہ جماعتی ہوچکا ہے۔ادھو ٹھاکرے کو مہاراشٹر میں آکر اس کی اوقات بتا دونگا۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ ہے وہ نفرت کا زہر جو بنا کسی تحقیق اور جھونٹ کی بنیاد پر ہندوستان کی فضا میں گھولا جارہا ہے۔پال گھر کی اس واردات کو بھگوا ذہنیت کے لوگ فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ گوسوامی انوراگ بھر گونشی جیسے بھگوا برگیڈ کے لوگ یہ مطالبہ کررہے تھے کہ ماب لنچنگ کیس میں شامل مسلمانوں کو گرفتار کیا جائے۔سوشل میڈیا پر یہ عام کیا جانے لگا کہ ہجوم میں سے آواز آرہی ہے کہ ’’شعیب بس‘‘، ’’شعیب بس‘‘ ۔جبکہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گڑچنچلے نام کے اس گائوں کی کل آبادی 1208ہے جس میں سے 1198آدی واسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔پورے گائوں میں کوئی مسلمان نہیں رہتا۔
مہاراشٹرحکومت واضح کرچکی ہے کہ یہ کوئی فرقہ وارانہ واقعہ نہیں تھا تا ہم ریپبلک ٹی وی نے اپنی ایک ڈبیٹ میں اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔اس سانحہ سے متعلق ایک پروگرام میں چینل کے اڈیٹر ارنب گوسوامی نے صحافتی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لوگوں کے فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کی کوشش کی۔ اشوک گہلوت نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’لگتا ہے ارنب گوسوامی اپنا ذہنی توازن کھو چکے ہیں‘‘۔یہ بالکل سہی ہے کہ ارنب جیسے کسی بھی نیوز اینکر کا مقام ٹی وی کا اسٹوڈیو نہیں بلکہ پاگل خانہ ہے۔ارنب گوسوامی کی اس زہریلی ڈبیٹ کو جھٹکا اس وقت لگا جب مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیش مکھ نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ واردات کی رات ہجوم نے ’’شعیب بس‘‘ نہیں بلکہ ’’اوئے بس‘‘ کی آواز لگائی تھی نیز اس سلسلہ میں جن 101؍ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔انل دیش مکھ نے یہ بیان جاری کرکے بھگوا ذہنیت کے لوگوں کے منھ پر طمانچہ مارا ہے۔
ساری دنیا اس وقت کورونا وائرس کی زد میں ہے اور اس کے خلاف متحد ہوکر جنگ لڑی جارہی ہے لیکن ہمارے ملک میںمسلمانوں کے خلاف نفرت کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ تبلیغی جماعت کے نام پر میڈیا نے ایسا ہنگامہ برپا کیا کہ شہر شہر اور گلی گلی مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور اب انتہا پسند مسلمانوں کا وجود بھی ہندوستان میں برداشت کرنا نہیں چاہتے۔پال گھر کے سانحہ کے سلسلہ میں ریاستی حکومت اور انتظامیہ اپنا اپناکام کررہی تھیں اور ابھی رپورٹ آنا باقی تھی کہ میڈیا نے صورت حال کو کشیدہ کرسماج کے تمام طبقات میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنا دیا۔میڈیا مسلمانوں کو ملک میں غیر بنانے کی کوشش میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے لیکن یاد رہے نفرت کی یہ آگ اگر زیادہ پھیل گئی تو اس کی زد میں صرف مسلمان نہیں آئیں گے ، خود آگ لگانے والوں کے ہاتھ بھی اس کی چپیٹ میں آکر رہیں گے اور یہ حالات آہستہ آہستہ پورے ملک کو تبادہ و برباد کردیں گے۔لہٰذا کچھ بھی نشر کرنے سے قبل میڈیا کو اپنی ذمہ داری سمجھنا چاہئے ۔ بقول گلزار ؎
لفظوں کے بھی جائقے ہوتے ہیں
پروسنے سے پہلے،چکھ بھی لینا چاہئے
٭٭٭
رابطہ:9794593055