آج 2019 ء کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا آخری دن ہے، جس کو جتنا بولنا تھا دل کھول کر بول لیا، جتنی نفرت پھیلانی تھی دل کھول کر پھیلا لی، جتنے پرانے گڑے مردے اُکھاڑنے تھے اُکھاڑ لئے۔ 1984 ء کے بعد سے جب بھی الیکشن ہوا ہے سبھی پارٹیاں دہلی میں ہوئے شرمناک سکھ حادثے کو ہمیشہ بھنانے کی کوشش کرتی رہی ہیں اور اس بار بھی جتنا کرسکتے تھے کیا حالانکہ ان پارٹیوں نے ان سکھ گھرانوں کے زخموں پر کبھی کوئی مرہم تو نہیں رکھا بس ووٹ کیلئے استعمال کیا جبکہ اس حادثے کی تلافی کانگریس نے ہر طریقے سے کرنے کی کوشش کی۔ ان فسادات سے متاثر لوگوں کو جتنا معاوضہ دیا گیا شاید ہی کسی کو ملا ہو، اس حادثے پر جتنی بار شرمندگی کا اظہار کیا گیا، شاید ہی کبھی ایسے حادثے پر کیا گیا ہو، ملزمین کو سزا بھی ہوئی، اتفاقاً ہی سہی لیکن ایک اقلیت میں اقلیتی فرقہ کے نمائندے کو ڈاکٹر منموہن سنگھ کی شکل میں وزیراعظم بننے کا موقع بھی ملا لیکن پورے الیکشن میں نہ تو کسی پارٹی نے 2002 ء کے گجرات فسادات کا ذکر کیا نہ 1992 ء میں بابری مسجد شہید ہونے کے بعد ممبئی میں مارے گئے سیکڑوں بے قصوروں کا نام لینے کی کوئی ہمت کرسکا، نہ بھاگل پور کسی کو یاد رہا نہ میرٹھ نہ مراد آباداور نہ مظفرنگر، آخر کیوں؟ کیونکہ یہاں مارے جانے والے سب کے سب مسلمان تھے؟ 1984 ء میں جو ہوا، وہ شرمناک تھا، سماج کیلئے بھی اور ملک کے لئے بھی اور حکومت کے لئے تو بہت ہی شرمناک، تو 2002 ء کے گجرات فساد کیسے کسی کیلئے زینت کا سبب ہوسکتے ہیں لیکن 2 فیصد سے کم سکھ فرقہ کے خلاف ہوئے مظالم کو تو لوگ آج 35 سال بعد بھی یاد رکھے ہوئے ہیں لیکن 18 فیصد مسلمانوں کا نام لینے کیلئے کوئی بھی پارٹی تیار نہیں جبکہ اس کا وجود ہی مسلمانوں کے ووٹ سے ہی ہے۔ کہیں کسی جگہ کسی بھی پارٹی کی طرف سے کوئی بھی آواز تو آئی ہوتی کہ 1984 ء کی طرح میرٹھ، مراد آباد، بھاگل پور، ممبئی، گجرات اور مظفرنگر میں جو ہوا وہ بھی شرمناک تھا کسی پارٹی نے ان کے گھر والوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا، تو ہم کریں گے ان کے ساتھ انصاف، ہم دیں گے ان کا حق، ہم رکھیں گے ان کے گھر والوں کے زخموں پر مرہم، لیکن سب خاموش جیسے سب کے لب ہی سل گئے کیونکہ شاید ان کی نظروں میں مسلمانوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ شاید خود مسلمان کی نظر میں بھی مسلمان کی جان کی کوئی قیمت نہیں۔
٭٭٭